جڑے گا بھارت جیتے گا انڈیا ؟
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بہار میں نتیش کمار نے جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاسی طورپر کمزور کردیا ہے۔ 2024 کے لوک سبھا کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ پچھلے دنوں آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر نے اپنے اداریئے میں لکھا تھا کہ ہندو۔ مسلم خلیج اور مودی کا چہرہ اب بی جے پی کو کامیاب نہیں کرسکتا۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی
کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے کہ
عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
اور یہ تاثر سنگھ پریوار پر پوری طرح اترتا ہے اس کی جانب سے بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کو روکنے کی بے حد کوششوں اور مسئلے کو عدالت تک گھسیٹنے کے باوجود نتیش حکومت نے ہار نہیں مانی اور بہار کی سرکار کی جانب سے کیا گیا مردم شماری کا مکمل ڈاٹا جاری کردیا گیا جس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ موہن بھاگوت ‘ مودی اور یوگی چاروں خانے چت ہوگئے ہیں۔
مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق اس وقت بہار کی آبادی 13کروڑ سے متجاوز ہوگئی ہے جس میں ہندو طبقے کی آبادی لگ بھگ 82 فیصد ہے جبکہ مسلم آبادی تقریباً 18 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ سروے کے مطابق بہار کی مجموعی آبادی 10.07 کروڑ ہندوؤں پر مشتمل ہے جبکہ مسلم آبادی دو کروڑ 31 لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔ اگر ذات پر مبنی مردم شماری کی بات کی جائے تو انتہائی پسماندہ ؍ دیگر پسماندہ طبقہ ( ای بی سی ؍ او بی سی) طبقے کے آبادی 36 فیصد ، پسماندہ طبقہ کی آبادی 27 فیصد ہے اس طرح دیکھا جائے تو ریاست کی نصف سے زیادہ آبادی یا تو پسماندہ یا پھر انتہائی پسماندہ طبقات پر مشتمل ہے۔ ان ریزروڈ آبادی 15.5 فیصد ، راجپوت تین فیصد کے آس پاس ہے۔ نئی مردم شماری کے مطابق بہار میں درج فہرست ذاتوں کی آبادی 19فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ با اثر یادووں کی تعداد 14 فیصد ہے۔
برہمنوں کی آبادی 3.3 فیصد اور کرمی طبقے کی آبادی 2.87 فیصد ہے۔ گاندھی جینتی کے موقع پر جاری کئے گئے ان اعداد و شمار کا بی جے پی کے سوا لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتوں نے خیرمقدم کیا ہے۔ سنگھ پریوار بے حد پریشان ہے۔ مودی نے تو یہ کہہ کر حد ہی کردی کہ ذات پات کی یہ مردم شماری ہندوؤں کو تقسیم کرنے کی ساز ش ہے۔ ان کے اس بیان پر ہنسی اس لئے آتی ہے کیونکہ بھاجپا کی ساری سیاست ہی ذات پات کے تفرقے اور فرقہ پرستی پر مبنی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بہار کے بی جے پی کے قائدین نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ جے ڈی یو کے ساتھ ان کی ملی جلی سرکار نے ہی مردم شماری کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یعنی وہ بالراست یہ کہہ رہے تھے کہ مردم شماری کروانے کا فیصلہ انہی کا کارنامہ ہے۔ وزیراعظم مودی کے خلاف پارلیمنٹ میں پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک پر تقریر کرتے ہوئے راہول گاندھی نے حکومت سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کئے جانے کا مطالبہ کیا اور یہ دھمکی دی تھی کہ اگر سرکار ایسا نہیں کرتی ہے تو وہ یو پی اے کی جانب سے کئے گئے سروے کے رپورٹ کو عام کردیں گے۔
ادھر پٹنہ میں لالو پرساد یادو نے اعلان کیا کہ 2024 میں انڈیا الائنس کے اقتدار میں آنے کے بعد پورے ملک میں اس طرح کا سروے کیا جائے گا اور پسماندہ طبقات کو زبردست ترقی کے مواقع باہم پہنچائے جائیں گے۔ ان کا یہ تاثر تھا کہ ریاست کے وسائل میں لوگوں کو ان کی طاقت کے مطابق نمائندگی حاصل ہوگی۔ بہر حال بہار میں کئے گئے اس سروے سے ملک کی سیاست میں ایک نیا انقلاب بپا ہوگا جو لوگ اس کی مخالفت کریں گے وہ شکست فاش کا سامنا کریں گے۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی نہیں چاہتی کہ ذات پر مبنی آبادی کا سروے کیا جائے کیونکہ یہ اس کے ہندو توا کے نظریہ کے خلاف جاتی ہے۔ حالانکہ ہندو توا کا نظریہ خود ایک سیاسی چال ہے۔ اس سروے کے منظر عام پر آنے کے بعد بے حد پسماندہ طبقات میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ آبادی کے اعتبار سے اقتدار میں حصہ داری ان کا دیرینہ خواب تھا جو اب شرمندۂ تعبیر ہورہا ہے۔
سارے ملک میں ان طبقات کی جانب سے یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ اس طرح کی مردم شماری قومی سطح پر کی جائے تاکہ غریب عوام کی خوشحالی کا کام کیا جاسکے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بہار میں نتیش کمار نے جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاسی طورپر کمزور کردیا ہے۔ 2024 کے لوک سبھا کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ پچھلے دنوں آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر نے اپنے اداریئے میں لکھا تھا کہ ہندو۔ مسلم خلیج اور مودی کا چہرہ اب بی جے پی کو کامیاب نہیں کرسکتا۔
کانگریس نے دعوی کیا کہ بہار میں ذات پات کی مردم شماری کے اعداد و شمار منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم مودی کی راتوں کی نیند اُڑگئی ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ ان چونکا دینے والے اعداد و شمار کے سامنے آنے کے بعد پورے ملک میں ذات پات کی مردم شماری کروانے کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے۔ یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ کانگریس نے اس نکتہ کو اپنی پالیسی میں شامل کرلیا ہے۔ راہول گاندھی ذات پات کی مردم شماری کی زبردست وکالت کررہے ہیں اور ان طبقات میں ایک خاص مقام بنا رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ موضوع 2024 کا سب سے بڑا نکتہ ہوگا اور اسی پر چناؤ لڑا جائے گا۔ سیاسی ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ بی جے پی کی نیاڈوبنے کے در پہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے نوٹ بندی اور ناقص جی ایس ٹی لاکر جو قومی گناہ کئے ہیں اسے اس کی سزا مل کر ہی رہے گی۔
اقلیتوں اور کمزور طبقات پر ڈھائے گئے ظلم بھی ساری دنیا کی نظروں میں آگئے ہیں۔ بھیانک غربت اور بیروزگاری کو بھی سارا عالم دیکھ رہا ہے۔ بی جے پی نے پارلیمنٹ کا خصوصی سیشن طلب کرکے خواتین کو 33 فیصد نمائندگی دینے کاجو قانون پاس کروایا ہے وہ بھی حکمران جماعت کے حق میں کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑے گا کیونکہ اس قانون پر عمل آوری کے لئے 10 سال لگ جائیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مردم شماری بھارت کو جوڑے گی اور یقینا انڈیا جیتے گا۔