سلیمان شاہین
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو!
عزیز شہریان۔ میرے نام لیوا۔ میرے بہی خواہ۔ میں آپ کا اورنگ آباد بول رہا ہوں۔
امید ہے کہ میرا نام آپ کے ذہنوں میں پیوست ہوگا۔ میرا نام آپ بھولے نہیں ہوں گے۔ آپ میں سے کئی خیر خواہ ہیں جنھیں میرا نام جان سے زیادہ عزیز ہے۔ویسے مجھے اب تک کئی ناموں سے پکارا گیا کبھی کھڑکی، کبھی فتح نگر، کبھی شہر خجستہ بنیاد اور کبھی اورنگ آباد۔ تین صدیوں سے مجھے اورنگ آباد کہا جاتا ہے۔۔ مجھ کو تمہارے اسلاف نے تمہیں اک گلستان بنا کر سونپا تھا، میں وہ شہر ہوں جس کے معماروں کے چرچے دنیا جہاں میں ہے، یہاں کے لوگوں نے مجھ کو اپنے کارناموں کے ذریعہ دنیا بھر میں مشہور کیا، مجھ کو گلستاں بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور آج ان تمام معماروں کی روحیں تم سے مطالبہ کر رہی ہیں، تمھیں آواز دے رہی ہیں کہ اٹھو جس باغ کو ہم نے سجایا تھا اس کی حفاظت کرلو، اس کو بچا لو، میرے چمن کی ہر ٹہنی تمہاری منتظر ہے کہ محافظین اٹھیں گے اور پھر سے اپنے اسلاف کی تاریخ مرتب کریں گے۔آج آپ کی آنکھوں کے سامنے ارباب اقتدار میرے نام کو مٹانے کی کوشش میں ہے، کیا آپ خوشی خوشی اسے قبول کر رہے ہیں؟۔ یاد رکھیئے، نام کا مٹنا ، نشان مٹنے کا آغاز ہوتا ہے اور جب نام و نشان مٹ جاتا ہے تو وجود ختم ہوجاتا ہے۔کیا آپ مصلحت اوریکجہتی کی چادر اوڑھ کر میرے مٹنے کا جشن مناو¿ گے؟
میں آپ کو میرے چند معماروں کے نام اور ان کی مختصر داستان سناتا ہوں کہ کیسے خون وجگر سے انھوں نے مجھ کو سینچا تھا تاکہ آپ کو سمجھ آئے کہ میرے نام کی بقاءکتنی ضروری ہے، اور یہ بھی کہ میرے نام کے ساتھ آپ کی شناخت آپ کی پہچان آپ کی تہذیب و ثقافت، آپ کے بزرگوں کی قربانیاں جڑی ہیں۔
میرے معمار ملک عنبر نے مجھ کو نہ صرف بسایا بلکہ اپنے فنِ تعمیری کا مظاہرہ کرکے کئی ساری عمارتیں، محلات، دروازے اور خصوصاً نہر عنبری جس کے چرچے ملک و بیرون ملک ہے بنوا کر سارے شہر میں پانی کا انتظام کروایا، کئی ساری مساجد کی تعمیر خصوصاً جامع مسجد کی اولین تعمیر، کالی مسجدوں کی تعمیر، نوکھنڈہ محل، بھڑکل دروازہ، چیتا خانہ وغیرہ اس کے علاوہ جالنہ میں موتی تالاب اور جالنہ کی جامع مسجد ملک عنبر نے بنوائی، اس کے علاوہ مجھ خجستہ بنیاد کو تجارتی مرکز بنایا۔ فتح خان ابن ملک عنبر، نے اپنے باپ کی وراثت کو مزید مستحکم کیا۔
اورنگ زیب عالمگیر نے مجھ کو اپنے نام سے منسوب کیا اور میرے حسن کو بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، نہروں کو مزید وسیع کیا، فصیلوں اور دروازوں سے مجھ کو محفوظ کیا اور کئی محلات تعمیر کیے، مسجدوں سے مجھ کو زینت بخشی، ندی تالابوں کومستحکم کیا، قلعہ جات تعمیر کروائے، بازار بنوا کر تجارتی سطح پر پروان چڑھایا، غرض کہ شہری ضروریات کا تمام سامان یکجا کرکے مجھ کو ایسی بلندی بخشی کہ صدیوں سے میرے چرچے دنیا بھر میں ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے (انشاءاللہ)۔ یہ خوبصورت بی بی کا مقبرہ ہے نا! تم کیا سمجھتے ہو؟محض اک عمارت اور تصویر کشی کا مرکز ہے، کبھی سوچا اس مٹی میں کون سی شخصیت محوِ استراحت ہے؟ شہزادہ اعظم نے اپنی ماں دلرَس بانو جن کا لقب رابعہ درّانی تھا کی یاد میں بی بی کا مقبرہ بنوایا۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق کے مطابق مقبرہ میرا یعنی اورنگ آباد کا سہاگ اور دکن کا تاج ہے، شہزادہ اعظم مقبرہ کو تاج محل کے مقابلہ کا بنوانا چاہتا تھا لیکن ناموافق حالات کی سبب بنا نہیں پایا، اس کے باوجود یہ پرشکوہ عمارت آج بھی سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ میری بیٹی زیب النساءکی داستان بھی سن لو زیب النساءعالمگیر کی سب سے بڑی صاحبزادی تھی۔ 15 فروری 1638 میں دولت آباد میں پیدا ہوئی، خدادادصلاحیت، ادبی ذوق کی مالکہ تھی بہترین شاعرہ تھی ”مخفی“ تخلص سے لکھتی تھی، کم سنی میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا، زیب النساءکا ایک عظیم الشان کتب خانہ تھا، جس میں کئی علماء و ادباء تنخواہوں پر مقرر تھے تاکہ عمدہ کتابیں، تصانیف اور قدیم قلمی نسخوں کی نقل کریں۔ بعد ازاں یہ کتب خانہ دلی منتقل ہوگیا۔ نظام الملک آصف جاہ اول میر قمر الدین جن کا یہ نام خود اورنگ زیب نے رکھا تھا انہوں نے عالمگیر کی زیر نگرانی تربیت پائی تھی نظام الملک نے مغلیہ سلطنت کے بہت بڑے حصے کو مرہٹوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ کر دیا تھا اور ایک ایسے وقت میں جبکہ پورے بر صغیر میں انتشار پھیلا ہوا تھا، انہوں نے دکن میں امن و امان کی فضا قائم کی۔ برصغیر کی اسلامی تاریخ میں اورنگ زیب کے بعد ہم جن تین حکمرانوں کو عظیم کہہ سکتے ہیں ان میں ایک نظام الملک ہیں اور باقی دو حیدر علی اور ٹیپو سلطان۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی جو خود مختار ریاستیں بر صغیر میں قائم ہوئیں، ان میں سب سے بڑی اور طاقتور ریاست حیدر آباد دکن کی مملکت آصفیہ تھی۔ اس مملکت کے بانی نظام الملک آصف جاہ تھے، چنانچہ اسی نسبت سے اس ریاست کو مملکت آصفیہ یا آصف جاہی مملکت کہا جاتا ہے۔ اس کا پایہ تخت ‘ میں ہی تھا، آصف جاہ اول نے مجھ کو مزید وسیع کیا، میری پرانی عمارتوں کو تحفظ فراہم کیا، بعد ازاں برہان پور میں انتقال ہوا اور تدفین خلد آباد میں ہوئی۔ کیا تم بھول گئے بابا شاہ محمود کی محنتوں کو؟بابا شاہ محمود، محمد عاشور المعروف ”بابا شاہ مسافرؒ“ کے خلیفہ تھے۔ بابا شاہ محمود میں انتظامی صلاحیت کےساتھ ساتھ تعمیرکاری کابھی نہایت اچھا ذوق پایا جاتا تھا، خانقاہ کی موجودہ عمارتیں سب کی سب آپ ہی کے عہد اور آپ ہی کی نگرانی میں تعمیر ہوئیں۔ پن چکی کا باب الداخلہ جو آپ کے نام پرمحمود دروازہ کہلاتا ہے، ندی پر بنا ہوا پختہ پل، باہر کا بڑاحوض اور سب سے بڑھ کر پن چکی کی جان یعنی نہر آپ ہی نے بنوائی۔ پن چکی کاحسن اور دلکشی تمام تر بابا شاہ محمود ہی کی فنِ تعمیری کا کمال ہے۔ پن چکی کے اندرونی حوض کی خصوصیات یہ ہے کہ اس کے نیچے بڑا ہال بنا ہوا ہے یہ حوض ایک سو بیس فٹ لمبا بارہ فٹ چوڑا ساڑھے چار فٹ گہرا ہے، پانی کے اتنے وزن کے باوجود ایک قطرہ پانی نیچے ہال میں نہیں ٹپکتا، نیچے فقراء و مسافرین کا قیام رہتا تھا، گرمیوں میں یہ ہال ٹھنڈک پہنچاتا یہ سارے ہندوستان میں منفرد قسم کا شاید واحد حوض ہے۔(باقی تفاصیل دیکھنے کے لیے پڑھیے کتاب ”پن چکی“)
مشائخین میں ناموں کی ایک کثیر تعداد میرے یہاں موجود ہے۔ جن میں حضرت منتجب الدین زرزری زر بخش دولہاؒ۔ حضرت برہان الدین اولیائؒ۔ شیخ زین الدین چشتی شیرازیؒ، شیخ عبداللہ عیدروسؒ۔ حضرت شاہ نورحمویؒ۔ حضرت نظام الدین اولیائؒ، وغیرہ ان تمام مشائخ نے میری مٹی کو اپنا مدفن بنایا۔ کیا تم بھول گئے کہ ان علمائے کرام کو جنھوں نے اپنے علوم کے سرچشمے میری مٹی سے بہائے اور علمی دنیا میں بھی میرا تعارف کرایا کہ علی میاں ندویؒ کو کہنا پڑا میں ہندوستان کا غرناطہ ہوں۔
آو¿! میں چند نام سناتا ہوں۔ "مولانا میر غلام علی آزاد بلگرامی” جو فن شاعری اور تاریخ میں یدِطولی رکھتے تھے، بابائے اردو ”مولوی عبد الحق“، تحریک اسلامی کے اولین قائد جو عظیم مفکر و رہنما تھے جن کی تحریک نے ساری دنیا کو متحرک کر رکھا ہے۔ ”مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کا تعلق مجھ سے ہی تھا۔ تبلیغی جماعت کے مقامی امیر اور جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کے بانی ”سعید خان صاحب“، ”مولانا ریاض الدین فاروقی“ جو کہ جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کے ناظم تھے، آپ نے 51 سال کے طویل عرصے تک مدرسے کی نظامت کی اور اس کو علوم کا سرچشمہ بنایا، دارالعلوم (نگینہ مسجد) کے ناظم ”مولانا عبدالغفور ندوی”، "مولانا مجیب الدین قاسمی”، قاری نثار احمد کلیمی صاحب جنہوں نے عوام الناس کو قرآن مجید تجوید سے پڑھنے کی ایک تحریک چلائی۔ ”عبدالوحید خان کاکا“ جنھوں نے امارات شرعیہ کو نہ صرف میری سرزمین میں بلکہ سارے مراہٹواڑہ میں مستحکم کیا، آج اس موڑ پر میں ان کو بھی یاد کررہا ہوں۔
شعراء اور ادباء اور مشہور شخصیات میں ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، صفی اورنگ آبادی، سکندر علی وجد، بشر نواز، قمر اقبال اور ان کے علاوہ ڈاکٹر رفیق زکریا جدید اورنگ آباد کے معمار کہے جاتے ہیں، اعلیٰ تعلیم اور صنعتی ترقیات سے مجھ کو نوازا۔ قاضی سلیم اور امان اللہ موتی والا نے نوجوانوں میں سیاسی سمجھ بوجھ پیدا کی۔ عبدالعظیم، پروفیسر تلاوت علی، شبیرحسین جوش اور اشفاق احمد نے عصری تعلیمی اداروں کا جال بچھایا۔مرحوم مظہر محی الدین صاحب نے مسلم نمائندہ کونسل کے ذریعے شہر کی مختلف جماعتوں، تنظیموں اور گروپوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ اردو صحافت کو نمایاں مقام عطا کرنے میں ”عبدالعزیز خسرو“ (بانی اورنگ آباد ٹائمز) اثر فاروقی، قاضی مشیر اور ظہیر الدین صدیقی نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ یہ وہ تمام حضرات ہیں جنھوں نے مجھ کو ایک گلستان بنا کر آپ کے سامنے پیش کیا۔ اب آپ کا فرض ہے کہ میری حفاظت کریں، میری اصل شناخت کو باقی رکھنے چاہے جو کوششیں ہوں کریں، ان معماروں نے اپنے دور میں قربانیاں دیں اور مجھ کو باغ بنایا، آج آپ کا دور ہے، آپ میرے نام کو بھی نہیں بچا سکیں تو یاد رکھیں میں اور میری تاریخ ہی نہیں بلکہ آپ کی نسلیں بھی آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔
سچ سچ بتانا! کیا مرا نام بدلنے پر تمہارے دلوں کو تسکین ملے گی؟ کیا تمہارے کلیجوں کو ٹھنڈک پہنچے گی؟ کیا تمہارا ضمیر تمہیں ملامت نہیں کرے گا؟
کتنا اچھے لگے گا تمہیں کہ تم جن کوچوں سے گزرتے ہو وہاں میرے نام کی تختی پر دوسرا کوئی دیکھوگے! جب بزرگانِ دین کے آستانے تمہیں سوالیہ نظروں سے دیکھیں گے، جب مخالفین اپنی کامیابی کا جشن خود تمہارے علاقوں میں منارہے ہوں گے، رقص و سرور کی محفلیں سجیں گی، اگر نہیں تو۔ آئیے! محبت کا زبانی دکھاوا کرنے کی بجائے ارباب اقتدار کی اس مذموم کوشش کی پرزور مخالفت کے لیے آگے آئیں۔ اس احتجاج کا حصہ بنیں تاکہ آنے والی نسلیں روحوں پر ملامت نہیں بلکہ ناز کریں۔ اسی احتجاج کی اک کڑی کے طور پر اورنگ آباد ڈیویڑنل کمشنر آفس میں آبجیکشن فارم بھرنا جاری ہے ہر ایک فرد جو مجھ میں بستا ہو، نوجوان، بزرگ اور خواتین سب وہاں جائیں اور اپنی مخالفت درج کرائیں، اپنا فارم بھریں، اور سنو!
فقط۔ مغموم و رنجور
آپ کا اپنا خجستہ بنیاد اورنگ آباد۔
نوٹ 1 : مذکورہ بالا شخصیات پر اگر لکھا جائے تو ہر ایک پرمکمل کتاب لکھی جاسکتی ہے، مزید طوالت کے خوف سے مختصراً جملے لکھیں ہیں۔
نوٹ2 : ان کے علاوہ بھی کئی سارے لوگ ہیں جن کے نام لیے جائیں تو اک کتاب بن جائیں گی۔ جن اسلاف کے نام رہ گئے ہیں یا جن کے تعارف میں کمی بیشی رہ گئی ہو احباب مضمون نگار کی کمزوری سمجھ کر در گزر کرلیں۔
٭٭٭