منور مرزا
سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدے کو دنیا بھر میں حیران کن کہا گیا، تاہم ایک آدھ ملک کے علاوہ تمام ممالک نے اس کا خیر مقدم کیا۔ یہ معاہدہ، چین کی ثالثی میں، بیجنگ میں طے پایا اور بتایا جاتا ہے کہ صدر شی جن پنگ نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اِس معاہدے کے تحت دونوں ممالک دو ماہ میں سفارتی تعلقات بحال کر لیں گے۔ یاد رہے، سات سال قبل ایران میں سعودی سفارت خانے پر ایک ہجوم کی جانب سے قبضے اور توڑپھوڑ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہوگئے تھے۔ یقینا ً یہ معاہدہ اُن افراد یا ممالک کے لیے حیران کن ہے، جو گزشتہ ایک سال سے اس ضمن میں ہونے والی علاقائی اور عالمی پیش رفت پر نظر نہیں رکھ سکے تھے، حالاں کہ عراق ان دو ممالک کے درمیان مفاہمت کی کوششیں کرتا رہا۔
وزیراعظم، مصطفی کاظمی کی کوششوں سے عراق میں مذاکرات کے متعدد دور ہوئے، تاہم ان کا فیصلہ کن اختتام بیجنگ میں ہوا۔ اطلاعات کے مطابق، اسرائیل وہ واحد ملک ہے، جسے اس معاہدے پرسخت تحفظات ہیں۔ مسلم دنیا کے لیے عمومی، جب کہ خطے کے مسلم ممالک کے لیے یہ پیش رفت خصوصی طور پر خوش آیند ہے کہ اس سے ایک طرف مسلم امہ کی یکجہتی کا پیغام جائے گا، تو دوسری طرف، انہیں اب دونوں ممالک سے تعلقات میں آسانی ہوگی، کیوں کہ پہلے کسی سے تعلقات میں دوسرے کی ناراضگی کا ڈر رہتا تھا۔
سعودی، ایران معاہدے کے چار پہلو ہیں ہیں۔ ایک تو اس کے عالمی اثرات ہیں، جو بڑی طاقتوں اور علاقائی ممالک پر مرتب ہوں گے۔ چین کے اہم سفارت کار، سابق وزیر خارجہ، وانگ پی اور سعودی عرب اور ایران کے نمائندوں نے بیجنگ میں اِس معاہدے پر دستخط کیے، جو چین کی ایک بڑی کام یابی ہے۔ سعودی عرب اسے تیل سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، پھر اس کی تیار کردہ مصنوعات سے عرب ممالک کی مارکیٹس بھری پڑی ہیں۔ صدر شی جن پنگ نے چار سال قبل کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس سے خطاب میں مستقبل کی پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے دنیا کو پیغام دیا تھا کہ چین اب ترقی اور طاقت کے اس مقام پر آچکا ہے کہ عالمی اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرے۔
چین نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح کی خواہش کا اظہار یا مطالبہ کیا تھا، وگرنہ اس سے قبل وہ شہنشاہی دور میں عظیم ایمپائر کی حیثیت سے خود کو علاقائی طاقت تک محدود رکھنے پرمطمئن رہا، لیکن غالباً گزشتہ چالیس سال میں جس رفتار اور وسعت سے اس نے اقتصادی میدان میں فتوحات حاصل کیں، اپنی مصنوعات کو عالمی سطح پر منوایا، اس نے چین کو اس طاقت سے ہم کنار کردیا کہ وہ سْپر پاور کا کردار ادا کرنے کی طرف بڑھے۔ سعودی عرب، ایران معاہدہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ امریکہ کا اس معاہدے پر ردعمل خالصتاًسفارتی نوعیت کارہا۔ اس نے محتاط انداز میں اسے خوش آمدید کہا، تاہم سعودی کردار پر غور کی بات بھی کی۔ امریکہ نہ صرف سعودی عرب بلکہ اس کے زیرِ قیادت خلیجی اور دیگر عرب ممالک کو حفاظتی چھتری فراہم کرتا ہے۔
دو سال پہلے جب حوثی باغیوں نے سعودی تیل کمپنی، آرامکو پر میزائل حملے کیے، تو امریکہ نے اسے دفاعی مدد فراہم کی۔ یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ تین سال قبل امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان آکوس معاہدہ ہوا، جس کے تحت آسٹریلیا کو پہلی ایٹمی آب دوز فراہم کی گئی، جس سے وہ دنیا کا ساتواں ملک بن گیا، جس کے پاس یہ سہولت ہے۔ یادرہے، ہندوستان چھٹا ملک ہے۔ اس کا مقصد پیسیفک اور مشرقی ایشیا میں چین کو محدود کرنا ہے۔ اس معاہدے کا دوسراپہلو یہ ہے کہ ہمیں دیکھنا ہوگا، ایران کہاں کھڑا ہے اور سعودی عرب کی کیا پوزیشن ہے؟ ایران گزشتہ پندرہ سال سے بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ ایرانی ریال گراوٹ کے انتہائی نچلے درجے پر ہے۔
وہ دنیا سے کٹا ہوا ہے، جس کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ عالمی اقتصادی پابندیاں ہیں، جو اس پر ایٹمی پروگرام کی وجہ سے عاید ہوئیں۔ ایران پر الزام ہے کہ وہ ایٹم بم بنا رہا ہے، جب کہ وہ اسے مسترد کرتا ہے کہ اس کا پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ گزشتہ چار، پانچ صدارتی انتخابات میں، جو اس کی محدود جمہوریت کا سب سے اہم حصّہ ہیں، یہی معاشی معاملات فیصلہ کن رہے۔ صدر روحانی جیسا معتدل سیاست دان اور مغربی ممالک کا تعلیم یافتہ فرد ایران کا نہ صرف مسلسل دو مرتبہ صدر رہا، بلکہ ان ہی کے دَورِ حکومت میں نیوکلیئر ڈیل کے لیے مذاکرات ہوئے، جن کی کام یابی کے بعد ایران کو چالیس بلین ڈالرز ملے، جو امریکی بینکس میں منجمد تھے۔
نیز، اْسے دنیا میں اپنا کردا دوبارہ ادا کرنے کی اْمید پیداہوئی، لیکن صدر ٹرمپ نے اْس کی یہ اْمیدیں خاک میں ملا دیں اور نیوکلیئر معاہدے کو انتہائی ناقص قرار دے کر امریکہ کو اِس سے الگ کرلیا، جب کہ سخت معاشی پابندیاں بھی عاید کر دیں۔ جسے سعودی، ایران کنفلیکٹ کا نام دیا جاتا ہے، اس میں ایران کی اِس نیوکلیئر ڈیل پر عرب، خاص طور پر سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے تحفظات ہی کی وجہ سے اضافہ ہوا۔ عرب ممالک کا کہنا تھا کہ ڈیل کرتے وقت انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اس سے ایران کو خطے میں برتری حاصل ہو جائے گی۔
اسی لیے عرب ممالک نے شام، عراق، لبنان اور یمن میں ایران کی شدید مخالفت کی، جو فوجی تصادم کی شکل بھی اختیار کرتی رہی۔ ایرانی پاس دارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل سلیمانی، جو ایرانی سپریم لیڈر کے بعد سب سے طاقت وَر شخص ہونے کے ساتھ، ایران کی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں جارحانہ خارجہ پالیسی کے معمار تھے، اِس معاملے میں خاصے فعال رہے۔ ایران کی حمایت یافتہ مسلّح تنظیموں کو اس پالیسی کے تحت فوجی، مالی اور انسانی مدد ملی اور وہ مشرقِ وسطیٰ میں کارروائیاں کرتی رہیں۔ وہ فلسطین میں حماس کے ساتھ تھے، اسی لیے اسرائیل اور ایران کے درمیان محاذ آرائی رہی۔ کہا جاتا ہے کہ ایران کی یہ پالیسی مشرقِ وسطیٰ میں اپنے انقلاب کو مستحکم کرنے کے لیے تھی۔
ظاہر ہے، یہ عرب ممالک کے لیے ناقابل قبول تھی، اسی لیے دونوں میں برتری کی جنگ جاری رہی، جس سے مسلم امہ کے اتحاد کو، جو پہلے ہی انتہائی کم زور تھا، بہت نقصان پہنچا۔ جنرل سلیمانی کی ہلاکت امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہوئی، جب وہ عراقی ملیشیا کے سربراہ سے ملنے آئے تھے اور اپنی کار سے اتر رہے تھے۔ ایران میں اس پر شدید رنج وغم دیکھا گیا اور قومی سطح پر سوگ منایا گیا۔
تاہم، اس کے ساتھ ہی ایران کی جارحانہ خارجہ پالیسی سلیمانی کے بعد کم زور پڑنی شرع ہوئی اور ایک طرح سے وہ پیچھے ہٹنے لگا۔ اْدھر گزشتہ کئی ماہ سے ایران کے اندرونی استحکام کو احتجاجی تحریکوں نے کم زور کر رکھا ہے، ان احتجاجی ریلیوں میں طلبا و طالبات اور عام ایرانیوں نے حصہ لیا۔ احتجاج کے نتیجے میں حکومت کو کئی سخت مذہبی اور معاشرتی قوانین میں نرمی کرنی پڑی۔ یاد رہے، ایران کے موجودہ صدر ایک مذہبی لیڈر مانے جاتے ہیں، جو امریکہ اور نیوکلیئر ڈیل کے سخت ناقد رہے ہیں۔
دوسری طرف، سعودی عرب اِس وقت انتہائی مضبوط اقتصادی مقام پر فائز ہے۔ اس کی تیل کمپنی، آرامکو نے اس سال161 بلین ڈالرز کا منافع کمایا، جو امریکی کمپنی، ایپل کے بعد کسی بھی کمپنی کا سب سے زیادہ منافع ہے۔ ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان کی حکمرانی بہت مستحکم ہوئی ہے، ان کے ویژن کو نوجوانوں اور خواتین میں پزیرائی ملی ہے۔ انہوں نے ایک طرف معاشرے کو کھولنے کے اقدامات کیے، تو دوسری طرف معیشت کا تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے تعلیم، ٹیکنالوجی اور دیگر بڑے منصوبوں پر کام کیا، جو کام یاب بھی نظر آتا ہے۔
امریکہ کے صدر، جو بائیڈن سعودی عرب کو منانے کے لیے خود چل کر وہاں گئے تاکہ تیل کی قیمتوں کو یوکرین جنگ کے دباؤ سے آزاد رکھا جائے۔ ایک طرح سے انہوں نے شہزادہ محمد بن سلمان سے متعلق اپنے رویہ پر معذرت کی۔ دوسری طرف، ترکی بھی، جو ایک اہم مسلم ملک ہے اور جو سعودی ولی عہد پر صحافی کے قتل کے ضمن میں الزامات لگاتا رہا، یوٹرن لے چکا ہے۔ صدر اردغان سعودی عرب جاکر شہزادے سے ملاقات کرچکے ہیں، جب کہ سعودی عرب نے حال ہی میں اردغان حکومت کو سہارا دینے کے لیے پانچ ارب ڈالرز کا قرضہ دیا ہے۔
یاد رہے، ترکی میں مئی میں صدارتی انتخابات ہیں، جن میں صدر اردغان کو مخالف سیاسی جماعتوں سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ بلاشبہ، سعودی عرب نے لچک دکھاکر ایران سے معاہدہ کیا کہ اس کی پوزیشن آج بہت مضبوط ہے۔ ایک طرف وہ امریکہ سے اپنی اہمیت منوانے میں کام یاب ہے، تو دوسری طرف ایران کو امن کی طرف لے آیا۔
عرب، اسرائیل تعلقات نے مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں، پوری دنیا میں نئی صف بندی کی شروعات کیں اور اگر دیکھا جائے، تو یہ معاہدہ بھی اسی کا حصہ ہے۔ دس کے قریب عرب اور افریقی ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہیں یا کرنے والے ہیں۔ اِن تعلقات کی ابتدا صدر ٹرمپ کے دور میں ہوئی اور ان کے داماد نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اْن کے سعودی عرب سے بھی مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اگر فلسطین کے معاملات مثبت طور پر طے ہوجاتے ہیں، تو پھر اْسے اسرائیل سے کوئی ایشو نہیں، یعنی اْس کا اسرائیل سے کوئی دو طرفہ تنازع نہیں ہے۔
اسرائیل کو ایران کی نیوکلیئر ڈیل پر اسی نوعیت کے تحفظات تھے، جیسے کہ عرب ممالک کو، اور یہی سبب ان کی دوستی کی بنیاد بنا۔ گو کہ امریکہ کے مطابق وہ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا سے جاچکا ہے، تاہم اسرائیل، جو اْس کی پراکسی کہلاتا ہے، اب عرب دنیا کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے۔ چین اور روس کے بھی اسرائیل سے قریبی تعلقات ہیں۔ وہ چین کا اسلحہ اور ٹیکنالوجی سپلائر اور اسٹریٹیجک پارٹنر ہے، جب کہ روس کو بھی دفاعی سامان برآمد کرتا ہے۔
اسرائیل، شام میں ایرانی تنصیبات پرحملے کرتا ہے، تو روس آنکھیں موند لیتا ہے، ویسے وہ خود کو ایران کا پڑوسی اور اْس کا دوست بھی کہتا ہے۔ اور اس نے ایران کے ساتھ مل کر اسد فوج کی ہم راہی میں شام میں شہریوں پر جو بم باری کی، اْس کے سامنے یوکرین جنگ کی تباہ کاری کچھ بھی نہیں۔ اس بم باری سے پانچ لاکھ شامی شہری ہلاک اور ایک کروڑ بے گھر ہوئے۔ اس کے اثرات آج تک شامی مہاجرین اور بحرِروم میں تیرتی اْن کی لاشوں کی صْورت دیکھے جاسکتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یوکرین اور شام کے شہریوں میں، امریکہ، چین، روس، یوروپ اور خود کئی مسلم ممالک بہت فرق کرتے ہیں کہ کہاں غریب شامی اور کہاں امیر یوروپ کے یوکرینی۔
سعودی، ایران معاہدے کے تناظر میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بھی ایسا ہی کوئی معاہدہ ممکن ہے؟ذہن میں رہے کہ تمام تر تلخیوں اوردشمنیوں کے باوجود ہند۔پاک تعلقات ابھی تک سفارتی سطح پر موجود ہیں۔ نیز، دونوں پڑوسی ممالک کی سرحد پر امن ہے کہ دونوں ممالک کی افواج ایسا نظام قائم کرنے میں کام یاب رہیں، جس سے سرحد پر فوجی تصادم رْک گیا۔ پھر یہ کہ پاکستان اور ہندوستان کئی علاقائی فورمز پر ایک ساتھ موجود ہیں۔ ان میں اہم ترین چین کا شنگھائی فورم ہے، جس کے دونوں ممالک ایک ہی دن رکن بنے۔ اسی کے تحت روس میں ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں میں شامل رہے۔
چین اور روس کے پاکستان اور ہندوستان سے اچھے تعلقات ہیں۔ روس تو 1965 ء کی جنگ میں ثالثی بھی کر چکا ہے۔ دونوں ممالک کے سربراہان نے اس کی سرپرستی میں معاہدہ تاشقند کیا اور فوجوں کی بارڈر سے واپسی ممکن ہوئی۔ چین، پاکستان کا سب سے قریبی دوست ہے، جسے ”آل ویدر فرینڈ“ کا نام دیا جاتا ہے۔ اِسی طرح ہندوستان اور چین میں بھی سرحدی کشیدگی کے باوجود قریبی تعلقات ہیں۔ شی جن پنگ اور نریندر مودی میں ذاتی دوستی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گھروں تک جا چکے ہیں۔ اِن دونوں ممالک کے درمیان ایک سو بلین ڈالرز سے زاید کی تجارت ہے۔
چین نے ہمیشہ پاکستانی قیادت کو ہندوستان سے تعلقات معمول پر لانے کا مشورہ دیا۔ اب اس پس منظر میں کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان کی کم زور معاشی صْورتِ حال کے پیشِ نظر اسے پڑوسی ممالک سے درپیش مسائل و تنازعات سے نکالنے میں مدد دی جائے۔ کیا اِن دونوں ممالک کو خطّے میں امن کی اہمیت سمجھائی جاسکتی ہے، جس کے بغیر ترقی ممکن ہے اور نہ ہی تنازعات کا حل نکل سکتا ہے۔