شہریت ترمیمی قانون کے زخموں نے آسام میں شہریت کے مسئلہ کو زندہ رکھا
تین سال قبل آج ہی کے دن سی اے اے کے خلاف آسام میں بڑے پیمانہ پر احتجاج نے جو رِستے زخم چھوڑے انہوں نے بنگلہ دیش کی طویل سرحد سے متصل اس شمال مشرقی ریاست میں شہریت کے مسئلہ کو زندہ رکھا ہے۔
گوہاٹی: تین سال قبل آج ہی کے دن سی اے اے کے خلاف آسام میں بڑے پیمانہ پر احتجاج نے جو رِستے زخم چھوڑے انہوں نے بنگلہ دیش کی طویل سرحد سے متصل اس شمال مشرقی ریاست میں شہریت کے مسئلہ کو زندہ رکھا ہے۔
مرکز کی بی جے پی حکومت زوردے کرکہتی ہے کہ شہریت (ترمیمی) قانون 2019ء کو لاگوکیاجائے گا لیکن اس کے قواعد وضوابط ابھی تک نہیں بنے ہیں۔ مختلف گوشوں سے الزام عائدہورہا ہے کہ بھگوا جماعت قوم کو مذہبی خطوط پر بانٹنے کیلئے اسے ”سیاسی کارڈ“ کے طور پر استعمال کررہی ہے۔
پاکستان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی عتاب جھیل کر2014ء سے قبل ہندوستان میں پناہ لینے والے ہندوؤں‘سکھوں‘ بدھسٹ‘ جین‘پارسی اور عیسائی مذہبی اقلیتوں کو ہندوستانی شہریت دینے کیلئے 1955ء کے شہریت قانون میں ترمیم کی گئی۔
اپوزیشن نے اس قانون کے خلاف احتجاج کیا کیونکہ اس کاپیمانہ مذہبی ہے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ اس میں ترمیم ہو۔ اس قانون کے خلاف آسام میں احتجاج کی قیادت آل آسام اسٹوڈنٹس یونین(آسو) اور کرشک مکتی سنگرام سمیتی(کے ایم ایس ایس) نے کی تھی‘ لیکن یہ احتجاج ملک کے دیگرحصوں سے مختلف تھا۔ احتجاجیوں کا کہنا تھا کہ ریاست کو بلالحاظ مذہب وملت غیرملکی شہری کا ڈمپنگ گراؤنڈ نہیں بنایاجاسکتا۔
آسام میں احتجاج نے تشدد کی شکل اختیارکرلی تھی۔ پولیس فائرنگ میں 5افراد مارے گئے تھے۔ کے ایم ایس ایس قائد اکھل گوگوئی اور دیگرچار کو گرفتارکرلیاگیاتھا۔ کووڈ19 وباء کی شروعات کے بعد احتجاج واپس لے لیاگیاتھا۔ احتجاج کے بعد آسام میں دو نئی سیاسی جماعتیں آسام جاتیہ پریشد اور رائے جوردل وجود میں آئیں۔
آسام جاتیہ پریشد کی قیادت اس وقت کے آسوقائد لورین جوتی گوگوئی نے کی اور رائے جور دل کے سربراہ اکھل گوگوئی بنے۔صدر اے جے پی لورین جوتی گوگوئی نے پی ٹی آئی سے کہا کہ بی جے پی‘سی اے اے کو خاص طور پرالیکشن کے دوران سیاسی آلہئ کار کے طور پراستعمال کرتی ہے۔ اس نے اس کے قواعد وضوابط نہیں وضع کئے ہیں کیونکہ وہ آسام میں فارینرمسئلہ زندہ رکھناچاہتی ہے
۔ بدترین بات یہ ہے کہ پارٹی نے اپنے ”ہندوخطرے میں ہیں“ کے بیانیے کے ذریعہ اس قانون کو فرقہ وارانہ رخ دے دیا۔ سی اے اے نے آسام معاہدہ اور این آرسی کو بے معنی کردیا۔ رائے جور دل کے کارگذار صدر بھاسکوڈی سائیکیہ نے کہا کہ مرکز کوشمال مشرق کی دیگر ریاستوں کی طرح آسام کو دستوری تحفظات فراہم کرنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس قانون کی مخالفت پر اڑے ہوئے ہیں کیونکہ ہم اسے بی جے پی کی فرقہ پرست سیاست کا حصہ مانتے ہیں۔ قواعد وضوابط وضع ہوجائیں تو غیرملکیوں کو دوسری ریاستوں کو لے جایاجائے۔ آرایس ایس اور بی جے پی کا تاہم ماننا ہے کہ سی اے اے اور این آرسی کسی بھی ہندوستانی کے خلاف نہیں ہے۔
فرقہ وارانہ بیانیہ بعض لوگوں نے سیاسی فائدے کیلئے وضع کیا ہے۔ آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے گذشتہ برس نشاندہی کی تھی کہ سی اے اے کی وجہ سے کسی بھی مسلمان کو عتاب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ چیف منسٹر آسام ہیمنت بشواشرما نے بھی زوردے چکے ہیں کہ سی اے اے ان لوگوں کیلئے ہے جو بٹوارہ کے مصیبت زدہ ہیں اور مذہب کے نام پر وجود میں آنے والے فرقہ پرست ملک میں عتاب جھیل چکے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیاتھا کہ قومی سطح پر نام نہاد سیکولراحتجاجیوں نے آسام کے احتجاج کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ سیاسی قلمکار اور تجزیہ نگار سشانت تعلقدارکا کہنا ہے کہ حکومت‘ سی اے اے لاگوکرنے میں ٹال مٹول کررہی ہے کیونکہ اسے آسام اور تریپورہ میں منفی ردعمل کا خطرہ ہے۔ ان ریاستوں میں برسراقتدار بی جے پی کا بہت کچھ داؤ پرلگا ہے۔ تعلقدار نے کہا کہ مرکز کو اندیشہ ہے کہ شمال مشرق میں لسانی اور نسلی فالٹ لائنس بے نقاب ہوجائیں گی۔