فرنانڈو ڈوؤرٹ اور مارک شی
امریکی قیادت والے اتحاد کے عراق پر حملے کو 20 سال ہو چکے ہیں۔ 20 مارچ 2003 کو شروع ہونے والی یہ جنگ عراق کے صدر صدام حسین کی حکومت کو شکست دینے کے عمل میں تیزی لائی، لیکن اس کے بعد شورشوں کے خلاف ایک طویل جدوجہد اور سیاسی تقسیم در تقسیم کے عمل کا بھی کا آغاز ہوا جو آج تک برقرار ہے، لیکن اس جنگ میں اہم کھلاڑیوں کے ساتھ کیا ہوا جو آج بھی شدید بحث کو ہوا دیتا ہے؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
صدام حسین:صدام نے 1979 سے 2003 تک عراق پر آہنی گرفت کے ساتھ حکومت کی۔ 1990 سے 1991 کی خلیجی جنگ میں امریکہ کی زیرِ قیادت اتحادی افواج کو زبردست شکست کے باوجود، جو اس کا تختہ الٹنے میں ناکام رہی تھی، امریکہ نے عراق کو اپنے پڑوسی ملک کویت سے اپنی فوجیں نکالنے پر مجبور کر دیا تھا جس پر صدام نے اگست 1990 میں حملہ کر کے قبضہ کیا تھا۔ لیکن پھر مارچ 2003 کا حملہ ہوا اور عراقی فوج شدید بمباری کا مقابلہ نہ کرسکی اور یہ تین ہفتوں کے بعد ہی ختم ہو گئی۔ صدام خود روپوش رہے، یہاں تک کہ اسی سال 13 دسمبر کو امریکی فوج نے انہیں زیرِ زمین ایک پناہ گاہ سے گرفتار کر لیا۔ انہیں 2006 میں بغداد میں پھانسی دے دی گئی۔
جارج ڈبلیو بش: سال 2003 میں جارج ڈبلیو بش اپنے ہی والد جارج بش سینئر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عراق کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے والے دوسرے امریکی صدر بنے۔ سینئر بش 1989 سے 1993 کے درمیان امریکی صدر رہے تھے۔2001 کے 9/11 حملوں کے بعد کے ہفتوں میں بش جونیئر کسی بھی امریکی صدر کی نسبت سب سے زیادہ مقبول صدر بن گئے اور گیلپ کے مطابق رائے عامہ کے جائزوں میں ان کی تائید 91 فیصد عوام نے کی۔لیکن عراق جنگ سے نمٹنے کے لیے، خاص طور پر 4,400 امریکی فوجیوں کی ہلاکت، امریکی محکمہ دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق وہ غیر مقبول ہوئے۔ 75 برس کے جارج بش جونیئر صدارتی عہدہ چھوڑنے کے بعد سیاسی یا سماجی زندگی میں زیادہ فعال نظر نہیں آئے، لیکن جب بھی میڈیا میں نظر آئے تو انھوں نے عراق کے خلاف جنگ کے اپنے فیصلے کا ہمیشہ بھرپور دفاع کیا۔ بش صدارتی افتتاحی اور آخری رسومات جیسے سرکاری مواقع پر عوامی طور پر نمودار ہوتے رہتے ہیں، لیکن اب اپنا زیادہ تر وقت ٹیکساس میں اپنی زمینوں میں فارمنگ جیسے کاموں میں گزارتے ہیں۔وہ اس کے علاوہ خود کو پینٹنگ جیسے مشاغل میں بھی مصروف رکھتے ہیں۔
ڈِک چینی: جارج ڈبلیو بش کے نائب صدر عراق کے خلاف فوجی کارروائی کی ایک حامی آواز تھے اور انھوں نے صدام حسین کی حکومت پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMDs) رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے متعدد عوامی بیانات دیے تھے۔ اْن کے ان بیانات نے امریکی حکومت کو عراق پر حملہ کرنے کے جواز کو مضبوط بنایا۔ اب 82 سال کے ڈِک چینی نے حکومت چھوڑنے کے بعد سے بش سے یکسر مختلف رویہ اختیار کیا: وہ سیاسی مسائل پر تبصرہ کرتا ہے اور یہاں تک کہ انتخابی ریلیوں میں بھی شرکت کرتا ہے۔ اس نے جنوری 2021 کے کیپٹل ہِل کے فسادات کی وجہ سے ڈونالڈ ٹرمپ پر کھل کر تنقید کی۔
ڈونلڈ رمز فیلڈ: ڈونلڈ رمزفیلڈ 2001 اور 2006 کے درمیان صدر بش کی حکومت میں وزیرِ دفاع تھے۔ انھوں نے افغانستان اور عراق پر حملوں میں اہم اور متنازع کردار ادا کیا تھا۔دیگر باتوں کے علاوہ رمز فیلڈ پر صدام حسین کی برطرفی میں مدد کے لیے ’متبادل انٹیلی جنس جائزے‘ فراہم کرنے اور امریکی افواج کے ہاتھوں جنگی قیدیوں کو اذیت دینے کے واقعات کو درگزر کرنے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ رمزفیلڈ نے 2006 میں جنگ کے بعد عراق سے نمٹنے کے لیے امریکہ میں بڑھتی ہوئی عوامی اور سیاسی مخالفت کے درمیان وزارت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ اس نے ایک سوانح عمری لکھی، اپنے کیریئر کے بارے میں ایک دستاویزی فلم میں حصہ لیا اور صدر ٹرمپ کو 2020 کے صدارتی انتخابات میں اپنی شکست کو الٹنے کی کوشش کرنے کے خلاف انتباہ کرنے میں دیگر سابق وزرائے دفاع کی آواز میں آواز ملائی۔رمزفیلڈ کی وفات جون 2021 میں کینسر سے ہوئی۔
کونڈولیزا رائس: رائس نے بش کے آٹھ سالوں کے دوران پہلے قومی سلامتی کی مشیر اور پھر وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں اور اس طرح امریکی حکومت کی تاریخ میں کسی بھی سیاہ فام خاتون کے اعلیٰ ترین عہدہ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہوئیں۔عراق جنگ کی حامی ہونے کے ساتھ ساتھ، اس نے صدام کی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے مبینہ خطرے کے بارے میں امریکی میڈیا میں فعال طور پر رائے عامہ بنائی۔ یہاں تک کہ امریکی خبر رساں ادارے سی این این کو بھی قائل کیا کہ عراقی رہنما جلد ہی جوہری ہتھیار حاصل کر سکتے ہیں۔ بش کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد رائس نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں اپنا تدریسی کیرئیر دوبارہ سے شروع کیا اور وہیں ہوور انسٹی ٹیوشن تھنک ٹینک کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔
کولِن پاول: امریکی افواج کے سابق سربراہ جنرل پاول عراق جنگ کے وقت امریکی وزیر خارجہ تھے – اس کردار پر تقرر ہونے والے وہ پہلے سیاہ فام تھے – اور 1990-91 کی خلیجی جنگ کے دوران جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔جارج ڈبلیو بش کی کابینہ کے دیگر اراکین کے برعکس پاول ابتدا میں عراق پر حملہ کرنے کے منصوبے کے خلاف تھے، لیکن فروری 2003 میں انہوں نے ہی اقوام متحدہ سے فوجی مداخلت کی وکالت کی، حتیٰ کہ صدام کی حکومت کے وسیع سطح پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMDs) کو چھپانے کے الزام کے ’شواہد‘ بھی پیش کی۔جنرل پاول نے 2004 میں کانگریس کے سامنے یہ تسلیم کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا کہ ایک سال قبل پیش کی گئی انٹیلی جنس ’غلط‘ تھی اور بش انتظامیہ کے حق میں نہیں تھی۔انہوں نے لوگوں کو لیکچرز دینے کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا اور 2008 کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ کے سیاہ فام صدارتی امیدوار براک اوباما کی حمایت کے لیے ریپبلکن پارٹی سے اپنا تعلق توڑ لیا تھا۔ پاول کی وفات 2021 میں 84 سال کی عمر میں کووڈ 19 کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوئی۔
ٹونی بلیئر: عراق جنگ کے لیے ان کی حمایت کی وجہ سے سابق برطانوی وزیر اعظم کی ساکھ کو جارج ڈبلیو بش سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ بلیئر کو اس جنگ کی سرکاری انکوائری کی طرف سے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس نے 2016 میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس نے صدام حسین کی طرف سے لاحق خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، غیر تیار فوجیوں کو جنگ میں بھیج دیا تھا اور اس کے بعد کے حالات سے نمٹنے کے لیے ’مکمل طور پر ناکافی‘ منصوبے تھے۔ بلیئر جو اب 69 سال کے ہیں، نے 2007 میں استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کے بعد سے انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت اپنی این جی او ٹونی بلیئر انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل چینج، کے لیے وقف کیا ہے، لیکن عراق اب بھی اس کی میراث پر ایک سیاہ دھبہ ہے: گذشتہ سال جنوری میں، 5لاکھ سے زیادہ لوگوں نے بلیئر کو برطانوی حکومت سے ’نائٹ ہڈ‘ ملنے کے خلاف ایک پٹیشن پر دستخط کیے تھے۔