مظہر قادری
آج سے پچاس سال پہلے تک بھی حیدرآباد میں مرحومین زیادہ تھے اورشایدزندہ لوگ کم کیوں کہ بڑی سے بڑی سڑک کے کنارے پر بھی ہر تھوڑی دورپر ایک قبرستان رہتاتھا۔جس کے اطراف کہیں دیواررہتی تھی توکہیں کھلی جگہ رہتی تھی۔آتے جاتے اسے دیکھ کر عبرت ہوتی تھی۔اورلوگ بھی سامنے سے جاتے ہوئے ڈرتے تھے اورکچھ نہ کچھ پڑھتے ہوئے جاتے تھے۔جس کی وجہ سے ہرطرف امن کاماحول رہتاتھا۔قبرستانوں کی بہتات اورجگہ کی وافردستیابی کی وجہ سے تدفین کوئی مسئلہ نہیں ہوتاتھا اورایک قبرمیں صرف ایک ہی کی تدفین ہوتی تھی اوروہ اپنی جگہ پر صرف اپنے کرتوت کا جوابدہ رہتاتھا،لیکن اب جگہ کی قلت کی وجہ سے ایک ہی قبر میں کئی لوگوں کی تدفین کررہے ہیں۔اس لیے شاید فرشتے کس سے سوال پوچھ رہے ہیں اورکون جواب دے رہاہے، سمجھ میں نہیں آرہاہے۔ اورکس کی نیکیوں سے کس کی بخشش ہورہی ہے اورکس کے گناہوں کی سزاکس کو بھگتاپڑرہاہے یہ بھی پتہ نہیں چل رہاہے۔پہلے زمانے میں چوں کہ لوگ وہاں گڑتے تھے، اس لیے سب ڈرتے تھے لیکن آج کل اس جگہ پر قبضہ کرکے بڑھتے ہیں اس لیے وہ ڈر،خوف سب ختم ہوگیا۔پہلے کسی کے مرنے پر برسوں سوگ منایاجاتاتھا لیکن اب ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ کسی کے مرنے سے کسی کو دائمی صدمہ نہیں ہورہاہے بلکہ اسے ایک معمول کے طورپہ لیاجارہاہے۔بس تھوڑا ساٹائم نکال کر جاکر تدفین کردواورپھر بھول جاؤ۔اب کوئی قبرستان کی دیکھ بھال یانگرانی عقیدت اور محبت سے نہیں کررہاہے بلکہ صرف غیرہونے کے باوجود ذاتی مفادکے لیے کررہاہے۔چنوبھائی نے اپنے تجربات کے نچوڑ سے ہمیں بتایا کہ کن تین طریقوں سے آج کل لوگ قبروں پر قبضہ کررہے ہیں
قبرستانوں پر قبضہ کرناایک منافع بخش کاروبارہوگیاہے۔سب سے پہلے کسی بھی لاوارث قبر کو تھوڑا ساچمکاکر اس پر چادرچڑھاکر تھوڑے سے پھول چڑھادواورمورچھل لے کر بیٹھ جاؤ۔اوراگرہوسکاتوایک لمباچوڑا مقدس قسم کے نام کا بورڈ تیارکرکے لگادو۔یہاں سے آپ کا ثواب جاریہ تونہیں لیکن ثواب جیب ضرورشروع ہوجاتاہے جوکہ آپ کو تاحیات کام آتارہتااوراگرآپ کی اولاد آپ سے زیادہ قابل رہی اوراس کومزید ترقی دی تواطراف کی زمین کو گھیر کررہنے کامکان اورزندہ آمدنی کا ذریعہ بن جاسکتا جسے آپ کئی پشت تک استعمال کرسکتے۔یہ تورہاایک طریقہ جس سے آپ کسی بھی غیرکی لاوارث قبر سے فائدہ اٹھاسکتے یہ معاملہ اتنا حساس رہتاکہ آپ کے قبضے اورآمدنی کے معاملے میں حکومت بھی دخل نہیں دے سکتی۔یہ توقبر واحد پرقبضہ کرکے خاندانی پرورش کا ذریعہ بنانے کا ایک طریقہ ہے۔
ددسرا طریقہ قبرستانوں پر قبضہ کرنے کا کارپوریٹ پلاننگ ہوتا ہے جس کے لیے آپ کو ایک مکمل ٹیم یعنی گینگ بناکرقبضہ کرناہوتا ہے۔ قبرستانوں پر قبضہ کرنے کا طریقہ یہ رہتاکہ سب سے پہلے آپ ایک سائی، فقیر یابیکارانسان رہنے کی وجہ سے دن بھر آوارہ گردی کرنے کے بعد پھٹے پرانے کپڑے بال اورداڑھی بڑھی ہوئی انتہائی بری حالت میں آکر کسی قبرستان میں شب بسیری کرنا شروع دیتے۔ چنددنوں کے بعد قبروں کے بیچ کی کھلی جگہ کو صاف کرکے وہاں پر گاڑیوں کے فالتو ٹائر وغیرہ ڈال دیتے۔پھروہاں بیٹھ کر گاڑیوں کے پنکچربنانے کا کام شروع کردیتے اوراس کے لیے آپ سڑک کے بازوکی قیمتی جگہ کے قبرستان کا انتخاب کرتے۔ جب آپ کی وہاں تھوڑی بہت شناخت بن جاتی توکسی پرانی قبر کے اندراپنے اوزار اور بستررکھنا شروع کردیتے۔اورپھر موسم کے حساب سے لوگوں کی سہولت کے نام پر ایک معمولی سائباں بنالیتے اورپہلے سے زیادہ جگہ پر جھاڑومارکر جگہ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ تھوڑی قبروں کو بھی زمین سے صاف کرنا شروع کردیتے۔یہاں سے آپ کی معاشی حالت سدھرجانا شروع ہوجاتی اورآپ رفتہ رفتہ اپنے دوست احباب کی بیٹھکیں بھی یہاں جمانا شروع دیتے۔اوراس کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ قبروں کی صفائی کا کام بھی دوست احباب کے ساتھ مل کر زمین کے برابر کرتے رہتے اورمردوں کی جگہ کم کرتے ہوئے زندوں کی جگہ بڑھاتے رہتے۔ جب کافی کھلی جگہ دستیاب ہوجاتی توآپ اپنے کاروبارکو مزید وسعت دینے کے لیے اپنے کسی ساتھی کو یہاں پر گاڑیوں کی رپیرنگ کاکارخانہ ڈالنے کے لیے تیارکرلیتے جس کے نتیجے میں میکانیک صاحب کی محنت سے چنددنوں تک درستگی کے لیے آنے والی گاڑیوں کو قبروں پر کھڑاکردیتے اوررفتہ رفتہ اس کے نیچے کی قبریں غائب ہونا شروع ہوجاتیں، اس کے بعد آپ لوگوں کی نظروں میں آنے سے بچنے کے لیے سامنے کے حصے میں کوڑہ کرکٹ ڈال کر قبریں غائب کردیتے۔
اس سے باہر والوں کی نظرنہیں پڑتی کہ اندرکیاہورہاہے۔بے چارے مردے تو عدالت جاکر لینڈگرابنگ کا کیس نہیں ڈال سکتے۔اس لیے یہ لوگ بہت آرام سے قبروں کی صفائی کا کام کرتے رہتے۔
ویسے بھی آج کل جہاں جگہ ملی اپنے مرحومین کودفناکرآنے کے بعد کسی کو اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ دوبارہ وہاں جاکر دیکھے کہ قبرستان کا کیا حال ہے۔ اس کافائدہ اٹھاتے ہوئے سامنے کے حصہ میں ملگیاں بنانا شروع دیتے اورپھر ٹٹی لگاکر دیکھتے ہی دیکھتے روڈکے بازوایک وسیع کامپلکس تیارہوجاتااورقبروں کا نام ونشان بھی مٹ جاتا۔
پرانی نسل وہاں جاکر دیکھنے کے قابل نہیں رہتی اورنئی نسل کو نہ تواس کی معلومات ہوتی اورنہ ان کی کوئی اہمیت ہوتی کہ کون سے قبرستان پر کون قبضہ کررہاہے اوراس سارے قبضے کا سہرا صرف اورصرف ہماری قوم ہی کے سرجاتا ہے،کسی غیر قو م کے آدمی کی مجال بھی نہیں ہوتی کہ ایسی کوئی حرکت کرے۔ہاں یہ ضرورہے کہ اس سارے کارنامے کو سرانجام دے کر جعلی کاغذات وغیرہ بناکر اس کو بیچ کر کسی اورنئے قبرستان کے وینچر کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔
قبرستان پر قبضہ کرنے کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ قبرستان کا نگران بن جاتے۔بہت محنت کرکے لوگوں سے چندہ وصول کرکے قبرستان کے اطراف حصارکی دیواربناکر چندے کے آدھے پیسے کھالیتے اورنہایت مقدس طریقے سے قبروں کی زمین تدفین کے لیے منہ مانگے دام پر بیچ کر اپنے گھرکے لیے ثواب جاریہ کی آمدنی کا انتظام کرلیتے۔ یہ لوگ اپنے کاروبا رمیں نقصان نہیں ہونے کے لیے قبرستان میں بورڈ شرعی لگادیتے کہ پختہ قبر بنانامنع ہے لیکن شریعت سے زیادہ ذاتی مفادیہ رہتاکہ پختہ قبر تیارکرنے والوں کے لواحقین اکثرآتے رہنے کا اندیشہ رہتا۔اس لیے اسے مسمارکرکے دوسروں کو فروخت کرنے میں مشکل ہوتی اورمسمارکرنے کاخرچہ بھی زیادہ آتابجائے اس کے عام سی قبرکانام ونشان مٹانا آسان رہتا۔جس کو دوسرے خریدنے والے بھی بغیر جھجھک کے خریدسکتے۔
اس طریقہ کارسے قبریں وہی رہتیں لیکن مردے بدلتے رہتے اورقبرستان کمیٹی کے شخص واحد یاارکان کی من مرضی اورآمدنی کو کوئی نہیں روک سکتا۔پہلے زمانے کے شاعروں کو یقین تھاکہ ان کے مرنے کے برسوں بعد بھی ان کی محبوبہ ان کی قبر پر آئی تواس کا دیدارکرسکیں گے اس لیے بقول شاعر:
مجھے آج کاش یوں ہی دیداریارہوتا
میں تہہ مزار ہوتا وہ سرمزار ہوتا
لیکن اب جس رفتارسے قبریں صاف کرکے ایک کے پیچھے ایک کے قبرمیں مختلف لوگوں کی تدفین کی جارہی ہے اس حساب سے آپ کی محبوبہ آپ کی قبرپر دیدارکو آنے تک آپ کی باقیات کو کہیں دورپھینک کر اس دوران میں اس قبر میں نہ جانے اورکتنے لوگوں کی تدفین ہوجائے اورآپ یہی سوچتے رہ جائیں
مجھے اس طرح مٹایا کہ نشان تک نہ چھوڑا
میں لپٹ کے رو تو لیتا جو کہیں مزار ہوتا
برسوں پہلے جب ایک کنجوس سے قبرستان کے اطراف دیواراٹھانے کے لیے چندہ مانگاگیا توہ بولاکہ دیواراٹھانے کا کیا فائدہ جبکہ اندروالے باہر نہیں آسکتے اورباہروالے اندرنہیں جانا چاہتے، لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔اب باہر والے اندرگھس کر اندروالو ں کو باہر کردے رہے ہیں۔
ان قبروں کااستحصال کرنے والے یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ کل ان کا بھی یہی حشرہونے والا ہے۔آج تدفین ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے اورآج کسی کے مرنے کے غم سے زیادہ کہاں دفنائیں کی فکرہورہی ہے، اس لیے ملت کے صاحب حیثیت لوگ جوزمینوں کے بڑے بڑے وینچر کررہے ہیں وہ اگرہروینچرمیں ایک معقول جگہ قبرستان کے لیے ثواب جاریہ کے طورپر مختص کردیں تواس مسئلے کا کچھ توحل نکل سکتا ہے۔
اوپر مذکورہ لوگ چند ایک ہیں لیکن تعریف کے قابل ملت کے وہ سپوت ہیں جوآج بھی نہ صرف قبروں کے تحفظ کے لیے لڑرہے ہیں اوراپنا پیسہ اوروقت خرچ کررہے ہیں اور قبرستان کومحصورکرکے بچارہے ہیں اوراس کے علاوہ لاوارث لاشوں کی بھی تدفین اپنے پیسے وقت اورمحنت سے کرکے حقیقت میں ثواب جاریہ کے مستحق بن رہے ہیں۔
٭٭٭٭