سوشیل میڈیامضامین

لمحہ فکر: شادیوں میں بڑھتا پالکی کا رحجان

اب شادی بیاہ میں پالکی کا نیا Trend یعنی رحجان شروع ہوا ہے، دلہن کو گاڑی کے ذریعہ فنکشن ہال تک تو لايا جائیگا اس کے بعد اسٹیج تک پالکی میں بیٹھا کر بھائی یا قریبی رشتہ دار اتارتے ہیں . اس طرح سے کچھ’’ نیا ہو جائے ‘‘والا معاملہ شادی بیاه کی تقاریب میں نظر آرہا ہے جس سے مہمانان میں ایک نیا انکشاف اور میزبان کی سوچ میں ایک نیا انقلاب رونما ہو رہا ہے . ...

فہمیدہ تبسّم ،اردو پنڈت ،ریسرچ اسکالر جامعہ عثمانیہ

پالکی يا ڈولی یہ لفظ اسم مونث ہے اور سنسکرت لفظ ہے ، انگریزی میں اسے sedan ، Litter a palanquin کہتے ہیں ، یہ لکڑی کی بنی ہوئی مستطیل شکل کی چاروں طرف سے بند دو دروازوں والی جس میں آگے پیچھے موٹے ڈنڈے لگے ہوئے ہوتے ہیں سواری ہوتی ہے، "پالکی ” جس کو اٹھانے والے کو ” کہار ” کہا جاتا ہے، یہ آٹھ ہوتے ہیں چار کام کرنے والے اور چار آرام کرنے والے …

ماضی بعید میں پالکی کا استعمال صرف زنانہ سواری کے لئے ہی نہیں بلکہ راجا ، مہاراجا ، نواب کی سواری چاہے وہ کسی بھی مذہب سے منسوب ہوں، ان کی بھی پالکی ہوا کرتی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ شاہی محل کی خواتین جیسے بیگمات ، ملکائیں اور شہزادیاں پالکی میں سفر کرتی تھیں ، یہی نہیں پالکی کو دولہن کی رخصتی کے وقت استعمال میں لایا جاتا تھا یعنی میکے سے سسرال تک نئی نویلی دلہنوں کو پالکی میں سوار کروا کر سسرال چھوڑ آتے تھے اور اس وقت کہار کا کام بھائی ، یا چاچا وغيره کیا کرتے تھے.. .

پالکی جیسی سواری کا استعمال اور روایات مدتوں پرانی مانی جاتی رہیں ہیں تب ہی تو ہماری تاریخ پر مبنی فلموں اور سیریل میں اسے دکھایا جاتا ہے اور پالکی پر کئی نغمے بھی فلمائے گئے فلم جانی دشمن 1979کا مشہور و معروف نغمہ "’’چلو رے ڈولی اٹھاؤ ،کہار پیا ملن کی رت آئی ‘‘”جسے مشہور گیت کار ورما ملک نے لکھااور مشہور گلوکار محمد رفیع نے گایا،جو آج بھی شادیوں کے مواقع پر گنگنایا جاتا ہے ، یہ ایک سدا بہار نغمہ کہلاتا ہے …

زمانہ قدیم میں دور دراز کے سفر طے کرنے کے لئے پالکی یا ڈولی کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، اس زمانے میں یہ زناٹے بھرتی پڑول کی گاڑیاں تو تھیں نہیں، عام آدمی پیدل یا اپنے مویشیوں پر سامان لاد کر سفر باندھا کرتے تھے کوئی گھوڑوں پر تو کوئی گدھوں پر اور کوئی بیل پر لیکن بڑے خاندان کے افراد میں پالکی کا رواج عام تھا اور پردے کی پابند عورتوں کو اسی میں بیٹھایا جاتا تھا۔ ساتھ میں جنس رکھ دیے جاتے جیسے مکئی ، پھلی یا کچھ اور اور جنس اگر میسر نہیں ہوتے تو پتھر رکھ دیئے جاتے تاکہ اندر بیٹھی زنانہ کا وزن معلوم نہ ہوسکے کیونکہ پرده دار خاتون کے بارے میں یہ گمان یا خیال آنا بھی غلط سمجھا جاتا تھا کہ وہ موٹی ہے یا پتلی ہے ، اور اگر پالکی میں دلہن ہو تو قرآن مجید کے سایہ میں، اسے لے جایا جاتا….

"بلبل ہند ” سروجنی نائیڈو نے اپنی انگریزی نظم "palanquin Bearers "میں دولہن کو لے جانے والے کہار اور دولہن کے جذبات کی بہت ہی بہترین انداز میں عکاسی کی ہے جس میں دولہن کو اتنا نازک بتایا گیاکہ جیسے دھاگہ میں موتی پروکر لے جایا یا جارہا ہو اور دوسری جگہ چڑیا اور پھول اور ایک خوشبودار ہوا کاجھونکا جیسے تشبیہات سے دولہن کو مخاطب کیا گیا اور کہار جو کہ اپنی دھن میں گاتے ہوئے احتیاط سے لے جاتے ہیں ، دولہن کے آنسوؤں کو کبھی خوشی کے تو کبھی غم کےمان کر آگے بڑھتے چلےجاتے ہیں …

سیر و تفریح اور شکار کے لئے بھی اُس دور میں اسی پالکی یا ڈولی کا استعمال کیا جاتا تھا … پہلے پہل اونٹوں پر ” کجاوے ” camel saddle کو لوگ سواری کے طور پر استعمال میں لایا کرتے تھے، اس کجاوے کو سجاکر اس میں زنانہ سواری کو پردے کی پابندی کے ساتھ بیٹھایا جاتا اور پالکی کو صرف دلہن کے لئے ہی استعمال کیا کرتے تھے …

گزرے وقتوں میں ہمارے اسلاف معاشرہ میں شادی بیاہ اور دیگر دوسری تقریبات میں صرف ایک ہی نہیں بلکہ اسلام کی دیگر احکامات اور بنیادی اصولوں پر بھی عمل پیرا ہوا کرتے تھے ،جس سے کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہو ا کرتا تھا …فی زمانہ لوگ اپنے حساب اور ضروریات ، شوق کے مطابق احکام شریعت ادا کرتے نظر آتے ہیں …

اب شادی بیاہ میں پالکی کا نیا Trend یعنی رحجان شروع ہوا ہے، دلہن کو گاڑی کے ذریعہ فنکشن ہال تک تو لايا جائیگا اس کے بعد اسٹیج تک پالکی میں بیٹھا کر بھائی یا قریبی رشتہ دار اتارتے ہیں . اس طرح سے کچھ’’ نیا ہو جائے ‘‘والا معاملہ شادی بیاه کی تقاریب میں نظر آرہا ہے جس سے مہمانان میں ایک نیا انکشاف اور میزبان کی سوچ میں ایک نیا انقلاب رونما ہو رہا ہے . …یہ معاشرہ کی بھلائی ہے یا برائی ہے اسکا اندازہ کرنا مشکل ہے اور کیا یہ ایک سنجیده طرز عمل کہلائے گا ؟ یہ سوال بھی سبھی کو بے چین کررہا ہے اگر برائی کہیں گے تو یہ ایک رواج ہے جس میں کوئی غلط کار تو نہیں ہو پا رہا ہے جس کو برا کہہ سکیں اور بھلا کام کہیں گے تو یہ اسراف کی ایک شکل ہے جس کو ہر کوئی برداشت کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے، اس طرح کے سوالات اور ذہنی انتشار سے سماج کا وہ طبقہ دوچار ہورہا ہے جو اپنے دل میں معاشره کے تئیں ہمدرد ی رکھتا ہو ….

تو ظاہر سی بات ہے کہ یہ امیروں کے بس کی بات ہے اور فضول خرچی کی ایک نئی شکل ہے اور اسے غیر ضروری ریت کہا جاسکتا ہے ، کیونکہ عام رسوم سب کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں اس طرح کہ خاص رسم کاغریب طبقہ کی دلہن تصور نہیں کرسکتی . اور اس طرح کے نت نئے رسم و رواج اور دیگر روایات کی نمائش کو پھیلانے کا کام میڈیا جیسے واٹس ایپ ، فیس بک وغیره ایسے ذرائع ابلاغ بہت جلد انجام دیتے ہیں ، جو ہر چھوٹی بڑی اچھی بری خبر ہر گھر بلکہ ہر فرد تک پہنچانے میں سیکنڈس کا کام کرتے ہیں اور ویڈیو گرافی اور ڈرون Drone یہی نہیں بلکہ wedding LED screen کے ذریعہ ساری منظر کشی کی جاتی ہے جس کو ہر عام و خاص دیکھتے ہیں جہاں پر بے پردگی تو ہوتی رہی ساتھ ہی ساتھ غیر ضروری رسوم کی نمائش کی جاتی ہے، جس سے یہ بات ہر فرد تک تو پہنچ ہی جائے گی جس میں غریب کی لڑکی بھی شامل ہے ، وه پالکی کہاں سے لائے؟

ایک طرح سے یہ غریب دولہن کے سیدھے سادے جذبات کو مجروح کیا جانے والا فعل کہا جائے تو بے سود نہ ہوگا…. سماج میں موجود کئی برائیاں جیسے شراب نوشی ، چوری ، جہیز ، خوب صورت لڑکی کی مانگ ، امیر زادی اور اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی ، اکلوتی بیٹی وغیره کا انسداد ضروری بلکہ اشد ضروری کہلانے لگا ہے، ایسے میں اب ایک نئی زیب و زینت اور نمائش و شوق جیسے کام اور شادی کے اخراجات میں ایک خرچہ کا اضافہ ہونا اور پھر اس کا کوویڈ جیسے عالمی وباء کی تباہی کے بعد معاشره میں منظر عام پر آنا ہم سب کے لئے لمحہ فکر ہے…

اس کو ہم برائی کا درجہ نہ دیں یا نہ دیں مگر یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک غیر ضروری فعل اور رسم ضرورہے ، ایک بات مصمم ہے کہ برائی ہو کہ اچھائی ضروری ہو کہ غیر ضروری سب پر اثر انداز ہونے والی بات ہو تی ہے کیونکہ انسان ایک سماجی حیوان social Animal کہلاتا ہے ، انسانوں کی ضروریات ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ہمارا سماج دور حاضر میں سرمایہ دارانہ منافع کے محور پر گھومتا ہوا پایا گیا ہے اور فرد اس سماج میں پس کر ره جاتا ہے ، اپنی ذات کی تکمیل کی خاطر وہ ہر طرح سے خود کو سماج کے بے جا رسم و رواج اور اصول و ضوابط قاعدے قوانین سے مجبوراً خود کووابستہ کرتا آرہا ہے، دانستہ طور پر یا غیر دانستہ طور پر ہی سہی اس بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے…اس بات سے تو ہمیں متفق ہونا ضروری ہے ، اس مہنگائی کے دور میں کیا ہمیں اس طرح کی رسوم یا روایات کو دوباره ایجاد کرنا ضروری ہے ؟ آئندہ ہماری نسلوں کے لیے کہیں یہ بے جا رسم و رواج اور روایات وبال جان نہ بن جائیں ! اس تعلق سے ہمیں سوچنا چاہیے …

قدیم زمانے میں مثل مشہور تھی کہ دولہن سے کہا جاتا تھا ” ڈولی میں جاکر سسرال سے ڈولے میں ہی واپس آنا” . …جس کا مطلب یہ ہوتا کہ دولہن کو تا حیات سسرال میں ہی اپنی زندگی کو بغیر کسی تناؤ اور کشیدگی کے گزارنا چاہیے، ہر چھوٹے مسئلے یا لڑائی جھگڑے کو لے کر میکے نہیں آجانا ….اور اس بات کو وہ مرتے دم تک نبھاتی بھی تھی حالات کیسے بھی ہوں سنبھال لیتی تھی، اچھے اور برے وقت میں اپنے میکے کی لاج ، عزت رکھ کر صبر و تحمل سے سمجھوتے ایثار اور قربانی سے ہر غم کو سہہ لیتی بھی تھی،. اس وقت کی مائیں بھی انھیں وہی تربیت دیتی تھیں ….

اب حالات بدل گئے ہیں نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ مائیں اور نہ ہی وہ دولہن یا بیٹی پھر یہ پالکی کیوں ؟ کیا ماضی لوٹ آرہا ہے ؟اگر آرہا ہے تو بہت ہی خوش آئند بات ہے کیونکہ ہمارے معاشره میں پھر سادگی سے نکاح ہوگا، گھروں سے دلہن وداع ہوگی اور بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے بڑے خاندان تشکیل پائیں گے اور تو اور ہر طرف خوش حالی ہی خوشحالی ہوگی…یہ سب تو ٹھیک ہے پیسے والے بڑے لوگ پاش فیملی جیسے نامور اشخاص کے لئے ہر نئے چونچلے ، کوئی خاص نہیں بلکہ عام بات ٹھہری پھر ہمارے سماج کا وہ طبقہ ان تمام چیزوں کو کہاں سے لائے جن کے گھر شادی ہونا ہی بہت بڑی بات ہے ….

تعلیمی یافتہ ہونا بڑی بات نہیں بلکہ باشعور ہونا اور ذی عقل ہونا بہت ضروری ہے ، جس سے ہم ہر اچھے برے کی تمیز کرسکتے ہیں اور تعلیمی یافتہ افراد کا فعل ہر وقت سماج کے اچھے برے انجام کا سوچ کر ہونا چاہیے،ذی علم و عقل مند افراد ہمیشہ سارے سماج اور معاشرہ کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں ہمارے سماجی مصلح کے حالات زندگی پر جب ہم ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے تو پتا چلے گا کہ کس طرح سے وہ اپنی زندگیوں کو سماج اور مسلم معاشره کی اصلاح کے لئے قربان کر گئے ہیں، اپنے قلمی تعاون کے ذریعہ اپنی تقاریر سے ، تحریرات اور جسمانی محنت سے بہر کیف انہوں نے ہر طرح سے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی انتھک کوششیں کی ہیں…

ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کی شاعری جس میں شاہین اور خودی کو اپنا مدعا بنا کر انہوں نے قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی ، موجود دور میں تعلیم یافتہ طبقے کی جہد بھی ایسی ہی ہونی چاہیے کہ صرف اور صرف عملی اقدامات کی طرف راغب ہو نی چاہیے جس سے ہمارے نوجوان غلط راہ نہ اختیار کریں اور خاص کر مسلم معاشرہ جو کہ تعلیمی و معاشی میدان میں غربت کی لکیر سے نیچے جا رہا ہے اور دیگر بہت سارے مسائل میں مبتلا ہے ،ان کے لئے یہ کام نا صرف وقتیہ اور جذباتی ہو نا ہے بلکہ اس کا اثر دیر پا ثابت ہونا چاہیے اور ہمارے کار خیر کا اثر دیر پا سہی خیر مقدم ہو نہ کہ شر انگیز ….

اور اب پالکی میں بیٹھی دولہن کا فریضہ بنتا ہے کہ اپنی دیرینہ آرزو اور اپنوں کے خلوص و محبت کا نعم البدل ادا کرے اور سسرال میں اپنوں کی لاج بھرم اور عزت رکھ لے اور ایثار و قربانی ہر طرح کی اپنائیت سے سسرالی رشتوں کا دل موہ لے اور یہ ارادہ کر لےکہ سماج یا معاشره کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا صرف مرد ہی نہیں عورتوں کا کام بھی ہے ان کاندھوں کا مول چکائے جو انمول ہیں تاکہ کہار کا کاندھا یہ نہ سمجھے کہ میرا کاندھا غلط جگہ استعمال ہوا ہے بلکہ یہ سوچ کر مسرور ہو جائے کہ میرا کاندھا کارگر ثابت ہوا ہے…. والدین یہ نہ گمان کریں کہ ہمارے ارمانوں کی ڈولی اٹھ گئی ہے بجائے اس کے اس مثبت اور اچھی سوچ سے خود کو مطمئن کرلے اور سکون قلب حاصل کرلیں کہ ہماری بیٹی نے پالکی( ڈولی) کا حق ادا کر ہمیں اپنی تعلیم و تربیت کا صلہ دیا ہے ….
٭٭٭