طنز و مزاحمضامین

لیٹ لطیف

زکریا سلطان۔ ریاض

قارئین کرام! یہ لطیفہ توآپ نے سنا ہوگا اور اگر نہ سنا ہے تو سن لیجئے، ایک اخبار فروش لڑکا چوراہے پر صبح صبح کھڑا ہو کرچلارہا تھا ”آج کی تازہ خبر پچاس لوگ بیوقوف بن گئے،پچاس لوگ بیوقوف بن گئے“ یہ سن کر ایک صاحب سائیکل سے اترے اور فوری اخبار خریدا، جیسے ہی انہوں نے اخبار کھولا لڑکا چلانے لگا آج کی تازہ خبر اکاون لوگ بیوقوف بن گئے!!! آج کے ہندوستان میں سیاسی قائدین کی مثال اسی اخبار والے جیسی ہے۔
کچھ لوگ بات کو ذرا دیر سے سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ دوسروں کو پہچاننے میں دیر کردیتے ہیں۔ سنا ہے کہ حیدرآباد میں مودی نو انٹری اور مودی گو بیک کے فلیکسی لگے ہیں (10نومبر 2022کی خبر)۔یہ لگانے والے کون ہیں؟ سب ہی جانتے ہیں! جو حال حال تک مودی جی کو گلے لگاتے اور ان کے اشاروں پر رقص کرتے تھے، مودی جی بھی ان سے جب ملتے تو کنول کی طرح ان کا چہرہ کھِل جاتا اور جگنو کی طرح ان کے چہرے پر چمک آجاتی تھی، مگر آج حال یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی صورت بھی دیکھنا پسند نہیں کر رہے ہیں استقبال تو دور کی بات ہے، آج مودی اینڈ کمپنی انہیں تلنگانہ سے بھگانے کی چکر میں ہے اوروہ مودی جی کودلّی سے بھگا نے کی بات کررہے ہیں۔ ان حالات میں کبھی کہنا پڑتا ہے دیر آید درست آید اور کبھی کہنا پڑتا ہے بڑی دیر کی مہرباں!!! جو صاحب اپنے حلیف کے ساتھ کانگریس مکت بھارت نعرہ کی مکمل حمایت کرتے ہوئے پوری طرح سپورٹ کرتے تھے اور ملک و ریاست میں کانگریس کو توڑنے اور کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے آج وہ بی جے پی مکت بھارت کی بات کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جو نوٹ بندی پر ہونٹ بندی کیے ہوئے تھے، آج وہ تنقید کررہے ہیں کہ نوٹ بندی بہت غلط فیصلہ تھا، اس سے ملک کو بہت نقصان ہوا، معیشت تباہ ہوگئی، چوں کہ اُس وقت وہ ملے ہوئے تھے اس لیے عوام کی تکلیف، دکھ درد اور قطاروں میں کھڑے رہ کر پولیس کے ڈنڈے کھانا اور موت کے گھاٹ اترنا انہیں نظرنہیں ا ٓیا اور اب برسوں بعد اس پر واویلا کررہے ہیں حالانکہ تلنگانہ کے مہاراج بھی اُس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔وہ تمام قائدین اور پارٹیاں نوٹ بندی کے نقصانات کے ذمہ دار ہیں جن کے ہونٹ اُن کٹھن دنوں میں سلے ہوئے تھے، انہیں اس وقت عوام کی تکلیف کا کوئی احساس نہیں تھا، وہ اپنے اپنے محل نما بنگلوں میں عیش کررہے تھے کیوں کہ انہیں تو نوٹ برابر مل رہے تھے جبکہ عام آدمی اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے دو ہزار روپئے یومیہ نکالنے کے لیے گھنٹوں لائن میں کھڑا رہتا تھا اور مودی صاحب وعدہ پر وعدہ کرکے عوام کو سبز باغ دکھاکر بیوقوف بنا رہے تھے، اسی زمانہ میں گاؤ کشی کے نام پر ہجومی تشددکے بے شمار بد بختانہ واقعات پیش آئے مگران کی زبانوں سے ظالموں کے خلاف چند مذمتی الفاظ نہیں نکلے، زبانوں پرموٹے موٹے تالے پڑے تھے کیوں کہ اُس وقت پارٹنر شپ تھی، یارانہ تھا، سمجھوتہ تھا، سب کچھ مل جل کر باہمی ڈیل کے ذریعہ بانٹ لیتے تھے، اس لیے کئی چیزوں کو دیکھ کر بھی آنکھ بند کرلی جاتی تھی، نگاہیں پھیر لی جاتی تھیں، مگر آج بازی پلٹ گئی، بازی گر اپنی چال چل گیا!!!
ہماری پیاری ریاست تلنگانہ کے واحد مسلم وزیرنے ایک مرتبہ چارمینار کے دامن میں وزیر اعلیٰ کی تصویر کو دودھ سے نہلایا (ان کے پاس دودھ کی کیا کمی ہے!!!) اور لوگ سمجھنے لگے بے چارے شاید دودھ کے دھلے ہیں، تب ہی تو وزیر موصوف نے دودھ سے اشنان کرایا ہے، پھر ان کے دیگر ساتھی بھی کہنے لگے کے سی آر نمبر ون سی ایم ہیں، سیکیولر ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کو بہت کچھ دیا ہے وغیرہ وغیرہ جبکہ کے سی آر کے زمانہ میں ہی نوٹ بندی ہوئی، ہجومی تشدد میں کئی مسلمان مارے گئے، خود تلنگانہ میں مساجد شہید کی گئیں، زیر دریافت پانچ مسلم قیدیوں کو ایک منصوبہ کے تحت ہتھکڑیوں اور بیڑیوں سمیت انکاؤنٹر کے نا م پر پولیس کی گولیوں سے بھون کر شہید کردیا گیا اور کے سی آر نے آج تک اس مسئلہ پر زبان نہیں کھولی تأسف کا اظہار تو دور کی بات ہے!!! الٹا مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے باپ بیٹی دونوں نے نرسمہاراؤ کی تعریف کے پل باندھے، ان کے مجسموں کو نصب کیا، ان کی بیٹی کو کونسل کی رکنیت دی گئی غرض یہ کہ مسلمانوں کو بری طرح نظر انداز کرکے من مانے فیصلے کرنے لگے۔ شاید وزیر اعلیٰ اپنے آپ کو ناقابل شکست اور ابدی قیادت کے حامل مافوق الفطرت قائد سمجھنے کے مغالطہ میں تھے کیوں کہ ان کے سر پر مودی اور پیٹھ پر امیت شاہ کا ہاتھ تھا، مگر جب غیر متوقع طور پر یہ ہاتھ اٹھالیے گئے تو مہاراج کو زبردست جھٹکا لگا، پیروں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی اور دن میں تارے نظر آگئے۔ اب بی جے پی یہ ثابت کرکے ان کا چین سکون اور جینا حرام کی ہوئی ہے کہ وہ دودھ کے دھلے نہیں ہیں،کے سی آر کے حامیوں اور وزیروں کے گھروں پر ای ڈی کے دھاوے ہونے لگے، انتخابات قریب آگئے تو پھرایسے میں مسلمان یاد آنے لگے!!! حالیہ ضمنی انتخاب میں دونوں بی جے پی اور ٹی آر ایس نے دل کھول کر پانی کی طرح پیسہ بہایا (ظاہر ہے یہ دولت محنت کی کمائی اور حلال و جائز تو تھی نہیں) ساتھ میں شراب کی بوتلیں اور چکن بھی کھلے عام خوب تقسیم کئے گئے، دستور و قانون کا خوب مذاق اڑایا گیا، اب کہہ رہے ہیں مودی بہت غلط اور خطرناک آدمی ہیں، بی جے پی ملک کو تباہ کررہی ہے لہٰذابی جے پی مکت بھارت ہونا چاہیے۔ ایسے موقع پر اور ایسے ہی لوگوں کو جو بروقت بات نہ سمجھے اور صحیح وقت پر لوگوں کو نہ پہچانے حیدرآبادی ”لیٹ لطیف“ کہتے ہیں!!!
٭٭٭