مضامین

اقلیتوں کی فلاح و بہبود ‘ باتوں تک ہی محدود

محمد عثمان خان

ہندوستان کی آزادی کو ساڑھے سات دہائیوں کا عرصہ ہوچکاہے۔ تاہم ملک کے غریب اور پسماندہ طبقے ابھی تک آزادی کے ثمرات سے محروم ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ پچھلے پچھتر برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک کیا جارہاہے جس کی وجہ سے وہ بدستور پسماندگی اور مواقع کی کمی کا شکار ہیں۔ تعلیم، معیشت، روزگار اور دیگر سبھی میدانوں میں وہ آج بھی دیگر طبقات سے کافی پیچھے ہیں، لیکن ہندوستان کا آئین کہتا ہے کہ ملک کے تمام شہریوںکو بغیر کسی امتیاز اور تعصب کے یکساں حقوق اور مساوی مواقع ملنے چاہیے، تاہم آزاد ہندوستان کی ساڑھے سات دہائیوں میں کیا غریب اور پسماندہ طبقات کو مساوی حقوق اور مواقع مل رہے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا کوئی مثبت جواب نہیں ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ ملک کی ایک بڑی آبادی امتیازی سلوک، ناانصافی، مواقع کی کمی، جبر اور حقوق کی پامالی کا شکار ہے۔ ملک کی آزادی کے لیے اس ملک کے ہر طبقہ نے جدوجہد کی، لیکن مسلم اقلیتوں نے جو کردار ادا کیا وہ بہت نمایاں اور ناقابل فراموش ہے۔ مادر وطن کی آزادی کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالنے والے اور انگریز کی بندوق کی گولیوں کے مقابلے میں اپنا سینہ تان کر ان کے خلاف لڑنے والے مسلمان، تاریخ میں ہزاروں کی تعداد میں نظر آئیں گے۔ انہیں کی غیر معمولی اور بے مثال قربانیوں کے نتیجے میں ہندوستان آزاد ہوا ہے اور آزادی کی علامت کے طور پر ملک امن اور ہم آہنگی کے ساتھ، ایک سیکولر اور جمہوری منزل کی طرف رواں ہوا۔ دراصل غیر ملکی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد لوگوں کی زندگیاں ایکدم بدلنی چاہیے۔ ان کا معیار زندگی غیر معمولی طور پر بہتر ہونا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر، ان کی خود اعتمادی کی حد آسمان کو چھونا چاہیے۔ لیکن مسلمانوں کا حال بالکل ایسا نہیں ہے، جو ہمارے ملک میں دوسری اکثریتی برادری کہلاتے ہیں۔ ‘بکری کی دم بالش’ کے مصداق ان کی ترقی’ جہاں بچھی چادر وہیں’ ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے پاس نہ اپنی ذاتی زمین ہے،نہ ذاتی کاروبار، کم از کم رہنے کے لیے گھر بھی نہیں ہے۔ فروٹس، سبزیاں بیچنا، پان ڈبے، سائکل شاپ چلانا، چھتریاں اور تالے مرمت کرنا، رکشا چلانا، فٹ پاتھ بزنس اور محنت و مزدوری کرنا، اور اسی طرح کے چھوٹے موٹے کام کرکے وہ زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے معیار زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ عدم تحفظ کا احساس ان کو ستا رہا ہے۔ شکوک بھری نظریں ان کے دل کو چیر رہی ہیں۔ کھانے پینے اور لباس کے معاملے میں بھی آزادی نہیں ہے۔ ہجوم کے حملوں اور املاک کی تباہی کی وجہ سے جہاں لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں، وہیں باقی کی زندگی دشواریوں میں گزر رہی ہے۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ آج بھی ملک کی ساٹھ فیصد مسلم آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ملک کی ایک بڑی تعداد کو آج بھی روزی روٹی کے مناسب مواقع میسر نہیں ہیں۔ روٹی، کپڑا، اور مکان جیسی کم از کم آئینی ضمانت بھی ان پر لاگو نہیں ہوتی۔ شرح خواندگی بہت کم ہے۔ حال یہ ہے کہ تقریباً 43 فیصد مسلم آبادی ناخواندہ ہے۔ 2001 میں مسلمانوں میں ناخواندگی کا تناسب 42.5 فیصد تھا اور اب یہ 42.7 فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اتنے طویل عرصہ میں صرف 0.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد پر ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ حکومتوں نے اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے لیے کتنی کوششیں کی ہیں اور کر رہی ہیں۔ پانچ سے نو سال کی عمر کے صرف 50 فیصد مسلم بچے ہی اسکول جاتے ہیں۔ ان میں بھی بڑی تعداد میں ڈراپ آو¿ٹس ہورہے ہیں۔ یہاں پر ستم کی بات یہ ہے کہ مسلم اقلیتوں کی پسماندگی کی جتنی وجہ تعلیم کی کمی ہے، اتنی ہی معاشی پسماندگی بھی۔ ان دونوں کے درمیان گہرے تعلق کی وجہ سے دونوں طرف سے نقصان کا شکار ہورہے ہیں۔ حکومت اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتی، اور مسلمان اپنے بچوںکو کارپوریٹ اسکولوں میں پڑھا نے کی مالی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ ہے صورت حال۔ مشکلات اٹھاکر کسی نہ کسی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل بھی کی تو نوکری حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ انہیں نہ صرف سرکاری ملازمتوں میں بلکہ خانگی شعبہ میں بھی نوکریاں نہیں ملتیں۔ سب سے بڑا امتیازی سلوک یہ ہے کہ HRD جیسے محکمے غیر سرکاری طور پر مسلمانوں کو ملازمتیں نہ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ حالات اتنے خراب ہیں تو مسلمانوں کی فلاح کیسے ممکن ہے؟ جہاں تک اعلیٰ سطح کی ملازمتوں کا تعلق ہے، آئی اے ایس میں 3.0 فیصد، آئی ایف ایس میں 1.8 فیصد، آئی پی ایس میں 4.0 فیصد، ریلوے میں 4.5 فیصد، محکمہ پولیس میں 6.0 فیصد، محکمہ صحت میں 4.0 فیصد، محکمہ ٹرانسپورٹ میں 6.5 فیصد اور محکمہ انصاف میں 7.8 فیصد مسلمان ہیں۔ مجموعی طور پر مسلم اقلیتوں کی صورتحال بالکل تسلی بخش نہیں ہے۔ جسٹس راجندر سچر کمیٹی کی رپورٹ کے باب 9 نے بھی اس نکتے کو واضح کیا ہے۔ جہاں تک سیاسی نمائندگی کا تعلق ہے، لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ارکان کی کل تعداد 790 ہے۔ ان میں سے صرف 51 مسلمان ہیں۔ راجیہ سبھا کے 245 ممبران میں سے 24 اور لوک سبھا کے 545 میں سے27 ممبران مسلم اقلیت سے ہیں۔ اس سے صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے۔ قانون ساز اسمبلیوں میں بھی ان کی نمائندگی اس سے مختلف نہیں ہے۔ ملک بھر میں اگر 4000 سے زیادہ قانون ساز ہیں تو مسلمان 400 بھی نہیں۔ تقریباً پندرہ ریاستوں میں ایک بھی مسلم رکن اسمبلی کی نمائندگی نہیں ہے۔ مجموعی طور پر کسی بھی شعبے میں مسلم اقلیتوں کی نمائندگی بالکل تسلی بخش نہیں ہے۔
اگر ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریتی برادری کے لوگ تمام شعبوں میں اس طرح کے پچھڑے پن کے ساتھ مصائب کا شکار ہوں، تو کیا اس ملک کی آزادی، تہذیب اور ترقی کے کوئی معنی رہ جائیں گے؟ کیا یہ ہندوستان جیسے سیکولر اور جمہوری ملک کے لیے انمٹ نشان(دھبّا) نہیں ہے؟ بہت سی قربانیوں سے حاصل کیے گئے آزاد ہندوستان میں اگر اقلیتوں کے تئیں امتیازی اور متعصبانہ پالیسیاں اسی طرح جاری رہیں تو یقینی طور پر ملک کی جمہوری روشنی تاریک ہو جائے گا۔ اسی لیے کئی کمیٹیوں، کمیشنوں نے اس حالت کو بدلنے، اور بہتر بنانے کی بات کہی۔ ان کے حالات زندگی، پسماندگی اور اس کی وجوہات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا ہے۔ مسائل کا حل بھی تجویز کیا اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کی سفارش بھی کی ہے۔ جسٹس گوپال سنگھ کمیشن سے لے کر جسٹس راجندر سچر کمیشن تک یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم کمیونٹی ملک کے کسی بھی پسماندہ طبقے کے مقابلے زیادہ پسماندہ، مظلوم اور مواقع سے محروم ہے۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ اس بدحالی کی بنیادی وجہ حکمران طبقات ہیں۔ تمام پارٹیوں نے مسلمانوں کو محض ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرکے فائدہ اٹھایا۔ سوائے ہوائی باتوں کے کہیں بھی اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے تئیں اخلاص کا کوئی ناموں نشان نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تمام کمیٹیاں اور کمیشن صرف دکھاوے کے لیے قائم کی گئیں، کیونکہ جسٹس سچر کمیٹی کو اپنی رپورٹ پیش کیے سولہ سال گزر چکے ہیں۔ درحقیقت آزاد ہندوستان کا تصور تب ہی مکمل ہوگا جب ملک کے تمام طبقات کے لوگوں کو حقوق، مواقع اور ترقی کے ثمرات ملیں، جن کے وہ قانونی اور آئینی طور پر مستحق ہیں۔ ‘آزادی کے ثمرات، یکساں مواقع سب کے لیے’ کی آئینی ضمانت جب ہی رنگ لاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر ملک کے عوام کا کوئی بھی طبقہ امتیازی سلوک، تعصب، جبر، مواقع کی کمی اور ناانصافی کا شکار ہو تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہونا اور مہذب خصوصیات کے ساتھ ترقی کرنا ناممکن ہے۔
لہٰذا، حکمران جماعتوں کو کم از کم اب تو آنکھ کھولنا چاہیے اور ملک کے لوگوں، خاص طور پر ایس سی، ایس ٹی، بی سی، اقلیتی اور دوسرے کمزور طبقات کو آئین کے ذریعہ فراہم کردہ حقوق ادا کرنا چاہیے۔ ملک کے دیگر پسماندہ طبقات کی ترقی کے لیے جو اقدامات کیے جاتے ہیں، ایسے ہی اقدامات اقلیتوں کی فلاح کے لیے بھی کیے جائیں۔ مسلم کمیونٹی کو پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک سیاسی ریزرویشن دینا چاہیے۔ تمام شعبوں میں ان کی آبادی کی بنیاد پر مناسب نمائندگی دی جائے۔ جزوی فنڈز دینے کی بجائے ان کی فلاح و بہبود کے لیے ایک جامع بجٹ مختص کیا جائے۔ جس طرح ایس سی، ایس ٹی کے لیے انسداد مظالم کا قانون ہے، اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی قانون لایا جانا چاہیے۔ سب پلان پر عمل کیا جائے۔ اقلیتی کارپوریشن، اقلیتی تعلیمی بورڈ، مسلم پرسنل لا، اردو اکیڈمی، وقف بورڈ کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ وقف اراضی اور دیگر جائیدادیں جو پہلے ہی ہڑپ لی گئی ہیں، ان کو قبضے سے واپس لیا جائے۔ اگر یہ نا ممکن ہوتو، حکومت اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس کا معاوضہ ادا کرے۔ تعلیم، روزگار، معیشت، سماجی اور سیاست کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کو مناسب اور قانونی نمائندگی دی جائے۔ حکمرانوںکو اگر ملک، ملک کے عوام اور اقلیتوں کے تئیں کوئی ذمہ داری کا احساس ہے، تو کم از کم جسٹس سچر کی سفارشات کو فوراً نافذ کر کے اخلاص کا ثبوت دیں۔تلنگانہ میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے وعدے کو کاغذوں تک محدود نہ رکھیں۔ اس کو عمل میں لایا جائے۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر، جنہوں نے 12 فیصد ریزرویشن کا وعدہ کیاتھا، ان سے اس تعلق سے سوال کیا جانا چاہیے۔ مسلم قائدین کو چاہیے کہ چیف منسٹر پر دباو¿ ڈالیں، ریزرویشن کے حصول کے لیے مخلصانہ کوشش کریں۔ مسلم کمیونٹی کو بھی اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی آئے اور کچھ کرے۔ وہ خود اٹھے، اپنے آئینی حقوق کے لیے لڑے۔ جمہوریت کے چاہنے والوں، حقوق کے علمبرداروں، سیکولرزم اور ملک کی عوامی قوتوں کے ساتھ مل کر حکومتوں پر دباو¿ ڈالیں تاکہ حکمران جماعتیں کچھ حرکت میں آئیں۔ مسلم قائدین اور تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ایک متحدہ لائحہ عمل تیار کریں اور جمہوری قوتوں، ہم خیال لوگوں، تنظیموں، سیاسی جماعتوں، عوامی انجمنوں اور سول سوسائٹی کے تعاون سے منظم تحریک چلائیں۔ جب تک متاثرہ طبقے میں شعور پیدا نہیں ہوتا، حکمران جماعتیں انہیں ووٹ بنک سمجھ کر چھوٹے موٹے احسانات سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں شعور کے ساتھ سرگرمی پیدا کرنی ہوگی اور عمل کی طرف آگے بڑھنا ہوگا۔

a3w
a3w