مضامین

مٹ گئے آپ ہی ،عظمت کو گھٹانے والے

سید توفیق عبید سبیلی

احتجاج ایک جمہوری اور انسانی حق ہے۔کسی بھی مخلوق کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتی ہے۔اگر کسی کے سامنے اس کی محبوب چیز کو نقصان پہنچایا جائے، یا اس کے محبوب کی اہانت کی جائے تو اس پر اس کا غصہ ہونا ایک فطری بات ہے۔اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ جس سے جس قدر زیادہ محبت ہوگی، اس کے بارے میں انسان اتنا ہی حساس ہوتا ہے،اس کے خلاف چھوٹی سی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔پوری دنیا کے مسلمان ابتداء اسلام سے ہی اپنے نبی ﷺ کے ساتھ اپنے مال،جان مانباپ اور اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں،جس محبت کا اندازہ اور تصور دنیا کو نہیں ہے،کیوں کہ وہ محبت کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی ہے۔یہ اسلام کے حق اور سچ ہونے کی ایک واضح دلیل ہے۔ دنیا کے دیگر مذاہب میں اس کا کوئی شمّہ بھی نہیں پایا جاتا۔اسی وجہ سے ان مذاہب کے ماننے والے اکثر لوگ بوکھلاہٹ کا شکار رہتے ہیں اور آئے دن کچھ نہ کچھ ایسا کرتے رہتے ہیں جس سے ان کی اسلام دشمنی آشکارا ہوتی رہتی ہے۔اس کے پس پردہ ایک اور وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اکثر لوگ شہرت کے بھوکے ہوتے ہیں، اس کے لیے کسی طرح کی بھی حرکت کرنے سے گریز نہیں کرتے اور پوری دنیا میں سب سے آسان طریقہ مشہور ہونے کے لیے یہی کہ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے تعلق سے کچھ ہفوات بک دی جائیں یا کچھ خیالی تصویریں بنادی جائیں اور ان کو اپنی سستی شہرت کا ذریعہ بنا کر راتوں رات گمنامی سے شہرت پاجائیں۔میرا اپنا یہ خیال ہے کہ دنیا کے لوگوں کے لیے اسلام اور پیغمبر اسلام ہی ہر مرض کی دوا ہیں۔اس کے بغیر ان کا گزارا ہی نہیں ہے۔چا ہے وہ سیاستداں ہو یا فنکار یاکوئی اور ہرایک کی نیا پار لگنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ابھی چند دنو ں پہلے ہمارے شہر میں ایک دریدہ دہن اور ناہنجار قسم کے انسان نے اپنی اناپ شناپ سے پورے شہر کو ایک انارکی کی طرف ڈھکیل دیا اور بالخصوص مسلم امہ کی دلآزاری کی۔مسلمانوں کے لیے اپنے نبی ﷺ کی حرمت سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں۔کوئی بھی مسلمان خواہ کتنی بے دینی میں مبتلا ہو اور دین سے دور ہو مگر نبی ؐ کی حرمت پر ایک حرف گوارہ نہیں کرسکتا۔اب یہ تو ہوگا کہ اس پر مسلمان سیخ پا ہوگئے اور شہر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے سارے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے، یہ ایک فطری امر ہے،جیسا کہ شروع میں بتایا کہ محبوب کے تعلق سے محب ذرا بھی بے احترامی کو برداشت نہیں کرتا۔ پورے شہر میں اس کے خلاف پرامن مظاہرے شروع ہوئے اور اس گستاخ ودریدہ دہن کو سزا دینے کا مطالبہ ہوا،جو ہونا بھی چاہیے اور اس پر حکومت وقت کو بھی سخت اقدام کرنا چاہیے تھا،مگر ایک دھوکہ مسلمانوں کو دیتے ہوئے حکومت نے چوہے بلی کا کھیل کھیلا،اور ایک دروازے سے گرفتار کیا اور دوسرے دروازے سے رہا کردیا۔معاملہ جب اتنا سنگین ہے تو اس کے سارے قانونی پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قدم اٹھانا چاہئے تھا،مگرچونکہ ملک کی بدقسمتی کہ اس طرح کا کوئی قدم حکومت نے نہیں اٹھایا۔شاید وہ اپنی آئیڈیالوجی سے مجبور تھی۔ہمیں بھی ان کی کرونولوجی سمجھنا چاہیے تھا، مگر ہم نہیں سمجھ سکے کیوں کہ حب نبویؐ کی ہماری کرونولوجی کو حکومت اور ان کے کارندوں اور نمائندوں نے نہیں محسوس کیا اور وہ مسلمانوں کے غم وغصہ کو نظر انداز کرتے رہے،جب مسلمانوں نے احتجاج کے ذریعہ اپنی ناراضگی جتائی تو ان کوہی گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا۔ یہ عجیب منطق ہے کہ جو منبع فساد ہے ابتداء میں اس کا تحفظ کیا گیا اور مسلمانوں کو گھروں میں بند کیا گیا اور ان کو ہی صبر وسکون کی تلقین کی گئی۔ ریاستی حکومتوں کا کام یہ ہے کہ وہ ملک کے دستور کے مطابق کام کریں اور اس میں کسی رعایت کا کرنا سارے عوام کے لیے باعث مصیبت بن جاتا ہے۔۔یہ بات جگ ظاہر ہے کہ کسی ملک میں کوئی قانون بنتا ہے تو وہ سب کے لیے یکساں ہوتا ہے، اس میں ذات،مذہب،غربت وامارت کو نہیں دیکھاجاتا مگر چونکہ ہمارے ملک میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے اس لیے یہاں کے اکثر قوانین کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہوتا ہے، کیوں کہ ہرحکومت کو یقین ہے مسلمان ہی اصل میں قانون کے پابند ہیں۔بلاتخصیص حکومت کسی کی بھی ہواور قانون کوئی بھی پارٹی بنائے اس کا اصل نشانہ صرف مسلمان ہوتے ہیں۔ ان پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔حد ہے کہ ظلم بھی ان پر ہو اور مقدمہ بھی انہی پر ہو (الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے) کے مصداق۔اور ان مسلم جوانوں کے ساتھ پولیس کا جابرانہ اور متشددانہ رویہ بھی دیکھنے میں آیا۔ بے قصور نوجوان جو اس بدزبانی کے خلاف کہیں جمع ہوتے ہیں تو ان پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے اور دو راتوں تک تو بازار ودکان کو بند کردیا گیا اور جب مسلمان جمع ہوکر اس ملعون کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے لگے تو ان نوجوانوں کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس سے آگے بڑھ کر ظلم کا معاملہ یہ ہوا کہ کئی لوگوں کو گھروں سے نکال کر مارپیٹ کرتے ہوئے حوالات میں بند کردیا گیا،اس میں کئی نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ کسی طرح کی خلاف قانون سرگرمی نہیں کررہے تھے بلکہ دستور کے مطابق قانون کے نفاذ کا مطالبہ کررہے تھے۔دنیا میں جتنے ممالک ترقی یافتہ کہلاتے ہیں ان سب جگہ پر بلا رو رعایت انصاف کی فراہمی ہے۔اسی میں ان کی ترقی کا راز ہے اور ہم اپنے انفراسٹرکچر اور تعمیرات میں ان کی نقل کرنا چاہتے ہیں لیکن جن وجوہات کی بنا ء پر وہ ممالک ترقی کررہے ہیں اس سے کوئی سبق لینا نہیں چاہتے۔قانون کے نافذ کرنے والے ہی جب قانون کو اس طرح پامال کریں گے تو کس سے امید کی جائے گی کہ وہ قانون کا لحاظ کرے،جس کی وجہ سے سارا فساد ہے، اس کا ابتداء میں تحفظ کیا گیا اور اس کو ہر ممکن طریقہ سے بچایا گیا۔سابق میں بھی اس نے کئی مرتبہ اسی طرح کی نفرت انگیز باتیں کی ہیں، لیکن اس پر کوئی سخت ایکشن نہیں لیا گیا۔جس شخص سے کسی کی بھلائی نہیں ہوتی،اس کو اس طرح آزاد نہیں چھوڑنا چاہیے،کیونکہ اس سے پورے ماحول ومعاشرے کو نقصان ہے۔اگر اس نے اپنی توجیہ کے مطابق صحیح بات کہی ہے تو پھر اس کو ببانگ دہل ان جگہوں پر جاکر ان کے سوالات کا جواب دینا چاہیے جہاں اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اور جہاں کی پولیس نے اس پر مقدمہ درج کیا ہے۔سیکولر جمہوریت میں حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اور سبھی مذاہب کو یکساں احترام دیا جاتا ہے۔اب تک ملک میں اسی طرح کا رواج تھا اورکسی بھی مذہب اور ان کے مقدسات ومحترمات پر کوئی ہرزہ سرائی نہیں کی جاتی تھی،مگر جب سے نیا بھارت بننا شروع ہوا ہے، سارے قوانین الٹ گئے ہیں۔اب انسانی جان ومال کا کچھ تحفظ ہے نہ کسی مذہب کا احترام باقی ہے۔اور اس پر مستزاد حکومت کا ان شرپسندوں کے ساتھ نرم رویہ ہے جو اس کی ذہنی پستی کو نمایاں کرتا ہے۔مزید ستم یہ کہ جو اس کے خلاف آواز اٹھائے اس کو پس دیوار زنداں کرنا یہ ان کی بدنما طرز حکمرانی کو عیاں کرتا ہے۔ ملک کی موجودہ مرکزی حکومت کا جس پارٹی سے تعلق ہے، ان کے نمائندوں کی وجہ سے پورے ملک کی دنیا بھر میں ہورہی بدنامی کو حکومت اور اس کے اعلیٰ عہدیدار محسوس بھی کررہے ہیں،ریاستی اور مرکزی حکومتیں ابھی ایک ہی صف میں نظر آرہی ہیں۔حالانکہ تلنگانہ کے مسلمانوں نے موجودہ حکومت کو ایک سیکولر مانا تھا اور مسلم دوست خیال کیا تھا مگر ہر مرتبہ مسلمانوں کو یہی حقیقت بتائی جاتی ہے کہ۔ع۔
ایں خیال است ومحال است وجنوں
ّٓ اس پورے معاملہ میں اگر دیکھا جائے تو حکومت کا ہی قصور نظر آتا ہے۔اسی نے گویا شہد لگانے کا کام کیا،پھر آگے کا جو قضیہ ہے وہ سب کے علم میں ہے۔اس کے رد عمل میں اس نے یہ سب کچھ کیا۔جب اس ملعون کی دوبارہ گرفتاری ہوئی اس نے اسی بات کو دہرایا کہ اس مسئلہ کے اصل ذمہ دار حکومتی وزراء ہیں۔اس کامیڈین کا اس شہر میں آنا گویا انہوں نے اپنی انا کا مسئلہ بنایا تھا۔اس کا نقصان سارے عوام کو ہورہا ہے۔خصوصا مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے۔اور پھر حکومت نے اپنی تساہلی سے ایسا طریقہ اختیار کیا ہے کہ جس سے مسلمانوں کا غصہ اور ابل پڑا،اگر حکومت سنجیدگی سے کام لیتی تو اس طرح حالات بگڑتے ہی نہیں تھے،مگر چونکہ اب حکومتوں کامنشاء کسی طرح انتخاب جیتنا اور حکومت حاصل کرنا ہوگیا ہے،اس کے لیے کسی بھی قدم کے اٹھانے سے گریز نہیں کیا جارہا ہے۔حالانکہ رعایا کے ساتھ اچھے سلوک کے نتیجہ میں حکومت ازبخود حاصل ہوسکتی ہے،مگر حکمرانوں کو یہ فارمولا نظر نہیں آتا۔اب تو ہر سیاسی پارٹی کو یہ بات ذہن نشین ہوچکی ہے کہ انتخابات میں کامیابی فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذریعہ ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔اپنے اچھے کاموں او رعوام کے دلوں کو جیتنے کے بجائے خوف ونفرت کا ماحول اور فتنہ وفساد کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔اس کے لیے سب سے نرم نوالہ مسلمان ہی ہیں کہ کسی طرح ان کو مشتعل کیا جائے اور اکثریتی فرقہ کو خوش کیا جائے تاکہ ان کے ووٹ حاصل ہوسکیں، ادھر مسلمانوں کی اشک شوئی کے لیے گرفتاری کا ڈھونگ رچا جائے،تا کہ ادھر کے ووٹ بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ع۔
خوش رہے رحمان بھی راضی رہے شیطان بھی
کے مصداق موجودہ ریاستی حکومت کا طرزعمل ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کو اپنا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے،اور جب ہمارے ہاتھ میں ان کا حساب لینے کا وقت آئے بھر پور طریقہ سے اس کا بدلہ لینا چاہیے اور آنے والے انتخابات میں ان کو اس بات کا احساس کرانا چاہیے کہ مسلمان اگر کسی بات پر متفق ہوجائیں تو ان کو تخت پر بٹھا بھی سکتے ہیں اور اتار بھی سکتے ہیں،نبیؐ کی عظمت صرف مسلمانوں کو ہی نہیں ہر شخص کو کرنا چاہیے یہ بات سارے زمانے کو سمجھانا بھی ہم مسلمانوں کا کام ہے۔ہمارے شہر کے ہی ایک شاعر نے بہت بہترین انداز میں اس کو سمجھایاہے۔ع۔
کیا بگاڑیں گے شہہ دین کا زمانے والے
مٹ گئے آپ ہی،عظمت کو گھٹانے والے
اپنے آقا پہ ہیں قربان ہماری جانیں
خود پریشان ہیں اب ہم کو ستانے والے