مفتی رئیس قاسمی مدہولی
کرناٹک الیکشن کے نتائج سے قبل تلنگانہ میں بی آریس کے مقابلہ میں کانگریس کا دور دور تک نام ونشان نہیں تھا جیسے ہی کانگریس نے کرناٹک پر اپنی کامیابی کا پرچم لہریااسی کے ہی ساتھ تلنگانہ کی سیاست میں اچانک تبدیلی دیکھنے کو مل رہی تکوڑگوڑاجلسہ عام کی غیرمعمولی کامیابی نے کانگریس کی امیدیں بڑھادی ،کرناٹکاجیتنے کے بعد کانگریس قائدین اور کیڈرمیں جوش وخروش میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے ، کچھ مہینے پہلے تک یہ سمجھا جارہاتھا کہ مقابلہ دراصل بی آریس اور بی جے پی کے درمیان ہونے جارہاہے لیکن اب جبکہ کانگریس کے حق میں ماحول تیزی کے ساتھ بدلتادکھائی دے رہاہے اس لحاظ مقابلہ مقابل کانگریس اوربی آریس کے درمیان دکھائی دے رہاہے ، بی جے پی میں موجود قائدین بی جے پی کے دن بدن کمزور ہوتے موقف سے پریشان ہوکر کانگریس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی تیاری میں ہے سیاسی مبصرین کی مانے تو تیس قائدین ایسے ہیں جو بی جے پی کو چھوڑکرکانگریس میں شامل ہونے کی فراق میں ہیں ، جو قائدین کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیارکئے ہیں جیسے نرمل مستقر کے مہیشورریڈی ،حلقہ مدہول راماراوپاٹل یہ اپنے فیصلے پر پچھتارہے ہیں بی جے پی میں شمولیت کو وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی بھول گردان رہے ہیں انکا یہ فیصلہ نہ نگلتے بن رہاہے نہ اگلتے بن رہامرکزکی ناکام بی جے پی حکومت کا اثرتلنگانہ پر کافی دکھائی دے رہاہے اور بی جے پی اپنی عوامی گرفت بتدریج کھوتی جارہی ہے ،کے سی آر کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کرنے والے بنڈی سنجے کو اچانک تبدیل کردیا گیا جس سے بی جے پی قائدین اور بی جے پی ووٹرس میں غلط پیغام گیا اور عوام اس اقدام کو بی جے پی اور بی آریس کے درمیان خفیہ مفاہمت سے تعبیر کررہی ہے ، تلنگانہ بی جے پی قائدین میں آپس میں گروپ بندیاں گھل کر سامنے آرہی ہیں نیزایک دوسرے کی شکایتیں بھی زوروں پرہے ، فلم اسٹار سے سیاست دان بنے والی اداکارہ وجے شانتی نے اپنے ہی پارٹی کے قائدین وکارکنان کے خلاف الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے قائدین ہی میڈیا میں ان کے خلاف افواہوں کا بازارگرم کررہے ہیں وہ ان کی اس طرح کی حرکتوں سے نالاں ہیں بتایاجارہاہے کہ بی جے پی قومی عاملہ کے رکن سابق رکن پارلیمنٹ جی ویویک کی قیام گاہ پرپارٹی کے سینئرقائدین کا ایک اجلاس منعقد ہواجس میں رام موہن راوچاڈاشریف ریڈی ، راج گوپال ریڈی ، سابق وزیرڈاکٹروجے راماراو، رویندر نائک ، سابق رکن اسمبلی اے رویندرریڈی کے علاوہ دیگر نے شرکت کی مذکورعہ اجلاس میں امیت شاہ سے صرف بنڈی سنجے ،جی کشن ریڈی اور ایٹالہ راجندرسے ملاقات کرنے اور دیگر قائدین کو نظر انداز کرنے پر ناراضگی ظاہر کی گئی اس سے دو اور دو کی طرح واضح ہوچکا ہے کہ تلنگانہ بی جے پی میں سکت باقی نہیں رہی کہ وہ بی آریس سے حکوت چھین سکے تاہم کانگریس اس موقف میں آچکی ہے کہ بی آریس کو سخت ٹکر دے سکتی ہے کرناٹک کے مسلمانوں نے مرکوز رائے دہی کرتے ہوئے کانگریس کیلئے اقتدارحاصل کرنے کی راہ کو سہل بنادیااور تلنگانہ کے مسلمان کرناٹک کے مسلمانوں کو مشعل راہ بناکر مرکوز رائے دہی کرتا ہے خاص طورپر اضلاع کے مسلمان تو بی آریس کا تیسری مرتبہ اقتدارپر لوٹنامشکل ہی نہیں محال ہوجائے گا ۔
مسلمان مرکز کی بی جے پی حکومت کی فرقہ پرستی سے نالاں ہیں ،وہ تمام واقعات اس کے سامنے ہیں جو مودی سرکارکے نوسالوں میں مسلمانوں کے خلاف رونماہوئے چاہے موب لنچگ ہو ، ناحق مسلمانوں کے گھر بلڈوذرسے ڈھادینے کے واقعات ہو ںیاپھرمسلم عبادت گاہوں کی بے حرمتی ہو یاپھر حجاب پر پابندی جیسے واقعات ہو سب کچھ مرکز میں بی جے پی کی حکومت کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں وہ اسے فراموش کرنہیں سکتا ایک عبدالباری نامی شخص جو کہ سادہ ساکسان ہے اس کے ذہن کو ٹٹولنے کی غرض سے میں نے دریافت کیا کہ کس کی حکومت چاہتے ہیں بلاتامل ان کی زبان سے نکلا کہ کانگریس کی حکومت‘ میں نے کہا کہ پھر تو بی آریس کی تمام اسکیمات سے ہاتھ دھونا پڑے گا ،ریتوبندھوبھی ختم ہوجائے گی، وظیفہ بھی بند ہوجائے گا توکہنے لگے مرکز سلامت تو ساراملک سلامت ملک اور قومی سلامتی کے سامنے مذکورہ تمام اسکیمات قربان بایں معنی کہ مسلم ووٹرس کا ذہن کانگریس کی طرف بڑھ رہاہے وہ فرقہ پرست حکومت کی بلا کو دفع کرنے کیلئے کوشاں نظر آرہاہے ویسے ریاستی سطح پر بی آریس نے بھی امن کو برقراررکھنے میں ایسے وقت میں کامیاب رہی جبکہ سارے ملک میں نفرت کی آندھیاں چل رہی تھیں مذہب کے نام پر اذیتیں دی جارہی تھیں بلا مذہب وملت اسکیمات پہنچانے میں کے سی آرکامیاب رہے لیکن مرکز سے بی آریس کی مفاہمت کو بھی تلنگانہ کا مسلم ووٹرس محسوس کررہاہے اس کے سامنے تین طلاق بل کی مخالفت نہ کرنا نوٹ بندکو مودی کا مستحسن قدم قراردیناملک میں مسلمانوں پر ہورہے ظلم وستم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا جیسے بی آریس کے کارنامے نگاہوں کے سامنے ہیں ، سیکریٹریٹ کی مساجد کو شہید کرنا گو کہ دوبارہ تعمیر کردیا گیا تاہم شہید کرنے کے مجرم تو ضرور ہیں اسے تلنگانہ کے مسلمان فراموش نہیں کرسکتے ۔بی آریس کے سربراہ کے چندرشیکھرراوحکو مت کھونے کا جھوکم نہیں مولنا چاہتے ہیں تو انھیں جنگی خطوط پرایسے کام کرنے ہونگے جس سے مسلمانوں کا اعتماد بی آر ایس کے تئیں بڑھے اور کانگریس کی طرف بڑھتے ہوئے قدم رک جائے ، اردوداں طبقہ‘ اردوکے ساتھ ہورہی ناانصافیوں سے کے سی آر حکومت سے سخت ناراض ہے اردوکہنے کوتوتلنگانہ کی دوسری سرکاری زبان ہے لیکن اسے ختم کرنے میں بی آریس حکومت نے کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی ،اردواکیڈمی ہی کو لے لیجئے کیا درگت بنادی گئی غیراردوداں کا تقرر اردواکیڈمی پر شب خون مارنے کے مترادف ہے کیاخاک اردو ترقی کرے گی ،کانگریس گورنمنٹ میں اردوکمپیوٹرسنٹرقائم کئے گئے تھے سب برخواست کردئے گئے جناب اکبر الدین اویسی قائد مقننہ کی نمائندگی پر آئمہ مساجد کیلئے اعزازیہ کی اسکیم متعارف کرائی گئی اور اس میں اضافہ بھی کیا گیا تھا لیکن اس کی اجرائی میں ناصرف تساہلی برتی جارہی ہے بلکہ اس میں دھاندلیوں کی شکاتییں بھی موصول ہورہی ہیں کئی اماموں کے اعزازیہ دودومہینے کے ہڑپ لئے گئے وقف بورڈکے عہدیداروں سے بارہانمائیدگیوں کے باوجود انھیں ناکامی ہاتھ آئی اس کے علاوہ چھ چھ مہینے کے اعزازیہ باقی ہیں کے سی آر صاحب کو یہ سمجھنا لازمی ہے کہ آئمہ مساجد بھی حکومت بنانے اور گرانے میں اہم کردار اداسکتے ہیں ان کے مسائل کو نظر انداز نہ کریں پابندی سے ہر ماہ اعزازیہ کو جاری کریں اور ان کے لئے فری بس پاس کی سہولت بھی مہیا کریں اس کے علاوہ بی آریس حکومت نے اردوصحافیوں کو بھی یکسر نظر انداز کردیا انھیں اکریڈیٹیشن کارڈکی اجرائی میں تساہلی سے کام لیا جی او239لاکر اردوصحافیوں اور اردوچھوٹے اخبارات پر شب خون ماراہے حکومت کے اسکیمات کی تشہیر میں اردواخبارات بڑا اہم رول اداکرتے ہیں مسلمانوں کا بڑا طبقہ آج بھی اردواخبارات کے مطالعہ کا عادی ہے اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ نیز ایوان اسمبلی میں پارٹی کی طرف سے مسلمانوں کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ان حلقوں سے مسلم نمائندوں کو ضرور نمائندگی دے جہاں باآسانی مسلم نمائندہ اپنی جیت درج کراسکتا ہے جیسے حالیہ دنوں میں ضلع نظام آبادکے تمام ہی علماء نے متفقہ طور پر جمیعت علماء ارشد مدنی گروپ کے صدرجناب حافظ لئیق خاں کو بطور مسلم نمائندہ کے پیش کیا ہے اور تمام سیکولر پارٹیوں سے کہا کہ وہ مسلمانوں کے ووٹ چاہتی ہیں اورریاست بھر میں علماء کی تائید کے خواہش مند ہیں تو ضلع نظام آباد مستقر سے اسمبلی کا ٹکٹ دیں اگر ایساہوگا تو ریاست بھر کے علماء کی تائید بی آریس کو حاصل ہوگی ہے اگر انکار کرتی ہے اورکانگریس آگے آکر مسلم نمائندہ کے ٹکٹ کا اعلان کرتی ہے تو کانگریس کے حق میں ریاست بھر میں علماء کی تائید اسے ملے گی اور بی آریس کے لئے خطرہ ہوگا ۔
تلنگانہ میں مقابلہ سہ رخی ہونے جارہاہے بی آریس ، کانگریس اور بی جے پی کانگریس کے سپریموراہل گاندھی کی مانیں تو انھوں نے ایک چینل کے انٹرویومیں عندیہ ظاہر کیا کہ ہم شاید تلنگانہ جیتنے جارہے ہیں حالیہ دنوں میں ایک سروے رپورٹ آئی ہے اس میں بی آریس کی حکومت بنتے دکھایا گیا لیکن اس کا تفصیلی جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ بی آریس اورکانگریس میں زیادہ فاصلہ باقی نہیں رہاالیکشن کی تاریخ آتے آتے کانگریس کی طرف ہواکا رخ مڑجائے تو کے سی آرکا ہیٹرک کرنا ایک خواب بن کر رہ جائے گا سروے کی تفصیلات کچھ اس طرح ہے کہ یہ سروے یکم ستمبرسے 15ستمبرکے درمیان کئے گئے 18سے35، 36سے45، 46سے65سال کی عمر سے نمونے لئے گئے جن میں52%مردحضرات اور48%خواتین شامل ہیں اس سروے میں 36%افراد نے بی آریس کے حق میں تائیدکا اعلان کیاہے اس اعتبار سے دیکھیں تو بی آریس حکومت بنانے کے موقف میں آج بھی مضبوط ہے لیکن ایک اور بات چونکانے والی اس سروے میں یہ آئی کے دوسرے نمبر پر کانگریس پارٹی کوعوام کی تائید ملتی ہوئی نظر آرہی ہے سروے رپورٹ میں کانگریس کے حق میں 31%لوگوں نے اپنی تائید کا اعلان کیا ہے اس لحاظ سے کانگریس اپنے مظاہرہ وکارکردگی کو حیرت انگیز طورپر سدھاراہے اگر حالات آگے کانگریس کے حق میں بنتے ہیں توبی آریس کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں بی جے پی تیسرے پائیدان پر پہنچ چکی ہے اس کے حکومت بنانے کے امکانات دور دورتک نظر نہیں آتے ہیں اس لئے راہل گاندھی لفظ شاید کا استعمال کیا ہے اسی امکان پر کے جوں جوں الیکشن سے قریب ہوتے جائیں گے ویسے ویسے امکانات میں بھی اضافہ ہوگا بہرحال کانگریس کا تلنگانہ میں حکومت کا خواب دیکھناآسانی سے شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰