سید سرفراز احمد
جب حکومت اپنی رعایا سے عدل کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتی عوامی مفادات کو ملحوظ نہ رکھتی ہو اور فیصلوں میں توازن کا فقدان پایا جاتا ہو تو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسی حکومت ناکامی کے ادنی درجہ کے خط کوبھی پار کرچکی ہے ایک کامیاب اور ناکام حکومت میں یہی امتیاز ہوتا ہیکہ کامیاب حکومت رعایا کی خوشحالی کے فیصلے لیتی ہے اور ناکام حکومت اپنی تانا شاہی میں مگن ہوجاتی ہے جو جمہوری ملک میں جمہوریت کو ریزہ ریزہ کرتے چلے جاتے ہیں جنکی آخری منزل زوال پر آ پہنچتی ہے ۔تاریخ کے اوراق میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو اقتدار کی مسند پر تانا شاہی کے فیصلے سناکر عوام کا اعتماد کھوتے ہوئے تنزل کا شکار ہوئے ہیں لیکن صاحب اقتدار ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے اور آخر کار خمیازہ بھگتنا ہی پڑتا ہے کچھ اسی طرح ہمارے ملک کی موجودہ مرکزی حکومت پچھلے دس سالوں سے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہے جواپنے کئی ایک غلط فیصلوں سے آہستہ آہستہ اپنی رعایا کا اعتماد کھو رہی ہے کہا جاتا ہے جب وقت بدلہ لینا چاہتا ہو تو تب ہوش مند آنکھوں پر بھی غفلت کاپردہ حائل ہوجاتا ہے اگر یہ مثال موجودہ مرکزی حکومت کیلئے لی جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کیونکہ ابھی تک ملک کی مرکزی حکومت نے ایسے ایسے فیصلے صادر کیئے ہیں جس سے ملک کی اکثریت کو قبول نہیں تھے چونکہ ایک عام انسان کی اپنی ذات کا ایک غلط فیصلہ اسکی زندگی تباہ و برباد کرسکتا ہے تو ایک وقت کی حکومت کا ایک غلط فیصلہ پورے ملک کو کھائی میں ڈھکیل سکتا ہے جسکی وجہ سے ملک ترقی کے معاملہ میں کئی دہوں کیلئے پیچھے چلاجاتا ہے تو ہم اندازہ لگا سکتے کہ ملک کیلئے ایک فیصلہ بھی کتنی اہمیت کا حامل ہے لیکن ہمارے ملک کی مرکزی حکومت غلط فیصلوں میں سب سے نمایاں مقام کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور وشو گرو بننے کے خواب دیکھ رہی ہے جو بالکل خیالی پلاؤ کے مترادف ہے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فی الحال ملک میں مرکزی حکومت کے خلاف ملک کی اکثریت میں عدم اعتماد کی فضاء چل رہی ہے ۔
ابھی حال ہی میں مرکزی حکومت نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ہٹ اینڈ رن سے متعلق ایک قانون پاس کیایعنی جو بھی ڈرائیور ٹکر مار کر جا حادثہ سے فرار ہوجاتا ہے تو اسکے خلاف سخت قانونی کاروائی کرتے ہوئے دس سال جیل کی سزا اور سات لاکھ جرمانہ عائد کیا جائے گا جیسے ہی یہ قانون لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں منظور کرلیا گیا ملک بھر میں الگ الگ مقامات پر ڈرائیورس کے احتجاجی دھرنوں کا آغاز ہوگیا جس سے ملک میں افرا و تفری کا ماحول برپا ہوگیا ڈرائیورس کا ماننا ہیکہ کوئی بھی ڈرائیور کسی کو بھی جان بوجھ کر ٹکر نہیں مارنا چاہتا اور ہر حادثہ میں ڈرائیور کی غلطی نہیں ہوتی کیونکہ کوئی بھی حادثہ ایک حادثہ ہی ہوتا ہے ڈرائیورس کیلئے اتنی بڑی سزا کا تعین اور جرمانہ ناقابل برداشت بھی ہے اور غیر منصفانہ بھی اگر ہم اس قانون کا تجزیہ کریں گے تو بہت سی منفی باتیں سامنے آئیں گی ایک تو یہ کہ ملک کا کوئی بھی ڈرائیور ذاتی طور پر گاڑی کا مالک اور خود ڈرائیور ہونا جسکا تناسب بہت ہی کم پایا جاتا ہے اور جو ڈرائیورس ہوتے ہیں وہ معاشی طور پر بہت کمزور ہوتے ہیں لہذا وہ ایسے قانون کے آگے اسکی سزا اور جرمانہ ادا کرنا ان کیلئے ایک مشکل کام ہے سوال یہ بھی ہیکہ کیا اسطرح کے قانون کے نفاذ سے سڑک حادثات میں کمی آئے گی؟یہ ایک نا ممکن سی بات ہے چونکہ سڑک حادثہ جانتے بوجھتے نہیں ہوتے بلکہ اتفاقی طور پر ہوجاتے ہیں جسمیں کبھی ڈرائیور کی بھی غلطی ہوسکتی ہے یا حادثہ کا شکار ہونے والے کی بھی ہاں کچھ حد تک وہ حادثات جو ڈرنک اینڈ ڈرائیو کرتے ہیں اس قانون سے ایسے حادثات میں کمی آسکتی ہے لیکن اس کیلئے علحدہ قانون ہونا چاہیئے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق سال 2022 میں 47 ہزار سے زائد ہٹ اینڈ رن کے کیسس سامنے آئے ہیں جسمیں پچاس ہزار سے زائد افراد کی اموات ہوچکی ہے 140 کروڑ کی آبادی میں ہرسال پچاس ہزار افراد کی جان سڑک حادثہ میں جارہی ہے تو حکومت اس پر قابو پانے کیلئے دیگر وسائل کا استعمال کرسکتی ہے سڑکوں کی کشادگی فور وے کا ملک بھر میں وسیع جال پھیلانا گاڑیوں کی رفتار کو طئے کرنا یا طئے شدہ رفتار پر جرمانہ عائد کرنا یا دیگر وسائل کا استعمال کیا جانا چاہیئے لیکن اچانک سے ڈرائیورس کیلئے اسطرح کے قانون کا اطلاق کردینا ڈرائیورس کیلئے وبال جان ہے ڈرائیورس کا بھی اپنا خاندان ہوتا ہے انکے بھی اپنے بچے ہوتے ہیں کیوں حکومت نے ان سب کے بارے میں نہیں سوچا یا حکومت اس قانون کے اطلاق سے پہلے ڈرائیورس یونینوں سے بات چیت کرتی انکی بھی رائے لیتی لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے اراکین کی اکثریت کا استعمال کرتے ہوئے اس قانون کو منظوری کروادیا گیا حکومت کو انداز بھی ہوگا کہ اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد ملک کے ڈرائیورس یونین کی جانب سے جو احتجاج کیا جارہا ہے اس احتجاج اور دھرنوں سے ناصرف ڈرائیورس متاثر ہورہے ہیں بلکہ آمدورفت میں کئی ایک مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جسکا اثر گاڑیوں کے مالکین اور عام عوام پر بھی پڑ رہا ہے مطلب صاف ہیکہ ایک ڈرائیورس کے قانون نے شہر شہر گاؤں گاؤں عوام کو مشکلات میں ڈال دیا ہے دوسری طرف حکومت کہہ رہی ہیکہ یہ ابھی قانون نہیں بنا ہے حالانکہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اس قانون کو منظوری مل چکی ہے امیت شاہ نے خود کہا کہ ہم حادثات کو روکنے کیلئے ایک ایسا قانون لارہے ہیں جس سے ملک کی عوام کو فائدہ ہوگا لیکن کامیاب حکومت وہ ہوتی ہے جو ایسے قانون کا نفاذ کرے جس سے کسی بھی طبقہ متاثر نہ ہو ۔
ہمارے ملک کی موجودہ حکومت نے اپنے پورے دس سال دور حکومت میں کبھی بھی نئےقانون کا اطلاق کرتے وقت حکمت اور دانشمندی سے کام نہیں لیا سی اے اے ہونے دو یا کسان مخالف بل 370 کو ہٹایا جانا اسطرح کے دیگر قانون کو لاکر ملک کے باشندوں کو ذہنی طور پر ہراساں کیا گیا یہی مرکزی حکومت نے کسان مخالف بل لایا تھا اور جب کسانوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور یوپی الیکشن قریب تھا تب حکومت کو اس بل کو واپس لینا پڑا ابھی سی اے اے اور یکساں سول کوڈ کے شوشہ کا مرکزی حکومت پھر آغاز کرے گی اور آنے والے لوک سبھا انتخابات کیلئے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرے گی لیکن ابھی ملک بھر کے ڈرائیورس اس قانون سے خوفزدہ بھی ہیں اور غصہ بھی ہیں جس کا راست اثر آنے والے لوک سبھا انتخابات پر بھی پڑسکتا ہے چونکہ اس قانون سے صرف ایک ڈرائیورس طبقہ ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی عوام متاثر ہورہی ہے روزمرہ کی زندگی اور زرائع حمل ونقل کیلئے عوام پریشان حال ہے عوام میں مرکزی حکومت کے فیصلوں پر بھی ناراضگی دیکھی جارہی ہے جسکا اثر آنے والے لوک سبھا انتخابات پر بھی پڑ سکتا ہے اگر حکومت اس قانون میں تخفیف یاکچھ رد وبدل یا قانون کو منسوخ کرے گی تو سیاسی میدان میں دم بھرسکتی ہے لیکن ابھی تو ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت نے خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارلی ہے۔