مضامین

انفارمیشن ٹیکنالوجی کا عہد اور اساتذہ کی اہمیت و ذمہ داریاں

محمد محبوب

اساتذہ معمارِ قوم ہوتے ہیں۔ موجودہ دور کے تعلیمی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اب اساتذہ کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ایک طرف تو موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ جب کہ تعلیم کے بنیادی ذرائع قلم‘ کتاب اور بلیک بورڈ سے آگے بڑھتے ہوئے تعلیمی وسائل میں پروجیکٹر‘کمپیوٹر‘لیپ ٹاپ‘ ای بک، اسمارٹ فون بھی شامل ہوگئے ہیں۔ اب ہر بات و مسئلہ کو طلباء اساتذہ سے دریافت کر نے یا حوالہ جاتی کتابوں میں تلاش کر نے کی بجائے گوگل، وکی پیڈیا اور یو ٹیوب پر تلاش کر رہے ہیں۔ یوٹیوب اور گو گل سر چ انجن گو یا اساتذہ کا متبادل بن چکا ہے۔اس کے با وجود بھی اساتذہ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اب طلباء تیز رفتار دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اسمارٹ فون اور کمپیوٹر چلانا جانتے ہیں۔ اب خانگی مدارس کے طلباء ٹیچر کے سامنے بیٹھ کر سبق کو سننے اور سمجھنے سے قبل اس سبق کے یا اس کے متعلق یو ٹیوب پر دستیاب ویڈیو ز کا مشاہدہ کر تے ہیں۔اس کے علا وہ کئی ایک ویب سائیٹس ہیں کہ جو تعلیم میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔ اکیسو یں صدی کے طلباء اب صرف اسکولی کمرہ جماعت تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ عالمی کمرہ جماعت میں داخل ہو چکے ہیں۔ آج یہ خوش آئندبات ہے کہ ٹیکنالوجی کے معاملہ میں طلباء اساتذہ سے کئی قدم آگے ہیں۔ ما بعد کورونا تعلیمی شعبہ میں آن لائن کلاسس کو بہت اہمیت حا صل ہوگئی ہے۔ ریاضی کے مشکل مسائل کا حل بھی طلباء انٹر نیٹ، یو ٹیوب پر تلاش کر رہے ہیں۔ اس لیے آج کے بدلتے تعلیمی منظر نامے میں اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی مختلف قسم کے ٹریننگ کورسز کرتے ہوئے اپنے آپ کو عصر ِحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ اگر اساتذہ کو کمپیوٹر چلانا نہیں آتا تو وہ عصر حاضر کے تقاضوں سے بہت پیچھے ہیں۔ اس لیے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ موجودہ دور کے تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔ ایک سائنس کا ٹیچر اگر ہضمی نظام کا سبق پڑھاتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے طالب علموں کو وہ ایسا ویڈیو بھی دکھائے جس میں ہضمی نظام کو سمجھایا گیا ہے۔ آج یوٹیوب پر اُردو اور انگریزی میں تعلیمی اسباق سے متعلق مختلف ویڈیوز دستیاب ہیں۔ جن کی جانب اساتذہ اپنے طلبا کی رہبری کرسکتے ہیں۔ Khan Academyنامی ویب سائٹ پر امریکی نوجوان سلمان خان گزشتہ کئی سال سے اسکول اور کالج کی سطح پر آن لائن ریاضی‘ طبعیات اور کیمیا کے اسباق پڑھارہے ہیں۔ ورچول یونیورسٹی ویب سائٹ پر کالج کی سطح کے مختلف ویڈیوز موجود ہیں۔ برٹش کونسل نامی سائٹ پر بھی مفت آن کلاسس ہوتی ہیں۔ نیشنل انفارمیٹک سنٹر سے ہندوستان بھر کے منتخب کالجوں میں ماہر اساتذہ کے لکچرٹیلی کاسٹ ہورہے ہیں۔ مناٹی وی پر تعلیمی لکچر پیش ہورہے ہیں۔اگر میں تلنگانہ کی بات کروں تو یہاں پر T-SAT کے ذریعہ روزانہ چار تا پانچ گھنٹے اسکولی نصاب اور مسابقتی امتحانات کے لیے مشترکہ مضامین کے ماہرین کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے لکچر نشر کیے جا تے ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنے آس پاس موجود ان علمی سہولتوں سے واقف ہوں اور انہیں موثر طریقے سے طلبا تک پہنچائیں۔ عموماََ سرکاری مدارس کے اساتذہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تنخواہ کا انتظار کرتے ہوئے دن گزارتے ہیں، لیکن ایسے ہی سرکاری اساتذہ میں کچھ ہیرے جیسے قیمتی اساتذہ بھی ہیں۔جو دل لگا کر تدریس کرتے ہوئے طلبا میں مقبول ہیں۔ ایک ایسے ہی استاد نے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے اپنے تعلیمی انداز کو مثال دے کر سمجھایا۔انہوں نے اپنی جیب سے ایک اسمارٹ فون نکالا جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس فون کو خریدنے کے لیے ایک ماہ کی تنخواہ صرف کی ہے۔ اس فون کی خوبی یہ ہے کہ اس میں چھوٹا پروجیکٹر ہے جس کی مدد سے فون میں موجود کسی بھی ویڈیو کو دیوار پر پیش کیاجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس فون کو اپنے کمرہ تدریس میں استعمال کرتے ہیں اور طلبا کو سبق سے متعلق تصاویر اور ویڈیو دکھاتے ہیں جس کی مدد سے ان کی تدریس موثر ہوتی ہے۔ انہوں نے دیگر اساتذہ پر بھی زور دے کر کہا کہ جب تک وہ اپنے سبق کو دلچسپ اور موثر نہیں بناتے اس وقت تک وہ ایک کامیاب معلم نہیں بن سکتے۔

موجودہ تعلیمی نظام میں کتابی تعلیم سے زیادہ فنی اور عملی تعلیم پر زور دیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ نصاب میں طلبا سے اسباق سے متعلق عملی کام اور پراجکٹ کروائے جارہے ہیں اور پرچہ سوالات میں بھی طالب علم کے مشاہدات پر مبنی سوالات پوچھے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر جغرافیہ کے سبق میں ہندوستان کا جغرافیہ پڑھانے کے بعد طالب علم سے اس کے علاقے کے جغرافیائی حالات پوچھے جاسکتے ہیں۔ کسی حادثے کو دیکھنے کے بعد کئے جانے والے عملی اقدامات کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اس لیے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبا کو موجودہ دور کی عملی مثالیں دیتے ہوئے تعلیم دیں۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ سبق کی بلند خوانی کروادی جائے اور طلبا سے کہا جائے کہ وہ ورک بک یا گائیڈ سے جوابات یاد کر لیں۔ اب تو طلباسے گفتگو کرنے اور ان سے مسئلے کا حل دریافت کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ دور کے اساتذہ بغیر تیاری کے کمرہ جماعت میں نہ جائیں اور وہ اپنی معلومات کو اس حد تک تازہ کرلیں کہ وہ آج کے دور کے طلبا کے مختلف سوالات کے موثر جوابات دے سکیں۔ کالج کی سطح کے طلبا کی تدریس کے لیے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبا کی نفسیات اور ان کے مشاغل پر توجہ دیں۔ آج کالج کا ہر طالب علم اپنے ساتھ اسمارٹ فون رکھتا ہے، اب طلبا کو فون سے دور رکھنا مشکل ہے۔ ایسے میں اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبا کو اسمارٹ فون کے مثبت استعمال کی جانب توجہ موڑیں۔ آج اسمارٹ فون میں بہت سے تعلیمی ایپس دستیاب ہیں۔ اردو کی مثال ہی لیجئے گوگل پلے میں کلیاتِ اقبال‘کلیاتِ غالب‘کلیات ِپروین شاکر‘ حکایات سعدی‘ اردو لغت اور دیگر دلچسپی کی کتابیں اور دیگر مطالعے کی چیزیں موجود ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ فون رکھنے والے طلبا کو ان ایپس کے حصول یا)شیر اِٹ(Shareit کے ذریعے منتقل کرنے کی ترغیب دلائیں اور اس کے مطالعے اور اس میں سے کچھ لکھوانے کی کوشش کریں۔ کلیاتِ اقبال سے منتخب اشعار لکھوانے کی ترغیب دلائی جاسکتی ہے۔ منتخب حکایات نامی کتاب سے پسندیدہ حکایات لکھوائی جاسکتی ہیں۔ اردو زبان کے فروغ میں اسمارٹ فون بھی اہم رول ادا کررہا ہے۔ اب فون میں اردو لکھنے کی سہولت موجود ہے۔ اردو میں گوگل سرچنگ کے ذریعے اردو کے بیش قیمتی مواد تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح طلبا میں تحریری وتقریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بھی اسمارٹ فون کارگر ہوسکتا ہے۔ گوگل میں دستیاب وکی پیڈیا سے کسی بھی موضوع پر معلوماتی مضامین حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح ان موضوعات کے ویڈیو یوٹیوب سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔اس طرح طلبا مشغلے کے ساتھ مطالعے کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آج کے دور کی سہولتوں کے تعلیمی استعمال سے ہم آہنگ ہوں۔ کالج اور یونیورسٹی سطح کے اساتذہ انٹرنیٹ کا بہتر استعمال کریں۔ طلبا کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کریں۔ طالب علم چار تا چھ گھنٹے اساتذہ کے سامنے رہتا ہے۔ اس کے بعد بھی وہ اپنے استاد سے رابطے میں رہ سکتا ہے۔ اس کے لیے فیس بک اور واٹس ایپ اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ فیس بک پر طلبا کے لیے علمی گروپ قائم کرتے ہوئے انہیں اساتذہ سے رابطے میں رہنے اور دیگر اساتذہ کے تجربات سے ہم آہنگ ہونے کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے۔ فیس بک اور یو ٹیوب پر ماہر تعلیم منور الزماں صاحب کے بھی بہت بہتر ین محرکہ اور حو صلہ افزائی کے چھو ٹے چھوٹے بہتر ین ویڈیوز موجود ہیں۔ موصوف کے ویڈیوز اس انداز کے ہو تے ہیں جو طلباء میں محرکہ، جوش اور ولولہ پیدا کررہے ہیں۔ ایک طالب علم اور استاد میں اگر دوستانہ رویہ رہے تو طالب علم کالج کے اوقات کے علاوہ بھی دیگر اوقات میں اپنے استاد سے رابطے میں رہ سکتا ہے اور فیس بک یا واٹس ایپ سے رابطہ قائم کرتے ہوئے اپنے تعلیمی مسائل کا حل دریافت کر سکتا ہے۔ اساتذہ خود کے لکچر کے علاوہ دنیا بھر کے کسی بھی ماہر تعلیم کے لکچر آن لائن سہولت کے ذریعے کرواسکتے ہیں۔ کمرہ جماعت یا ای کلاس روم میں پراجیکٹر کی مدد سے اسکائپ کالنگ کرتے ہوئے دنیا کے کسی بھی مقام سے کسی ماہر استاد کا لکچر کرانا اب انٹرنیٹ کی بدولت عام ہوگیا ہے۔ طلباء اب کتب خانے کا رخ نہیں کرتے اور وہ اپنے کمپیوٹر اور فون پر ہی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ اب اصل کتاب کی جگہ ای بک نے لے لی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اساتذہ ای بک کے خزانے سے واقف رہیں۔ اردو میں ریختہ نامی ویب سائٹ پر بیش قیمت قدیم و جدید کتابیں دستیاب ہیں،لیکن یہ ڈاؤن لوڈ نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایف کی شکل میں لاکھوں کتابیں نیٹ پر دستیاب ہیں جو آسانی سے ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد فون یا کمپیوٹر کے اسکرین پر پڑھی جاسکتی ہیں۔ اب کوئی طالب علم یا کوئی استاد یہ شکایت نہیں کرسکتا کہ اسے کسی موضوع پر کوئی کتاب یا مواد دستیاب نہیں ہے۔ بات اگر مقابلہ جاتی امتحانات کی ہو تو ہمارے ہاں ساکشی ایجوکیشن نامی ویب سائٹ ہے۔ جہاں تمام مسابقتی امتحانات کے سابقہ پرچہ جات اور معروضی سوال جواب اور حالاتِ حا ضرہ پر مبنی بیش قیمت مواد تلگو اور انگریزی میں دستیاب ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ دستیاب مواد کی جانب طلبا کی رہنمائی کریں۔موجودہ دور کے تعلیمی نظام کا اہم مسئلہ وقت کی تنظیم بھی ہے، کیوں کہ مواد زیادہ اور وقت کم ہے۔ ایسے میں اپنے لیے کیا ضروری ہے اور کیا ضروری نہیں، اس بات کا فیصلہ طلبا اپنے اساتذہ کے مشوروں سے کریں۔ اساتذہ طلبا کو بار بار اس جانب متوجہ کریں کہ طالب علمی کے زمانے میں اسمارٹ فون اور کمپیوٹر کا بہتر استعمال ضروری ہے۔ فیس بک اور واٹس اپ کا علمی ضروریات کے لیے استعمال ہو۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے اخلاقیات پر بہت برا اثر ڈالا ہے اور اخلاقیات کے بارے میں طالب علموں اور اساتذہ دونوں کو مثبت رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ بات سرکاری مدارس کے اساتذہ کی چلی تھی۔ ان دنوں دوپہر کے کھانے کی اسکیم ہر سرکاری اسکول میں ہے اور اکثر جگہ شکایت ہے کہ کم طلبا کو کھانا کھلا کر زیادہ طلبا کے نام سے چاول اٹھائے جارہے ہیں اور اِضافی چاول چوری سے باہر فروخت کیے جارہے ہیں۔ معلمی کے پیشے کے لیے یہ زیبا نہیں دیتا کہ وہ چوری کرے، لیکن یہ ہورہا ہے اور اساتذہ معطل ہوکر پیشہ معلمی کو بدنام کر رہے ہیں۔ اساتذہ کا وقت پر اسکول نہ پہنچنا، اسکول نہ جاکر دستخط کردینا، رشوت دے کر دستخط کروانا، اسکول میں کمرہ جماعت میں جانے کی بجائے فضولیات میں وقت برباد کرنا اور سرکاری مراعات کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنا جیسی بیماریاں عام ہیں۔ خاتون اساتذہ بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں۔ اسٹاف روم میں گپیں مارنا طلبا سے کام لینا اور وقت سے قبل اسکول سے گھر چلے جانا، ان کے لیے عام بات ہے۔ اساتذہ کے اس کردار کو دیکھ کر عوام سرکاری مدارس میں اپنے بچوں کو پڑھانے سے کترارہے ہیں۔ ایک طرف حکومت سرکاری مدارس کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے بھاری سرمایہ صرف کر رہی ہے دوسری طرف اساتذہ کے کردار کا یہ عالم ہے۔ تلنگانہ میں حکومت نے حاضری میں باقاعدگی لانے سرکاری ملازمین کے تھمب امپریشن پر مبنی بائیو میٹرک حاض ری نظام جاری کیا اور دوسری طرف اسکالرشپ میں بے قاعدگیوں کو دور کرنے طلبا کے آن لائن داخلوں کا نظام شروع کیا گیا ہے، لیکن چور دروازوں سے حکومت کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ ہر دو جانب سے جاری ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اخلاقیات کی تعلیم کو عملی طور پر لاگو کیا جائے۔ آج انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں اخلاقیات اور انسانی قدریں اور ڈگری کے نصاب میں قدری تعلیم جیسے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے، لیکن اساتذہ اس نصاب کو دلچسپی سے نہیں پڑھا رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سماج سے ان افراد کو مدعو کیا جائے جن کا سماج میں ادب اور مقام ہے اور لوگ ان کی بات کو مانتے ہیں۔ مذہبی رہنماؤں اور سماجی مصلحین کو مدعو کیا جائے اور ان سے لکچر کروائے جائیں۔ طلبا میں اپنے مذہب کا شعور بیدار کیا جائے۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے شخصیت سازی کے لکچر کروائے جائیں۔ اساتذہ اور طلبا دونوں اقدار کی پابندی کریں تو امید ہے کہ تعلیمی نظام میں آئے بگاڑ کا خاتمہ ہو اور اقدار کے حامل صالح نوجوان ملک کی تعمیر کے لیے تیار ہوں گے۔ ورنہ تعلیم میں ترقی تو ہورہی ہے، لیکن اقدار کے بگاڑ کے سبب تعلیم کے نتائج فرد اور سماج کو نہیں مل رہے ہیں۔ اس لیے اس یوم اساتذہ پر اساتذہ کے لیے یہی پیغام ہے کو وہ عصر حاضر کے تکنیکی اور سماجی تقاضوں سے واقف ہوں اور ان سے ہم آہنگ ہوکر ایک مثالی استاد بنیں۔
٭٭٭