منظور وقار
اِدھرچند ماہ سے ”دھڑادھڑ علاج دواخانہ“ ڈاکٹر A-Kکے چرچے شہر میں چاروں طرف ہمارے ملک کے چند مشہور فلم اسٹاروں کے جنسی اسکنڈلوں کی طرح گونج رہے تھے۔ہر شخص ڈاکٹر A-Kکے کی تعریف میں زمین اور آسمان کو آپس میں ملا کر قیامت کے دن کا منظر پیش کرنے میں لگا ہوا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا ڈاکٹر A-K کسی مریض کی ناڑی پر ہاتھ بھی رکھ دیتے ہیں تو برسوں پرانی بیماری جڑ سے اُکھڑ جاتی ہے۔یہاں تک کہ شادی کے دس برس بعد بھی بانجھ کہلانے والی خواتین ڈاکٹر A-Kکے نسخوں کے استعمال کے بعد اولاد سے مالا مال ہو کر اپنے شوہروں کے جھکے ہوئے سروں کو اس طرح اوپر اُٹھانے میں کامیاب ہوگئیں جس طرح ہمارے وزیر اعظم نریندری مودی غریبوں کو غریبی کی ریکھا سے اُوپر اُٹھانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔(سرچ لائٹ لگا کر ڈھونڈیں گے بھی تو ہمیں ملک میں کوئی غریب دکھائی نہیں دے گا)۔ہمارے کان ڈاکٹر A-K کے چرچے سن سن کر سماعت کی قوت سے محروم ہی ہونے والے تھے کہ ہمارے اند ر موجود ایک عدد خفیہ بیماری (جو بڑے ممالک کے درمیان ہونے والے خفیہ معاہدوں کی طرح پوشیدہ تھی)بھبک کر باہر آگئی یوں ہم بھی بڑے لوگوں کی طرح ایک عدد خفیہ بیماری کے مریض بن گئے۔اب تو دل”دھڑا دھڑ علاج دواخانے “کے درشن کے لیے بے چین ہوگیا۔
لہٰذا ڈاکٹر A-Kکے دواخانے پر حاضری ہمارے لیے وہ ہوگئی جس کو ” ناگزیر“ کہتے ہیں۔ایک دن ہم اپنی روز مرہ کی مصروفیات مثلاً بچوںکے کپڑوں کی استری،ان کے جوتوں کی پالش انہیں اسکول چھوڑنا، بیوی سے لڑنا جھگڑنا، پڑوسیوں کے گھروں کے خفیہ راز جاننا وغیرہ سے فارغ ہوگئے تو تیس لاکھ کی گاڑی میں بیٹھ کر یعنی سٹی بس میں سوار ہوکر دھڑا دھڑ علاج دواخانہ پہنچے۔
ڈاکٹر صاحب کمرہ خاص یعنی Consulting Roomمیں تھے۔ایک نو عمر نوجوان نے (جو ڈاکٹر صاحب کا کمپونڈرِ خاص تھا)نے ہمارے ہاتھ میں نمبر کی چھٹی تھما کر ہمیں ” کیو“میں بٹھا دیا۔ قطار بڑی لمبی تھی اور مریضوں کی حالت بڑی گمبھیر۔ ہمارے بازو ایک باریش بزرگ اس قدر علیل حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمیں ڈر ہورہا تھا کہ وہ ڈاکٹر A-K کے Consulting Roomمیں پہنچنے سے پہلے ہی کہیں اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے منکر نکیر کے Consulting Roomیعنی قبرمیں نہ پہنچ جائیں۔ہم نے اپنی چٹی پر نظر ڈالی۔ہمارا نمبر چالیس (۴۰)تھا۔یعنی ۴۰عدد مریض اپنی نبض دکھا کر ڈاکٹر A-K کےConsulting Roomسے زندہ سلامت لوٹیں گے تب اپنی ناڑی ڈاکٹر صاحب کی انگلیوں میں آسکتی تھی گویا کہ ہمیں کم از کم دیڑھ دو گھنٹے دواخانہ میں گزارنے تھے۔اس لیے ہم وقت گزاری کے لیے دواخانہ کی دیواروں پر لگے چھوٹے بڑے مختلف تحریروں سے بھرے پڑے سائن بورڈوں کو پڑھنے لگے۔ دواخانہ کے باہر تو ایک بہت بڑا سائن بورڈ لگا ہوا تھا جس پر لکھا ہوا تھا ”دھڑا دھڑ علاج دواخانہ“ ڈاکٹر A-Kکے (آر۔ایم پی)اوقات صبح نہار تا غروب آفتاب۔“
دواخانہ کے Consulting Roomپر ایک چھوٹا سا بورڈ لگا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ” ڈاکٹر صاحب اندر ہیں انتظار کریں۔ایک سنہرے حروف کا نیم پلیٹ ٹنگا ہوا تھا جس پر لکھا ہوا تھا۔ڈاکٹر A-Kکے (RMP) سائن بورڈ پر نظر پڑی تو ہمیں RMPکی ڈگری پر رشک ہونے لگا۔کیوں کہ ادھر چند برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایم۔بی۔بی۔ایس ،ایم۔ایس اور ایم۔ڈی کی ڈگری رکھنے والے ڈاکٹروں کے دواخانوں پر سناٹا بڑھتا جارہا ہے تو آر۔ایم۔پی کی ڈگری رکھنے والے ڈاکٹروں کے دواخانوں پر RTOاور DTOآفس کی طرح چہل پہل اور روپیوں کی کھنا کھن بڑھتی ہی جارہی ہے۔دواخانہ کی اندرونی دیواروں پر مختلف ہدایات اور مشوروں کے بورڈ آویزاں تھے۔ایک بورڈ پر حسب ذیل ہدایات موجود تھے۔
٭مریض اپنی نبض دکھانے کی عجلت میں بلا اجازت Consulting Roomمیں داخل ہونے کی جرا¿ت نہ کریں
٭ پہلے خواتین کی تشخیص ہوگی ،اس کے بعد مرد مریضوں کے مرض پر نظر ڈالی جائے گی۔ ہمارے یہاں بچوں کی بیماریوں کا علاج نہیں ہوتا۔
٭ معائنہ فیس اور دواو¿ں کا نرخ کمپونڈر طئے کرے گا۔فیس کی ادائیگی میں تکرار برداشت نہیں کی جائے گی۔
٭ ہمارے نسخوں کے استعمال سے کوئی مریض مرگیاتو اس کی ذمہ داری ڈاکٹر پر نہیں خود مرنے والے پر ہوگی۔ لہٰذا مریض اپنی جان کی حفاظت خود کریں۔ڈاکٹر کا کام تو مرض دور کرنا ہے۔مرتے ہوئے انسانوں کو بچانا نہیں۔
٭ ہمارے یہاں فیملی پلاننگ کے آپریشن اور اسقاط حمل کے کیس قبول نہیںکئے جاتے۔ڈاکٹر ہذا فیملی پلاننگ اور زنا کاری کے سخت مخالف ہیں۔
٭ کسی بھی مرض سے پوری طرح چھٹکارا پانے کے لئے کم از کم ایک سال تک بلاناغہ ہماری تجویز کردہ دواو¿ں کا استعمال ضروری ہے۔
٭ ہمارے علاج کروانے والے مریضوں کو گوشت، مچھلی، انڈا، ترکاری، چاول،اور گیہوں کا پرہیز ضروری ہے۔دوران علاج مریض صرف جوار کی روٹی اور پھیکی دال کھا سکتے ہیں۔
٭ اس دواخانہ میں انسانوں کے علاوہ پالتو جانور مثلاً کتے،بلی ،چوہے اور گائے بھینسوں کا بھی علاج کیا جاتا ہے ،لیکن فیس دوگنی ہوگی۔
٭ مریض کی فیس اور دواو¿ں کی قیمت روپیوں کے علاوہ اشیاءجنس کی شکل میں بھی دے سکتے ہیں۔مثلاً اگر کوئی مریض بنیا ہے تو اس سے جوار چاول اور دال کی بوریاں لی جائیں گی۔اگر مریض چمار ہے تو اس سے سال میں چار جوڑے جوتے چپل بنوائے جائیں گے۔اگر مریض قصاب ہے تو اس سے روزانہ دو کلو بغیر ہڈی کا گوشت لیا جائے گا۔
دواخانے کی دیوار پر ایک بورڈ لگا تھا جس پر صحت بنانے کے تعلق سے چند اہم مشورے درج تھے۔بورڈ کی سرخی تھی ”صحت بنانے کے جدید نسخے۔“نسخے حسب ذیل تھے۔
٭ رات میں دو بجے سے پہلے بستر پر نہ جائیں اور صبح دس بجے سے پہلے بیدار نہ ہوں۔
٭ مکان میں پکی ہوئی غذا کا بہت کم استعمال کریں اور جہاںتک ہوسکے ہوٹلوں میں پکی ہوئی غذاو¿ں کا استعمال کریں۔ ٭ جب بھی بھوک محسوس ہوگی فوراً جو بھی کھانے کو ملے کھائیں (چاہے اپنے مخاطب کا بھیجہ ہی سہی)کھانے کے معاملہ میں وقت کی پابندی بھوک کا گلا گھونٹنے کے برابر ہے۔ ٭ مکان میں طعام کے وقت اس بات کی کوشش کریں کہ کھانا کم سے کم کھایا جائے البتہ دعوتوں میں زیادہ سے زیادہ کھانا کھانے کی کوشش کریں۔اس مشق سے نظام ہضم کے مضبوط ہونے دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کی عادت پڑجائے گی۔ ٭ اپنے بچوں کو گندی نالیوں اور گٹروں میں کھیلنے کودنے سے باز نہ رکھیں کیونکہ ہمیشہ کنول کیچڑ ہی میں اچھی طرح پرورش پاتے ہیںیہ کنول بعد میں محلہ کے دادا کہلاسکتے ہیں۔
٭ مچھروں کو اپنے جسم کا خون چوسنے سے باز رکھنے کیلئے مچھر دانی کا استعمال نہ کریں کیوں کہ مچھر آپ کے بدن کا فاضل خون چوس کر آپ کو ہلکا پھلکا اور چست بنادیتے ہیں، اس طرح آپ کو بلڈ پریشر کا خطرہ بھی نہیں رہتا۔صاف ظاہرہے ۔ جب آپ کے بدن میں بلڈ ہی نہیں رہے گا تو بھلا بیچارہ پریشر کہاں سے آئے گا۔ ٭ اپنے بچوں کو قلاقند ،پیڑا،برفی اور مال پوری جیسی مٹھائی کھانے سے باز رکھیں ان چیزوں میں چربی اور شکر زیادہ ہوتی ہے،جن سے بچے موٹاپا ،بلڈ پریشر اور شکر کی بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں۔چنانچہ اپنے بچوں کو ہمیشہ مرچی بھجئے،پکوڑی اور پاپڑکھانے کے عادی بنائیں ۔یہ چیزیںسستی بھی ہوتی ہیں اور صحت کے لیے مفید بھی۔ ٭ اپنے بچوں کو ہمیشہ چرا کر کھانے کی عادت ڈالیں۔اس مشق سے بچے آگے چل کر کافی پھرتیلے اور چالاک انسان ثابت ہوتے ہیں۔ہوسکتا ہے بڑے ہوکر سیاست داں بن جائیں۔ ٭ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو اپنی چھاتی کا دودھ ہرگز نہ پلائیں، آگے چل کر ایسے بچے ڈبوں کا دودھ پی کر پلاسٹک اعصاب کے مالک بن جاتے ہیں۔ ٭اپنے صحن میں موجود غلاظت اور کوڑا کرکٹ کی صفائی ہرگز نہ کرائیں۔دراصل غلاظت اور کوڑا کرکٹ آپ کے صحن میں موجود پودوں کی غذا ہوتی ہے۔غلاظت اور کوڑا کرکٹ کی کھا د کھا کر پودے آپ کے صحن میں موجود بچوں کی طرح تیزی سے پھلنے پھولنے لگیں گے۔دواخانے کی ایک دوسری دیوار پر دو چھوٹے بورڈ آویزاں تھے۔ایک بورڈ پر حسب ذیل تحریر موجود تھی۔
٭ ”دواخانے میں طہارت اور بیت الخلاءکا انتظام نہیں ہے۔ لہٰذا مریض طہارت اور رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہونے کے بعداپنے آپ پر قابو رکھیں۔یا چمبو لے کر کھلے میں چلے جائیں دوسرے بورڈ پر لکھا تھا۔” اکثر مریضوں کو قئے ہوا کرتی ہے۔جس سے دواخانہ کا فرش گندا ہوجاتا ہے۔اس لیے مریض اپنے ساتھ گلاس لوٹا یا چمبو لائیں۔قئے آتے ہی گلاس،لوٹا یا چمبومنہ کو لگائیں۔
دواخانے کے ایک کونے میں ایک بالٹی رکھی ہوئی تھی جس پر بدنام زمانہ مصنفہ تسلیمہ نسرین کی تصویر چسپاں تھی اور اس بالٹی کے اوپر ایک چھوٹا سا بورڈ آویزاں تھا جس پر لکھا تھا ” یہاں پر تھوکیے۔“ جب ہم تمام سائن بورڈس کا بغور مطالعہ کرکے Consulting Room میں پہنچے تو ڈاکٹر A.K کے چہرہ پر نظر پڑتے ہی حیرت سے ہماری آنکھیں پھٹ پڑیں،کیوں کہ ڈاکٹر A-K۔ کوئی اور نہیں ہمارے دوست نما بزرگ علامہ کاروباری تھے۔جب ہماری حیر ت میں کمی واقع ہوئی تو ہم نے علامہ کو اپنی نبض دکھانے کے بجائے ان کا انٹرویو لینا مناسب سمجھا۔
ہم: علامہ آپ تو اچھے خاصے ادیب ،شاعر ،دانشور،نقاد،عالم،فاضل اور سیاسی رہنما تھے۔پھر آپ کواچانک ڈاکٹری کادورہ کیوں پڑا؟
علامہ: بے کاری انسان سے بہت کچھ کراتی ہے وقار! مرتا کیا نہیںکرتا ،جب تمام کاروبار پر کاری ضرب لگ گئی تو میں نے سوچا کیوں کہ ڈاکٹر بن کر مریضوں کا دل جیت لیا جائے۔
ہم: آپ کو اچانک آر۔ایم۔پی کی ڈگری کہاں سے ملی؟
علامہ: اس دور میں روپیوں کے بدلے انسان کے قلب و جگر تک ملنے لگے ہیں تو یہ ڈگریاں کس حساب میں۔میں نے کچھ رقم دے کر ڈگری خرید لی۔خود اپنی نت نئی بیماریوں کا علاج کراتے کراتے میں کافی تجربہ کار ہوچکا تھا۔اس لیے میری ڈاکٹری چل نکلی۔
ہم: دواخانہ کھولنے کا اصل مقصد صرف پیسے کمانا ہے یا عوام کی خدمت کرنا؟
علامہ: تم تو جانتے ہی ہو وقار! مجھے جھوٹ اور مکر سے کافی نفرت ہے۔میں ہمیشہ سچ کہنے کا عادی ہوں۔دواخانہ کھولنے کا اصل مقصد تو دولت کمانا ہے۔اس کے علاوہ ایک دوسرا مقصد یہ ہے کہ میرے علاج سے زیادہ سے زیادہ مریض شفا پائیں اور کم سے کم مریض مرسکیں۔
حضرات ! اس سے پہلے کہ ہم علامہ کی تجویز کردہ دواو¿ں کے استعمال سے کم سے کم مرنے والے مریضوں کی لسٹ میں شامل ہوجائیں۔ہم نے وہاں سے بھاگ جانا ہی مناسب سمجھا۔!!!