عازمین حج وزیارت کی خدمت میں چند گزارشات
کعبۃ اللہ شریف کی تعمیر کا مرحلہ جب تکمیل پاگیا تو اللہ سبحانہ نے سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام کوہدایت فرمائی کہ میرے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں اورمیرے گھرکوطواف اور وہاں قیام اور رکوع وسجدہ کرنے والوں کے لئے اسے پاک وصاف رکھیںاور لوگوں میں حج کا اعلان کر دیںکہ تمہارے پاس پیدل چلنے والے اوردبلے پتلے اونٹوں پرسواربھی دوردرازکے تمام راستوں سے آئیں گے (الحج:۲۶،۲۷)
مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786
کعبۃ اللہ شریف کی تعمیر کا مرحلہ جب تکمیل پاگیا تو اللہ سبحانہ نے سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام کوہدایت فرمائی کہ میرے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں اورمیرے گھرکوطواف اور وہاں قیام اور رکوع وسجدہ کرنے والوں کے لئے اسے پاک وصاف رکھیںاور لوگوں میں حج کا اعلان کر دیںکہ تمہارے پاس پیدل چلنے والے اوردبلے پتلے اونٹوں پرسواربھی دوردرازکے تمام راستوں سے آئیں گے (الحج:۲۶،۲۷)اللہ سبحانہ کی قدرت کا اعجازکہ جبل ابی قبیس کی چوٹی سے بلندہونے والی یہ کمزورو نحیف آوازسارے عالم کے گوشہ گوشہ تک پہنچ گئی اورسارے وہ انسان جن کے لئے بیت اللہ شریف کا حج مقدرکردیاگیا ان تک اس صدائے دل نوازکے پہنچنے کا سامان ہوگیا خواہ وہ اس عالم میں رہے ہوں یا عالم ارواح میں ،خوش نصیب ہیں وہ عازمین جن کیلئے اللہ سبحانہ نے یہ نعمت مقدرفرمائی ہے،اس نعمت کا حق شکریہ ہے کہ اللہ سبحانہ کی رضا اوراس کی خوشنودی کیلئے یہ مبارک سفر ہو، مناسک حج، مقامات حج، فرائض وواجبات حج اوراسکے آداب وسنن سے واقفیت حاصل کریں، شعائر مقدسہ اورحرمین پاک کے آداب واحترام کوہرطرح ملحوظ خاطررکھیں ،دعاکرتے رہیں کہ اللہ سبحانہ فریضہ حج کی ادائیگی کوآسان بنائے اورقبول فرمائے، مدینہ پاک اور مقامات مقدسہ کی زیارت کا شرف قبول بخشے۔ سفرحج و زیارت جتنا مبارک ہے اسکے تقاضے بھی اتنے ہی زیادہ اہم اور قابل لحاظ ہیں،حج مبروروزیارت مقبول کی نعمت میسرآجائے تو اس سے بڑھ کر کوئی انعام نہیں،لیکن اس سفرمیں کوئی کوتاہی ہو تو گرفت کا بھی زیادہ خطرہ ہے،اس لئے اس مبارک سفرکے آغاز سے قبل چند امور کو ضرورپیش نظررکھیں :
٭اخلاص نیت: تمام اسلامی اعمال کی طرح حج بیت اللہ شریف اداکرتے ہوئے رضاء الہی کو مقصود ومطلوب بنائیں، قرآن پاک میں ارشادہے’’حج وعمرہ کوخالص اللہ سبحانہ کی رضا کے لئے پورا کرو‘‘ (البقرہ: ۱۹۶) حدیث پاک میں وارد ہے ’’اعمال کا ثواب نیت پرموقوف ہے، اورہر انسان کے ساتھ اسکی نیت کے موافق معاملہ ہوتاہے‘‘(بخاری:۱؍۱)اس لئے اس مبارک سفرمیں ہرقدم جب بھی اٹھے خوشنودئ رب کے لئے اٹھے، نیت کوخالص کرکے رب کی رضاء کوہرآن پیش نظر رکھیں، دل پرہمیشہ نگاہ رہے ،ریا ء وسمعہ ،تکبروبڑائی ،شہرت وجاہ وغیرہ جیسے خلاف اخلاص نفس کی خواہشات دل میںپرورش پاجائیں اوراعمال سے ان کا اظہاربھی ہونے لگے توسخت خطرہ اس بات کا ہے کہ سب کیا کرایا کہیںاکارت نہ ہوجائے اس کا ضرورخیال رکھیں اورہمیشہ حج مبرورکی دعاء مانگتے رہیں۔
٭ توبہ واعتراف:حج بیت اللہ شریف صاحب استطاعت مسلمان پروہ بھی زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے، حج مبرور سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ،اورحدیث پاک میں اسکی جزاء جنت بتائی گئی ہے(مسنداحمد۱۶؍۸۸)اس لئے اس سفر کے آغازسے قبل سچے دل سے توبہ واستغفار کریں،پچھلی زندگی کا محاسبہ اپنے اعمال کا موازنہ اپنی کوتاہیوں کے اعتراف کوآسان بنادیتا ہے، اس کو صوفیاء کی اصلاح میں ’’مراقبہ‘‘کہتے ہیں،مراقبہ ذکر اذکار کیلئے بھی ہوتاہے اوراعمال کے جائزہ کیلئے بھی،اعتراف و اقرار بڑی نعمت ہے،انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہیں پھربھی حق بندگی کے تکمیل کیلئے ان کے اقرارواعتراف کے کلمات قرآن پاک میں محفوظ ہیں ،اللہ کے محبوب بندوں نے ہمیشہ اقرارواعتراف کو حرزجاں بنائے رکھاہے۔اس میں دراصل گنہگاران امت کیلئے عظیم پیغام ہے۔ظاہری ناپاکی خواہ وہ حقیقی ہو کہ حکمی وضو اورغسل سے دورہوجاتی ہے لیکن گناہوں کی ناپاکی وپلیدی پاک کرنے کا راستہ صرف اورصرف سچے دل سےہرگھڑی توبہ واستغفارہی ہے، استغفارکے کلمات میں ’’سید الاستغفار‘‘کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔ اور اسکا جزء اعظم عاجزی وبندگی کا اظہاراللہ شانہ کی نعمتوں اور اپنے قصوروں وکوتاہیوں کا اقرارواعتراف ہے،اس لئے اسکے کلمات کو معنی ومفہوم کے استحضارکے ساتھ صبح وشام کے علاوہ دن ورات اس کو وردزباں رکھیں،استغفارسے حقوق اللہ کی ادائی میں جوکوتاہیاں ہوئی ہیں اللہ سبحانہ چاہیں تواپنےفضل وکرم سے معاف فرماسکتے ہیں لیکن حقوق العبادکاجہاں تک تعلق اس سے چھٹکارہ ممکن نہیں اس لئے جوکوتاہیاں بندوں کے حقوق سے متعلق ہوئی ہیں ان کی معافی کاراستہ یہ ہے کہ اگروہ موجود ہوں ان کے حقوق اداکردئیے جائیں ،اگراداکرنے کا موقف نہ ہوتوان سے معافی تلافی کرلی جائے ،ان سے ملاقات ممکن نہ ہویاوہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہوں تو ان کے حق میں اللہ سبحانہ سے دعاء کی جائے، سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء سکھائی ہے: اللَّهُمَّ إِنِّى اتَّخَذْتُ عِنْدَكَ عَهْدًا لَنْ تُخْلِفَنِيهِ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ أَوْ جَلَدْتُهُ فَاجْعَلْ ذَلِكَ كَفَّارَةً لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَة ِ’’اے اللہ !میں آپ سے عہد لیتا ہوں جس کی ہرگزآپ خلاف ورزی نہیںفرمائیں گے، میں ایک بشرہوں، چنانچہ میں نے جس کسی مومن کو تکلیف پہنچائی ہے برا بھلا کہا ہےیا لعن طعن کیاہے یا مارپیٹ کی ہے تویہ (سب)اس کے لئے رحمت،پاکیزگی اور قرب کا ایسا ذریعہ بنا دیجئےجس سے آپ اسے روزقیامت اپنا قرب نصیب فرمادیں ‘‘(مسلم۸؍۲۵)۔ان شاء اللہ اس دعاکی برکت سے امید ہے کہ اللہ سبحانہ حقوق العبادبھی معاف فرمادیں۔
٭مال طیب کا اہتمام :۔ سفرحج کی قبولیت میں مال طیب کا اہتمام بڑی اہمیت رکھتاہے،کیونکہ مال حرام سے کی جانے والی عبادت اللہ سبحانہ کے ہاں مقبول نہیں،حدیث پاک میں واردہے ’’اللہ سبحانہ پاک ہیں اوروہ صرف پاک وطیب شیٔ کوقبول فرماتے ہیں‘‘ (مسلم :۲۳۴۵) ایک اور حدیث پاک میں وارد ہے ’’جب کوئی بندہ پاک وطیب مال لیکر حج کے لئے نکلتاہے یہاں تک کہ وہ تلبیہ کہتے ہوئے اپنا قدم ابھی رکاب (سواری) پر رکھنے بھی نہیں پاتا کہ آسمان سے نداء دینے والا ندا دیتاہے :تیری حاضری قبول ہے،تیرا زادسفرحلال ہے،تیری سواری حلال ہے، تیرا حج ۔حج مقبول اورگناہوں سے پاک ہے‘‘اورجب کوئی بندہ حرام مال کے ساتھ سفرکا آغازکرتاہے اورسواری پر سوار ہوکر ’’لبیک اللہم لبیک‘‘کی پئے درپئے صدائیں بلندکرتاہے لیکن آسمان سے اس کے لئے نداء آتی ہے ’’لا لبیک ولا سعدیک‘‘ نہ تیری حاضری قبول ہے نہ تو تیر ے لئے کوئی سعادت ونیک بختی ہے کیونکہ تیرا زاد سفرحرام ،تیرا مال حرام ہے اس لئے تیراحج مقبول نہیں‘‘سود،جوا،قمار،رشوت اوربعض افراد سے کسی کے مال وجائیداد پر ناجائزقبضہ وغیرہ کا چلن معاشرہ میں عام ہے ۔ایک اورخرابی مسلم سماج میں توارثاچلی آرہی ہے اوروہ ہے اپنے والدین کی جائیداداوران کے مال میں بہنوں کو حصہ نہ دینا، جو بھائی اپنی بہنوں کےحصے ادانہیں کرتےاوران پرقابض و متصرف رہتے ہیں یہ بہت بڑاگناہ ہے،اللہ سبحانہ نےجہاں میراث کے مسائل بیان فرمائے ہیںاس کے اختتام پر ارشاد فرمایا ہے ’’یہ حدیں اللہ سبحانہ کی مقررکی ہوئی ہیںاورجواللہ سبحانہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گااللہ سبحانہ اسےجنت میں داخل فرمائیں گے جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اوریہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو کوئی اللہ سبحانہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےنافرمانی کرے اوراس کے مقررکردہ حدوں سے آگے نکلےاس کواللہ سبحانہ جہنم میں ڈال دیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا،ایسوں ہی کےلئے رسواکن عذاب ہے‘‘(النسا؍۱۳)۔اس کی قباحت و شناعت کا اندازہ توآنکھ بندہونے (موت)کے بعدبھی ہوگا لیکن زندگی میں بھی اس کا وبال اکثرمشاہدہ میں آتارہتاہے،اس طرح کا مال کسی کے ہاں ہوتوصاحب حق تک اس کو پہنچادینا اورجوکچھ ظلم ہواہے اس کی معافی چاہ لینا اوراللہ سبحانہ کی جناب میں رجوع ہوکر خلوص دل سے توبہ واستغفارکرکے حج کا سفرکرنا چاہیئے اوراس جیسے حرام مال کوسفرحج میں استعمال کیا جائے توفریضہ حج ادا ہوسکتاہے لیکن اسکے ثمرات وبرکات بھی حاصل ہوجائیں اسکا امکان بہت کم ہے۔
٭فرائض وواجبات کی ادائیگی کا اہتمام :۔خوف الہی وخوف آخرت سے غفلت کےساتھ زندگی گزارنے کا طوروطریق دنیاکمانے اورسامان عیش وعشرت جمع کرنے میں اس قدرمشغول کردیتاہے کہ فرائض وواجبات کی ادائیگی میں بڑی غفلت وکوتاہی سرزدہونے لگتی ہے،سنجیدگی کے ساتھ اس پرتوجہ ضروری ہے۔نمازوں کی پابندی،تلاوت قرآن،ذکرواذکار،تسبیحات وتحمیدات،درودپاک کے بکثرت ورد کا اہتمام ہوناچاہیے،اللہ سبحانہ کاارشادہےجوکتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھیۓ اورنمازقائم کیجئےیقینا نمازفواحش ومنکرات سے روکتی ہے، بےشک اللہ سبحانہ کاذکربہت بڑی چیز ہے (العنکبوت: ۴۵)۔ اس آیت پاک میں تین اہم چیزوں کی طرف رہنمائی کی گئی ہے: (۱) قرآن پاک کی تلاوت ،ظاہرہےتلاوت سے مراد صرف پڑھنا نہیں بلکہ اس کےکئی ایک مقاصدہیں ان مقاصدمیں تلاوت کےساتھ اس کے معانی ومطالب میں غوروفکراورتدبربھی مطلوب ہے،قرآن پاک کی تعلیم وتدریس خواہ اس کے الفاظ کی ہویا معانی ومفاہیم کی ساری صورتیں اس میں شامل ہیں۔اس پرعمل کے ساتھ دعوت وتبلیغ اوروعظ ونصیحت بھی ہوتواس کے کیا کہنےیہ بہت بڑے اجروثواب کاکام ہے،حدیث پاک میں وارد ہے ’’میری اُمَّت کی افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے‘‘(شعب الایمان: ۲؍۳۵۴)۔’’قرآن مجید پڑھا کرو،یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا‘‘ (مسلم۲؍۱۹۷)۔جن اصحاب کوقرآن پاک تلاوت کرنانہیں آتا یا آتاہےلیکن صحت سے تلاوت نہیں کرسکتےان کوچاہیےکہ کسی مجود(قواعدتجویدسے واقف) سے رجوع کریں اورقرآن پاک کوصحت اداکے ساتھ تلاوت کرنا سیکھیںاس میں ہرگزغفلت نہ کریں،سیکھنے تک جیسے آتا ہو ویسے ضرور تلاوت کرتے رہیں۔ (۲)نمازقائم کرنا،نمازبشرطیکہ اس کے فرائض وواجبات،سنن وآداب کی رعایت رکھتے ہوئے خشوع وخضوع (عاجزی، فروتنی اور اپنی کوتاہیوں پراحساس ندامت)سےنماز اداکی جائے، خشوع سے مرادسکون واطمینان ،تواضع وانکساری،عاجزی وفروتنی ہے، خضوع بھی خشوع کے ہم معنی ہے،بعضوں نے خشوع سے قلب کی خشیت وتذلل اورخضوع سےبدن کی تواضع اورانکساری مراد لی ہے۔الغرض نمازکاظاہری حق یعنی سنت نبوی کے مطابق اس کے تمام ارکان ،واجبات وآداب ملحوظ رہیں،باطنی حق یہ ہے کہ حتی الامکان سراپا عجزونیاز،عبدیت وبندگی کےتقاضوں کےتکمیل کےساتھ نمازادا ہو،اس کی تکمیل کےلئے ’’مرتبۂ احسان‘‘ کوملحوظ رکھیں’’تم اللہ سبحانہ کی عبادت ایسی کروگویا تم اس کو دیکھ رہے ہواوراگرتم اس کو دیکھ نہیں سکتےتو(یہ احساس تازہ رکھوکہ)وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘ (بخاری:۱؍۲۷)۔دنیا جہاں سے منہ موڑکراللہ سبحانہ کی بارگاہ اقدس میں انتہائی تذلل کےساتھ حاضرہونا،قلب وروح کوایمانی کیفیات سے سرشارکردیتاہے، یقیناایسی نمازبے حیائی اوربرائی سے روکتی ہے(۳)ذکراللہ ،نمازہی کی طرح ذکر و اذکار پر مواظبت بھی فواحش ومنکرات سے روکنے میں مؤثرہوتے ہیں۔ ذکراللہ کی بڑی اہمیت ہے ارشاد باری ہے’’پس تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یادکروں گا، میری شکرگزاری کرواورناشکری سے بچو‘‘ (البقرہ) ذکر سے مراد ہر وقت ،ہرلمحہ اللہ سبحانہ کویاد کرنا ہے، تسبیح (سبحان اللہ) تہلیل (لاالہ الا اللہ) تحمید (الحمدللہ) تکبیر (اللہ اکبر) سے ہر وقت اپنی زبان کو تر رکھیں، یہ لسانی ذکر ہے، ایک صحابی حاضر خدمت ہوئے اورعرض کیا یارسول اللہ!کچھ نصیحت فرمائیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ولسانک رطب من ذکر اللہ‘‘ تمہارے زبان ہمیشہ اللہ سبحانہ کے ذکرسے تررہے۔ (جامع العلوم والحکم: ۵۲؍۱۷) مقصود اصلی باطن کی طہارت وپاکیزگی ہے جو اسلامی احکام کے مطابق زندگی گزارنے،عبادات اور ذکر و اذکار کے اہتمام سے حاصل ہوتی ہے۔ظاہرہےحج کے سفرمیں اسکی مزید اہمیت ہے۔
٭اس وقت داڑھی منڈھانےکارواج چل پڑا ہے، اکثر محافل وتقاریب اس کا مشاہدہ ہوتا ہے، اکثریت داڑھی منڈھانے والوں کی ہوتی ہے،معمراصحاب بھی بکثرت داڑھی منڈھانے والے مل جاتے ہیں، اکثر نوجوان یاتوداڑھی منڈھاتے ہیں یاپھرفیشنی طرزکی داڑھیاں رکھتے ہیںظاہرہے یہ اسلامی احکام سے روگردانی ہے اس لئے اس کی اصلاح ضروری ہے۔ حجاج کرام کےتربیتی اجتماعات میں احقرکواکثرشرکت کا موقع ملتاہے،اس مبارک اجتماع میں بھی اکثرضعیف ومعمر اصحاب بھی داڑھی منڈھائے ہوئے موجودہوتے ہیں جبکہ اللہ سبحانہ ان کوحج بیت اللہ شریف ،زیارات مقامات مقدسہ اورمدینہ منورہ کی مقدس زیارات،خاص طورپرحضورانورسیدعالم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمواجہ پاک میں حاضری کی سعادت نصیب فرمانے والے ہیں ،ان عظیم انعامات کاشکرانہ یہی ہے کہ وہ آج ہی اورابھی سےسنت کے مطابق داڑھی رکھیں اور مونچھ تراشیں، اب بھی اس کی توفیق نہ ملےتوپھروہ کونساموقع ہوگاکہ وہ اس سعادت سے بہرہ مندہوں گے؟حدیث شریف میں وارد ہے ’’جس نے اللہ سبحانہ کی رضاکےلئے اس طرح حج کیا کہ نہ کوئی فحش بات ہوئی اور نہ کوئی فسق وفجور کے کام تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جیسااپنی پیدائش کے دن تھا‘‘(ابن حبان: ۹؍۷)۔مردوں کےلئےخواہ نوجوان ہوں کہ ضعیف سب کے چہرےداڑھیوں سے سجے ہوئے ہونے چاہیے، مردوں کیلئے داڑھی ان کی فطرت کاحصہ ہے،خواتین بھی انسان ہیں لیکن اللہ سبحانہ نےان کی فطرت میں اس کوشامل نہیں رکھا ہے، اس سےاندازہ کیاجاسکتاہےکہ خالق فطرت مردوں کے چہروں کو داڑھیوں سے مزین دیکھناچاہتےہیں یہی وجہ ہے کہ بلاکسی استثنیٰ سارے انبیاء کرام علیہم السلام نے داڑھی رکھی ہے، سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کارخ انورداڑھی مبارک سے منور تھااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کاتاکیدی حکم ارشاد فرمایا ہے جزوا الشوارب وأرخوا اللحى خالفوا المجوس (مسلم: ۱؍۱۵۳)۔ خالفوا علي المجوس جزوا الشوارب وأوفوا اللحي (مسندبزار: ۲؍۲۸۷) مذکورہ بالااحادیث میں ’’خالِفوا المجوس‘‘ فرمایا گیا ہے، مجوس (آتش پرست) چونکہ داڑھی منڈھاتےاورمونچھوں کودرازرکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوس کی مخالفت کاحکم فرمایا ہے، ظاہرہے اس سے اغیارکی مخالفت مقصودہے۔فیشنی طرزکی داڑھیاں چونکہ اغیارکی ایجادہیں اس لئےسنت کے مطابق اسلامی طرزکی داڑھیاں رکھ کرمسلمانوں کوان کی مخالفت کرنا چاہیے۔ داڑھی منڈھانا اور فیشنی طرزکی داڑھیاں بنانا دونوں فسق (گناہ) ہیں۔داڑھی منڈھانےیا فیشنی طرزکی داڑھیاں بنانے سےسنت کا استخفاف یعنی عملا توہین وتحقیر لازم آتی ہے۔ مسلمانوں کےلئے زیبانہیں کہ وہ اغیارکے طورطریق اختیار کریں اورسنت کوپس پشت ڈال دیں،اللہ سبحانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کواپنی اطاعت فرمایاہے۔حق سبحانہ نے یہ بھی حکم فرمایاہے کہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم)جوکچھ تمہیں دیں لے لواورجس سے منع کریں اس سے رک جائو‘‘ (الحشر؍۷)۔ الغرض اسلامی تشخص ہرحال میں برقراررہے۔
٭سفرحج میں غیرمحارم کے ساتھ اختلاط سے اجتناب: دوران سفر اوررہائش گاہوں میں اختلا ط مردوزن کازیادہ امکان رہتاہے، حرمین پاک اورمقامات حج کی گزرگاہوں، مقامات حج،منی،عرفات،مزدلفہ وغیرہ ہر جگہ اکثرغیرمحارم سے آمنا سامنا ہوتاہے اس لئے خاص طورپررہائش گاہوں منی،عرفات وغیرہ کے خیموں میں مردوخواتین کے درمیان پردہ ڈال لیا جائے اوراختلاط سے سخت اجتناب کیا جائے،اس عظیم عبادت کی ادائی میں نگاہوں کی حفاظت کےساتھ بے پردگی،اختلاط،بلا ضرورت مردوخواتین کےدرمیان بات چیت وغیرہ سے سخت احتیاط برتی جائے ۔
٭ حرمین شریفین کے قیام کے دوران زیادہ سے زیادہ وقت عبادات کے اہتمام کے ساتھ مسجدحرام ومسجدنبوی میں گزارنے کاخاص اہتمام کریں،مسجدحرام میں بکثرت طواف ،نمازوں ،تلاوت قرآن،تسبیحات وتحمیدات اوربکثرت درودپاک کے وردمیں مصروف رہیں ۔حرم مدینہ میں بھی ان کی پابندی رکھیںاورحرمین پاک کے انواروبرکات حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ فکر کریں، بلاضرورت بازاروں میں زیادہ وقت گزارنے اوربازاروں کورونق بخشنے سےسخت احترازکریں ،مادی سازوسامان جمع کرنے سے زیادہ ایمانی وروحانی متاع جمع کرنے کی فکرکرنی چاہیئے،اس سفر کی روحانی متاع تقوی اورتقوی کے تقاضوں کا اہتمام ہے ،ارشادباری ہے’’زادراہ ساتھ رکھو اوربہترین زادراہ تقوی ہے‘‘۔تقوی نام ہے ایمان کے تقاضوں کوپوراکرنے کا،ظاہرہےوہ ساری زندگی پرمحیط ہیں،اعمال ظاہرہ وباطنہ سب کے سب ایمان کے تقاضوں میں شامل ہیں،مادی اسباب عیش وعشرت کی محبت اوراسکی تحصیل میں کھوئے رہنا اس مبارک سفر کے حقوق وآداب کے مغائرہے ۔
٭مشاعرمقدسہ ومقامات مبارکہ کی حرمت وتعظیم کے ساتھ حرمین پاک میں اقامت پذیرتمام اصحاب کے احترام کوملحوظ خاطررکھیںارشادباری ہے’’ یہی حق ہے اور جس نے اللہ سبحانہ کی نشانیوں کی تعظیم کی تو بیشک یہ دلوں کے تقویٰ کے آثار سے ہے‘‘(الحج۳۲)۔
٭اس مبارک سفرمیں نفس اورزبان دونوں کوقابومیں رکھیں ،ان کی حفاظت میں قبولیت حج وزیارت کا رازمضمرہے،اس میں کوتاہی حرمین معظمین کے احترام وتقدیس میں کوتاہی کاسبب بن سکتی ہےاورحج بیت اللہ کے برکات وثمرات سے محرومی حصہ میں آسکتی ہے،حجاج کرام کوہرآن اس دعاء کااہتمام کرنا چاہیئے’’اے ہمارے پروردگار!ہمیں ہدایت سے بہرومندفرمانے کے بعد ہمارے قلوب کو(کج) ٹیڑھے مت فرمائیےاورہمیں اپنے پاس سے رحمت عطافرمائیے،یقینا آپ ہی بہت عطافرمانے والے ہیں‘‘ (آل عمران؍۸)۔ دعاء ہے کہ اللہ سبحانہ دوران سفرحج وزیارت اورسفرسے واپس لوٹنے کے بعدہرحال میں بندگی کے تقاضوں کوبجالاتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے ،حج کوحج مبروراورزیارت کوزیارت مقبول بنائے، ہر بندہ مومن کوحج وزیارت کی نعمت کاشرف اوراسکی قبولیت نصیب فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭