محمد انیس الدین
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے
خدا بھی اہل ہمت کو پر پرواز دیتا ہے
امت کے 57 مسلم ممالک کی فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی پر مسلسل بے حسی اور لاپرواہی سے ساری امت نہ صرف فکر اور تشویش میں مبتلا ہے بلکہ سارے عالم کے انسانیت دوست افراد اس نسل کشی پر اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔ ایسے میں مسلم حکمرانوں پر ایک بے حسی اور جمود کی کیفیت طاری ہے اس سے سارے عالم اسلام میں ایک تشویش کی لہر چل رہی ہے کہ آخر ایک خدا ایک رسول اور ایک قرآن کے ماننے والوں میں ایسی مجرمانہ بے حسی کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں۔ کیا ان میں عیش و آرام اور دولت کی فراوانی نے دین و ا یمان سے بے بہرہ کردیا ‘ ان پر مجازی طاقتوں کا خوف ہے۔ آخر معصوم اور بے گناہ فلسطینی جن کی زمین چھین لی گئی ان کے گھر برباد ہوگئے اور یہ لوگ روٹی کپڑا مکان سے محروم ہوگئے۔ یہ اپنے معصوم نونہالوں کو اپنے ہاتھوں سے دفنارہے ہیں۔ حکمران امت یہ ملت کے المیہ کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔ سارا عالم انسانیت بے تاب و بے چین ہے اسرائیلی درندگی کو کیسے روکا جائے۔ اگر نام نہاد بڑی طاقتیں ایمانداری اور غیر جانبداری سے ان پیچیدہ مسائل کو حل کرتے تو دنیا کو فلسطین کے المیہ سے بچایاجاسکتاتھا۔
وہ دیکھو متحد ہے کفر تم بھی ایک ہوجاؤ
اُٹھو ایمان کے پرچم کو تم بھی لہراؤ
امریکہ اور یورپی ممالک میں اسلام دشمنی کیلئے مضبوط اتحاد ہے۔ حکومتیں بدل جاتی ہیں لیکن اسلام دشمنی کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ یہ طاقتیں ہمیشہ دہشت گرد اور ظالم کا ساتھ دیتی ہیں اور ایک اشارہ پر مسلمانوں اور ان کی حکومتوں کو برباد کرنے کیلئے مسلم ممالک کے اطراف جمع ہوکر ان کے حکمرانوں کو ان کی کرسی کا خوف دلا کر ان سے قربت حاصل کرلیتے ہیں اور مسلم حکمران کرسی کے لالچ میں اپنے دین اور ایمان سے دور ہوجاتے ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی یہ کیفیت ملت کو ایک مضبوط اتحاد سے روک رہی ہے اور ظالم اپنے ظلم اور دہشت سے باز نہیں آرہا ہے اب تو دشمن کی آنکھوں میں خون اترآیا ہے اور وہ انسانیت پر دہشت اور بربریت سے باز نہیں آرہا ہے۔ اب تو دشمن کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہے اور وہ انسانیت پر دہشت اور بربریت سے باز نہیں آرہاہے۔ اسرائیل اندھا ہوکر فلسطین پر دہشت برپا کررہا ہے ۔ مسلمان اس اندھے پن کا فائدہ اٹھائیں اور اس اندھے کو ایک مضبوط اتحاد سے صفحہ ہستی سے مٹادیں۔ اسرائیل سارے عالم کا مرکز فساد ہے اور ان کی سرپرستی کرنے والے حقیقی دہشت گرد ہیں۔
اٹھو کہ تم کو فلسطین کے چمن آواز دیتے ہیں
تمہیں غزہ کے وہ کوہ و دمن آواز دیتے ہیں
فلسطین انبیاء کی سرزمین ہے اور یہاں مقدس مقامات ہیں اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ بھی یہیں ہے۔ ان مقدس مقامات کا تحفظ مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم ان ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے تو پھر مسلمانوں کی مکہ اور مدینہ سے بھی اجارہ داری کا خاتمہ ہوجائے گا۔ غزہ میں اسرائیل کی درندگی انسانی المیہ ہے جو تاریخ اسلامی میںایسی درندگی کی مثال ملنا ناممکن ہے۔
لہو میں تیرتے گھر اور صحن آواز دیتے ہیں
فلسطینی وہ لاشے بے کفن آواز دیتے ہیں
اسرائیل درندگی پر مائل ہے اور اس کی حمایت امریکہ اور یوروپ کی مہذب اور امن پسند حکومتیں کررہی ہیں۔ یہ ممالک ظالم اور مظلوم میں فرق ‘ دہشت اور حریت کی جدوجہد میں تمیز نہیں کرپارہی ہیں اور دہشت کا بازار حود گرم کرکے الزام مظلومین پر ڈال کر سارے عالم میں ایک جھوٹ کا کہرام مچارہے ہیں۔
غیرت مند مسلم حکمران مہاتیر محمد کا ایک واقعہ عوامی آگاہی کیلئے ذیل میں درج ہے۔
ملائیشیا کے حکمران مہاتیر محمد انگلینڈ کے دورہ پر گئے ‘ مقامی اخبارات میں ان کا ایک تضحیک آمیز کارٹون شائع ہوا۔ مہاتیر محمد کی جب انگلینڈ کے وزیراعظم سے ملاقات ہوئی تو وہ اخبار کا ٹکڑا ٹیبل پر رکھ دیا اور پوچھا یہ کیا ہے؟ اس پر انگلینڈ کے وزیراعظم نے کہا کہ یہاں میڈیا آزاد ہے تو اس پر مہاتیر محمد نے کہا اچھا تو ٹھیک ہے۔ جب آپ میڈیا کی آزادی اور دوسروں کی دل آزاری میں فرق جان لیں تب ہماری ملاقات ہوگی اور یہ کہہ کر میٹنگ ختم کردی۔ ساتھ ہی ملائیشیا اپنے آفس فون کیا اور کہا کہ میرے آنے سے پہلے جتنے انگلینڈ کے باشندوں کے ملائیشیاء میں کاروبار ہیں ان کو سیل کردیا جائے۔ ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کردیئے جائیں اور 24گھنٹوں کے اندر اندر ا ن کو ملک بدر کردیا جائے ۔ پھر ان کے حکم پر عمل ہوا۔
آپ کے آفس پہنچنے سے پہلے انگلینڈ کے وزیراعظم کا معافی نامہ آپ کے ٹیبل پر پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی اس کارٹونسٹ کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ یہ ہوتے ہیں مسلم غیرت مند حکمران‘ غیرت مند لیڈر جن میں اللہ کے سوا کسی اور کا خوف نہیں ہوتا۔ ان میں یہ غیرت ایمانی موجود ہوتی ہے لیکن جو دوسروں کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں ان میں یہ غیرت ایمانی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ باغیرت مسلم حکمران بن سکتے ہیں۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے 1938ء میں وفات پائی اور اپنی زندگی میں فلسطینی عرب مسئلہ پر جو نظم لکھی وہ اس علاقہ کی فکر انگیزی ‘ دور اندیشی ‘ دانشمندی اور قوت ایمانی کا ثبوت دے رہی ہے۔ اس نظم کو موجودہ فلسطین کے حق و باطل کے معرکہ کے تناظر میں دیکھئے۔
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے‘ نہ لندن میں
فرنت کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے ‘ غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے!
فکر اقبال پر غور فرمائیے کہ اسرائیل کے وجود سے پہلے ہی فلسطینیوں اور عرب کی حالت کا نقشہ کھینچ دیا۔ مسلم حکمرانوں کا اتحاد ہی ان کو راہِ راست پر لاسکتا ہے جس کیلئے قربانی ضروری ہے۔
صیہونی درندوں نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کیلئے غزہ پٹی کا انٹرنیٹ نظام مکمل طورپر بند کردیا ہے۔ اس لئے صحافتی اداروں اور ایمبولنس سرویس اور امدادی کارکنوں کو بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مواصلاتی سروسز اور انٹرنیٹ کی بندش اسرائیل کی غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے ارتکاب کے ضروری ثبوت چھپانے کا ایک حربہ ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ اس کا غزہ میں اپنے ملازمین سے رابطہ منقطع ہوگیاہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کے مطابق اقوام متحدہ کی متعدد ایجنسیوں کا غزہ میں اپنی ٹیموں سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ انسانی بنیادوں پر آپریشن اور اسپتال کی سرگرمیاں مواصلات کے بغیر جاری نہیں رہ سکتیں۔ ہلال احمر‘ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن سمیت تمام عالمی اداروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ غزہ اس وقت دنیا سے بالکل کٹ چکا ہے۔ ایسے میں وہاں اسرائیل کچھ بھی کرے دنیا کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔
اس قیامت کی گھڑی میں بھی مسلمان حکمران غفلت میں مدہوش ہوکر خود کو المیہ سے لاتعلق ہوکر اپنی مفاد پرستی اور خود غرضی اور بے حسی کا عملی ثبوت دے رہے ہیں اور بعض تو تفریحی مشاغل میں مصروف ہیں‘ جبکہ سارے عالم کے مسلمان بے چین اور مضطرب ہوکر اسرائیلی درندگی پر احتجاج کررہے ہیں اور اسرائیل کے اعتدال پسند یہودی بھی اس احتجاج میں شامل ہیں۔ مسلمانوں نے ایسی بے حسی اپنی چودہ سو سالہ تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔
افق فلسطین سے عروج امت کا آفتاب طلوع ہورہا ہے ‘ امت کو اب تو متحد ہوجانا چاہیے۔ آپ کا اتحاد اور خالق کی غیبی مدد سے آپ دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور ظالموں کو ایسا سبق سکھاسکتے ہیں کہ وہ قیامت تک اس کو نہ صرف یاد رکھیں گے بلکہ مستقبل میں دنیا میں کسی جگہ بھی معصوم انسانوں پر ظلم کی جرأت نہیں کریں گے۔ دنیا سے ظلم اور ظالم کا خاتمہ ہوگا اور دنیا امن کا گہوارہ ہوگی۔ مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں کا اتحاد عالمی امن کا ضامن ہوگا اس کے برعکس ‘ ظالموں‘ عیاروں ‘ دہشت گردوں اور خالق کے دشمنوں کا اتحاد دنیا کو تیسری عالمی بربادی کی طرف لے جائے گا ۔ اگر دنیا امن چاہتی ہے تو وہ مظلوموں کی مددگار بن جائے۔ دنیا نے پون صدی سے ظالم کا ساتھ اور اپنے خالق سے بغاوت کا نتیجہ دیکھ لیا اور اب امریکہ اور یورپی ممالک کا فرضی‘ جھوٹا اور پرفریب دیشت کے ڈرامہ کا ناٹک قریب الختم ہے۔ یہ ناٹک صرف سارے عالم میں بدامنی پھیلا کر اپنے مفادات کی حفاظت کرنا تھا۔
عالمی صورتحال میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ پون صدی سے جاری دہشت دم توڑ رہی ہے اور امن کا سورج طلوع ہورہا ہے ‘ سارے امن پسند اور انسانیت کے قدرداں امن کے دامن میں آجائیں تو ساری دنیا میں امن قائم ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ دہشت اور دہشت کے معاون و مددگاروں کو امن کا سبق سکھایاجائے۔ دہشت اور اس کی سرپرستی کو جاری رکھ کر امن کی توقع کرناایک احمقانہ اور مجرمانہ حرکت ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰