سیاستمضامین

مودی اور بائیڈن : عجب پریم کی غضب کہانی

ڈاکٹر سلیم خان

امریکی صدر جو بائیڈن کے مودی پریم کو دیکھ راجیش کھنہ اور شرمیلا ٹیگور کی فلم امر پریم کا ایک نغمہ یاد آتا ہے ’یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا ؟ جب ہوا ؟ تب ہوا؟ چھوڑو یہ نہ سوچو ۔ یہ کیا ہوا؟ ‘۔ آنجہانی آنند بخشی نےکبھی نہیں سوچا ہوگا کہ اکاون سال بعد ان کا یہ نغمہ حقیقت بن جائے گا اور ساری دنیا کے لوگ حیرت پوچھیں گے کہ’ کیا سے کیا ہوگیا بے وفا تیرے پیار میں ‘؟ ڈونلڈ ٹرمپ اورمودی جی کی پریم کہانی پر کسی کو تعجب نہیں ہواتھا کیونکہ وہ رام ملائی جوڑی تو جیسے ایک دوجے کے لیے ہی بنی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ مودی جی کے احمق بھگتوں نے انہیں ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں فلوریڈا بلاکر اپنے وزیر اعظم کی نادانستہ توہین کردی ۔ کسی ملک کے وزیر اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسرے ملک کے سربراہ کی تشہیر کرے۔ اس سے حوصلہ پاکر ٹرمپ نے نمستے کا جواب دینے کی خاطر احمد آباد کا قصد کرکے ثابت کردیا کہ حماقت کے میدان میں وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ جو بائیڈن کو ہرانے کی یہ مشق ناکام رہی اور پھر ہند امریکی تعلقات کو بحال ہونے میں تین سال لگ گئے۔ اس دوران امریکی انتظامیہ نے مودی سرکار کی جم کر تنقید کی مگر اب سب کچھ بدل گیا۔ نفرت کے بادل چھٹ چکے ہیں اور محبت کی پھوار نے سرکاری مہمان کے طور پر واشنگٹن ڈی سی میں مودی جی کا خیر مقدم کیا ۔
وزیر اعظم مودی کے دورے سے دوہفتہ قبل امریکی قومی سلامتی کونسل کے اسٹریٹجک کمیونیکیشن کوآرڈینیٹر جان کربی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہندوستان ایک متحرک جمہوریت ہے۔ دہلی کا دورہ کرنے والا ہر شخص اسے محسوس کرسکتا ہے۔ کربی نے ہندوستان کوکئی سطحوں پر امریکہ کا اہم شراکت دار بتایا اور اب خود صدر بائیڈن نےہندوستانی جمہوریت کا دفاع کرتے ہوئے کہا چونکہ ہندوستان اور امریکہ دونوں جمہوریت ہیں، اس لیے ان کے تعلقات گہرے ہیں۔ مہمانِ خاص کی دلجوئی کے لیے انسان تھوڑا بہت جھوٹ بھی بول دیتا ہےاس لیے یہاں تک تو قابلِ برداشت تھا لیکن جب انہوں کہا کہ دونوں ممالک کی جمہوریتوں میں تنوع، کشادگی اور رواداری شامل ہےتو صاف ہوگیا کہ یہ بائیڈن منافقت بول رہی ہے ۔ اس دوغلے پن کا جواب بھی امریکی صدر کے خطاب میں تھا۔ وہ بولے چین میں جمہوریت کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہے۔ اس طرح پتہ چل گیا ہے چین کے بغض نے مودی جی سارے پاپ دھو کر انہیں پوترکردیاہے۔ اس طرح گویا دشمن کا دشمن کی مصداق بائیڈن نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے بعد ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو سرکاری دورے پر کیا؟
چین کو گھیرنے کے علاوہ بائیڈن کی محبت کا راز امریکہ کی خستہ حال معیشت میں پنہاں جو پچھلے دنوں دیوالیہ ہوا چاہتی تھی۔ ہندوستان کو امریکہ جنگی جہاز کے لیے جیٹ انجن تیار کرنے کی ٹیکنا لوجی بیچ کر اپنا خزانہ بھرنا چاہتا ہے۔ یہ کام ایچ اے ایل کے کارخانوں میں ہوگا۔ اس کے علاوہ بنگلور اور احمد آباد میں امریکہ نئے قونصل خانے بھی کھولنا چاہتا ہے اسی لیے بائیڈن فرما رہے ہیں کہ دو عظیم ملک، دو مضبوط دوست اور دو طاقتور ملک اکیسویں صدی کی سمت کا تعین کریں گے۔ سچائی تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی کی سمت طے ہوچکی ہے جس میں چین دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقت بن کر ابھر چکا ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے بیشتر ممالک جو کبھی امریکہ کے باجگذار ہوا کرتے تھے اب چین کے حلیف بن گئے ہیں۔ ان میں سب سے چونکانے والا ملک سعودی عرب ہے ۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ جب دنیا کے نقشے پر امریکہ کا اقبال بلند ہورہا تھا تو ہندوستانی حکمراں اس کے خلاف سوویت یونین کے خیمہ میں داخل ہوگئے۔ بی جے پی والے اسے پنڈت نہرو کی غلطی مانتے ہیں لیکن اب جبکہ چین کا ستارہ عروج کی جانب گامزن ہے تو اس کی مخالفت میں مودی جی نے ڈوبتے سورج امریکہ کا دامن تھام لیا ہے۔
بائیڈن اور مودی میں جمہوری اقدار کے علاوہ ابن الوقتی بھی قدرِ مشترک ہے۔ اس کا ثبوت وزیر اعظم کے اعزاز میں دیئے جانے والے سرکاری عشائیہ میں سامنے آیا ۔ اس زبردست دعوت کے اندر بدقسمتی سے کوئی گجراتی پکوان نہیں تھا ورنہ گودی میڈیا تو اسے لے آسمان زمین ایک کردیتا لیکن وہاں سےمودی جی کا سب سے چہیتا گجراتی سرمایہ دار بھی غائب تھا ۔ اس دعوت شیراز میں شرکت کے لیے ہندوستان سے مکیش اور نیتا امبانی ، اشرف منصور داہود ، شمیم اشرف داہود ،وویک کمار، آنند مہندرا اوردیپک متلّ جیسے سرمایہ داروں کو بلایا گیا مگر وزیر اعظم کے منظورِ نظر گوتم اڈانی موجود نہیں تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر بائیڈن برے وقت میں گدھے کو باپ بناسکتے ہیں تو مودی جی بھی اپنے رفیقِ خاص کو دودھ سے مکھی کی مانند نکال پھینکنے سے نہیں ہچکچاتے ۔ مبادہ یہ دونوں کے اندر مشترک جمہوری ڈی این اے کا کمال ہے۔ اڈانی سے دوری اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ راہل گاندھی کو ایوان پارلیمان سے نکالنے کے بعد بھی چھپن انچ والا وزیر اعظم ان سے خوفزدہ ہے۔
مودی جی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو گودی میڈیا اور حکومت ہند کے ترجمان ان مظاہروں کو ملک مخالف قوتوں کی سازش کہہ کر نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی امریکہ میں موجودگی کے دوران سابق صدر براک اوبامہ نے بھی ہندوستان کے اندر اقلیتوں اور خاص طور مسلمانوں کی حق تلفی کا مسئلہ اٹھا دیا۔ انہوں نے اس موضوع کو سفارتی سطح پر اٹھانے کی پر زور سفارش کی ۔ اوبامہ نے متنبہ کیا کہ اگر اقلیتوں کے مسائل کو حل نہیں کیا گیا تو ایک خاص نکتے پریہ ملکی سالمیت کے لیے خطرہ بن جائے گااس لیے اسے حل کرنا قومی مفاد میں ہے۔ اوبامہ نہیں جانتے کہ بی جے پی کے لیے اقتدار میں رہنا قومی مفاد سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس لیے سنگھ پریوار جان بوجھ کر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیزی کرتا ہے۔ امیت شاہ گجرات کے اندر مسلمانوں کی نسل کشی کا جواز فراہم کرکے اس کے عوض ووٹ مانگتے ہیں اور کرناٹک میں وزیر اعظم سمیت وزیر داخلہ مسلمانوں کے خلاف ایک ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا کردیتے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسے کم ظرف اور ابن الوقت سیاستدانوں پر براک اوبامہ کی نصیحت بھلا کیسے کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ان پر تو 75؍امریکی ارکان پارلیمان کا بائیکاٹ بھی بےاثر ہوگا جنھوں نے صدر جو بائیڈن سے مودی کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی پر بات کرنے کی گزارش کی تھی۔
وزیر اعظم نے اپنے دورے کا آغاز یوگا کے عالمی دن کی تقریب میں شرکت سے کیا۔ اس کا اہتما م نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے دفتر میں کیا گیا تھا ۔ وزیر اعظم سے چونکہ خود یوگاسن نہیں ہوتا اس لیے یہ ایک تماشا بن گیا ۔ پہلے تو وہ کھڑے ہوکر کچھ کرتب بازی کرتے رہے پھر بیٹھے تو جیسے مسلمان نماز میں قائدے کے وقت بیٹھتے ہیں۔ اس کی وجہ سے آس پاس کے لوگوں کو بھی مجبوراً اسی طرح بیٹھنا پڑا حالانکہ وہ کوئی یوگاسن نہیں ہے۔ اس کے بعد آلتی پالتی مارنے کی کوشش میں وزیر اعظم کے دور دور پیر دیکھ کر عام لوگوں کو تو ہنسی آئی مگر بابا رام دیو کو ضرور رونا آیا ہوگا۔ نو سال قبل مودی سرکار نے یوگا کو عالمی دن تو بنوادیا لیکن اپنے لوگوں کو یوگا نہیں سکھا سکے۔ اس بابت ہندوستان کے اندر نشر ہونے والی ویڈیوز بھی تفریح کا سامان بن گئیں۔ امیٹھی کی رکن پارلیمان اور مرکزی وزیر سمرتی ایرانی کو کھڑے ہوکر یوگا کرتے ہوئے دیکھو تو ایسا لگتا ہے کہ بھونڈے طریقہ سے کتھاکلی رقص کررہی ہیں۔ جے پی نڈا بیچارے پیر گھٹنے پر رکھنے کی کوشش میں بار بار اپنا توازن کھو تے دکھائی دیتے ہیں اور مہاراشٹر کے رعونت پسند نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس سے تو یوگا کے دوران بھی جھکا نہیں جاتا۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ کھٹی ڈکار لے رہے ہیں ۔
بی جے پی نے اپنی منافقت سے صدیوں پرانے یوگا کو بھی تماشا بنا دیا۔ نیویارک کے اندریوگا کی تقریب میں اقوام متحدہ کی سیکریٹری جنرل امینہ محمد موجود تھیں۔ ان کو مخاطب کرتے ہوئے مودی جی کی زبان پھسل گئی اور انہوں نے یونائیٹید نیشن کویو این کہنے کے بجائے مضحکہ خیز انداز میں یونین کہہ دیا ۔ خیر مودی جی کو ایم اے کی جعلی ڈگری لینے کے باوجود انگریزی نہیں آتی یہ بات سب جانتے ہیں ۔ نیویارک سے واشنگٹن پہنچنے کے بعد مودی جی نے سوچا کہ اپنی کامیابیوں کو ہندی میں بیان کیا جائے۔ یہ چند منٹوں کی ایک ویڈیو ہے جس میں وزیر اعظم ہر جملہ دیکھ کر پڑھتے نظر آتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوا کہ غالباً ٹیلی پرامپٹر کا بندو بست نہیں ہوسکا۔ ملک کے اندر انتخابی جلسوں میں فراٹے کے ساتھ جھوٹ بولنے والے وزیر اعظم کی یہ حالت ِغیر قابلِ دید تھی۔
اس بار مودی جی کے دورے پر راہل گاندھی کے دورے کا اثر تھا اس لیے وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو دینے کا پاکھنڈ کیا گیا۔ اس انٹرویو کی میں سوال و جواب موجود ہی نہیں ہیں یعنی ایک تقریر کو تحریر کرکے شائع کردیا گیا ہے ۔ ظاہر ہےاخباری سوالات کا جواب مودی جی کے دفتری کارکنان سے جواب لکھا ہوگا۔ وال اسٹریٹ جرنل نے بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیااور نویں صفحے پر نیچےشائع کردیا۔ پہلے صفحہ پر نیچے اس کا ایک مختصر اقتباس نقل کر کے اس کی اجرت وصول کرلی ۔ نو سال اقتدار میں رہنے کے بعد پہلی بار وزیر اعظم نےپریس کانفرنس میں محدود سوالات لیےیعنی ایک ہندوستانی اور ایک امریکی صحافی کو موقع دیا ۔ اامریکی صحافی کے سوال جواب وزیر اعظم نے ہندی میں دیا جو سائل تو دور ہندی زبان کے ماہرین کو بھی سمجھ میں نہیں آیا بہتر ہوتا کہ مودی جی گجراتی میں بولتے۔ ایسا لگتا ہےانہوں نے سوال کو سمجھے بغیر ایک رٹی رٹائی تقریر سنادی ۔ وزیر اعظم اگر راہل کےچکر میں نہ پڑتے تو اس میں ان کی بھلائی تھی کم ازکم بھگتوں کی نظر میں یہ کمزوری تو نہیں کھلتی ۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰