امریکہ و کینیڈاسوشیل میڈیا
ٹرینڈنگ

سورج سے کئی گنا زیادہ روشن ’بلیک ہول‘ دریافت

غیر معمولی طاقت کے حامل اس بلیک ہول کو ’جے0529-4351‘ کا نام دیا گیا ہے، یہ بلیک ہول بنیادی طور پر ’کواسر‘ یعنی کہکشاں کا مرکزی حصہ ہے، فلکیات کی اصطلاح میں اسے اے جی این یعنی ’ایکٹیو گیلیکٹک نیوکلیس‘ کہا جاتا ہے۔

واشننگٹن:ماہرین فلکیات کائنات میں ایک ملین کے قریب تیزی سے بڑھتے ہوئے سپر میسیو بلیک ہولز کو تلاش کرچکے ہیں جو کہکشاؤں کے مراکز میں پائے جاتے ہیں۔

متعلقہ خبریں
اجتماعی قبر سے ایک ہزار ڈھانچے دریافت، ماہرین دنگ رہ گئے
رونالڈو کی ڈائٹ ناسا کے سائنسدان سیٹ کرتے ہیں: رمیز راجہ (ویڈیو)
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

سائنسی جریدے نیچر آسٹرونومی میں شائع ہونے والے ایک نئے مضمون میں اب تک دریافت ہونے والی گیس اور دھول کی سب سے بڑی اور روشن ترین ڈسک سے گھرے ہوئے بلیک ہول کے وجود کو بیان کیا گیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امریکی سائنسدانوں نے سورج سے 500 ٹریلین گنا زیادہ روشن ’کواسر‘ دریافت کرلیا ہے، خیال کیا جارہا ہے کہ یہ کائنات میں سب سے زیادہ روشن اور سب سے زیادہ طاقتور جگہ ہوسکتی ہے۔

غیر معمولی طاقت کے حامل اس بلیک ہول کو ’جے0529-4351‘ کا نام دیا گیا ہے، یہ بلیک ہول بنیادی طور پر ’کواسر‘ یعنی کہکشاں کا مرکزی حصہ ہے، فلکیات کی اصطلاح میں اسے اے جی این یعنی ’ایکٹیو گیلیکٹک نیوکلیس‘ کہا جاتا ہے۔

یہ غیر معمولی طور پر بڑی مقدار میں توانائی خارج کرتا ہے، ان میں وسیع پیمانے پربلیک ہولز ہوتے ہیں، جو سورج سے لاکھوں یا اربوں گنا زیادہ بڑے ہوتے ہیں اور مادے کی بڑی مقدار کو نگل رہے ہیں۔

دی گارڈین کے مطابق آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ابتدائی طور پر آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے قریب واقع قصبے میں کواسر کی اطلاع دی تھی، جس کی تصدیق بعد میں یورپی سدرن آبزرویٹری نے کی تھی۔

نیچر آسٹرونومی نامی جریدے کے مصنف کرسچن وولف نے یورپی سدرن آبزرویٹری کو بتایا کہ ہم نے اب تک کا سب سے روشن بلیک ہول دریافت کیا ہے جو سورج کی کمیت سے 17 سے 19 ارب گنا کے درمیان ہے جو روزانہ ایک دن میں سورج کے برابر مادہ نگل رہا ہے کیونکہ یہ گیس کی بڑی مقدار کو کھینچتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان بلیک ہولز سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ اس روشنی کو ہم تک پہنچنے میں 12 بلین سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کا پھیلاؤ بہت پہلے رک چکا ہوگا۔