سید بشارت الحسن بخاری
جموں کشمیر کا نام آتے ہی لوگوں کے ذہن میں دو ہی خیالات آتے ہیں، پہلا وہاں کی خوبصورتی اور دوسرا بندوق کے سائے میں زندگی گزار رہے لوگوں کے مسائل۔لیکن ان مسائل کے علاوہ ایک کامیابی کی کہانی بھی ہے جسے وہاں کی دیہی خواتین سنہری حروف سے لکھ رہی ہیں۔سبرینا خالق، رخسانہ چوہدری اور نصرت خاتون جیسی بہت سی خواتین ہیں جو دور دراز دیہی علاقوں میں رہ کر نہ صرف خاموشی سے اپنی کامیابی کی داستان لکھ رہی ہیں بلکہ خواتین کو بااختیار بنانے کی ایک بہترین مثال بھی بن رہی ہیں۔ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والی سبرینا خالق تین بچوں کی ماں ہیں۔ ان کے دو بچے اسکول بھی جاتے ہیں۔سبرینا نے حال ہی میں دسویں جماعت کے بائی اینول امتحانات میں93فیصد نمبرات حاصل کر کے ٹاپ کیا ہے۔ سبرینا کے جذبے سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ امتحانات کو پاس کرنے کے لیے کوئی عمر کی حد نہیں ہوتی ہے۔ بس آپ میں جوش و جذبہ ہونا چاہیے ،کامیابی آپ کے قدم چومنے کو تیار ہے۔ جموں وکشمیر میں ایسی خواتین کی کوئی کمی نہیں ہے جو اپنے آپ میں مثال ہیں۔ فلمی دنیا سے لے کر تعلیم اور کاروبار میں یہاں کی خواتین آئے روز کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کی ترقی کو رفتاردینے کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں بھی ”امید“ اسکیم کے علاوہ کئی فلاحی اسکیمیں چلا رہی ہیں۔ جن کے بہتر نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کی پنچایت اعظم آباد سے تعلق رکھنے والی رخسانہ چوہدری حکومت کی ©”امید“ اسکیم کے تحت سات سو سے زائد خواتین کو با اختیار بنانے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے محنت و لگن سے کام کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ اسکیم جموں و کشمیر اسٹیٹ رورل لائیولی ہڈز مشن (امید) کے طور پر چلائی جا رہی ہے۔اس کے اغراض و مقاصد میں سابقہ 125 بلاکس میں دیہی آبادی کے 66 فیصد آبادی تک پہنچناہے۔ انہیں پائیدار معاش کے مواقع سے جوڑنا اور ان کی اس وقت تک پرورش کرنا جب تک کہ وہ غربت سے باہر نہ آجائیں۔ اس سے علاوہ اچھے معیار زندگی سے لطف اندوز ہونا بھی اس میں شامل ہے۔اس اسکیم کی بنیادی اقدار میں غریبوں کی شمولیت اور تمام عمل میں غریب ترین افراد کو بامعنی کرداردینا ہے، تمام عمل اور اداروں کی شفافیت اور احتساب لانا ،تمام مراحل میں غریبوں اور ان کے اداروں کی ملکیت اور کلیدی کردار، منصوبہ بندی، نفاذ اور نگرانی کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی خود انحصاری بھی شامل ہے ۔
امید اسکیم سے جُڑکررخسانہ ابھی تحصیل منڈی کے اعظم آباد،جھالیاں، فتح پور،بائلہ اور برنوٹ وغیرہ میں سرکاری اسکیموں کے تحت خواتین کو کاروبارچلانے اور با اختیار بنانے میں ان کی مدد کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ اس اسکیم کے تحت خواتین خود مددگار گروپس کی تشکیل دیکر چھوٹے چھوٹے کاروبار چلاتی ہیں۔ جس کے لیے مشن کی جانب سے انہیں مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔اس اسکیم کے تحت رخسانہ بڑی تعداد میں خواتین کو بیدار کرتے ہوئے انہیں کاروباری بنانے میں ان کی مدد کر رہی ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر میں اسکیم سے فائدہ اٹھا کر اپنا بہترین کاروبار چلا سکتی ہوں تو دیگر خواتین بھی ایسا کر سکتی ہیں۔ رخسانہ بذات خود بھی کاروبار کر رہی ہیں ۔ان کے کاروبار میں اچار بنانے کے ساتھ ساتھ جیم بنانا بھی شامل ہے۔ انہوں نے اسی اسکیم سے قرض لے کر اپنا کاروبارشروع کیا ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ اپنے اس کاروبار سے نہ صرف ماہانہ چار ہزار روپئے کی آمدنی کرلیتی ہیں بلکہ اس کاروبار کو آئے روز بڑھا بھی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف محکمہ جات کی اسکیموں کو زمینی سطح پر نافذ کرنے میں محکمہ کی مدد بھی کر رہی ہیں ۔وہ مختلف اسکیموں کے تحت عام لوگوں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں ۔اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ رخسانہ کسانوں کو مختلف اسکیموں کے تحت زراعت سے متعلق جانکاری بھی فراہم کر رہی ہیں۔اپنی پنچایت میںمحکمہ زراعت سے کھاد،بیج اور سبزیاں وغیرہ عام لوگوں تک پہنچانے میںان کا قلیدی کردار رہا ہے۔رخسانہ کہتی ہیں کہ میں نے 2016 میں ”امید“ اسکیم میں شمولیت کی۔ہم لڑکیوں نے مل کر سیلف ہیلپ گروپ بنائے۔ میرے گروپ کو مشن کی جانب سے ریوالونگ فنڈ کے طورپر پندرہ ہزارروپئے آئے اور میں نے ان روپیوں سے اپنے گھر پر مرغی فارم کھولا ۔اس کے بعد جب میرے گروپ کو چھ مہینے ہوئے تو مجھے مشن کی طرف سے چالیس ہزار روپئے آئے تو میں نے سوچا میں اپنے روزگار کو تھوڑا اور بڑھاﺅں۔ میں نے اس رقم سے چھوٹی سی دوکان کھولی، جب مجھے اپنے بزنس میں فائدہ ہونے لگا تو میں نے امید اسکیم سے مزید لون لیا۔ پھر میں نے اپنے ہی گھر میںسلائی سنٹر کھولا۔ جس میں پانچ لڑکیوں کو بھی اپنے ساتھ جوڑا، تاکہ ان کے گھر بھی چل سکیں۔رخسانہ کا کہنا ہے کہ اس کے بعد میں نے اپنے گھر کے اندر ڈیری فارم بھی کھولااور جب مجھے کاروبار کی مزید جانکاری ہونے لگی تو میں نے ایک اچار ،جیم کا یونٹ لگایا جس کے لیے میں نے مشینری سری نگر سے منگوائی۔ آج میں اپنے گھر کے اندر جیم اور اچار بناتی ہوںاور مارکیٹ میں فروخت کرتی ہوں،جس سے ماہانہ اچھے پیسے کما لیتی ہوں۔
اس سلسلے میں21سال کی تعظیم اختر کہتی ہیں کہ رخسانہ چوہدری بلاک منڈی پنچایت اعظم آباد کے علاوہ دیگر کئی پنچایتوں میں خواتین کو با اختیار بنانے کابہترین کام کر رہی ہیں۔ وہ گاو¿ں اعظم آباد کے اندر اپنے چھوٹے چھوٹے روزگار شروع کرنے کے ساتھ ساتھ بہت ساری لڑکیوں کو روزگار کے قابل بھی بننے میں ان کی مدد کررہی ہیں ۔انہوں نے مزیدکہاکہ جیسے رخسانہ چوہدری خود روزگار چلارہی ہےںویسے ہرایک لڑکی کو اپنی مدد آپ کرتے ہوئے روزگار
کرنے چاہیے ۔اسی ضمن میں اعظم آبادپنچایت کے سرپنچ منظور حسین کہتے ہیں کہ رخسانہ حکومت کے کئی شعبہ جات کے ساتھ مل کر عوام تک سرکاری اسکیموں اور ان کے فوائد کو پہنچا رہی ہےں۔ہم سب کواس پر فخر ہے جو مقامی خواتین کو با اختیار بنانے میں ان کی مدد کر رہی ہے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ میںرخسانہ کے کام میں ان کا تعاون بھی کرتا ہوں اور ان کی نمایاں خدمات کی وجہ سے میری پنچایت میں ترقی ہو رہی ہے اور میری پنچایت کا نام اونچا ہورہا ہے۔ تحصیل منڈی کی پنچایت اعظم آباد کی نصرت خاتون بھی اپنے علاقہ میں ایک بااختیار خاتون کے طور پر پہچان بناچکی ہیں۔ وہ بھی حکومت کی ” امید“ اسکیم کے تحت اپنا کاروبار چلا رہی ہیں۔اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نصرت اپنی بہن کے ساتھ اس اسکیم کے تحت قائم کردہ خود مددگار گروپ کی ممبر بنی۔اپنی بہن سے سیکھتے ہوئے وہ اب اس گروپ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میںنصرت کا کہنا ہے کہ میری بہن کی شادی کے بعد اس گروپ کی باگ دوڑ میں نے سنبھالی اور اب احسن طریقے سے اپنے گروپ کو چلا رہی ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے کاروبار میں بیاگ، سویٹر، مفلر،بے بی سیٹ بنانا شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم اس کام کو اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی ہیں ۔ یہ سارا کام میرے ساتھ میرا گروپ کر رہا ہے اور اپنے کاروبار سے ماہانہ اچھی آمدنی کر لیتی ہوں۔نصرت کا ماننا ہے کہ اگر ہمارے گروپ کے تیار کردہ سامان کی مارکیٹنگ اچھی ہوجائے تو ہماری آمدنی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔
بے شک، نہ صرف رخسانہ او ر نصرت اس گاﺅں کی مثال ہیںبلکہ ان کی طرح اس گاﺅں کی کئی اور خواتین ہیں جوحکومت کی ” امید“ اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کاروبار کر رہی ہیں۔ جموں وکشمیر میں ایسی خواتین کی کوئی کمی نہیں جو روزگار کرنا چاہتی ہیں، لیکن انہیں صحیح وقت پر صحیح پلیٹ فارم اور رہنمائی کی ضرورت ہے ۔حکومت کی جانب سے شرو ع کی جانے والی تمام فلاحی اسکیم کے اغراض و مقاصد ہوتے ہیں اور اگر زمینی سطح پر ان اسکیموں کا مکمل نفاذ ہو جائے تو یقینا رخسانہ اور نصرت جیسی کئی خواتین خود روزگار کر کے اپنے اخراجات پورے کرتے ہوئے بااختیار بن سکتی ہیں۔اسے میں متعلقہ محکمہ جات کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان اسکیموں کو زمینی سطح پر نافذ کرنے کے لیے مزید اقدام اٹھائے تاکہ عوام تک ان کا بھرپور فائد ہ پہنچایا جاسکے۔