حیدرآباد

کتاب ’’جس دن چہرے روشن ہوں گے، جناب سید عبدالباسط انور۔۔ حیات و خدمات‘‘ کا رسم اجرا

جناب سید عبدالباسط انور سابق امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند آندھرا پردیش و اڑیسہ کی شخصیت میں ہمدردی ملنساری و شجاعت ، فیاضی اور دین فہمی کے ساتھ مزہب پرستی کا جزبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

حیدرآباد: جناب سید عبدالباسط انور سابق امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند آندھرا پردیش و اڑیسہ کی شخصیت میں ہمدردی ملنساری و شجاعت ، فیاضی اور دین فہمی کے ساتھ مزہب پرستی کا جزبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

متعلقہ خبریں
جماعت اسلامی ہند چارمینار کی جانب سےدو روزہ روزگار میلہ

انھوں نے افراد کو اجتماعیت سے جوڑ کر تحریک اسلامی کے قابل بنانا جو ان کے مقصد میں شامل رہا، پردگار حقیقی سے اپنے رشتہ کو قوی و مضبوط بناے رکھا ان کا قلب و ذہن بغض انا ، کینہ و کپھٹ سے پاک و صاف  تھا اپنے آپ اور اپنے تمام  ساتھیوں کو رب سے تعلق کے بنائے رکھنے کے ساتھ ان میں اخلاقی اقرار و اسلامی فکر کے خدمت خلق کی طرف توجہ کو منبزول کروایا کرتے۔

ان خیالات کا اظہار مقررین نے ھدی پبلیکیشنر کے زیر اہتمام  ” جناب سید عبدالباسط انور۔۔ حیات و خدمات ” "جس روز جہرے روشن ہوں گے” کتاب مختلف قلم کاروں نے جناب سید عبدالباسط انور کی دینی، ملی، سماجی و تحریکی اور تنظیمی و دیگر خدمات پر مضامین ہیں اس کی رسم اجرائی سے کیا۔

رسم اجراء کی تقریب میڈیا پلس اڈیٹوریم جامعہ نظامیہ کامپلکس گن فاونڈری میں منعقد ہوئی۔ اس کتاب کی رسم اجرائ جناب ملک متعصم خان نایب امیر جماعت اسلامی ہند کے ہاتھوں انجام پائی جب کہ انھوں نے تقریب کی نگرانی کی۔ جنان سید عبدالباسط شکیل مینجنگ ڈائریکٹر ھدی پبلیکیشنر نے مقررین و شرکاء کا خیر مقدم کیا اور ان کی شخصیت پر مبنی کتاب کے مدون کیے جانے پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی شخصیت میں سادگی تھی تبسم ان کے چہرے کی پہچان رہی۔ جناب ملک متعصم خان نے کہا کہ جناب سید عبدالباسط انور نے اپنی طالب علمی جوانی اور عمر کو دین اسلام کی اقامت و سربلندی کے لیے وقف کیا تاکہ اس کے ذریعہ رب کی رضا و خوشنودی کے ساتھ حضور اکرم صلی علیہ وسلم کی شفاعت اور اعلاے کلمہۃ الحق کا بول بالا ہو تاکہ چار سو دین کا غلبہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا مومن کو چاہیے کہ وہ اپنی بڑھتی ہوئی اور گھٹتی ہوئ عمر کے حصہ کو دین کے لیے وقف کرتے ہوے اپنے اوقات کا صحیح و بھر پور استعمال کریں۔ جناب باسط انور کا یہ منشا۶ تھا کہ نئ نسل بے راہ روی کا شکار نہ ہو بلکہ وہ صراط مسقہم کو اپناے اور زبان و قلم کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں سرگرم ہوجاے۔

مولانا حسام الدین ثانی عاقل المعروف جعفر پاشاہ نے کہا کہ جناب سید عبدالباسط انور نے ملت اسلامیہ کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا ہیاں تک کہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی ناگہانی صورت حال پیدا ہوتی تو مسلمانوں کو یکجٹ کرتے ہوے حکومت وقت سے اس معاملہ میں نمائندگی کرتے ہوے بات کو واضح کرنے میں وہ آگے دکھائی دیتے  اس لیے انھوں نے یونائیٹڈیڈ فورم کے قیام کے ذریعے بہت سارے ملت کے کام انجام  دیے۔ 

انھوں نے کہا کہ رب نے ان میں  منکسرالمزاجی ، نرم دلی و نرم دم گفتگو و گرم دم جستجو کا حامل پیدا کیا اس لیے ان کے چہرے سے ان میں منفی کم و مثبت خصوصیات زیادہ ظایر ہوا کرتی۔

جناب اعجاز احمد وسیم خطیب مسجد عزیزیہ مہدی پٹنم نے کہا کہ انسانی زندگی کے دو مرحلے ہیں ایک مرحلہ میں قوت بڑھتی ہے تو دوسرے مرحلہ میں اس کی یہ قوت گھٹتی ہے اور انسان اس کے ذریعہ کمزور سے طاقتور اور طاقتور سے دو بارہ کمزور کی طرف واپس آتا ہے اس کو پس پشت ڈال کر جناب سید عبدالباسط انور نے بڑی طاقت و وقت کے ساتھ اسلام کی دعوت کو بندگان رب تک پہنچانے اور اس کو   پھیلانے کے لیے کمر بستہ ہوگے۔

انھوں نے ہمیشہ اپنے قلب کو کشادہ رکھا آور کینہ و کپٹ کو قریب آنے نہ دیا اور کبھی دنیا دار کی طرح زندگی نہیں گزاری جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہوے نظر آے۔ ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد نے کہا کہ مومن اپنی زندگی کو رب کی رضا و خوشنودی اور  کلمہ حق کو بلند کرنے کے لیے گزارے گا تو دنیا کی نگاہ اور آخرت میں قابل رشک ہوا کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جناب سید عبدالباسط انور نے جماعت اسلامی ہند کے ذریعہ دین کی اقامت کو بڑے ہی اخلاص و للہیت کے ساتھ انجام دینے میں شب و روز لگاے۔  جناب محمد اظہر الدین معاون امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند تلنگانہ نے کہا کہ عبدالباسط انور ہمیشہ اپنے اخلاق و کردار کو آعلی و عرفہ رکھا۔ یہى وجہ ہے کہ ہر ایک ان کا گرویدہ رہا۔ 

انھوں نے اسلامک اسٹڈیز میں آعلی ڈگری حاصل کی انھیں عثمانیہ یونیورسٹی و نظام کالج میں اسوسیٹ پروفیسر کے مواقع ہاتھ آے اور وہیں انھیں  بیرونی ممالک کی یونیورسٹیوں میں جانے کے مواقع حاصل ہوے لیکن اس پر انھوں نے دھیان نہیں دیا بلکہ وہ دلجوئی و دلجمعی کے ساتھ تحریک کے کام میں اپنے آپ کو مصروف رکھ کر ہر طرح کی قربانی دی جسے عرصہ دراز تک یاد رکھا جاے گا۔

پروفیسر مجید بیدار سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے کہا کہ  طالب علمی کے دور سے ہی جناب عبدالباسط انور میں اسلامی تعلیمات کو مسلمانوں تک نہیں بلکہ برادران وطن تک پہنچانے کے ہمیشہ فکر و سرگرمی دکھائ ان کی مزہب پرستی اور دین فہمی کا عالم یہ تھا انھوں نے اسلامیات کو اپنا منبع و محور بنایا۔

انھوزن نے کہا کہ ان میں افسانے و کہانیاں لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور ساتھ ہی وہ عملی طور پر اپنے میں اخلاق اور عمدہ  خصایص کو فروغ دینے میں بھی مصروف رہا کرتے۔ جناب ناظم الدین فاروقی اور دوسروں نے مخاطب کیا۔۔جناب سید عبدالباسط شکیل نے شرکا۶ کا خیر مقدم کرتے ہوے کتاب بعنوان ” جس روز کچھ چہرے رعشن ہوں گے”  سید عبدالباسط انور ۔۔حیات و خدمات کا تعارف پیش کیا اور کہا کہ یوں تو ہر زی نفس جو اس دنیا میں آیا اس کی موت یقینی یے یعنی اسے موت کا مزہ چھکنا ہی ہے۔

انھوں نے کہا زندگی کا اختتام اس کی موت پر نہیں ہوتا بلکہ ایک نئے اور دائمی حیات کا آغاز ہوتا ہے۔  انھوں نے کہا کہ کچھ شخصیات ایسی یوتی ہیں جو موت کے بعد  اپنے پییھچے گہرے و انمٹ  نقوش چھوڑے جاتی ہے ۔۔اس افتتاحی تقریب سے جناب ناظم الدین فاروقی ڈائرکٹر سلامہ ٹرسٹ اور دوسروں نے مخاطب کیا۔

واضح رپے کہ اس کتاب ڈاکڑ حسن رض، جناب سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند، جناب حامد محمد خان، ایس ایم ملک ، مولانا محمد جعفر، صحافی محمد نصراللہ خان  اور جناب باسط انود کے فرزندان و افراد خاندان نے اپنے خیالات و احساسات تحریر کیے۔

اس تقریب میں جناب انور خان پرنسپل انورالعلوم جونیر کالج، ڈاکڑ فاضل حین پرویز ایڈیٹر ہفتہ روزہ گواہ، رحمن پاشاہ ، صحافی محمد نصراللہ خان، ڈاکٹر ناظم علی، جناب ابوطلحہ امجد، شفیع اللہ قادری، صحافی ریاض احمد ، ڈاکٹر وہاج ہاشمی، رحمن پاشاہ ، ناصری، قاری صدیق حسین، ابو متین ، جناب محمد منظور احمد، خواجہ معین الدین ٹہچر، سید طیب حسین,  شیخ محمد یوسف الدین اور دوسروں کی کثیر تعداد موجود تھی۔۔  قاری عبدالرشید جنید کی قرات کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔جناب سید عبدالباسط شکیل نے کاروائ چلائی اور شکریہ ادا کیا۔

a3w
a3w