محمد محبوب
کل اگر عید ہوگی تو کیا پہنیں گے ہم
چاند سے کہہ دو ابھی تیار نہیں ہیں ہم
عید کے معنی خوشی، شادمانی و مسرت کے ہیں اور عید الفطر مسلمانوں کے لیے اللہ کے انعام کا دن ہو تا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کی یہ دلی تمنا ہو تی ہے کہ وہ عید کو ہر طر ح خوش وخرم گزارے۔ اچھے پکوان کرے، عمدہ کپڑے پہنے اور عیدگاہ میں نماز کی ادائیگی کے بعد دوست احباب سے ملاقات، معانقہ اور عید کی مبارکباد کا جو منظر ہو تا ہے وہ انتہا ئی روح پرور ہوتا ہے۔ کیا بچے،کیا بڑ ے ہر ایک کو عید کی ایک منفرد خوشی ہو تی ہے، لیکن اس خوشی کے دن بھی ان بچوں کے چہروں پر مسکرا ہٹ نہیں بکھیرتی جو یتیم و یسیر ہیں، مہا جر ہیں، خانہ بد وش ہیں، مختلف عوارض کے سبب عام بچوں سے مختلف ہیں اور غر بت کے سبب اپنے جسموں کو اچھے کپڑوں سے خوشمنا اور خو شبو سے معطر کر نے سے قاصر ہیں۔ کیا مالدار مسلمان جو اپنے بچوں کے لیے چار چار جو ڑے کپڑے بنواتے، کیا اپنے پڑوس میں رہنے والے ان بچوں کو ایک جوڑا کپڑے نہیں دلا سکتے؟
مند رجہ بالا شعر میں منور راناؔ نے اُ ن تمام غر با ء، مساکین، یتیموں اور بے سہارا مسلمانوں خصوصاََ یتیم ویسیر بچوں کے دلی جذ بات کی عکاسی کی ہے جو رمضان المبارک جیسے مبارک و مسعود ماہ میں بھی نہ شکم سیر ہو کر کھا سکتے ہیں نہ نیند بھر سوسکتے ہیں اور نہ ہی جسم بھر کر کپڑے پہن سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ کچھ گھرانوں میں افطاری کی کثر ت کا یہ حال ہے کہ ان کی مغرب کی نماز بھی چھوٹ جا تی ہے جبکہ تقر یباََ گھرانوں کا یہ حال ہے کہ آج بھی وہ روزے دار نمک، پانی اور کبھی کبھی کھجور سے افطار کر کے شکر بجا لاتے ہیں۔ مولانا نے شب قدر کے موقع پر بتا یا کہ ایک شہر کی جامع مسجد میں افطار کا وقت ہو گیا، سائرن بج گیا، لیکن دستر خوان پر کچھ بھی افطاری نہیں تھی۔ دیہاتوں کا حال بھی ایسا ہی ہو تا ہے۔ کاش کہ ہم سیاسی افطار پارٹیوں کے اہتمام کی بجا ئے ان مستحق روز ہ داروں تک افطاری پہنچانے کی سعادت حا صل کر تے۔ خیر یہ میرا مو ضوع نہیں ہے!
ماہ ر مضان المبار ک اپنی ر حمتیں، بر کتیں اور سعا دتیں بکھیر کر اب رخصت ہورہا ہے۔ اللہ تعالی نے ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر اس ماہ کے روزے فر ض کر کے مسلمانوں میں تقویٰ کی صفت پیدا کر نے اور تزکیہِ نفس کا مو قع فرا ہم کیا ہے۔روزہ ایک بہتر ین جسمانی عبادت ہے اور یہ ایسی عبادت ہے کہ جس کا علم عابد اور معبود کے در میان ہی ر ہتا ہے۔ یعنی کہ ریاکاری سے مکمل پاک عبادت روزہ ہے۔ اسی لیے اس کی جزاء بھی راست اللہ تعالی ہی عطا کر یں گے۔ر مضان میں مسلمان عام دنوں کے مقا بلے میں عبادت، تلاوت، زکوٰۃ، صدقات اور دیگر کا رِ خیر میں بہت زیادہ حصہ لیتے ہیں اور لینا بھی چاہیے۔صاحب ِاستطاعت مسلمانوں کی اکثر یت اس ماہ میں زکوٰۃ دینے کا بہت ز یادہ اہتمام کرتی ہے، کیو ں کہ اس مہینے میں ایک نفل کا ثواب ایک فر ض اورا یک فر ض کا ثواب ستر فرا ئض کے برا بر ہو جا تا ہے۔گر چیکہ ر حمت ِالٰہی اعداد و شمار کی محتاج نہیں بلکہ وہ اعمال کے پس پِردہ بند ے کی نیت د یکھتی ہے اور اللہ کے خزانے میں کو ئی کمی نہیں۔اس کا مشا ہد ہ ہم ماہ ر مضان میں برسنے والی برکتوں اور رحمتوں سے کر ر ہے ہیں۔
زکوٰۃ ایک خا لص مالی عبادت ہے۔ اللہ تعالی نے اسلام کا ایسا شاندار معاشی نظام مقرر کیا ہے کہ اگر اس پر دُرست طر یقہ سے عمل ہو جا ئے تو مسلمانوں میں شاید ہی کو ئی غر یب رہے گا۔ صحابہ اکرامؓ کے عہد میں اللہ کے فضل سے مال کی فرا وانی بھی ہوتی تھی اور زکوٰۃ کو عبادت سمجھ کر د یا جا تا تھا تو حال یہ تھا کہ لوگ زکوٰۃ ہا تھ میں لے کر گلی گلی پھر تے تھے اور لینے والا نہیں ملتا تھا۔سب زکوٰۃ دینے والے بن گئے تھے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ خوشحال اور صاحب ِثر وت ہے تو دوسری طر ف مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادمعاشی تنگی کا شکار ہے۔ کورونا وائر س کے بعدروزگار سے محرومی، جوان ہوتی ضرورتیں اور مسدود ہو تی آمد نی نے انہیں سخت پریشان کر ر کھا ہے۔۔مسلمانوں کا بڑا طبقہ یو میہ روز گار اور یو میہ مز دوری پر گزر بسر کرتا ہے۔ لیکن گذ شتہ ایک سال سے ملک کے جو حالات ہیں وہ سب پر عیاں ہیں۔ایسے حا لات میں لاکھوں رو پئے بنک بیا لنس ر کھنے والے بھی آج قلاش ہیں۔ کئی خوشحال گھرانے کورونا وائرس کے دوران ہو ئے قر ضوں ادائیگی میں آج بھی پر یشان ہیں۔ تو یو میہ مزدوری کر نے والے،فٹ پاتھ پر تجارت کر نے والے افراد کا اللہ ہی محا فظ ہے۔ان میں اکثر یت ان افراد کی ہے جن کے پاس کھا نے کچھ نہیں اور ان کی غیرت انہیں اس بات کے لیے آمادہ بھی نہیں کرتی کہ وہ دوسروں کے آگے دست دراز کر یں اور مسلمانوں میں معاشی پسماند گی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں ایک فر د کماتا ہے تو سب کھا تے ہیں۔ اگر اس ایک فر د کا روزگار بند ہو جا ئے تو گھر کے تمام افراد کو فاقہ کشی کی نو بت آئے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ موجودہ آسمان سے با تیں کرتی مہنگائی کے زمانے میں گھر کا یو میہ خرچ چلانا ہی جو ئے شیر لا نے سے کم نہیں ہے اور اتفاق بھی ایسا ہے کہ ہمارے ملک میں سینکڑوں غیر سر کاری ادارے امداد تقسیم کر تے ہیں لیکن ان اداروں کی نظر التفات بھی ان باغیرت اور مستحق مسلمانوں پر نہیں پڑ تی۔دوسری طر ف حکو مت بھی قو می آفات کے مواقع پر جو امداد کر تی ہے، ان میں بھی اکثر مستحق افراد ہی محروم ہو جا تے ہیں۔ حا لا نکہ یہ لوگ مستحق ہوتے ہیں،جنہیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔کئی ایک مسلمان ایسے ہیں جو ایک دو جوڑے لباس پر ہی سالوں گزار دیتے ہیں۔ عیدین کے مواقع پر بھی انہیں نئے لباس کی اُمید نہیں رہتی۔ لیکن وہ کسی کے آگے دست ِدراز نہیں کر تے۔ البتہ کچھ افراد بھیک یا عارضی امداد سے اپنا گزارا کر لیتے ہیں، لیکن اکثریت ہمارے معاشرہ میں ایسے مفلسوں کی ہے کہ جن کی معا شی حا لت انتہا ئی ناگفتہ بہ ہے اور نا قابل یقین بات ہو گی کہ اس غذا کی فراوانی کے دور میں بھی یہ لوگ فاقہ کشی کر تے ہیں، سو کھی روٹی پر اکتفا ء کر تے ہیں،لیکن غیرت اور عزت کی خاطر کسی کے آگے دست دراز نہیں کرتے، لیکن انہیں مالی امداد کی شد ید ضرورت ہو تی ہے۔ اکیسو یں صدی انفارمیشن ٹیکنا لو جی کی صدی میں ہم عا لمی خبر یں سن ر ہے ہیں پا بند ی کے ساتھ لیکن ہمارے ہم سایہ غر یب کی ہمیں کو ئی فکر نہیں۔ہمیں پڑوس کے معصوم بھوکے بچوں کی چیخیں سنا ئی نہیں دیتیں۔ ہم اپنے قہقہوں میں مست ہیں۔ ہمیں غر یب رشتہ داروں کا خیال نہیں ر ہا۔شا ید ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہو گا کہ ایسا عذاب ہم پر مسلط ہو چکا ہے کہ اب ہم غیر یقینی اور خوف کی زند گی گزار ر ہے ہیں۔ہندوستا ن کی زمین باوجود اپنی وسعت کے مسلمانوں کے لیے تنگ ہوتی جار ہی ہے۔جمہوری ممالک میں عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت کا فر ض منصبی ہوتا ہے لیکن جب حکومت ہی قاتل بن جا ئے تو کیا کر یں؟
دینی مدارس ملت اسلامیہ کا ایک اہم اثاثہ ہیں اور ان کا تحفظ مسلمانوں کا مذ ہبی فر یضہ ہے اور دینی مدارس مسلمانوں کے عطیات سے چلائے جا تے ہیں۔ اگر ہم اسلام کی بقاء اور اپنی نسلوں تک اسلام کی صحیح تعلیمات کو پہنچا نا چا ہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں ان د ینی مدارس کو اپنی زکوٰۃ، صد قات اور عطیات کے ذ ریعہ مستحکم کر نا ہو گا۔ ور نہ بعید نہیں کہ ہندوستان کا حال بھی اندلیس جیسا ہو جا ئے گا جہاں مسلمانوں نے ہزار ہا بر س حکمرا نی کی مگر آج وہاں سوائے قر طبہ اور غر نا طہ کے اسلامی تہذ یب کے کوئی آثار نہیں اور مسلمانوں کو ان دینی مدارس کا شکر گزار ہو نا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے عطیات سے روکھی سو کھی روٹی پر اکتفا کر تے ہیں لیکن حکو مت کی امداد پر رضا مند نہیں ہو تے کیوں کہ اس کی آڑ میں حکومت ان مدارس میں مداخلت کر سکتی ہے۔ دینی مدارس کے ذمہ دار بہت چو کنا ہو تے ہیں۔حکو مت کی کسی بھی شکل میں مدا خلت گوارہ نہیں کر تے۔ یہ اپنی بوریہ نشینی پر قانع رہتے ہیں لیکن سر کاری امداد کے لالچ میں نہیں جا تے، اسی لیے ملک میں مدارس کے لیے بنا ئی جا نی والے سر کاری اسکیمات ناکام ہو جا تی ہیں۔ مدارس کی مذ ہبی خد مات تو ہے ہی ہیں لیکن اردو زبان کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لئے بھی ان کی خدمات غیر معمولی ہیں۔ موجودہ حالات میں دینی مدارس کے تحفظ کو ایک ملی فر یضہ سمجھنا چاہیے۔
آج ہر گو شہ سے تعلیم کو عام کر نے کی صدا ئیں آ رہی ہیں لیکن تعلیم ایک تجارت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ غر یب و الدین جن کو دو وقت کی روٹی کا انتظام کر نا ہی دشوار ہے وہ کہاں ا پنے بچوں کو لاکھوں رو پئے ڈونیشن دے کر تعلیم دلوائیں گے۔ حالانکہ غر یب مسلمانوں میں ایسے ذ ہین بچے بھی ہیں کہ جن کی منا سب تر بیت اور بر وقت ما لی امداد کی جا ئے تو وہ بھی ڈا کٹر، انجینئر، وکیل اور دیگر فنی ماہرین بن کر قوم کا اثا ثہ ثا بت ہو سکتے ہیں۔اگر دولت مند مسلمان پا بندی سے زکوٰۃادا کر یں تو جہاں وہ عنداللہ اجر عظیم کے حق دار بن سکتے ہیں، وہیں معاشرے کے ان غر یب اور نادر لوگوں کی مدد بھی ہو سکتی ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دولت مند طبقہ میں زکوٰۃ کے مسائل کھول کھول کر بیان کئے جائیں اور انہیں زکوٰۃ دینے کی تر غیب بھی دلائیں۔حید رآباد شہر میں اجتماعی زکوٰۃ وصولی کے لیے مختلف ادارے عمدہ کار کر دگی کر ر ہے ہیں۔
اللہ تعالی نے قر آن شر یف میں بار بار نماز کے ساتھ زکوٰۃادا کر نے کا ذ کر کیا ہے۔اس سے زکوٰۃ کی ادائیگی کی اہمیت کا اندازہ ہو تا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے بیشتر احادیث میں زکوٰۃ دینے والوں کی فضیلت اور نہ دینے والوں کی مذ مت کی ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فر مایا جو قوم بھی زکوٰۃ کو روک لیتی ہے تو حق تعا لی شا نہ اس کو قحط میں مبتلاء کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ہماری ذ مہ داری ہے کہ زکوٰۃ کو سنجید گی سے اداد کر یں اور زکٰوۃ اس وقت ادا ہو تی ہے کہ جب وہ دینے والے کو مالک بنا کر دی جا ئے اور زکوٰۃ دیتے وقت صرف دل میں نیت کر نا کا فی ہوگا، دینے والے کو یہ زکوٰۃ کے پیسے ہیں کہہ کر دینا ضروری نہیں بلکہ ایسا نہ کہنا ہی بہتر ہے،کیو ں کہ اس عمل سے لینے والے کی غیرت پر کاری ضرب لگے گی۔زکوٰۃ کے علاوہ بھی اہل خیر مسلمانوں کو اپنے دیگر مال سے غر یبوں کی مدد کر نا چاہیے۔خا ص طور پر ان غر با ء کا خیال ر کھنا چاہیے جو ہماری نظروں کے سامنے ہمارے معا شرے میں اور خاندان و دوست احباب میں ر ہتے ہیں، مگر یہ لوگ کسی کے سامنے دست دراز نہیں کر تے۔انسان کا کمایا ہوا مال اس کا اپنا نہیں ہو تا بلکہ اس میں افراد خاندان، غر با ء اور مساکین کا بھی حصہ ہو تا ہے اور اس زما نے میں تو یہ قول صد فیصد سچ ثا بت ہو ر ہا ہے کہ جو کھا یا وہ اپنا جو پہنا وہ اپنا اور جو اللہ کے راستہ مین خر چ کیا وہی اپنا ہے۔بقول شاعر
جسے بھی دیکھیے وہ مستحق نکلتا ہے
میری کمائی پہ آخر کس کس کا حق نکلتا ہے
کیوں کہ ہم زند گی میں جو مال اللہ کے راستہ میں خر چ کرتے ہیں، و ہ اللہ کے خزا نے میں ہمارا ثواب بن کر جمع ہو جائے گا۔اور ہم جو مال چھوڑ کر جا ئیں گے وہ مال وارثوں کے لیے جھگڑ ے کا سبب بن جا ے گا۔ اسی لیے عقلمند ی اسی میں ہے کہ ہم اپنی زند گی میں زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ، صد قات اور خیرات ادا کر تے ہو ئے اپنی آخرت کا تو شہ خود تیار کر لیں اور اپنی زند گی کی طر ح غر یبوں کی زند گیوں میں بھی انقلاب لا نے کا سبب بنیں تا کہ امیروں کے شب و روز کی طر ح غر یبوں کی زندگی کا بھی ہر آنے والا دن عید ہو اور کو ئی بھی غریب عید کے چاند کو دیکھ کر افسوس کے ساتھ یہ نہیں کہے گا کہ
کل اگر عید ہوگی تو کیا پہنیں گے ہم
چاند سے کہہ دو ابھی تیار نہیں ہیں ہم