مضامین

ہندوستان سے تعلق رکھنے والے مختلف ممالک کے صدور۔ ایک جائزہ

محمد محبوب

ہندوستانی نژاد رشی سونک نے بر طانیہ کی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہو کر ایک تاریخ رقم کی ہے۔ بر طا نیہ کی 200 سو سالہ تاریخ میں شاید یہ پہلا مو قع ہے کہ بر طا نیہ کے وزیراعظم کے اس جلیل القدر عہدہ پر کوئی غیرسفید فام شخص فائز ہوا ہے۔ پیشرو وزیراعظم لزٹرس کے استعفیٰ کے بعد رشی سونک کے انتخاب کی راہ ہموار ہو ئی تھی۔ کنزویٹو پارٹی کے صدر رشی سونک اتقاق رائے سے بر طا نیہ کے صدر منتخب ہو ئے ہیں۔ رشی سونک کی پیدا ئش انگلینڈ میں ہو ئی تھی۔ ان کے دادا دادی کا تعلق غیرمنقسم ہندوستان کے صوبہ پنجاب سے تھا۔ تاہم برطانیہ کی سیاست میں انتہا ئی کم عمری میں انہوں تا ریخ رقم کی ہے۔ تاہم ان کا خاندان‘ کچھ دن افریقہ میں گزارنے کے بعد بر طا نیہ منتقل ہوگیا اور وہیں سکو نت اختیار کر لی تھی۔ رشی سونک کی طر ح دنیاکے مختلف ممالک میں ایسے کئی افراد صدور اور وزرا ئے اعظم کے عہدوں پر بر اجمان ہیں جن کے آباء واجداد کا تعلق سر زمین ہندوستان سے تھا۔ زیر نظر مضمون میں دنیا کے مختلف ممالک کے وزرا ئے اعظم اور صدور کا جا ئزہ لیا جا ئے گا جن کا تعلق کسی طرح سے ہندوستان سے ہے۔
حلیمہ یعقوب: سنگا پور کی پہلی خاتون صدر حلیمہ یعقوب کے آباء و اجداد کا تعلق بھی ہندوستان سے ہی ہے۔ ان کے والد روزگار کی تلاش میں ہندوستان سے سنگا پور کے لیے ہجرت کیے تھے۔ جبکہ ان کی والدہ کا تعلق مسلم ملک ملائشیا سے ہے۔ ایک معمولی خاندان میں پیدا ہو نے والی حلیمہ یعقوب نے سنگا پور جیسے تر قی یا فتہ ملک کی پہلی خا تون صدر ہونے کا اعزا ز حا صل کیا جو معمولی بات نہیں ہے۔ حلیمہ یعقوب کے والد نے ہندوستان سے روز گار کی تلاش میں سنگا پور ہجرت کی تھی۔ سنگا پور میں وہ ابتداَ َ مختلف کام انجام دیے۔ وہ سنگا پور میں کچھ عر صہ کے لیے واچ مین کے بھی فرا ئض انجام دیے تھے۔ جبکہ ان کی والدہ نے سنگا پور میں ایک پالی ٹیکنک کالج کے احاطہ میں فاسٹ فوڈ سنٹر بھی چلایا تھا۔ اس کے با وجود بھی انہوں نے اپنی دُختر کو اعلی تعلیم دلوائی۔ حلیمہ یعقوب کی ابتدائی و اعلی تعلیم سنگا پور میں ہی ہو ئی۔ انہوں نے یو نیورسٹی آف سنگاپور سے قانون میں ڈگر ی کی تعلیم حا صل کی۔ بعد ازاں قومی یو نیورسٹی آف سنگا پور سے ہی قانون میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور اسی یو نیورسٹی سے انہوں نے قانون میں ہی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حا صل کی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد انہوں نے سنگاپور کی عدالت میں ہی پریکٹس کی۔ وہ ابتداء سے ہی مزدوروں کی حمایتی رہیں۔ مزدوروں کی مسیحا کے طور پر سنگاپور میں خوب نام کمایا۔ مزدوروں کی قانونی امداد کے لیے مختلف ٹرسٹ قائم کیے اور مفت لیگل سرویس سنٹرس کھول کر مزدور طبقات کی مفت قانونی امداد کر تی ر ہیں۔حلیمہ یعقوب کی سیا سی زند گی کا آغاز 2001 ء سے ہوا۔ سال 2001 ء میں ہو ئے انتخابات میں انہوں نے پہلی مر تبہ حصہ لیا اور رکن پا رلیمنٹ منتخب ہو ئیں۔ بعد ازاں سال 2011 ء کے انتخابات میں بھی انہوں نے کا میابی حا صل کی۔ اس وقت انہیں وزارت میں شامل کیا گیا اور انہیں کھیل کود، محکمہ خاندانی بہبود و سماجی بہبود کے قلمدان تفویض کیے گئے۔بعد ازاں سال 2015 ء میں ہوئے عا م انتخابات میں انہوں نے پیپلز ایکشن پارٹی کے ٹکٹ پر مقابلہ کیا اور پارلیمنٹ کے اسپیکر کے منصب پر فائز ہوئیں۔ جبکہ سال 2017 میں صدارتی انتخاب سے قبل انہوں نے پارلیمنٹ کی رکنیت کے بشمول اسپیکر کے عہد ے سے مستعفی ہو کر صدارتی انتخاب میں حصہ لیا اور عظیم الشان کا میا بی حا صل کرتے ہوئے سنگا پورکی پہلی مسلم خاتون صدر ہو نے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔
کملا ہیریس: امر یکہ کے گزشتہ انتخابات میں کملا ہیریس‘ نا ئب صدر کے طور پر منتخب ہو ئی تھیں۔ کملا ہیریس کے آباء واجداد کا تعلق بھی ہندوستا ن سے ہی ہے۔ جو با ئیڈن کے امر یکہ کے صدر منتخب ہو نے کے بعد امر یکہ کے نا ئب صدر کے طور پر کملا ہیریس منتخب ہو ئی تھیں۔ ہندوستانی نژاد کملا ہیریس نے اپنے کیر ئیر کا آغاز ایک وکیل کی حیثیت سے کیا تھا۔ بعد ازاں وہ ڈیمو کر یٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پارٹی کے مختلف عہدوں پر فا ئز رہیں۔ کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل کے منصب پر بھی وہ طویل عر صہ تک خدمات انجام دیں۔ ایک وکیل کی حیثیت سے خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے خوب کام کئے۔ بعد ازاں وہ امر یکہ کی ایوان بالا کے لیے بھی منتخب ہو ئیں اور امر یکی نا ئب صدر کے انتخاب میں مقابلہ کیا اور اکثر یتی ووٹوں سے کا میا بی حا صل کی۔
محمد عرفان علی: جنوبی امر یکہ کا ایک چھوٹا سے ملک ”گیا نا“ ہے۔ گیا نا کے مو جودہ صدر محمد عر فا ن علی صد یقی کے آباء واجداد کا تعلق بھی ملک عز یز ہندوستان سے ہی ہے۔ رواں سال ۲/ اگست کو محمد عر فان علی گیا نا کے صدر کے منصب پر فا ئز ہوئے ہیں۔ گیانا میں نقل مقام کر نے والے ہندوستانی خاندانوں میں محمد عر فا ن علی کے خاندان کا شمار ہو تا ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گیانا میں ہی ہوئی۔ جبکہ اعلی تعلیم ہندوستان میں ہوئی۔ انہوں نے اندرا پر ستھا یو نیورسٹی سے ایم اے مکمل کیا۔ بعد ازاں وہ ویسٹ انڈیز یونیورسٹی سے اربن اور ریجنل پلاننگ کے مو ضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگر ی حا صل کی۔ بعد ازاں کچھ عر صہ کے لیے کر یبین ڈیو لپمنٹ پلاننگ پراجیکٹ منیجر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ پھر پیپلز پرو گریسو پارٹی میں شمو لیت اختیار کر تے ہوئے اپنے سیا سی سفر کا آغاز کیا۔ 2006 کے اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کیا اور منتخب ہوئے۔ اسی وقت انہیں گھر یلو تشدد اور محکمہ آبپا شی کے قلمدان دیتے ہوئے وزارت میں شامل کیا گیا۔ تاہم رواں سال ما رچ میں ہوئے صدارتی انتخابات میں انہوں نے مقابلہ کیا اور امتیازی کا میابی حا صل کی۔
پرتھوی راج سنگھ روپون: ایشائی ملک ماریشس کے مو جودہ صدر پر تھوی راج سنگھ روپون کا تعلق بھی ہندوستان سے ہی ہے۔ ان کے آباء واجداد کا تعلق ہندوستان کی ریاست بہار سے تھا۔ تا ہم وہ تقریباً ایک صدی قبل ہی روزگا ر کے سلسلہ میں ماریشس منتقل ہو گئے تھے۔ تا ہم پر تھوی راج سنگھ روپون کی ابتدائی و اعلیٰ تعلیم بھی ماریشس سے ہی ہوئی۔ ماریشس کے نیو اٹان کالج سے انہوں نے ڈگر ی مکمل کی بعد ازاں کچھ عر صہ کے لیے ریاضی کے استاد کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں انہوں نے بر طا نیہ کی یونیورسٹی سے وکالت کی تعلیم حا صل کی۔ پر تھوی راج سنگھ نے 1983 ء میں سیاست میں قدم رکھا۔ جبکہ انہوں نے 1995 کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ بعد ازاں سال 2000 ء میں ہو ئے عام انتخابات میں بھی انہوں نے کا میا بی حا صل کی اور چار سالوں تک سرکاری ڈپٹی چیف اور ایک سال کے لیے مقامی اداروں کے وزیر رہے۔ بعد ازاں سال 2010 ء میں ہو ئے عام انتخابات میں بھی کا میابی حاصل کی اور ڈپٹی اسپیکر کے منصب پر فا ئز رہے۔ تاہم بعد ازاں وہ سال 2014 تا 2017 ء وزیر فینانس ور پارلیمانی اُمور ر ہے۔ تاہم سال 2019 ء میں ہوئے عام انتخابات میں انہوں نے صدر کے مقابلہ میں حصہ کیا اور کا میاب ہو ئے اور 2 دسمبر 2019 سے وہ ماریشس کی صدارت کے منصب پر فا ئز ہیں۔ رواں سال جنوری میں انہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا تھااور اپنے آباء و اجداد کی قبروں کی زیارت بھی کی تھی۔
چان سنتوکھی: جنوبی امر یکہ کا ایک چھو ٹا ملک ”سر ینیم“ ہے۔ اس کے مو جودہ صدر چان سنتو کھی ہیں۔ ان کا مکمل نام چندرکا پرساد سنتو کھی ہے۔ان کے آباء واجداد کا تعلق بھی ہندوستان کی ریاست گجرات سے ہے۔ تاہم وہ روزگار کی تلاش میں امر یکہ کے ملک سرینیم میں جا بسے تھے۔ چان سنتوکھی کا بچپن انتہا ئی نا مساعد حا لات میں گزرا۔ ان کے والد اور والدہ دونوں ملازمت کر تے تھے۔ جس کے سبب انہیں ماں کی ممتا اور با پ کی شفقت اتنی نہیں ملی جتنی کے وہ متمنی تھے۔ سر ینیم میں ہی ان کی ابتدائی تعلیم ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انہوں نے نیدر لینڈ کا رُ خ کیا۔ نیدرلینڈ پو لیس اکیڈیمی میں اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد وہ1982 ء میں سرینیم واپس آئے۔ سرینیم کے محکمہ پو لیس میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں اور تر قی کر تے ہوئے سرینیم کے چیف کمشنر آف پولیس کے منصب پر فائز رہے۔ تا ہم سال 2005 ء میں اس جلیل القدر منصب سے استعفیٰ دیتے ہوئے پر وگر یسو ریفارم پارٹی میں شمولیت اختیار کر تے ہو ئے سیا ست میں قدم رکھا۔اسی سال انتخابات میں حصہ لیا اور کا میابی حاصل کی۔ قانون کا قلمدان لے کر وزیر قانون کے منصب پر فا ئز ہوئے اور سال 2011 ء میں پرو گر یسو ریفارم پارٹی کے چیر مین کے منصب پر فا ئز ہو ئے۔ تاہم اس سال سرینیم کے صدارتی انتخاب میں چان سنتو کھی منتخب ہوئے اور وہ 16 جولائی 2022 ء کو ملک کے صدر کی حیثیت سے حلف لیا۔
پر وین کمار جگناتھ: ماریشس کا یہ اتفاق ہی ہے کہ اس ملک کا صد ر اور وزیر اعظم دونوں ہندوستانی نژاد ہیں۔ ماریشس کے مو جودہ وزیر اعظم پر وین کمار کے آباء و اجداد کا تعلق بھی سر زمین ہندوستان سے ہی ہے۔ پروین کمار جگناتھ ملیٹنٹ سو شلسٹ مو منٹ پارٹی کی جانب سے منتخب ہوئے ہیں۔ وہ 23 جنوری سال 2017 سے اس منصب پر فائز ہیں۔ ان کے والد انیر ودھ جگناتھ بھی ماریشس کے سابق وزر اعظم تھے۔ پرو ین کمار کے آباء واجداد بہار، ہندوستان سے ماریشس کے لیے ہجر ت کئے تھے۔
بہر حال سر زمین ہندوستان کے لیے یہ ایک اعزاز سے کم نہیں کہ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک کے سر برا ہان کے جداعلیٰ یا جد امجد ہندوستان کے ہی تھے۔ ہندوستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہو نے کے ساتھ ساتھ اس منفر د اعزاز میں دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ جس سے تعلق رکھنے والے لوگ دیار غیر میں جا کر وہاں کے جلیل القدر منصب پر فا ئز ہو ئے ہیں۔ ان سربراہوں کی تاریخ و خاندانی پس منظر کا مطالعہ کر یں تو یہ بات روز روشن کی طر ح عیاں ہو تی ہے کہ ان کی نقل مکا نی ان کی زندگیوں میں انقلا بی تبد یلی لا نے کا با عث بنی بلکہ ہجرت ِمکانی نے ہی انہیں عام شہر ی سے پہلے شہری کے منصب پر بر اجمان کیا۔ دوسرا سبق یہ بھی حا صل ہو تا ہے کہ مختلف ممالک کے سربراہوں نے مو جودہ منصب سے سبکدوش ہو تے ہو ئے اعلیٰ منصب حا صل کیا۔ اگر وہ یہ سوچتے کہ اگر مجھے اعلیٰ منصب کے حصول میں ناکامی ہو گی تو مو جودہ منصب بھی چلا جا ئے گا تو کامیاب نہیں ہو سکتے تھے بلکہ ان کی مثبت سو چ نے ان کی تر قی کی راہ ہموار کی۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہمیشہ مثبت سو چ کے ساتھ زند گی گزاریں۔ اپنے منصب پر خوش رہنا سیکھیں اور اس سے انصاف کر یں۔ سماج کے غر یب طبقات، نچلی سطح کی زندگی گزارنے والے اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بنیں تو خدا بھی ہمیں تر قی عطا کر ے گا۔ بقول شاعر
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
٭٭٭

a3w
a3w