سیاستمضامین

آرمی چیف کی تقرری : مسلم لیگ (ن) کیلئے زندگی او رموت کا سوال

نواز شریف ا س صورت حال کو سمجھتے ہیں اور کسی بھی طرح پارٹی کی پوزیشن بحال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا کروہ یہ مقصد حاصل کرلیں گے؟ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ایسی امید رکھنا عبث ہوگا۔ ا

سید مجاہد علی

قومی اسمبلی نے پاک فوج کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے ایک رکن کی طرف سے پیش کردہ نجی قرار داد اتفاق رائے سے منظور کی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ یہ قرار داد تحریک انصاف کے منحرف رکن احمد حسن دیہڑ نے پیش کی تھی۔ اس دوران آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے حکومت اور تحریک انصاف کی طرف سے مسلسل ایسی بیان بازی ہورہی ہے جس سے اس ادارے کا وقار داؤ پر لگا ہؤا ہے۔
گزشتہ دو روز سے نئی تقرری کے حوالے سے ہونے والی بحث میں اس وقت زیادہ شدت محسوس کی گئی جب آرمی ایکٹ میں ترامیم کی معلومات میڈیا میں سامنے آئیں۔ رپورٹ کردہ ترمیم کے مطابق وزیر اعظم کسی باقاعدہ اور پیچیدہ کارروائی کے بغیر آرمی چیف سمیت کسی بھی افسر کی خدمات کو ریٹائرمنٹ کے باوجود غیر معینہ مدت کے لئے حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر قانون سردار ایاز صادق نے اپنے اپنے طور پر ان خبروں کی تردید کی ہے لیکن یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترامیم زیر غور ہیں۔ پہلے خبر سامنے لاکر بعد میں تردید کرنے کا طریقہ ملکی سیاست میں کوئی نیا ہتھکنڈا نہیں ہے لیکن پاک فوج کے حوالے سے ایسی افواہ سازی کی صورت حال تکلیف دہ حد تک نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کی روشنی میں یہ قیاس آرائیاں ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہیں کہ کیا وزیر اعظم شہباز شریف مختصر یا طویل مدت کے لئے جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے پر غور کررہے ہیں۔اس کی بظاہر دو وجوہات بتائی جارہی ہیں۔ ایک تو حکومت کو اندیشہ ہے کہ موجودہ سیاسی ماحول میں وہ جسے بھی نیاآرمی چیف بنائے، عمران خان اس معاملہ کو سیاسی پوائینٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کریں گے۔ خطرہ ہے کہ ایسی مہم جوئی سے پاک فوج کو بطور ادارہ نقصان پہنچے گا اور نئے آرمی چیف کے لئے کام کا ماحول زیادہ خوشگوار نہیں رہے گا۔ عمران خان چونکہ پہلے ہی یہ تجویز پیش کرچکے ہیں کہ جنرل باجوہ کو توسیع دے دی جائے اور نیا آرمی چیف مقرر کرنے کا اختیار آئندہ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔ اس لئے تنازعہ ختم کرنے کے لئے یہ ایک درمیانی راستہ ضرور ہوسکتا ہے۔
البتہ حکومت اگر واقعی عمران خان کا دباؤ محسوس کرتے ہوئے ان کی تجویز قبول کرلیتی ہے اور آخری مرحلے میں جنرل باجوہ کو کچھ مدت کے لئے آرمی چیف کے طور پر توسیع دے دی جاتی ہے تو اسے تحریک انصاف کے مقابلے میں حکومت کی پسپائی سمجھا جائے گا۔ اس اقدام سے بھی سیاسی تصادم کی کیفیت ختم ہونے کا امکان نہیں ہے ۔ عمران خان تو یہ اعلان کرچکے ہیں کہ انتخاب جب بھی ہوں، وہ مسلسل سڑکوں پر ہی رہیں گے۔ یعنی تحریک انصاف نے ایک سال تک احتجاج جاری رکھنے کی تیاری کی ہوئی ہے تاکہ حکومت پر دباؤ بنا رہے اور عمران خان اپنے حامیوں کو یقین دلاتے رہیں کہ موجودہ حکومت بدعنوان اور بے ایمان ہی نہیں نااہل اور کمزور بھی ہے۔ ایسی کوئی بھی تجویز اگر زیر غور ہے تو اس پر عمل درآمد حکومت کی شہرت اور اتھارٹی کے لئے شدید نقصان دہ ہوگا۔ اس بے یقینی سے فوج کے مورال کو پہنچنے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ البتہ معاملہ کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جنرل باجوہ فوج میں اپنی اننگ پوری کرچکے ہیں۔ 2019 میں عمران خان نے انہیں بڑی امیدوں کے ساتھ تین سال کی توسیع دی تھی۔ لیکن بعد میں رونما ہونے والے حالات نے ثابت کیا ہے کہ جنرل باجوہ اور عمران خان ایک دوسرے کی توقعات پر پورے نہیں اتر سکے۔ یہ امر دور از قیاس نہیں ہے کہ ملکی سیاست میں ’ہائیبرڈ‘ منصوبہ شروع کرنے اور پھر اسے بیچ میں ہی ترک کرنے پر جنرل قمر جاوید باجوہ کو اختلاف رائے کا سامنا رہا ہے۔ جنرل باجوہ کو مزید توسیع دے کر فوج میں اس ارتعاش کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے نیا آرمی چیف مقرر کرنے کی بجائے جنرل باجوہ کو توسیع دینے کی تجویز پر غور کی ایک وجہ اس معاملہ پر شریف برادران میں اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ شہباز شریف گزشتہ ہفتہ کے دوران پانچ روز تک لندن میں مقیم رہے اور مسلسل نواز شریف سے مذاکرات کرتے رہے۔ وطن روانگی سے محض دو روز قبل وزیر اعظم نےاپنی واپسی مؤخر کردی اور مزید دو روز تک لندن میں ہی مقیم رہے۔ اس کی سرکاری وجہ تو ناسازی طبع بتائی گئی ہے۔ واپس آنے پر شہباز شریف کا کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آیا تھا، اس لئے اس عذر کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اس تاخیر کی کچھ سیاسی وجوہات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت کی طرف سے ملے جلے اشاروں کے باوجود یہ طے ہے کہ لندن میں شریف برادران کےدرمیان ملاقاتوں میں اہم ترین موضوع نئے آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں ہی تھا۔ ان مباحث میں شہباز شریف نے جو تجاویز یا رائے پیش کی ، ان پر نواز شریف کو تحفظات ہیں۔ شہباز شریف آرمی چیف کی تقرری سے لے کر انتخابات کے انعقاد تک کا فیصلہ بڑے بھائی کی مرضی کے خلاف کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ملکی سیاست کے لئے یہ پہلو افسوسناک ہے کہ اس وقت ایک ایسا شخص وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہے جسے صرف اتحادی پارٹیوں کے دباؤ ہی کا سامنا نہیں ہے بلکہ پارٹی کے اندر سے بھی شدید مخالفت و مزاحمت کا سامنا ہے۔ ان میں ایک نئے آرمی چیف کے نام پر اتفاق کا معاملہ بھی شامل ہے۔
عمران خان نے لاہور میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اس جانب اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم تو آرام سے دیکھ رہے ہیں لیکن حکومتی حلقے اس سوال پر آپس میں دست و گریبان ہیں۔ وزیر اعظم اور حکومت کے ترجمان اس مؤقف کو مسترد کریں گے لیکن عمران خان کی تازہ ترین گفتگو بھی یہی اشارہ کرتی ہے کہ نواز شریف نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے وزیر اعظم کے نقطہ نظر سے متفق نہیں ہیں۔ اور شہباز شریف کے لئے شاید ان کے مشورے کو بعینہ مان لینا ممکن نہ ہو کیوں کہ اس تعیناتی کے حوالے سے صرف سیاسی عناصر کا مستقبل ہی داؤ پر نہیں لگا ہؤا بلکہ فوج بھی کوئی ایسا آرمی چیف چاہتی ہے جو اس ادارے کو الزام تراشی کی موجودہ صورت حال میں پیدا ہونے والے بحران سے نکال سکے۔ ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف پر اسٹبلشمنٹ کا دباؤ ہو کہ جنرل باجوہ کو انتخابات تک توسیع دینے کی تجویز مان کر فوج کو سیاسی بیان بازی سے نجات دلائی جائے۔
حکومتی حلقوں میں نئے نام پر اختلاف یا اتفاق رائے کے بارے میں تو زیادہ معلومات سامنے نہیں آسکیں لیکن یہ طے ہے کہ نواز شریف اصولی طور پر کسی آرمی چیف کو توسیع دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے سے صاف انکار کردیا تھا حالانکہ اس کے بدلے انہیں سیاسی نجات کا راستہ دینے کی پیش کش کی گئی تھی۔ جنوری 2020 میں مسلم لیگ (ن) نے جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے لئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کی تھی لیکن اس موقع پر نواز شریف نے بادل نخواستہ اس توسیع کی تائد کی تھی۔ اب ان کا اپنا بھائی اگر جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کی کوشش کرتا ہے تو نواز شریف اسے ہر حال میں ’ویٹو‘ کرنا چاہیں گے۔ البتہ عمران خان نے حکومتی حلقوں میں لڑائی کا جو اشارہ دیا ہے، اس میں اس حد تک سچائی دکھائی دیتی ہے کہ شہباز شریف کو ئی بیچ کا راستہ تلاش کرکے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں جبکہ نواز شریف ایسی کسی رعایت کے حق میں نہیں ہیں۔
ایک تقرری پر کی جانے والی سیاست کے ماحول میں قومی اسمبلی میں پاک فوج کے ساتھ یک جہتی کی قرار داد منظور کرکے حکومت نے دراصل یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ اس معاملہ پر کوئی اختلاف نہیں ہے اور کسی قسم کی کھینچا تانی نہیں ہورہی۔ دریں حالات اس رائے سے اتفاق کرنا ممکن نہیں ہے۔ نئے آرمی چیف کی تقرری شہباز حکومت کے لئے سنگین معاملہ بن چکی ہے ۔ وہ اس معاملہ پر کوئی حوصلہ مندانہ مؤقف اختیار کرکے اس بحران کو ختم کرنے کی صلاحیت و حوصلہ بھی نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ 29نومبر کو موجودہ آرمی چیف کے عہدے کی مدت پوری ہونے تک اس موضوع پر قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بھی واضح ہوتا جارہا ہے کہ شہباز شریف نے اپریل میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد منظور کروانے کے بعد انتخابات کی طرف جانے کی بجائے خود وزیر اعظم بننے کا فیصلہ کرکے سنگین سیاسی غلطی کی تھی۔ پاکستان سے موصول ہونے والے سیاسی اشاریے یہ واضح کررہے ہیں کہ حکمران اتحادی جماعتوں کو آئیندہ انتخابات میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کو اٹھانا پڑے گا جسے پنجاب میں تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا سامنا ہے۔ پارٹی کی اہم قیادت ملک سے باہر ہے اور عمران خان کی احتجاجی مہم جوئی کا مقابلہ کرنے کے لئے واپس آنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ اس وقت ایک طرف کسی ’موزوں‘ آرمی چیف کے تقرر کے لئے دباؤ ہے تو دوسری طرف مقررہ وقت سے پہلے انتخابات کا تقاضہ کیا جارہا ہے۔ جس فوج کی حمایت میں مسلم لیگ (ن) عمران خان کے خلاف سینہ سپر ہوئی تھی، وہ اس پارٹی کے وزیر اعظم کو زیادہ سپیس دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ البتہ دباؤ کے سارے ہتھکنڈے استعمال کرکے وہ تمام فیصلے کروائے جارہے ہیں جو بہر حال مسلم لیگ (ن) کے فائدے میں نہیں ہیں۔
نواز شریف ا س صورت حال کو سمجھتے ہیں اور کسی بھی طرح پارٹی کی پوزیشن بحال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا کروہ یہ مقصد حاصل کرلیں گے؟ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ایسی امید رکھنا عبث ہوگا۔ البتہ حکومت ، فوج اور ملک کے لئے بہتر ہوگا کہ نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان جلد از جلد کردیا جائے۔ اب اس معاملہ میں تاخیر سے حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی خیر سگالی ہی کو نقصان پہنچے گا۔