محمد انیس الدین
جنگ دو تربیت یافتہ افواج کے درمیان ہوتی ہے۔ غزہ میں جاری تنازعہ کو حق اور باطل کا معرکہ کہا جائے ایک طرف منظم فوج ہے جو جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے اور دوسری جانب ارض مقدس کو غاصبوں سے واپس حاصل کرنے والی مزاحمتی تنظیم ہے۔ صیہونی طاقتیں جب اس مزاحمت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگیں تو انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اوچھے اور غیرانسانی ہتھکنڈوں کا استعمال شروع کردیا اور بجائے مزاحمتی تنظیم سے مقابلہ کرنے کے فلسطینی/غزہ کے معصوم اور بے گناہ نہتے بچوں اور خواتین‘ بیمار افراد ‘ پانی کے ذخیروں ‘ دواخانوں ‘ بیکرس‘ فوڈ اسٹورس پر شدید بمباری کرتے ہوئے ان افرادکو باقہ کشی پر مجبور کردیا ہے جس کی وجہ سے مختلف عالمی حقوق انسانی کی تنظیمیں صدائے احتجاج بلند کررہی ہیں لیکن اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اسرائیل فسلطینی عوام کو فاقہ کسی پر مجبور کررہا ہے‘ یہ حرکت بین الاقوامی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی اور غیر قانونی ہے۔ درندہ صفت اسرائیل غزہ میں بچوں اور خواتین کو اپنے نرغہ میں لے کر ان کو ضروری غذائی اشیاء کے پہنچنے میں رکاوٹ ڈال کر فاقہ کشی پر مجبور کررہا ہے۔ اگر فوراً ان کو اشیائے ضروریہ اور دیگر اہم چیزیں نہ ملیں تو غزہ میں انسانیت کو ایک المیہ کا سامنا ہوگا۔ جس کیلئے تمام مسلم ممالک کے حکمران ذمہ دار ہوں گے۔ کیوں کہ انہوں نے بھوک اور پیاس اور فاقہ کشی اور اسرائیلی درندگی پر ساری مہذب دنیا ‘ بالخصوص مسلم ممالک کو مدد کیلئے مسلسل آوازیں دیں لیکن ان مظلومین کی آواز صدا بہ صحرا ہوگئی۔ قریبی مسلم ممالک مظلومین کی صدا پر انسانیت کا خیال کرتے ہوئے لبیک کہہ سکتے تھے لیکن بعض نے تو اپنے بھائیوں کے لئے صحرائے سینا میں موت کا کنواں تیار کردیا اور اپنے آقاؤں کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہیں۔ ان سب کو اپنے خالق کو جواب دینا ہے۔
حقوق انسانی کی اسرائیل‘ فلسطین کے نگہبان عمر شاکر کے مطابق ‘ گزشتہ دوماہ سے اسرائیلی درندہ صفت حکومت اور اس کے حواریوں نے مسلسل غزہ کی آبادی کو غذا اور پانی کی بنیادی سہولت سے محروم کردیا اور اس منصوبہ بند فاقہ کشی کو اسرائیلی حکومت کی منظوری حاصل ہے‘۔ حکومت چاہتی ہے کہ فلسطین غزہ کے عوام فاقہ کشی سے ہلاک ہوجائیں۔
حقوق انسانی کی نگہباں تنظیم کی رپورٹ میں درج ذیل بھی ہے :
٭ حکومت اسرائیلی شہریوں کی فاقہ کشی کو غزہ میں بطور جنگی ہتھیار استعمال کررہا ہے جو کہ ایک واضح جنگی جرم ہے۔
٭ اسرائیلی حکام نے ایک عوامی بیان میں اس کا اظہار خیال کیا کہ وہ غزہ کے شہریوں کو غذا‘ پانی اور فیول سے محروم کردیں گے ۔ اس بیان کی تصدیق اسرائیلی افواج کی فوجی درندگی سے ہورہی ہے۔
٭ حکومت اسرائیل کو شہری اابادی میں انسانی زندگی کی ضروریات کی اشیاء پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ غزہ کے عوام کا محاصرہ ختم کرنا چاہیے اور بجلی و پانی کی فراہمی کو فوری بحال کرنا چاہیے۔
اسرائیل شہری آبادی کو منصوبہ بند طریقہ سے غزہ کے عوام کی نسل کشی کرتے ہوئے غزہ کو میدان کربلا میں تبدیل کرچکا ہے۔ اسرائیل ایک سنگین جرم کا مرتکب ہوا ہے لیکن اس دہشت گردی کو اس کے حواری اس کا حق دفاع کہہ رہے ہیں۔ اگر یہ حق دفاع ہے تو پھر جن کا ارض مقدس اور ان کے گھر پر جو غاصبانہ قبضہ ہوچکا ہے اور ان کو گھر سے بے گھر کردیا گیا ہے اور وہ اپنے گھر اور ارض مقدس کی بازیابی کیلئے جہد مسلسل کررہے ہیں اور پون صدی سے صہیونیوں کے خونی ظلم کا شکار ہیں تو کیا ان کی اپنی ارض کو حاصل کرنے کو کیسے دہشت کا نام دیا جاسکتا ہے؟ اسرائیل کے حق دفاع کی وکالت کرنے والے عقل سے معزور اور حق و باطل میں تمیز سے قاصر ہیں۔
جنوبی غزہ کے عوام وقفہ وقفہ سے اپنی آپ بیتی سے سوشیل میڈیا پر دنیا کو آگاہ کررہے ہیں تاکہ ان کو کوئی مدد نصیب ہوجائے۔ عوام کہہ رہے ہیں کہ وہ پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ دکانات میں غذائی اشیاء کی کمی ہے اور کہیں اشیاء موجود ہیں تو عوام کی طویل قطاریں ہیں‘ قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ورڈ فوڈ پروگرام(WFP) کی 9دسمبر کی رپورٹ کے مطابق ہر 10 میں سے 9 گھر شمالی غزہ میں اور 3 میں سے 2 گھر جنوبی غزہ میں کم سے کم ایک کامل دن اور رات فاقہ کشی میں گزارتے ہیں۔
بین الاقوامی انسانی قوانین یا جنگی قوانین کے مطابق شہریوں کی فاقہ کشی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کی سخت ممانعت ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے مطابق عمداً شہریوں کو فاقہ کشی سے ہلاک کرنا سنگین جنگی جرم ہے۔
اس جرم کے علاوہ اسرائیل مسلسل غزہ کے عوام کی نامہ بندی کرتے ہوئے عوام کا نام میں دم کررکھا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے مطابق عوام کو اجتماعی سزا دینا بھی سنگین جنگی جرم ہے۔ چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق اسرائیل کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہری آبادی کو غذا اور طبی سہولتیں میں رکاوٹ نہ ڈالے۔
17نومبر2023ء کو ورلڈ فوڈ پروگرام نے تنبیہ کی کہ غزہ میں فاقہ کشی کا آغاز ہے اور غذا اور پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ 3 دسمبر کو یہ بات بتائی کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط کا خطرہ ہے ‘ غزہ کا غذائی سپلائی کا نظام درہم برہ مہونے کو ہے اور 6دسمبر کو یہ اطلاع آئی کہ شمالی غزہ کے38فیصد گھر اور38فیصد بے گھر افراد جو جنوبی غزہ سے ہیں سنگین اور خطرناک بھوک میں مبتلا ہوگئے۔
نارویجن رفیوجی کونسل نے3نومبر کو ایک اعلان کیا کہ غزہ میں صفائی اور حفظانِ صحت کا ایک شدید بحران ہونے والا ہے۔waste water اور Desalination کی سہولتیں اکتوبر سے بند ہیں۔ کیوں کہ فیول اور بجلی کی قلت ہے اور غزہ میں تو 7اکتوبر سے قبل سے ہی پینے کے پانی کا شدید بحران ہے۔ غزہ کے عوام16 سال سے اشیائے ضروریہ کیلئے اسرائیل کے محتاج ہیں۔
اسرائیل نے9اکتوبر کو غزہ کا مکمل محاصرہ کرلیا اور جنوبی غزہ میں پانی کی سپلائی روک دی اور اسرائیلی وزیراعظم نے ہر قسم کی مدد کو جو رفح کراسنگ سے پہنچائی جارہی تھی اس کو سختی سے روک دیا۔ حقوق انسانی کی نگہبان تنظیم نے 11نقل مکان کرنے والوں سے بات کی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ شمالی غزہ سے اسرائیل کے حکم پر جنوبی غزہ نقل مکانی کرتے ہوئے کئی مقامات پر شدید بمباری اور اسرائیلی دہشت کا شکار رہے۔ دوران سفر کہیں بھی شیلٹر نہیں تھا اور ہر لمحہ اسرائیلی بمباری کا خوف تھا۔ ایک گیلن پانی کیلئے 3کلو میٹر کی مسافت طئے کرنا پڑا۔ ایک شخص اپنی حاملہ اہلیہ اور دو معصوم بچوں کے ساتھ جنوبی غزہ کی طرف روانہ تھا‘ اس کو کھانے کی کوئی چیز دستیاب نہیں تھی۔ ایک36سالہ شخص نے کہا کہ وہ شمال سے جنوب کی جانب اپنے والد ‘ اہلیہ اور دو بھائیوں کے ساتھ11اکتوبر کو روانہ ہوا۔ اس نے کہا کہ پینے کا صاف پانی تک نصیب نہیں ہے اور ہم سمندر کانمکین پانی پینے پر مجبور ہیں۔ روٹی بنانے آٹا میسر نہیں‘ ماجد 34سالہ کہتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ جنوب کی جانب10 نومبر کو جارہا تھا جبکہ شمال کے حالات بدترہیں۔ ہم بعض وقت ایک کپ پانی 10امریکی ڈالر میں خریدرہے ہیں اور یہ پانی بھی پینے کے لائق نہیں ہوتا اور بے شمار دردبھری دستانیں ہیں‘ اگر ضبط تحریر میں لائی جائیں تو کلیجہ منہ کو آجائے۔ اختصار کے ساتھ اانگریزی سے ترجمہ کیاگیا ہے تاکہ قارئین بھی ماہ رمضان میں بوقت افطار اپنے فلسطینی بھائیوں کی بھوک‘ پیاس اور ان کی تکالیف کو یاد کرتے ہوئے روزانہ ان کی آسانیوں اور شہدیاء کی مغفرت اور جو حیات ہیں ان کی حفاظت اور ارض مقدس کی بازیابی کیلئے اپنے خالق سے دعا کریں اور مسلم حکمرانوں کے حق میں بھی دعا کریں کہ وہ فلسطینیوں کی ہر قسم کی مدد کیلئے کامل اتحاد سے تیار ہوجائیں۔
سعودی عرب کے شہر جدہ میں1975ء میں ایک فلسطینی سعودی جس نے وسط جدہ یعنی ال مدینہ پر ایک عمارت خریدی اور فرائیڈ چکن کی تجارت ’’ البیک‘‘ کے نام سے شروع جس کے نصف چکن کے ایک ڈبے کی قیمت10ریال تھی اور یہی قیمت کئی سال تک بغیر اضافہ کے رہی۔
ایک اہم اور قابل تقلید پہلو کی جانب تمام تجارت پیشہ افراد کی توجہ چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ البیک کا مالک ہر چکن کے ڈبے کی فروخت پر ایک ریال علاحدہ جمع کرکے فلسطینیوں کی فلاح و بہبود کیلئے بہ پابندی روانہ کرتا تھا اور شاید اب بھی یہ سلسلہ جاری ہوگا۔ اس فلاحی کام کا جو نتیجہ آج آنکھوں کے سامنے ہے اس شخص کے کاروبار میں خالق نے ایسی برکت دی کہ آج وہ شخص نہ صرف دولت مند ہوگیا بلکہ جدہ میں اور بیرون جدہ اور بیرون ملک میں اس کے کاروبار میں وسعت ہوئی۔ آپ کو یہ جان کر حیرانیہوگی کہ کسی بھی فرائیڈ چکن کے کاروبار کرنے والے کے پاس اتنا ہجوم نہیں ہوتا جتنا کہ البیک پر ہوتا ہے ۔ البیک کھلنے سے قبل ہی لوگ دکان کے باہر انتظار میں قطار میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور اوقات نماز میں البیک بند ہوتا ہے تو گاہک باہر کھڑے رہتے ہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰