مضامین

انتخابات میں رائے دہی کا گھٹتا ہوا فیصد۔۔ذ مہ دار کون؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد۔ایڈوکیٹ

ملک میں جیسے ہی الیکشن کی تواریخ کا اعلان ہوتا ہے ، سیاسی پارٹیاں خم ٹھونک کر انتخابی میدان میں کود پڑتی ہیں اوراپنی کا میابی کو یقینی بنانے کے لئے نِت نئے پینترے اختیار کرتی ہیں۔ ہر پانچ سال میں ایک مرتبہ عوام کے درمیان میں جاکر انہیں چند طفل تسلیاں دے کر ان کے ووٹ بٹورلینا سیاست دانوں کا وتیرہ بن چکا ہے۔ اب ملک میں بہت کم ایسے سیاستدان ملیں گے جو ہمہ وقت عوام کے درمیان میں رہتے ہوئے ان کے مسائل کو حل کر تے ہیں۔ سیاست میں آئے ہوئے اس بدلاو¿ نے رائے دہندوں کی امیدوں پر پانی پھیردیا۔ اب عام طور پر عوام کی اکثریت یہ کہتے ہوئے سنائی دے گی کہ کسی بھی پارٹی کے بر سرِ اقتدار آنے سے انہیں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ عوام میں یہ تاثر بڑھتا جا رہا ہے کہ اب ملک میں جمہوریت برائے نام رہ گئی ہے۔ عوام کی اہمیت صرف ووٹ کی حد تک محدود ہو گئی ہے۔ الیکشن کے بعد انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ عوام کے اسی رجحان سے الیکشن کے موقع پر رائے دہی کا فیصد گھٹتا جا رہا ہے۔ لوک سبھا کاا لیکشن ہو یا ریاستی اسمبلی کے انتخابات یا پھر بلدیہ یا مونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوں پچاس فیصد سے بھی کم رائے دہی ہو رہی ہے۔ بعض علاقوں میںووٹنگ تیس فیصدبھی نہیں ہو رہی ہے۔ رائے دہی کے معاملے میں عوام کا یہ طرز عمل ایک تشویشناک صورت حال ہے۔ کسی علاقہ میں رائے دہندوں کی اکثریت اپنے ووٹ کا استعمال ہی نہ کرے تو وہاں سے منتخب ہونے والے امیدوار کو عوامی نمائندہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ماضی قریب تک ہونے والے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ الیکشن کے موقع پر عوام میں جوش و خروش پایا جا تا تھا۔ وہ اپنے ووٹ کے استعمال کو اپنی دستوری ذ مہ داری سمجھتے تھے۔ لیکن جب سے ملک میں بھانت بھانت کی پارٹیاں قائم ہونے لگیں اور انہوں نے سوائے سیاسی بازیگری کے اور کچھ نہیں کیا تو عوام بھی انتخابی سرگرمیوں سے دور ہوتی چلی گئی۔ اس وقت ملک کی پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان پانچ ریاستوں میں راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، میزورم اور تلنگانہ شامل ہے۔ میزورم ، جہاں اسمبلی کی صرف 40نشستیں ہیں، وہاں 7 نومبر کو ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹنگ کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ دیگر چار ریاستوں میں آنے والے دنوں میں عوام اپنے حق رائے دہی سے استفادہ کر ے گی۔ پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کو مِنی جنرل الیکشن یا پھر لوک سبھا کے الیکشن کا سیمی فائنل کہا جا رہا ہے۔ یہ بھی مانا جا رہا ہے کہ ان اسمبلیوں کے الیکشن کے نتائج کا اثر آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن پر بھی پڑے گا۔ اتنی اہمیت کے حامل انتخابات میں عوامی رجحان کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہو تا ہے سیاسی پارٹیوں کے کارندے ہی اپنی اپنی پارٹیوں کے پرچم تھامے سڑکوں اور گلیوں میں گھوم رہے ہیں۔ عوام اپنی روزی روٹی میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر پارٹی کے قائدین چنندہ افرادکو مدعو کرکے ان سے خواہش کررہے ہیں کہ وہ اپنی قوم کو ان کی پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیں۔حالانکہ ان افراد کا سماج میں کوئی خاص اثر نہیں ہوتا ہے۔ ہندوستانی سیاست کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ الیکشن کے موسم میں بعض ایسے چہرے بھی سامنے آتے ہیں جن کو سیاست کی ابجد بھی نہیں آتی۔ انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کس پارٹی کا انتخابی منشور کیا ہے۔ لیکن سیاست میں ان کا مفاد ہو تا ہے اس لیے ہر سیاسی پارٹی کے دفتر پر یہ دستک دیتے ہیں اور جہاں سب سے زیادہ ان کی بولی لگتی ہے وہ اس پارٹی کے حق میںزمین و آسمان کے قلابے ملادیتے ہیں۔
سیاست کے بازار میں ہونے والی ان ڈرامہ بازیوں کے نتیجہ میں اب ملک کے عوام کو الیکشن سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔ اس حقیقت کا اظہارہر الیکشن میں رائے دہی کے گھٹتے ہوئے فیصد سے ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹ کے استعمال کے بارے میں عوام کو مسلسل توجہ دلائی جا رہی ہے۔مختلف رضاکارانہ تنظیموں کی جانب سے سیاسی شعور بیداری مہم چلائی جا رہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بھی یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ رائے دہی کے فیصد میں اضافہ ہو۔ ان تمام کوششوں کے باوجود رائے دہندوں کی جانب سے ووٹ کے استعمال کے بارے میں حوصلہ افزاءردعمل کا سامنے نہ آنا ملک کے سیاسی نظام کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ آزادی کے بعد سے ملک میں وقفے وقفے سے انتخابات کر ائے جا تے رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ملک میں ہونے والے انتخابات بڑی حد تک صاف و شفاف رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو الیکشن کمیشن کی جانب سے پابند کیا جا تا ہے کہ وہ مذہب یا ذات کی بنیاد پر ووٹ طلب نہ کریں۔ اس بات کا بھی خاص لحاظ رکھا جاتا ہے کہ رائے دہندے بغیر کسی خوف و لالچ کے اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ پوری سرکاری مشنری الیکشن کی ساری سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہے۔ لاکھوں سرکاری ملازمین کی خدمات سے نہ صرف استفادہ کیا جاتا ہے بلکہ الیکشن کے دوران کسی سرکاری ملازم کو رخصت بھی نہیں دی جا تی چاہے وہ کسی بیماری یا پریشانی میں بھی مبتلا ہو۔ ان سارے انتظامات کا مقصد منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ لیکن الیکشن کو نتیجہ خیز بنانے میں رائے دہندوں کا رول کلیدی ہوتا ہے۔ رائے دہندے ملک کے سیاسی نظام سے مایوس ہو کر الیکشن کے دن اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں تو اس سے نہ صرف ملک کا نقصان ہو گا بلکہ عوام کو بھی اس کے مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جمہوریت کی برقراری کے لیے الیکشن کاہونا لازمی ہے ورنہ ملک میں ڈکٹیٹرشب آجائے گی۔ الیکشن کے ذریعہ صحیح عوامی نمائندوں کو منتخب کرنا رائے دہندوں کی ذ مہ داری ہے۔ ووٹ، شہریوں کا حق بھی ہے اور ایک فرض بھی ہے۔ باشعور شہریوں کی جانب سے حقِ رائے دہی سے احتراز ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کر دیتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں سے شکوہ و شکایت ہو سکتی ہے۔ حکومتوں کی کارکردگی سے عوام مطمئن بھی نہیں ہو تے ہیں، لیکن اس بنیاد پر اپنے جمہوری حق کو استعمال نہ کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ جمہوریت میں عوام ہی کو حکومت بنانے کا حق حاصل ہے۔ کوئی بھی پارٹی عوام کی رائے کی بنیاد پر ہی بر سرِ اقتدار آتی ہے۔ اس لیے ووٹ کے استعمال کے بارے میں شعور بیداری کا کام ہر سطح پر ہونا ضروری ہے۔ رائے دہی کے فیصد میں کمی سے سیاسی پارٹیوں کی بھی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ کامیاب ہونے والا امیدوار اپنے حلقے کے تیس فیصد ووٹ لے کر یہ سمجھنے لگے کہ وہ سب کا نمائندہ ہے تو یہ بات منطقی طور پر صحیح نہیں ہو سکتی ۔ البتہ ملک کے مروجہ قانون کے مطابق بہرحال وہ عوامی نمائندہ کہلائے گا۔ ملک میں جمہوری نظام کو تقویت بخشنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ انتخابی عمل میں بھی عوام کی شرکت زیادہ سے زیادہ ہو۔ ایک زمانے میں پولنگ بوتھ پر سو فیصد پولنگ بھی ہوتی تھی۔ایسی صورت میں نتیجہ کو روک دیا جاتا تھا۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن واقعات کی تحقیق کرکے نتائج کا اعلان کرتا تھا۔ شہری ووٹ کے استعمال کو ایک اہم فریضہ سمجھتے تھے۔صبح کی اولین ساعتوں سے رائے دہی کے مراکز پر ووٹ ڈالنے والوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھی جا تی تھیں۔ حیدرآباد میں الیکشن کی گہماگہمی کو مضمون نگار نے بچشم نگاہ دیکھا ہے۔ لوگ ناشتہ کئے بغیرپولنگ بوتھ کی جانب چل پڑتے تھے۔ خواتین اپنے چھوٹے بچوں کو گھروں میں چھوڑ کر ووٹ ڈالنے آتی تھیں۔ اب یہ سب قصہ پارینہ بن گیا ہے۔ اب تو فرصت کے لمحات کے باوجود عوام کو ووٹ ڈالنے میں دلچسپی باقی نہیں رہی۔
الیکشن میں رائے دہی کے گھٹتے ہوئے فیصد کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کا اب عوام سے بھی رابطہ بہت کم ہو گیا ہے۔ جب کبھی الیکشن کا مر حلہ آتا ہے تو ووٹوں کی خریدی پر سیاسی پارٹیوں کی توجہ مرکوز ہوجا تی ہے۔ غریب عوام کا ووٹ شراب کی دو بوتلیں دے کر خرید لیا جا تا ہے۔ پیسہ کی ریل پیل نے سارے انتخابی نظام کو آلودہ کردیا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے کئی ایک پابندیوں کے باوجود سیاسی پارٹیاں دولت کا استعمال کرکے اپنی کامیابی کے لیے راہیں ہموار کر لیتی ہیں۔ اسی طرح دھونس دھاندلی کی ایسی فضاءتیار کی جاتی ہے کہ کوئی شریف انسان سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے لے کر رائے دہی کے مکمل ہونے تک سیاسی پارٹیاں اپنی جیت درج کرانے کے لیے کیا کچھ ذرائع استعمال کرتی ہیں وہ سب پر عیاں ہے۔ حالات کے اس تناظر میں رائے دہندوں کو اپنے ووٹ کے استعمال میں بہت زیادہ حساس اور چوکنا رہنا ہے۔ ووٹ کے ذریعہ ہی ملک میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ سنجیدہ ، تعلیم یافتہ اور سیاسی طور پربا شعور طبقہ اپنے ووٹ کو استعمال نہ کرے تو ملک میں حالات اور دھماکو ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ملک دو راہے پر کھڑا ہوا ہے۔ملک سے فرقہ پرستی کو ختم کرنے کے لیے ووٹ سے بہتر کوئی دوسرا ہتھیار نہیں ہے۔ رائے دہندے ملک اور قوم کے تئیں اپنی ذ مہ داری کو نہیں سمجھیں گے تو ملک سے نفرت و عناد کو ختم کر کے بھائی چارہ کی فضاءقائم نہیں کی جا سکتی۔ ایک مر تبہ کسی فرقہ پر ست طاقت کو اقتدار پر آنے کا موقع مل جائے تو پانچ سال تک اسے کوئی اقتدار سے ہٹا نہیں سکتا۔ گزشتہ نوسال کے دوران ہندوستانی عوام نے دیکھ لیا کہ فرقہ پرستی کی یلغار نے کس طرح سے ملک کے سماجی تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا۔ ملک کے مخصوص طبقوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھا گیا اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار دینے کے کئی وعدے کئے گئے لیکن کوئی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ قومی دولت چند خاندانوں کی ملکیت بن گئی۔ عام عوام کے لیے بنیادی سہولتیں بھی فراہم کرنے میں حکومت ناکام ہو گئی۔ الیکشن کے موقع پر جذباتی مسائل کو چھیڑ کر عوام کو گمراہ کیا جا تا ہے۔ متنازعہ موضوعات کو بحث کا مو ضوع بناکر حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی منصوبہ بند کوشش ہو تی ہے۔ سیاسی پارٹیاں دانستہ طور پر ان عنوانات کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنانے میں دلچسپی لینے لگی ہیں جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ مذہب، ذات، علاقہ یا زبان کی بنیاد پر رائے دہندوں میں پھوٹ ڈال کر سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کی تکمیل کرلیتی ہیں۔ الیکشن کے موقع پر عوام سیاسی پارٹیوں کی ان ساری چال بازیوں کو سمجھتے ہوئے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں تو سیاسی پارٹیاں اپنے ارادوں میں کا میاب نہیں ہو سکتی ہیں۔ اس کے لیے رائے دہندوں میں سیاسی بصیرت کے ساتھ بے لوث عوامی نمائندوں کو منتخب کرنے کا جذبہ ہو نا ضروری ہے۔ رائے دہندے معمولی مفادات کے لئے اپنے ووٹوں کا سودا کرلیتے ہیں تو اس سے جمہوریت مستحکم نہیں ہو گی اور الیکشن کا انعقاد محض ایک ضابطہ کی کارروائی ہو گی۔ اس لئے اسمبلی انتخابات میں رائے دہندوں کو اس بات کا عزم کرنا ہوگا کہ وہ ایک مخلص اور دیانت دار امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔ وہ کسی ایسی پارٹی کے حق میں ووٹ نہیں ڈالیں گے جو ملک کے دستور سے کھلواڑ کر تی ہو اور شہریوں کے درمیان بھید بھاو¿ سے کام لیتی ہو۔ رائے دہندوں کا ایک ایک ووٹ اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی اور ان کے نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے حق رائے دہی سے استفادہ کرنا ایک اچھے شہری کی علامت ہے۔ ووٹ کے استعمال کے بغیر ملک اور قوم کے حال اور مستقبل کے تعلق سے بہتر امیدیں رکھنا محض ایک خواب ہوگا۔