سیاستمضامین

انتخابات کے شور میں گُم نہ ہوجائیں؟

محمد اعظم شاہد

ملک کے موجودہ حالات سے واقفیت رکھنے والے سبھی احباب جانتے ہیں کہ 2024لوک سبھا انتخابات کئی معنوں میں بہت ہی اہم ہیں۔پورے دس سال ملک میں برسر اقتدار رہی بی جے پی اور اُس کی ہمنوا سیاسی پارٹیوںنے اپنے مفادات کے حُصول کے لیے وہ سب کچھ کرگزرتے رہے جو اُن کی بقاکے لیے اہم تھا۔ مجموعی طور پر ملک کے کونے کونے میں بسنے والے عام آدمی کے توقعات کو پورا کرنے پر دھیان دینا ضروری نہیں سمجھا گیا۔کھوکھلے اعلانات اور بڑے بڑے وعدوں کی بھرمار رہی۔ جس کو خود بی جے پی نے ان وعدوں کو محض جملے بازی سے جوڑ کر اپنا دامن بچا لیا۔ترقی کے نام پر جن منصوبوں پر کام ہوتا رہا اس کے نتائج امیروں کو امیر ترین بناتے رہے۔غریب اپنی سطح غربت سے نیچے ڈھکیلے گئے۔اور اس پربی جے پی ناز کرتی ہے کہ پچھلے دس سال انہوں(بی جے پی) نے اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں گزارے ہیں۔بار بار ماں بھارتی(بھارت ماتا)کی دُہائی دیتے رہے ہیں۔وزیر اعظم مودی، بھارت کو عظیم ملک اور ایک نئی طاقت بنانے وکست بھارت (ترقی سے بھرپور بھارت) کا خواب دکھاتے آرہے ہیں۔ ابھی چند دن قبل اُتر پردیش کے شہر میرٹھ سے اپنی انتخابی ریلی کا آغاز کرتے ہوئے مودی نے کہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ دونوں پارلیمانی انتخابات کی تشہیر کا آغاز میرٹھ ہی سے کیا تھا۔ اس بار بھی میرٹھ سے آغاز ہورہا ہے۔دلچسپ بات ان کی تقریر کی یہ رہی کہ جب انھوں نے بتایا کہ پچھلے دس سالوں میں جو کچھ ملک میں ہواہے وہ محض ایک ٹریلر (ابتدائی مرحلہ) ہے اور اب کام تو مضبوط طور پر ہوگا۔آنے والے پانچ سالوں میں جب وہ پھر سے ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے (جس کا مودی کو پورا یقین ہے) وہ ملک کو دُنیا کی تیسری بڑی معیشتeconomy بنادیں گے۔اس ضمن میں معروف معاشیات سابق گورنر ریزروبینک آف انڈیارگھو رام راجن نے کہا ہے کہ ملک کی معیشت سے متعلق بڑی قیاس آرائیاں بیان کرنا بہت بڑی غلطی ہے، جو بی جے پی کی سیاست کررہی ہے۔ملک کی شرح پیداوار میں اضافہ کے لیے سب کچھ زمینی سطح سے کرنا ضروری ہے۔”وکست بھارت” کی بات کرنا بھی محض تصوراتی بیان بازی ہے۔اس لیے بھی کہ ملک میں ہنر مندی، تعلیم اور صحت پر اتنی توجہ نہیں دی گئی ہے جتنی کہ ضروری تھی۔بہرحال سبز باغ دکھانااور سوکھے بنجر مناظر سے آنکھیں چھپانا ہی کچھ ملک کو طاقت ور بنانے کے نام پر ہوتا رہا ہے۔ سینہ تان کر بی جے پی اعلان کرتی رہی ہے کہ سال2047 تک ملک تمام معاشی سماجی مسائل سے آزاد ہوجائے گا اور بھارت سوپر پاور بن جائے گا۔رگھورام راجن اس خیال کو حقیقت سے دور محض ایک کم زور آرزو سمجھتے ہیں۔
چلئے پھر لوک سبھا انتخابات کی بات کرتے ہیں۔ خاموشی سے اپنے مفادات کے خلاف سب کچھ ہوتے دیکھنا ملک کے باشندوں کا مجرمانہ عمل ہے۔ اگر بدلاؤ چاہتے ہیں تو بدلاؤ کے لیے کوششیں اپنے ووٹ کی طاقت سے کرنی ہوگی۔ چکنی چپڑی باتوں میں سیاست دانوں کی آنے سے بہتر یہی ہے کہ حالات کی روش کو سمجھیں اور ملک کی سالمیت اور تکثیری وراثت کو مضبوط کرنے والی سیاسی پارٹیوں کی حمایت کریں۔ اپنے ووٹ سے غفلت موجودہ حالات میں بہت مہنگی ثابت ہوسکتی ہے۔ صرف ایک مذہب کے ماننے والوں کو اس ملک میں برتری دے کر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ناروا سلوک بنائے رکھنا آر ایس ایس کی بنیادی پالیسی ہے جس کو عملی طور پر کر دکھانے بی جے پی نئے روپ بدلتی رہتی ہے۔ملک کے دستور constitutionکی حفاظت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دستور ہی کے باعث ملک کا سیکولر تانا بانا سلامت اور یقینی طور پر عمل پیرا ہوسکتا ہے۔اس لیے دستور کی سلامتی کی دہائی دینے والی سیاسی جماعتوں کا ساتھ دینا مظلوم ووٹروں کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔ملک کی بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس اور اس کے ہمنوا سیاسی پارٹیوں کا اتحاد انڈیا اپنی پوری کوششوں میں ہے کہ ملک کے دستورکی حفاظت کی جائے اور ہر شہری کو سماجی اور معاشی انصاف دیا جائے۔اس لیے سیکولر سیاسی پارٹیوں کی حمایت کے لیے ہر ووٹر اپنا حق عملی طور پر استعمال کرے۔اپنی روز مرہ کی ضروریات میں پہلی ترجیح اپنے ووٹ کے استعمال کو ہی دیں۔تبھی تو ملک میں بدلاؤ ممکن ہوسکے گا۔محض شکوہ کرنے سے مایوس رہنے سے حالات تو بدلنے سے رہے۔تدبیر ضروری تقاضہ ہے کہ ہر کوئی ووٹ کی طاقت کو سمجھے۔ووٹ دینے کے حق سے متعلق عام طور پر جو لاتعلقی،بے زاری،بے نیازی کا رجحان مسلمانوں کے چند حلقوں میں پایا جاتا ہے۔وہ نہ صرف اُن کے لیے خطرناک ہے بلکہ مجموعی اعتبار سے ملک کے مستقبل کے لیے بھی تشویشناک ہے۔
مسلم معاشرے میں ووٹ کے استعمال اور اس کی اہمیت و افادیت پر ہر ممکنہ طریقے سے شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔مساجد، ملی و سماجی ادارے،سوشل میڈیا، اخبارات،یوٹیوب چیانلس ہر ممکنہ صورت میں ووٹ کے حق کو استعمال کرنے اور اپنے دستاویزات کی درستگی اور انتخابات کی تاریخ سے پہلے ہی اپنے ووٹ دینے کے لیے جو شناختی کارڈ و دیگر متعلقہ دستاویزات ہیں یہ سب اپنی ذمہ داری کے ساتھ اپنی تحویل میں رکھیں۔نہ صرف اپنے گھر والوں بلکہ اپنے تمام ملنے جلنے والوں سے بھی حق رائے دہندی(ووٹ دینے کا حق) کی بنیادی اہمیت اور اس سے حالات کا رُخ بدلنے کی طاقت پر اپنے اپنے طور پر معلومات عام کریں۔زندہ شعور اور احساس کے ساتھ ہی معاشرہ زندہ رہ سکتا ہے۔ہماری اپنی بقا،سلامتی اور شناخت کے تحفظ کے لیے ہمیں فسطائی اور فرقہ پرست طاقتوں کو ناکام کرنا ہے تو اس کا واحد وسیلہ اپنے ووٹ کا لازمی استعمال ہے۔کسی بھی طرح کی کوتاہی سمجھیں کہ یہ عمل ناقابل معافی ثابت ہوگا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w