حمید عادل
’’اندھے کے ہاتھ بٹیر لگنا ‘‘اُتنی ہی پرانی کہاوت ہے ، جتنی کہ بٹیر …آج یہ کہاوت کہی اور سنی تو کم جاتی ہے لیکن زمانہ اندھے کے ہاتھ بٹیر لگنے والا ہی چل رہا ہے …
مذکورہ کہاوت کیسے وجود میں آئی ؟اس تعلق سے کہنے والے کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں چند دوستوں کو شکار کا بڑا شوق تھا،ان کے دوستوں میں ایک نا بینا بھی تھا۔ ایک دن نا بینا دوست بھی ان کے ہمراہ شکار کو گیا مگر اس روز بد قسمتی سے کوئی شکار ہاتھ نہ لگا ۔ سب نے نا بینا دوست کو سخت سست سنائی کہ تمہاری وجہ سے ہم آج ناکام ہوئے ہیں۔اب ہم ایک آخری کوشش کرنے جارہے ہیں،تم ہمارے ساتھ مت آنا، تم یہیں بیٹھے رہو … نابینا بڑا شرمندہ ہواکہ اس کی وجہ سے شکارہاتھ نہ لگا …اس نے اپنی چھڑی ڈھونڈنے کے لیے ہاتھ مارا تو وہاں ایک بٹیر سویا ہوا تھا ، اندھے کا ہاتھ اس پر جا پڑا ، اندھے نے فوراً بٹیر کو قابو میں کرلیا اور خوشی سے چیخنے چلانے لگے …جب اس کے دوستوں نے اندھے کے ہاتھ میںبٹیر دیکھی تو وہ بھی بہت خوش ہوئے اور لگے اس کی تعریف کرنے …جوش مسرت سے سب نے پرجوش انداز میں کہا ’’اب ہم روز شکار کیا کریںگے ، دیکھو تواندھے کے ہاتھ بٹیر لگ گئی ‘‘ تب ہی سے یہ کہاوت مشہور ہوگئی ۔
چمن بیگ کو مذکورہ کہانی سے اتفاق نہیں ہے، وہ اپنے ہی انداز میں ’’ اندھے کے ہاتھ بٹیر لگنا‘‘ کی کہانی سناتے ہیں ، کہتے ہیں:
’’اندھے کو شکار کا کوئی شوق نہیں تھا،کسی اندھے کو بھلا شکار کا شوق کیوں چرائے گا؟وہ گاؤں میں اپنے جھونپڑے کے روبرو آرام سے پلنگ پر بیٹھا گنگنا رہا تھا… دریں اثنا جھونپڑے کے روبرو موجود درخت پردو بٹیریں آئیں …ایک نے اندھے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ اگر تو اس شخص کے قریب جاکر دس سکنڈ گزار لے تومیں تجھے منہ مانگا انعام دوںگی۔ دوسری بٹیر جو نہایت ذہین تھی،اس نے شرط کو فوری قبول کرلیا،کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ جس شخص کے قریب دس سکنڈ بیٹھنے کی شرط لگی ہے، وہ تو اندھا ہے …وہ اپنی دوست کی نادانی پر من ہی من مسکرائی اور اڑ کر اندھے کے پہلو میں جاکر بیٹھ گئی… اسی وقت اندھے کو بیڑی کی طلب ہوئی ،اس نے جو اپنی دائیں جانب ہاتھ مارا ، بیڑی کی بجائے بٹیر اس کے ہاتھ میں آگئی ،خود کو چالاک اور ذہین سمجھنے والی بٹیربہت پھڑپھڑائی کہ اندھے کی گرفت سے آزاد ہوجائے لیکن اس کی ایک نہ چلی اور اس طرح اندھے کے ہاتھ بٹیر لگ گئی …‘‘
چمن بیگ مزیدکہتے ہیں ’’اس کہانی سے ہمیںیہ درس ملتا ہے کہ کبھی کسی کو کم ترنہیں سمجھنا چاہیے…اور یہ کہ خالق کائنات مہربان ہوجائے تو پھر اندھے کے ہاتھ بھی بٹیر لگ سکتی ہے ۔
اب یہی دیکھیے کہ امریکہ کے ایک ہوٹل میں سی فوڈ کھاتے ہوئے ایک شخص کے منہ میں ہزاروں ڈالرس کا قیمتی موتی آگیا… جی ہاں موتی نہ ہوا بٹیر ہوا اور آنکھ والا نہ ہوا اندھا ہوا… اطلاعات کے مطابق امریکی ریاست نیو جرسی میں شادی شدہ جوڑا ایک ہوٹل میں سی فوڈکھارہا تھا کہ اچانک شوہر مائیکل اسپریسلر کو منہ میں کچھ سخت شئے محسوس ہوئی…پہلے تو انہوں نے سمجھا کہ وہ گھر پر ہیں اور بیوی کے ہاتھ کا بنا کنکر والا کھانا کھارہے ہیں لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ وہ گھر پر نہیں ہوٹل میں ہیں تو انہوں نے اسے چپ چاپ نگل جانے کی بجائے سخت شئے کو منہ سے باہرنکالا تو پتا چلا کہ وہ ایک موتی ہے جس کی قیمت ہزاروں ڈالرس ہو گی ۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ موتی کی قیمت 50 ڈالرس سے ایک لاکھ ڈالرس تک ہوسکتی ہے…اس چونکا دینے وا لی خبر کو پڑھ کرہوٹل کے مالک کا کیا حال ہوا ہوگا، یہ وہی جانے … اگر چہ وہ اندھا نہیں ہے مگر اس کی یہ حسرت ضرور ہوگی کہ موتی نما بٹیر اسی کے ہاتھ لگتی…وہ لوگ جو روز اسی ہوٹل میں سی فوڈ کھایا کرتے تھے ،نہایت غمگین ہیں کہ کاش ! وہ مچھلی کا ٹکڑا ان کی پلیٹ کی زینت بنتا … کچھ عقل کے اندھے تو ایسے بھی ہوں گے جو نیوجرسی کے ہوٹل سے کوسوں دور رہنے کے باوجود جوق در جوق ہوٹل پہنچ رہے ہوں گے … اور جو نیوجرسی کے ہوٹل کو پہنچ گئے وہ اس بات کا پتا لگانے کی کوشش کررہے ہوں گے کہ مسٹر مائیکل کی آرڈرکی ہوئی ڈش کا نام کیا تھا جس سے موتی برآمد ہوا ، جو لوگ ڈش کا پتالگا چکے وہ اس بات کو جاننے کے لیے بے چین ہوں گے کہ مسٹر مائیکل نے کس ٹیبل پر بیٹھ کر آرڈر دیا تھا ، ٹیبل کا پتا لگانے کے بعد وہ اس بات کاپتا لگانے کی حماقت کررہے ہوں گے کہ کس ویٹر نے انہیں وہ سی فوڈ فراہم کی تھی ،ویٹر کا پتا لگانے کے بعد وہ اس بات کو جاننے کے لیے مرے جارہے ہوں گے کہ ہر روز سی فوڈ کہاں سے ہوٹل کے لیے آتا ہے اور اس دن کس مقام سے سی فوڈ آیا تھا …بہر کیف!بہت سارے لوگوں کے دلوں میں یہ امنگ انگڑائیاں لینے لگی ہوگی کہ ہمیں بھی سی فوڈ میں موتی نکل آئے …
کیا کریں؟انسان کی سرشت میں نقل اور ہوس بھی شامل ہے …اگر وہ دیکھتا ہے کہ کسی بازار میں چائے کی دکان خوب چل پڑی ہے تو وہ بھی اسی چائے کی دکان کی بغل میں ایک اور چائے کی دکان کھول کر بیٹھ جاتا ہے ….آپ کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو کہ برسوں قبل ایک لڑکا کھلے بور میں گر گیا تھا ، گھنٹوں کی محنت و مشقت کے بعد اسے بور سے زندہ نکالا گیا تھا ،اس واقعہ کو مختلف ٹی وی چینلزنے راست ٹیلی کاسٹ کیا تھا …گھنٹوں بور میں پھنسا رہنے کے باوجود قدرت نے اسے زندہ رکھا …دیکھتے ہی دیکھتے وہ لڑکا ہیرو بن گیا ، ہر ٹیلی ویژن چینل اور ہر اخبار پر اسی کے چرچے ہوتے رہے …اس واقعے کے بعد یہ ہواکہ ہندوستان کے مختلف مقامات پر موجود کھلے بورویلز میں معصوم بچے گرنے لگے … ان بے شمار واقعات کو دیکھ اور سن کر یوں محسوس ہورہا تھا جیسے بچے گرنہیں رہے ہیں بلکہ گرائے جارہے ہیں تاکہ ان کے خاندان کے ساتھ بچے کا نام بھی روشن ہوجائے …
خیر بات مسٹر مائیکل کی چل رہی تھی، جن کے سی فوڈ میں موتی نکل آیا ہے…لیکن اس کو کیا کیجیے کہ میاں بیوی میں جنگ سی چھڑ گئی ہے ، مسز مائیکل چاہتی ہیں کہ اس قیمتی موتی کو گلے کے ہار میں شامل کرلیں جبکہ مسٹر مائیکل چاہتے ہیںکہ وہ اس کی مارکٹ میں قیمت لگوائیں …اگرچہ موتی مسٹر مائیکل کے منہ میں آیا لیکن قوی امید ہے کہ مسز مائیکل وہ موتی حاصل کرلیں گی اور مسٹر مائیکل منہ دیکھتے رہ جائیں گے …ہم نے تصور کی آنکھ پھڑپھڑائی تو میاں بیوی کی کچھ اس طرح کی کہانی وجود میں آئی …
مسٹر مائیکل اور مسز مائیکل گھر پہنچے ، مسٹر مائیکل چاہتے ہیں کہ اس موتی کی قیمت لگائیں اور پھر اس موتی کی فروختگی سے حاصل رقم سے ایک شاندار بنگلہ بنوائیں، نوکر چاکر ہوں ،بینک بیالنس ہو جب کہ مسز مائیکل چاہتی ہیں کہ یہ سب کچھ نہ ہو بس وہ موتی ان کے گلے کے ہار میں ہو اور یہ ہار ان کی جیت ہو …دونوں ہی ایک دوسرے کو اپنے اپنے طورپر قائل کروانے کی تگ و دو میں سرگرداںہیں…دریں اثنامسز مائیکل نے مسٹر مائیکل سے کہا ’’ میں آپ کی بیوی ہوں،اگر آپ مجھ میں برائیاں ڈھونڈ نکالو تو بے شک وہ موتی اپنے پاس رکھ لینا …میں سوال کرتی ہوں آپ جواب دیں گے …پہلا سوال ’’تمہارا باورچی کون ہے؟‘‘
شوہر: ’’بیوی‘‘
بیوی: ’’گھر اور مال کا محافظ کون ہے؟‘‘
شوہر: ’’بیوی‘‘
بیوی: ’’مہمانوں کا میزبان کون ہے؟‘‘
شوہر: ’’بیوی‘‘
بیوی: ’’پریشانی اور مصیبت میں دل جوئی کون کرتا ہے؟‘‘
شوہر: ’’بیوی‘‘
بیوی: ’’اپنے ماں باپ چھوڑ کر عمر بھر کے لیے آپ کے ساتھ کون رہتا ہے؟‘‘
شوہر: ’’بیوی‘‘
بیوی: ’’بیماری میں تمہارا تیماردار کون ہے؟‘‘
شوہر: ’’بیوی‘‘
بیوی: ’’بتاؤ کبھی بیوی نے ان سب کاموں کے لیے پیسے لیے؟
شوہر: ’’نہیں‘‘
بیوی: ’’کس قدر تعجب کی بات ہے کہ بیوی کی اتنی ساری خدمات کے باوجود تم موتی اپنے طورپر استعمال کرنا چاہتے ہو…‘‘
مسز مائیکل کی بات سن کر مسٹر مائیکل بغلیں جھانکنے لگے،ا س سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے ، مسز مائیکل نے کہا:آخری سوال :مچھلی مذکر ہے یا مونث؟
شوہر: مونث
بیوی:پھر کس حق سے تم موتی اپنے پاس رکھنا چاہتے ہو مسٹر مائیکل ؟
مسٹر مائیکل نے فوری وہ موتی مسز مائیکل کے حوالے کردیا، جسے پاکر انہوں نے کچھ دیر پہلے کندن لال سہگل کی طرح نغمہ گنگنایاتھا ’’ ایک بنگلہ بنے نیارا…رہے کنبہ جس میں سارا‘‘
’’ اندھے کے ہاتھ بٹیر لگنا‘‘ کی قبیل کی ایک اور کہاوت ہے ’’قسمت مہربان تو گدھا بھی پہلوان‘‘ کہنے والے اس کہاوت سے اڈوانی ہمارا مطلب ہے اڈانی کو جوڑ رہے ہیں …کہہ رہے ہیں کہ جب تک توقعات کے مطابق کمائی ہوتی رہتی ہے تو سب عیاشیاں چلتی رہتی ہیں اور جب قدرت ذرا روٹھی اور توقع کے حساب سے نفع آنا موقوف یا بند ہوا تو، ان کے ٹھاٹ باٹ تو ختم کئے نہیں جاسکتے اور ایسے امتحانی دور میں،لوگوں کو بے وقوف بنائے رکھنے اور اپنا رکھ رکھاؤ درشانے، نہ چاہتے ہوئے بھی پیسہ پانی کی طرح خرچ کرنا پڑتا ہے۔ مطلب یہ کہ’’ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘کے مصداق ڈوبتے ڈوبتے بہت ساروں کا سرمایہ لے کربھاگنا پڑتا ہے… یعنی پھنسے گی دیش کی عام جنتا …اڈانی گروپ کے واجب الادا کل قرضوں میں 3.39 ٹریلین روپے ($41.1 بلین) ہوتا ہے اور یہ ہندوستانی معیشت کے کم از کم 1% کے برابر ہے…جو لوگ اڈانی کے جال میں پھنسے ہیں،وہ پریشان ہوکر بے ساختہ پوچھ رہے ہیں ’’ اب ہمارا کیا ہوگا اڈانی؟ ‘‘ انہیں وزیراعظم کے وہ الفاظ بھی یقینا یاد آرہے ہوں گے ،جن کا وہ پہلے ہی عوامی جلسوں میں برملا اظہار کرچکے ہیں کہ ’’ ہم تو فقیر آدمی ہیں کل کو کچھ ہوگیا تو اپنا جھولا لیے، کہیں بھی نکل جائیں گے۔‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰