انفورسمنٹ ڈائرکٹریٹ اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ بے نامی جائیداد قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر شکنجہ کس رہے ہیںیہ کارروائی صرف غیر بی جے پی ریاستوں میں کی جارہی ہے۔ حقائق پر مبنی صرف ایک شکایتی درخواست کافی ہوگی
٭ شکایت کی وصولی پر (I.D) نوٹس جاری کرے گا۔ ٭ اگر بے نامی جائیداد ثابت ہوجائے تو ضبط کرلی جائے گی اور جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ ٭ دس لاکھ تا ایک کروڑ روپیہ انعام کا اعلان کرکے انفارمرس کو کام پر لگادیا گیا ہے۔ ٭ قانون کی زد میںآنے والے تباہ و تاراج ہوجائیں گے۔ ٭ یہ قانون مودی جی کی ملک کے عوام کیلئے بڑی بڑی ’’عنایت ‘‘ ہے۔
محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔
بے نامی جائیداد امتناعی قانون بابتہ سال1988ء اور ترمیمی ایکٹ 2016ء وزیراعظم ہندوستان مودی جی کی ملک کے عوام کے لئے ایک بہت بڑی عنایت ہے جس کے سبب مالکانِ جائیداد ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ زیرِ تحریر مضمون شائد کچھ تشویش کا باعث بنے لیکن اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ اس قانون کا اطلاق چھوٹی جائیدادوں پر بالکل نہیں ہوگا۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ بہت بڑی جائیدادیں یعنی سینکڑوں ہزاروں مربع گز اراضیات کے پلاٹس پر بنے ہوئے شاندار رہائشی اور کمرشیل کامپلکس‘ بڑے بڑے شادی خانوں کے مالکین کے لئے تشویش کا باعث ضرور بنے گا اگر انہوں نے ان جائیدادوں کی خرید اور تعمیر و ڈیولپمنٹ پر صرف ہوئی رقومات اور ان کے ذرائع حصول کا انکشاف اپنے انکم ٹیکس ریٹرنس (Returns) میں نہیں کیا ہے۔ خصوصاً ایسی جائیدادوں کے مالکین کیلئے یہ مضمون باعثِ تشویش ضرور ہوگا جنہوں نے اپنی ناجائز (رشوت) کی کمائی سے ایسی کروڑوں روپیہ مالیتی جائیدادیں اپنی بیوی ۔ بیٹے۔ بیٹی یا بھائیوں کے نام پر خریدی ہیں۔ ایسی بھاری قیمت والی جائیدادوں کے مالکین سے اگر پوچھا جائے کہ یہ جائیدادیں آپ نے کن ذرائع آمدنی سے خریدی ہیں اور اگر وہ ان سوالوں کا معقول جواب نہ دے سکیں تو یہ سمجھا جائے کہ ایسی جائیدادیں بحقِ سرکار ضبط کرلی جائیں گی۔ یہ ایک لازمی بات ہے کہ ایک خانہ دار خاتون یا طالب علم بیٹا اپنے ذرائع آمدنی کا تشفی بخش جواب نہیں دے سکتے۔ لہٰذا یہ بات باور کی جائے گی کہ زیرِ دریافت جائیداد بے نامی جائیداد ہے جسے کسی شخص نے اپنے پیسوں سے کسی اور کے نام خریدا ہے۔ جب یہ بات بالکل واضح ہوجائے کہ زیرِ دریافت جائیداد بے نامی جائیداد ہے تو وہ جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔ علاوہ ازیں جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گااور سزائے قید بھی ہوسکتی ہے۔
قارئین اپنی تشفی کے لئے Google کے ذریعہ ذیل میں دیئے گئے لنکس پر جاکر قانونی موقف سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں۔
- Prohibition of Benami Transations Act. 1988 & 2016
- What is Benami Property.
- Action By Initiating officer under Benami Act.
مندرجہ بالا (Links) کو پڑھنے کے بعد حیران و پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں خاص طور پر ان حضرات کے لئے جو چھوٹی اور درمیانی جائیدادوں کے مالکین ہیں۔ یعنی ایک منزلہ ۔ دو منزلہ اور تین منزلہ بلڈنگس چھوٹی اور درمیانی درجہ کی دوکانیں وغیرہ۔ ایسے حضرات جن کی جائیدادیں آبائی ہیں اور ان پر انہوں نے کئی منزلہ عمارتیں بنوائی ہیں تو انہیں بھی کسی تشویش کی ضرورت نہیں۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ کروڑوں بلکہ اربوں روپے مالیتی جائیدادیں۔ اراضیات۔ فارم ہاؤز پر اس قانون کا اثر ہوسکتا ہے کیوں کہ ان کے مالکین سے سوالات کئے جاسکتے ہیں کہ ان جائیدادوں کو خریدنے اور انہیں ڈیولپ کرنے کے پیسوں کے ذرائع کیا ہیں اور کیا انہوں نے ان جائیدادوں اور ان کی آمدنی سے متعلق ریٹرنس(Returns) فائل کئے ہیں یا نہیں۔
’’ ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم ‘‘ نے ایک موقع پر یعنی اس قانون کے پاس ہونے کے بعد گوا میں ایک انتخابی تقریر میں ہتھیلی پر ہتھیلی مار کر کہا تھا کہ اب میں بے نامی جائیدادوں کو ضبط کرلوں گا اور اس مقصد کے حصول کے لئے میں نے ایک ہزار افراد کا تقرر کیا ہے جو حکومت کو اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی اطلاع دیں گے اور یہ ساری جائیدادیں ضبط کرلی جائیں گی اور ان سے حاصل ہوئی رقومات سے قومی فلاحی کام کئے جائیں گے۔ ایسے افراد کا تقرر ہوا یا نہیں اس بات کا کوئی پتہ نہیں البتہ ایک (Informer’s Netrowk) کام کررہا ہے اور I.T. اور E.D کو ایسی اطلاعات فراہم کررہا ہے ۔ انکم ٹیکس رولز میں بھی اس بات کی وضاحت ہے کہ ایسے انفارمرس کو انکوارئی کے ساتھ ہی ایک رقم ادا کی جائے گی جو دس لاکھ روپیہ ہوگی اور بعد ضبطی ان افراد کو ایک رقم ادا کردی جائے گی جس کی زیادہ سے زیادہ حد ایک کروڑ روپیہ ہوگی۔
انکم ٹیکس انفارمرس کو انعام واکرام سے نوازنے کی بھی ایک اسکیم ہے جسے قارئین ذیل میں دیئے گئے Link میں پڑھ سکتے ہیں۔ گوگل کیجئے اور معلومات حاصل کیجئے۔
I.T. INFORMER’S REWARD SCHEME
اس اسکیم کو 23؍اپریل 2018ء سے لاگو کیا گیا ۔
فی الوقت غیر بی جے پی حکومتوں کے وزراء ۔ ایم ایل اے اور رئیل اسٹیٹ کمپنیوں پر یہ شکنجہ کسا جارہا ہے ۔ E.D نے تلنگانہ حکومت کے وزراء اور ارکانِ اسمبلی کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ یقینی طورپر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ عمل صرف سیاسی رقابتوں کا نتیجہ ہے ۔ لیکن ایسی اطلاعات بھی آئی ہیں کہ بعض بہت بڑے مسلم رئیل اسٹیٹ بزنس من کے خلاف بھی کارروائی ہورہی ہے اور ان کی بے نامی جائیدادوں سے متعلق انکوائری ہورہی ہے ۔( 2010ء میں اس مضمون پر کافی روشنی ڈالی گئی تھی اور رائے بھی دی گئی تھی۔)
یہ مضمون صرف اور صرف معلومات فراہم کرنے کی غرض سے شائع کیا جارہا ہے ۔ لہٰذا چھوٹی موٹی اور درمیانی درجہ کی جائیدادوں کے مالکین کو کسی بھی تشویش کی ضرورت نہیں۔
کروڑوں روپیوں کی نقد خریدسے گریز وقت اور عقل کا تقاضہ
آج کل زمینات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور ہر کس و ناکس شہر کے باہر اراضیات کے پلاٹس خریدنے پر آمادہ نظرآتا ہے اور اشتہاروں اور کمپنی کی جانب سے شائع کئے ہوئے بروشر کی اساس پر لاکھوں روپیوں کی معاملت کررہا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہورہا ہے کہ جواراضیات خریدی جارہی ہیں وہ یا تو سرکاری اراضی کے زمرے میں ہیں یا لاونی پٹہ اراضیات ہیں جو دونوں ناقابل فروخت و منتقلی ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر کے باہر اراضیات کے پلاٹس خریدنے کا بخار پھیلا ہوا ہے۔ نادان خریدار قانونی رائے حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھتے ۔ کچھ روز پہلے ایک ایسا کیس سامنے آیا جس میں ایک صاحب نے دو کروڑ پچاس لاکھ روپیوں میں ایک بڑا پلاٹ خریدنے کی معاملت کی اور دیڑھ کروڑ روپیہ نقد ادا کرکے معاہدہ بھی کرلیا۔ فروخت کنندہ ایک بی جے پی پارٹی کا لیڈر تھا اور اپنے علاقہ میں بہت اثر ورسوخ رکھتا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس لیڈر یا دھوکہ باز نے پہلے ہی دو لوگوں کو اسی پلاٹ کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ جب یہ مسلمان صاحب وہاں بعد میں گئے تو پتہ چلا کہ پہلے سے ہی دو مالکین وہاں موجود تھے جو ان کو اس پلاٹ پر آنے نہیں دے رہے تھے اور جان سے ماردینے کی دھمکیاں بھی دے رہے تھے۔
اب صاحبِ موصوف کے پاس خاموش رہنے کے علاوہ کوئی صورت نہیں تھی۔ اگر وہ اتنی بڑی معاملت کی پولیس سے شکایت کرتے تو الٹی مصیبت گلے پڑجاتی کیوں کہ کسی بھی صورت میں نقد معاملت بیس ہزارروپیوں سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ اس معاملت کی خبر انکم ٹیکس کو دی جائے تو دوسری مصیبت سر پر آجاتی۔ لہٰذا صاحبِ موصوف خاموش ہیں۔ اس لیڈر کے تعلقات متعلقہ پولیس اسٹیشن سے بہت گہرے ہیں اور وہ پولیس سے ساز باز کئے ہوئے ہے اور پولیس ہر صورت میں اسی کی حمایت کرے گی۔
لہٰذا جلد بازی میں یا قانونی مشاورت کے بغیر ہرگز ہرگز کوئی بھی ایسی خریدی یا فروخت کی معاملت نہ کریں جس میں لاکھوں /کروڑوں روپیہ بطورِ اڈوانس ادا کرنا پڑے۔ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ایسی معاملت غیر قانونی ہوگی۔ آپ کو اس رقم کے حصول کے قانونی اور جائز ذرائع کو بتانا پڑے گا۔
ہمارے پردھان منتری نے سوگندھ اٹھائی ہے کہ وہ چن چن کر بدلہ لیں گے اور ایسی قانون سازی کو بدلہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں کوئی بھی لین دین ۔ قرض وغیرہ میں رقوم کی ادائیگی چیکس یا بینک ٹرانسفر کے ذریعہ کیجئے تاکہ رقوم کی واپسی کی صورت پیدا ہوسکے۔
Investment Agreement کیا بلا ہے؟
آج کل شہر میں ایک نئی وباء سر اٹھارہی ہے جس کی زد میں نادان لوگ ہزاروں کروڑ روپیوں کا نقصان اٹھارہے ہیں۔ پہلے تو کرگزرتے ہیں اور بعد میں سر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ لوگوں کو اس وباء نے اپنے بازوں میں جکڑ رکھا ہے۔ گھر بیٹھے اور ہاتھ پیر چلائے بغیر ماہانہ تین تا چار فیصد منافع کا انویسٹمنٹ اگریمنٹ کر بیٹھتے ہیں۔ چار پانچ ماہ تک کاروباری/ تاجر/رئیل اسٹیٹ تاجر برابر فائدہ یا سود اداکرتا ہے اور پھر بعد میں رقم کی ادائیگی روک دیتا ہے۔ گویا ایک سو روپیہ انوسٹ کرنے کے بعد صرف پچیس تا تیس روپیہ ہی ہاتھ آتے ہیں۔ اصرار پر وہ شخص کہتا ہے کہ میرا پیسہ پراجکٹ میں پھنسا ہوا ہے۔ فلیٹس فروخت نہیں ہورہے ہیں۔ میونسپل کارپوریشن سے تعمیری اجازت نہیں مل رہی ہے۔ میں نے بھی سرمایہ کاری کی تھی اور میں بھی نقصان اٹھارہا ہوں۔
یہ عمل سود اور صرف سود کی تعریف میں آئے گا جو شریعت میں حرام ہے۔ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ کوئی گھر بیٹھے اور بغیر کوئی کام کئے کیسے امید رکھ سکتا ہے کہ اسے منافع ملے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ سود کی لعنت اور لالچ ایسے انویسٹرس کو تباہ کردیں گے اور ان کے پاس صرف شکایت کرنے اور رونے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
لہٰذا اس گناہِ کبیرہ اور لالچ سے باز آنے کی ضرورت ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰