طنز و مزاحمضامین

’’ پھٹے نوٹ‘‘

حمید عادل

کتنی عجیب بات ہے کہ انسان خود کرنسی یا نوٹ بناتا ہے اور خوداس کاغذی وجودکا دیوانہ ہوجاتا ہے ،اس قدردیوانہ کہ خونی رشتے تک کاغذی ہوکر رہ جاتے ہیں ، حتیٰ کہ آدمی ایمان کا سودا تک کرلینے کو تیار ہوجاتا ہے …
ایک دور تھا جب کاغذکے کرارے نوٹ نہیںپھوٹی کوڑی چلا کرتی تھی ،اس کا چلن بند ہوئے زمانہ ہوا لیکن آج بھی بول چال میںپھوٹی کوڑی کا ذکر آہی جاتا ہے …آج بھی کبھی کبھی بیٹے سے ناراض باپ کہتا ہے ’’ میں تمہیں پھوٹی کوڑی نہیں دوں گا …‘‘علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں ’’پھوٹی کوڑی‘‘کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً’’ میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔‘‘سنتے ہیں کہ پھوٹی کوڑی کا استعمال دنیا میں کوئی پانچ ہزار سال قبل وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب میں بطور کرنسی عام تھا۔ ’’پھوٹی ‘‘ کا نام اسے اس لیے دیا گیا کیوںکہ اس کی ایک جانب پھٹی ہوئی ہوتی ہے، اس لیے کوڑی کا گھونگا ’’پھوٹی کوڑی‘‘ کہلایا۔ قدرتی طور پر گھونگھوں کی پیدا وار محدود تھی۔ اس کی کمیابی سے یہ مطلب لیا گیا کہ اس کی کوئی قدر ہے۔ پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی اورایک روپیہ 5,275 پھوٹی کوڑیوں کے برابر تھا، ان کے درمیان دس مختلف سکے تھے…جنہیں ’’کوڑی‘‘، دمڑی‘‘، ’’پائی‘‘، ’’دھیلا‘‘، ’’پیسہ‘‘، ’ٹکہ‘‘، ’’آنہ‘‘، ’’دونی‘‘، ’’چونی‘‘، ’’اٹھنی‘‘ اور پھر کہیں جا کر ’’روپیہ‘‘ بنتا تھا…
پھوٹی کوڑی کا ذکر چل پڑا تو ہمیں آج کے وہ پھٹے نوٹ یاد آرہے ہیں، جو ہمیںکوئی دے تو دیتاہے لیکن ہم سے لیتا کوئی نہیں ہے … یہ گویا مرے ہوئے آدمی کی طرح ہوتے ہیں کہ جن سے پیار ہونے کے باوجود انہیںکوئی اپنے پاس زیادہ دیر تک رکھنا نہیں چاہتا … نوٹ کو عموماً کوئی پھاڑتا نہیں،یہ خود پھٹ جاتے ہیں… وقت اور حالات کی ستم ظرفیاں سہتے سہتے انسان پھٹ جاتے ہیں نوٹ کیا چیز ہیں ؟لیکن انہیں دیکھ کر ہر کوئی ایسے بدکتا ہے جیسے جعلی نوٹ دیکھ لیا ہو۔
دانشوران فیس بک یونیورسٹی کا قول ہے ’’ پھٹا ہوا نوٹ اور گھٹیا پوسٹ دونوں چل جاتی ہیں،بشرط وہ کسی لڑکی کی ہو۔‘‘لیکن رائچور میں ایسا بالکل نہیں ہوا … رائچور میںایک لڑکی کچھ سامان خریدنے کے بعد بیس کا پھٹا ہوا نوٹ کرانہ اسٹور کی مالکن کودینے لگی تو تنازعہ کھڑا ہوگیا ، تبھی لڑکی کی ماں وہاں آگئی اور پھر دونوں خواتین میں لڑائی کی آگ اس قدر بھڑکی کہ دونوںجھلس گئیں… اب آپ یقینا سوچ رہے ہوں کہ لڑائی کی یہ کیسی آگ تھی کہ دونوں جھلس گئیں…ہوا یوںکہ دکان میں رکھا پٹرول ان دونوں گتھم گتھاخواتین پر گرا اور وہیں پر رکھے جلتے چراغ سے آگ نے دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ….تھاتوبیس کا پھٹا نوٹ لیکن اس نے ایسی آگ لگائی کہ ایک خاتون چل بسی اور دوسری شدید زخمی ہوگئی۔
پھٹے نوٹ سے ہر کوئی پناہ مانگتا ہے ،لیکن ایک خاتون ایسی بھی ہیں جنہوں نے مرنے سے پہلے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی ساڑھے نو لاکھ یوروز یعنی تقریباً گیارہ کروڑ روپئے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیے تاکہ وہ اس کے عزیزوں کو نہ مل سکیں اور خود ایک ریٹائرمنٹ ہوم میں زندگی کے بقیہ دن گزار کر چل بسی…خاتون نے گیارہ کروڑ کے نوٹ ہی نہیں پھاڑے بلکہ اپنے تمام سیونگز اکاؤنٹس کی دستاویزات بھی پھاڑ ڈالیں…لیکن پھر کہانی میں ایک ٹوئسٹ آیا،اس خاتون کا تمام تر غصہ اور نوٹ پھاڑنے کی مشقت اس کے مرنے کے بعد اس وقت غارت ہو گئی جب آسٹریا کے مرکزی بینک نے اس کے لواحقین کو پھٹے ہوئے تمام نوٹ تبدیل کرکے دینے کا وعدہ کر لیا… چمن بیگ اس واقعے سے اس قدرمتاثر ہوئے کہ کہنے لگے :’’ دیکھو یارو! مرنے سے پہلے خاتون چاہتی تھی کہ اس کی دولت سے اس کے افراد خاندان کو ایک دمڑی بھی نہ ملے لیکن جب قدرت کسی کو کچھ دینے کا فیصلہ کرلیتی ہے تو پھر انسان لاکھ کوشش کرلے ، اس تک وہ چیز پہنچ کر رہتی ہے …
یہ تو ہوئی بات اس خاتون کی جس نے مرنے سے پہلے خطیر رقم پھاڑ ڈالی لیکن چین کا چالیس سالہ شہری اس وقت بے چین ہوگیا جب اس نے گھر لوٹنے کے بعد دیکھا کہ اس کا پانچ سالہ بیٹا پھٹے ہوئے نوٹوں کے ساتھ کھیل رہا ہے …تفصیلات کے مطابق چینی شہری اپنے بیٹے کو گھر پر اکیلا چھوڑ گیا تھا۔تاہم بچے نے اس کی غیر موجودگی میں کھیلتے کھیلتے گھر میں رکھے گئے 5500ڈالر چینی کرنسی کے نوٹ ڈھونڈ نکالے بس پھر کیاتھا موصوف نے ان نوٹوں کو کاغذ سمجھ کر پھاڑنا شروع کر دیا۔جب تک اس کا باپ آتا وہ گھر میں رکھی سارے کرنسی نوٹ پھاڑ چکا تھا…پھٹے کرنسی نوٹ تو بدل لیے گئے لیکن بزرگوں کا یہ کہا اپنی اہمیت جتلا گیا کہ بچوں کو گھر پر اکیلا نہ چھوڑیں…
آج پیسہ کمانا آسان ہوا لیکن برکت ختم ہوکر رہ گئی ہے ،پانچ سو کا نوٹ نہ ٹوٹنے تک ہی پانچ سو کا ہوتا ہے ،جیسے ہی ٹوٹتا ہے ،مسٹرانڈیا بن جاتا ہے ،نظر ہی نہیں آتا…دو ہزار کا نوٹ تڑوا نے کے بعد تو ہماری حالت دیوانوں کی سی ہوجاتی ….ہم اس نوٹ سے خریداری کے بعد اکثر الجھن کا شکار ہوجاتے،یوں محسوس ہوتا جیسے کسی پاکٹ مار نے ہماری جیب سے رقم اڑا لی ہے ،پریشان ہوکرکاغذ قلم پکڑ کر بیٹھ جاتے تو دو ہزار کا حساب برابر نکلتا…یہ تو اچھا ہوا کہ دو ہزار کے نوٹ کا چلن بند ہوگیا، ورنہ ہم سچ مچ دیوانے ہوجاتے …
عام طورپرپھٹے نوٹ دھوکے سے آتے ہیں … چنانچہ باربار دھوکے کھانے کے بعد ہمیں اتنی عقل تو آئی کہ ہم خریداری کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنے لگے کہ کوئی پھٹا نوٹ ہماری جیب میں اترنے نہ پائے … لیکن نوٹوں پر عقابی نظر رکھنے کے باوجود ہم نے اپنی جیب سے سو روپئے کا پھٹا نوٹ برآمد کیاتو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں…. ہم بے چین ہوگئے کہ کریں تو کیا کریں ؟دس بیس کا ہوتا تو اسے پھٹے نوٹوں کے ڈبے میں بند کردیتے لیکن سو روپئے ہم جیسوں کے لیے بڑے معنی رکھتے ہیں ،سو’’ دنیا سے جو ہم نے لیا ہے ، دنیا کو وہ ہم نے دیا ہے ‘‘ کا نعرہ مار کر ہم نے دو بار اسے چلانے کی کوشش کی لیکن ہمیں دونوں ہی بارمنہ کی کھانی پڑی …ہم نے تیسری بار اسے چلانے کی کوشش کی تو غیب سے آواز آئی ’’ اے حمید عادل!کیا تو سادہ لوح انسانوں کو دھوکادے گا؟‘‘ ہم نے فلم ’’ ڈر‘‘ کے شاہ رخ خاں کی طرح ہکلاتے ہوئے غیبی آواز کا جواب دیا ’’ کک …کک…کیامطلب؟لوگوں نے ہمیں سو کا پھٹا نوٹ دیا ہے، وہی ہم لوگوں کو دے رہے ہیں ۔‘‘ اس بار نہ صرف غیبی آواز آئی بلکہ ایک چانٹے کی آواز بھی آئی جو ہمارے گال پر پڑا… ’’ کم ظرف ! دھوکے کا جواب دھوکے سے دے گا؟‘‘چانٹے کی شدت اس قدر شدید تھی کہ اس کی گونج ہماری کھوپڑی میں بہت دیرتک سنائی دیتی رہی… ہم گال سہلاتے رہ گئے ، ہم سے کوئی جواب ہی نہ بن پڑا…
اسے شومئی قسمت کہیں یا شامت اعمال …ہم سو کے پھٹے نوٹ سے پہلے ہی پریشان تھے کہ ایک اور سو کا پھٹا ہوا نوٹ ہماری جیب کی زینت بن گیا … یعنی ہمارے ساتھ ایک نہ شد دو شد والی بات ہوگئی …دماغ پر بہت زور ڈالا کہ کب لیا ؟کس سے لیا؟کہاں لیا؟ لیکن کچھ یاد نہ آیا …دوسرے پھٹے نوٹ کے آجانے سے ہماری پریشانی خود بخوددوگنی ہوگئیں … غیبی آوازاور غیبی چانٹا کھانے کے بعد ہم میں اب اتنی ہمت تو تھی نہیں کہ انہیں کسی اور کو تھمانے کی حماقت کرتے …ہم پریشان ہوگئے …کٹے، پھٹے نوٹ ہوتے ہی ایسے کہ اکثر لوگ ذہنی الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں… دکاندار لینے سے انکار کردیتے ہیں اورسامان خریدنا محال ہوجاتا ہے،یعنی یہ کرنسی ہوکر بھی کرنسی نہیں ہوتے ،ویسے ہی جیسے بعض لوگ انسان ہوکر بھی انسان نہیں ہوتے یا پھر فی زمانہ جیسے بغیر ہڈی کا گوشت ،بغیر ہڈی کا ہوکر بھی بغیر ہڈی کا نہیں ہوتا … کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ کٹے پھٹے نوٹوں کو بینک میں لیا جاتا ہے لیکن اس کے اپنے مسائل ہیں ،پچھلے دنوں توکرناٹک کے ایک اے ٹی ایم سے صارف کو دو ہزار کے پھٹے نوٹ برآمد ہوئے ،ان نوٹوں کو دیکھ کرصارف کی کیا حالت ہوئی ہوگی یہ وہی جانے …
دفتر سے گھر آکرہم نے سو کے دو عددپھٹے نوٹوں کو اپنی جیب سے نکالا اور کرسی پر براجمان ہوتے ہوتے انہیں بے دلی سے میز پر پٹخ دیا … دریں اثنا ایک سو کا پھٹا نوٹ اپنی جگہ سے لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اورلنگڑتے لنگڑتے ہماری ناک کی سیدھ میں آکر کھڑا ہوگیا … یہ سب کچھ ہمارے لیے کسی خواب سے کم نہ تھا،اس کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ ہم سے سخت ناراض ہے ،ہم سو کے نوٹ کی اس حرکت سے حیران بھی تھے اور پریشان بھی …حیران اس لیے کہ بھلاکیسے کوئی نوٹ اس طرح چل سکتا ہے؟ پھٹے نوٹ کا تو ویسے بھی چلنا محال ہوجاتا ہے …اور پریشان اس لیے کہ کہیں اس نوٹ میں کوئی بری آتما تو سما نہیں گئی ہے …اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے پھٹے نوٹ نے معروف فلم اداکار راجکمار کی طرز پر کہنا شروع کردیا ’’مسٹر عادل! مجھے Underestimate کرنے کی غلطی مت کرنا !مثل مشہور ہے ،’’ہاتھی مر بھی گیا تو سوالاکھ ‘‘برخوردار!اسی طرح نوٹ، پھٹ بھی جائیں تو اپنی اہمیت نہیں کھوتے…نہیں کھوتے ، نہیں کھوتے …‘‘ اورپھر قدرے توقف سے پھٹا نوٹ ، ہمارا عجیب و غریب نظروں سے جائزہ لیتے ہوئے کہنے لگا ’’یہ الگ بات ہے کہ انسان دن بہ دن اپنی اہمیت کھوتا جارہا ہے …میں جانتا ہوں،تم مجھے بوجھ سمجھ رہے ہو ،مجھے حقارت سے دیکھتے ہو لیکن شایدتم یہ نہیں جانتے کہ میں وہ ہوں جس نے ایک نہایت چالاک قاتل کو پولیس کے ہاتھوں پکڑاوایا ہے…
’’ کک… کیسے ؟‘‘ ہم بمشکل کہہ پائے ، آواز ایسی نکلی کہ ہمیں اپنی ہی آواز پر شک سا ہونے لگا کہ یہ ہماری ہی آواز ہے یا کسی اور کی…
سو کے پھٹے نوٹ نے راجکمارانہ انداز کو برقرار رکھتے ہوئے کہنا شروع کیا’’برخوردار! نئی دہلی میں ایک سفاک قاتل نے اپنے رشتے دار خاتون اور اس کے فرزند کا نہایت بیدردی اور مہارت سے قتل کردیا، اس نے گھر کے سی سی ٹی وی کیمرے تو ناکارہ کردیے لیکن سڑک کنارے لگے سی سی ٹی وی کیمرے کیسے ناکارہ کرتا،تفتیش کے دوران، پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ کی اور ملزم کو ای رکشا کے ذریعے دشرتھ پوری میٹرو اسٹیشن جاتے دیکھا،پولیس نے جب ای رکشا ڈرائیور کا سراغ لگایا تو اس نے بتایا کہ اس شخص کے چہرے پر خون تھا اور اس نے جو کرنسی نوٹ دیا تھاوہ پھٹا ہوا تھا، لہٰذا میں نے اسے واپس کردیا جس کی وجہ سے ملزم نے مجھ کو تیس روپئے ادا کرنے کے لیے ای والٹ کا استعمال کیا … جب موبائل نمبر کی جانچ کی گئی تو پتا چلا کہ وہ نمبر مہلوک افراد کے رشتے دار کے نام پر ہے اور اس طرح پولیس نے قاتل کوگرفتار کرلیا..‘‘
ہم بے ساختہ چہک اٹھے ’’ پھٹے نوٹ کی بدولت قاتل پکڑا گیا ۔‘‘
پھٹانوٹ معنی خیز انداز میں مسکرایا اور کہا ’’ جتنے احمق تم لگتے ہو، اتنے ہو نہیں …مجھے خوشی ہوئی کہ تم اس بات کو بخوبی سمجھ گئے ہو کہ پھٹا نوٹ بھی کام کی چیز ہوا کرتا ہے …‘‘ہم نے ہونقوں کی طرح اپنی کھوپڑی تائید میں ہلائی تو پھٹا نوٹ دوبارہ اپنی جگہ پر آکر لیٹ گیا …
ہمیں اس بات کا قطعی افسوس نہیں تھا کہ ایک کاغذی ٹکڑے نے ہماری بولتی بند کردی …دراصل پھٹے نوٹ کی بات میں دم تھا،تبھی تو ہم دُم دبانے پر مجبور ہوگئے…بلاشبہ کسی کو حقیر سمجھنا سب سے بڑی نادانی ہے۔
حقارت کی نگاہوں سے نہ فرش خاک کو دیکھو
امیروں کا فقیروں کا یہی آخر کو بستر ہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰