اور’’ڈونکی ‘‘کا ڈنکا بج اٹھا…
’’ میں ایک گدھا ہوں، انسان نہیں ہوں کہ رب سے شکایت کروں،بلکہ فخر سے کہتا ہوں کہ ’’میں گدھا ہوں ...‘‘ انسان مجھے بیوقوفی کی علامت سمجھتا ہے لیکن خود نہیں جانتا کہ اس جیسا نادان اس دنیا میں کوئی نہیں ہے ...نقلی زندگی پر مرتا ہے اور اصلی زندگی کی اسے کوئی فکر نہیں...
حمید عادل
’’ میں ایک گدھا ہوں، انسان نہیں ہوں کہ رب سے شکایت کروں،بلکہ فخر سے کہتا ہوں کہ ’’میں گدھا ہوں …‘‘ انسان مجھے بیوقوفی کی علامت سمجھتا ہے لیکن خود نہیں جانتا کہ اس جیسا نادان اس دنیا میں کوئی نہیں ہے …نقلی زندگی پر مرتا ہے اور اصلی زندگی کی اسے کوئی فکر نہیں…
ہمارا تعلق افریقہ سے ہے، اس لیے زیادہ خوش شکل نہیں ہوں…. البتہ بچپن میں بڑا خوبصورت ہوتا ہوں ،پھر جانے کس کی نظر لگتی ہے کہ بڑا ہوتے ہوتے معمولی شکل و صورت کا ہوکر رہ جاتا ہوں …جب چاند میں داغ ہے تو پھر میں کیا اورمیری حیثیت کیا؟ وہ چاند جسے عاشق معشوق کے حسن سے تعبیر کرتا ہے…شاید آپ یہ بات نہ جانتے ہوں کہ میرے چہرے سے گلیمر غائب ہوکرمیری کھال میں سما جاتا ہے…جی ہاں! میری کھال میں’’ایگی یو‘‘ پروٹین موجود ہوتی ہے ،جہاں یہ خون کی کمی کے شکار لوگوں کے لیے بلڈ ٹانک ہوتی ہے، وہیںیہ فیس کریمز‘ فیس پاؤڈرز اور میک اپ کی مصنوعات میں خوب استعمال ہوتی ہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لیے چین میری جان کا دشمن بنا بیٹھا ہے …جی ہاں!ہمارا پڑوسی ملک چین ، جو کبھی چین سے نہیں بیٹھتا اور بال کی کھال نکالتا رہتا ہے… میری کھال سے اس نے ایگی یونامی خزانہ ڈھونڈ نکالا ، جس کاباقاعدہ کمرشل استعمال 2011 ء میں شروع ہوا،چینی ماہرین نے جب اسے کاسمیٹک میں استعمال کرنا شروع کیاتوپوری دنیا میں ہم گدھوں کے برے دن شروع ہوگئے… چین میں 2000ء تک بھی ایک کروڑ 10 لاکھ گدھے تھے لیکن ایگی یو کے جدید استعمال کے بعد یہ تعداد گھٹ کر تیس لاکھ رہ گئی ہے… چین ہر سال ہم گدھوں کی 18 لاکھ کھالیں امپورٹ کرتا ہے جبکہ ڈیمانڈ ایک کروڑ کھالوں کی ہے۔2011ء تک جو گدھے کی کھال ہزار روپیوں میں دستیاب تھی،اب اس کی قیمت بڑھ کرتیس ہزار روپے تک جا پہنچی ہے… پاکستانیوں کو یہ کاروبار نہایت منفعت بخش محسوس ہوا تو وہ ہم گدھوںپر چھری پھرانے لگے، کھال چینی سوداگروں کوسونپتے اورہمارا(گدھے کا) گوشت مٹن میں مکس کر کے معزز عہدہ داروں حتیٰ کہ پولیس اور افواج کے میسوںکے کچن کو سپلائی کر دیتے…ہمارا (گدھوں کا)گوشت ریستورانوں میں بھی بیچ دیا جاتا ،’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘ کے مصداق کھال اور گوشت فروخت کرکے تاجر دگنا منافع کما نے لگے… آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں پھینک رہا ہوں … میں کوئی سیاست داں نہیں ہوں کہ اپنی چکنی چوپڑی باتوں سے عوام کو گمراہ کروں،میں توتنہائی پسند اور اپنے آپ میں گم رہنے والا جانورہوں …
خیر!بات ایگی یو جیل کی چل رہی تھی جو 388 ڈالر فی کلو فروخت ہوتی ہے اور ایک کھال سے عموماً پانچ کلو گرام جیل نکل آتی ہے، اسے نکالنے کے بعدبھی میری کھال رائیگاں نہیں جاتی بلکہ اسے فرنیچر بنانے والوں کوفروخت کر دیا جاتا ہے،یوں ہم گدھوں کی کھال فرنیچر، ایگی یو اور گدھا فروش تینوں کے رزق کا ذریعہ بن جاتی ہے…اتنی ساری خوبیوں کا حامل تو میرا ہم شکل گھوڑا بھی نہیں ،جسے محض اپنی طاقت اور پھرتی پر اکڑہے …مجھ سے اتنا سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی چین، چین سے نہیں بیٹھا، اس نے مجھ پر مزید تحقیق کی اور2016ء میں یہ بات سامنے آئی کہ گدھے کی کھال ہی نہیں بلکہ پورا گدھا چلتی پھرتی سونے کی دکان ہے تو چینی تاجر ڈالروں کے بریف کیس بھر کر افریقہ پہنچ گئے…مایوسی ہاتھ آئی توانہوں نے پاکستان کا رخ کرلیا،شاید انہوں نے تاڑلیا کہ یہی وہ ملک ہے جہاں کثرت سے گدھے پائے جاتے ہیں۔پاکستان کے دیہاتوں اور خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں مال برداری کے لیے زیادہ تر گدھوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان بھر کے غریب علاقوں یا پھر گلی محلوں کی گلیاں تنگ ہیں اور وہاں مٹی اور ریت کی منتقلی کے لیے گدھوں کا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی ناقدری کرکے جس طرح لالچی بوڑھیا نے اسے ذبح کرڈالا تھا، ٹھیک اسی طرح گدھا چندوں کی سودے بازی سے ہماری قلت ہوگئی ، قلت ہوئی تو ہماری قیمتیں بڑھ گئیں، قیمتیں بڑھ گئیں تو ہم سے منسلک مال برداری اور کرایوں میں اضافہ گیا، شاید ایکسپورٹر کے لیے یہ اضافہ کوئی مسئلہ نہ ہو لیکن وہ غریبوں پر زائد مالی بوجھ لاد رہے ہیںجو ہم گدھوں پر لادے جانے والے بوجھ سے بہت زیادہ ہے …ہائے رے انسان کی خود غرضیاںکہ وہ اپنے ہزار روپئے کے فائدے کے لیے قوم کا لاکھوں روپیوں کا نقصان کرنیپر آمادہ ہوجاتا ہے…
یوں تو چینی،کوئی نکتہ چینی کیے بغیر سوائے انسان کے ہر چیز کھا جاتے ہیں ، البتہ گدھے کا گوشت چینی بہت رغبت سے کھاتے ہیں۔اگر میں(گدھا) واقعی گدھا ہوتا تو پھر چین اس قدر تیزی سے ترقی نہ کرتا ، چینی گدھے اور گھوڑے کے فرق کو خوب سمجھتے ہیں … اب توچین میں گدھے کے برگر اتنے شہرت پا چکے ہیں کہ چین کے کئی شہروں میں عہدے دار برگر کے لیے گوشت تیار کرنے والی فیکٹریوں اور دکانوں پر چھاپے مار رہے ہیں اور گدھے کے گوشت میں گھوڑے یا خچر کے گوشت کی ملاوٹ کرنے والوں کو گرفتار کر رہے ہیں…یہ بھی میرے لیے اعزاز ہے کہ مرنے کے بعد بھی گھوڑے سے زیادہ میری قدر دانی ہورہی ہے …اب تو پاکستان میں حالات یہ ہیں کہ چوراچکے بکری، بھینس یابیل چرانے کے بجائے گدھے چرارہے ہیں… ہمیں (گدھوں کو) چرانا اس لیے بھی آسان ہے کیوں کہ بھینس اور بیل کی نسبت ہمارا وزن کم ہوتا ہے اور ٹرانسپورٹ کرنے میں بھی آسانی رہتی ہے۔
شاید آپ کو میرے کہے پر یقین نہ آئے مگر یہ سچا واقعہ ہے اورواقعہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں آٹھ سالہ لڑکا بکریاں چرا رہا تھا کہ اچانک اس کا گدھا علاقے کے ایک زمیندار کے کھیتوں میں جاگھسا، جس کو واپس لانے کے لیے ایک لڑکا اپنے دوبڑے بھائیوں
کے ہمراہ اس زمیندار کے کھیتوں میں گیا…گدھے کو اپنے کھیتوں میں دیکھ کر زمیندار غصے میں آگیا،زمیندار کو آتا دیکھ لڑکے کے ساتھی تو بھاگ گئے لیکن وہ لڑکا پکڑا گیا…اس گدھے نے یعنی زمیندار نے آٹھ سالہ لڑکے کو اپنے ہی گدھے یعنی مجھ سے باندھ دیا اور پھر مجھ پر گدھے کا گدھا بن کرپے درپے لاٹھیاں برسانی شروع کردیں،مار کی تاب نہ لاکر میں پتھریلی زمین پر سرپٹ دوڑ پڑا… اور یہ بھول گیا کہ زمیندار نے مجھ سے بچے کو باندھ دیا ہے ،جب اس لہو لہان لڑکے کو میرے پاؤں سے کھولا گیا تو اس نے آخری ہچکی لی اور دم توڑ دیا…میں اس لڑکے کی آخری ہچکی کبھی فراموش نہیں کرپاوں گا…قصور میرا نہیں اس گدھے چند کا ہے،جس نے پہلے تو معصوم لڑکے کو میرے پیر سے باندھ دیا اور پھر مجھ دھنک کر رکھ دیا …
ہائے !کس آسانی سے انسان رب کے اس کہے کو فراموش کر بیٹھا ہے کہ کسی انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، معمولی سی بات پرایک دوسرے کے قتل پر آمادہ ہوجاتا ہے ……میں نے انسان سے بڑا سفاک قاتل کسی اور کو نہیں دیکھا…ہمیں بھوکا رکھ رکھ کر مارا جا تا ہے تاکہ انہیںہماری(گدھوں کی) کھال اتارنے میں آسانی ہو…..انسان، انسان کو نہیں بخشتا تو مجھ گدھے پر کیا رحم کرے گا؟ آنکھوں سے سرما چرانے والا انسان کچھ عجب نہیں کہ آنے والے دنوں میں ہماری کھال اس سلیقے سے اتار لے کہ خود ہمیں بھی پتا نہ چلے…
کام از بس کہ زمانے کا ہوا ہے برعکس
چور کھنچوائے ہے اس عہد میں کوتوال کی کھال
مصحفی غلام ہمدانی
مجھے ہرسوانتہا پسند گدھے،شرپسند گدھے،فرقہ پرست گدھے اوراسی قبیل کے بے شمار گدھے نظر آتے ہیں …جب تک میراانسان سے پالا نہیں پڑا تھا ،اس کے ٹھاٹ دیکھ کر دل میں یہ حسرت انگڑائیاں لیتی تھی کہ کاش میں انسان ہوتا…میری اسی حسرت کو1973ء میں بنی ایک پاکستانی فلم ’’انسان اور گدھا‘‘ میںفلمایا گیا تھا،اس فلم کا ہیرو گدھے سے انسان بنتا ہے لیکن جب انسانوں کے دیے ہوئے دکھ سے وہ دل برداشتہ ہوجاتا ہے توخالق کائنات سے گڑگڑا کر دعا کرتا ہے کہ اسے پھر گدھا بنا دیا جائے ، دعا قبول ہوتی ہے اور ہیرو دوبارہ انسان سے گدھا بن جاتا ہے … اس فلم کا مرکزی خیال کرشن چندرکی مشہور زمانہ کتاب ’’گدھے کی سرگزشت‘‘ سے لیا گیا تھا …جو ارباب اختیار (سیاستدانوں) کو اس قدر ناگوار گزرا کہ انہوں نے اس فلم کی نمائش پر ہی پابندی لگوادی تھی ، بعدازاں بڑی تگ و دو اور کٹوائی کے بعد یہ فلم سینما گھروں میں دوبارہ لگی اور اسے عوام وخواص نے پسندیدگی کی سند عطا کی…پاکستان نے 2018ء میں ’’ ڈونکی کنگ‘‘ نامی فلم بنائی تھی جسے دس زبانوں میں ڈب کیا گیا اور اس نے شہرت کے جھنڈے گاڑھ دیے…میں اگرغیر اہم ہوتا تو شائقین فلم کیوںتھیٹرس کویوں کھینچے چلے آتے …اور تو اور سوپر پاور امریکہ کی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی نشان بھی میں(گدھا) ہی ہوں…امریکہ کو چلانے والے سیاست داں احمق تو نہیں کہ وہ انتخابی نشان کے طورپر مجھے منتخب کریں…
معروف فلم سازراجکمار ہیرانی ’’Dunki‘‘ بنارہے ہیں،یہ فلم مجھ (گدھے)پر تو نہیں البتہ اس فلم میں بتایا جارہا ہے کہ ہندوستانی باشندے کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک کو جانے کے لیے ’’Donkey Flight‘ نامی چور راستے کو کس طرح استعمال کرتے ہیں… ’’ڈونکی فلائٹ‘‘ کی اصطلاح پنجابی محاورے پر مبنی ہے جس کا مطلب غیر قانونی ہجرت ہے اوریہ غیر قانونی ہجرت انسان ہی کو مبارک ہو…انسان کا گدھا پن ملاحظہ فرمائیں کہ اس سارے سفر میں موت کا چانس 99فیصد اور زندگی کا صرف ایک فیصد ہوتاہے …اب آپ ہی بتائیں کہ گدھا کون ہے؟
آپ اسے گدھوں کی بیوقوفی نہ سمجھیں کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم گدھے چودھویں صدی کے نظام کی گاڑی کھینچ رہے ہیں …یہ تومحض ہماری انسانیت ہے ،بیوقوفی نہیں ۔ ہم گدھوں کے تعلق سے ہمہ قسم کی باتیں مشہور کردی گئی ہیں … ویسے افواہیں پھیلانے میں انسان کا کوئی جواب نہیں،میرے(گدھے کے )تعلق سے اس طرح کی باتیں پھیلانے والے جانے کیوں ملا نصیر الدین کا گدھا فراموش کرجاتے ہیں جو انسانوں سے زیادہ دانش رکھتا تھا…مجھے یہ ان گدھوں کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے جو زندگی کے بیشتر شعبوں میں معزز مقام حاصل کرچکے ہیں ،معاشی شعبہ ہو کہ سیاسی شعبہ یا پھر سماجی شعبہ، ان سے خالی نہیں رہا،یہ گدھے کاغذ کی بجائے کرنسی کھاتے ہیں اوروطن پرستی کے نام پر غداری کرتے ہیں…
مجھے گدھا کہا جائے یا پھر ’’ڈونکی‘‘ چین نے ساری دنیا میںہمارا ڈنکا ضروربجا دیا ہے …
۰۰۰٭٭٭۰۰۰