مضامین

ایران امریکہ ہوسٹیج ڈپلومیسی اور سی آئی اے

منصور جعفر

ایران اور امریکہ نے حالیہ دنوں میں طے پانے والے ایک پیچیدہ معاہدے کے تحت اپنے اپنے ملکوں میں ایک دوسرے کے اسیر شہریوں کو رہا کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ اس معاہدے پر اتفاق رائے دونوں دیرینہ دشمن ملکوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے بعد سامنے آیا۔
معاہدے کے تحت تہران کو امریکی ایما پر منجمد کیے جانے والے چھ ارب ڈالر مالیت کے اثاثوں تک دوبارہ رسائی ملنے کا امکان بھی پیدا ہوا ہے۔ امریکہ اور ایران اپنے تئیں محدود مقاصد کے حامل ’معاہدہ اسیران‘ کو بڑے گیم چینجر کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں مصروف ہیں۔
معاہدے سے متعلق خبر بریک ہونے کے بعد تہران میں قید پانچ امریکی شہریوں کو بدنام زمانہ ایون جیل سے نکال کر نامعلوم مقام پر ہوٹل کے الگ الگ کمروں میں نظر بند کر دیا گیا۔
جیل سے رہائی کے بعد ہوٹلوں میں نظربند کیے جانے والوں میں تاجر صیامک نمازی، عماد شرجی اور ماہر ماحولیات مراد طہباز شامل ہیں، جو برطانوی شہری بھی ہیں۔ شنید ہے کہ امریکہ میں قید ایرانیوں کو بھی انکل سام کے زندانوں سے رہائی کا پروانہ جلد ملنے والا ہے۔
مبارک سلامت کی بلند آہنگ صداؤں کی گونج میں امریکی پابندیاں اور دونوں فریقوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا جوں کی توں برقرار ہے۔ تاہم مبصرین اس معاہدے کو اہم سیاسی پیش رفت قرار دیتے ہیں۔ بعض سیاسی پنڈت اسے 2015 میں طے پانے والے نیوکلیئر معاہدے پر نظرثانی کے لیے گراؤند ورک قرار دے رہے ہیں۔
اسیران کی رہائی سے متعلق معاہدے کے بطن سے دور رس نتائج کا حامل کوئی نیا معاہدہ سامنے آنے والا ہے؟ کیا یہ معاہدہ آئندہ برس ہونے والے امریکی انتخابات کے جلو میں واشنگٹن کے اپنے دیرینہ دشمن سے تعلقات میں بہتری کا پیش خیمہ بن سکتا ہے؟
ان سوالوں کا جواب تلاش کرتے وقت یہ حقیقت فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ’معاہدہ اسیران‘ تہران اور واشنگٹن کے درمیان خلیج کے علاقے میں بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں طے پایا۔
خلیج کے پانیوں میں تجارتی جہازوں کی نقل وحمل کی مانیٹرنگ کے لیے امریکہ نے اپنے ہزاروں فوجی خطے میں تعینات کر رکھے ہیں تاکہ ایران کو بین الاقوامی تجارتی جہازوں کو ہراساں کرنے سے باز رکھا جا سکے۔
ایران کو قطر اور عمان جیسے اہم علاقائی ملکوں کا اعتماد بھی حاصل ہے، جو منجمد ایرانی اثاثوں کی واپسی کے لیے بطور چینل استعمال ہوں گے۔ ایران کو روس اور چین جیسی عالمی طاقتوں کا آشیرباد بھی حاصل ہے۔
تاہم امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن اس رائے کا اظہار کر چکے ہیں ’کہ غیر منجمد اثاثوں کو صرف انسانی ضروریات (ادویہ اور خوراک) کی خریداری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ادویہ اور خوراک کی خریداری پہلے بھی امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ تھی۔‘
سعودی عرب کے ساتھ ایران کے دیرینہ کشیدہ تعلقات بھی چین کی ثالثی کے بعد کافی حد تک نارملائز ہوتے جا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں نے اپنے سفارت خانوں کا احیا کر کے مستقل سفارتی رابطہ یقینی بنا لیا ہے۔
اس صورت حال کے بعد تہران اور واشنگٹن کے درمیان 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی بحالی کا ایک امکان پیدا ہوا ہے، تاہم بائیڈن انتظامیہ آئندہ انتخابات میں داخلی محاذ پر سامنے آنے والے ردعمل اور خجالت کے ڈر سے بار بار اس امر کی تردید کرتی دکھائی دیتی ہے۔
امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی کے بقول: ’جوہری معاہدے کی طرف واپسی یا اس سے متعلق مذاکرات امریکہ کی ترجیح ہیں اور نہ ہی اسیران کی رہائی سے متعلق معاہدے کی شرائط میں یہ بات شامل تھی۔‘
تہران نے مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے) نامی معاہدے کے تحت اس شرط پر جوہری پروگرام میں کمی لانے پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ اگر اس پر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں۔ امریکہ نے 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایما پر اس جوہری معاہدے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا اور نتیجتاً ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی میں دلچسپی تو ظاہر کی ہے، تاہم اس پر عمل درآمد کی صورت میں دونوں فریقوں کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بالخصوص اس معاہدے کا احیا آئندہ برس ہونے والے امریکی انتخابات میں بائیڈن کی سیاست کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔
معاہدے کی ٹائمنگ:
امریکہ اور ایران کے درمیان قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدہ راتوں رات ظہور پذیر نہیں ہوا۔ ایک مدت سے دونوں ملکوں کے درمیان اس معاملے پر مذاکرات جاری تھے، تاہم بائیڈن انتظامیہ بوجوہ اسے حتمی شکل دینے میں تاخیری حربوں سے کام لیتا رہا۔ معاہدے کے حتمی اعلان کے بعد ایک طرف تو ایران کے امریکہ اور امریکہ کے ایران میں قید شہریوں کے اہل خانہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
دوسری جانب اس معاہدے سے جنوبی کوریا اور عراق بھی خوش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ انہیں اس طرح تہران کو واجب الادا رقوم کی ادائیگی کا ایک میکنزم میسر آ رہا ہے۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے دونوں ملک یہ رقم ایران کو فراہم کرنے سے قاصر چلے آ رہے تھے۔
اسیران کے تبادلے سے متعلق معاہدے کو عملی جامہ پہنانے سے متعلق میکنزم میں کئی ملک اور فریق ملوث ہیں۔ معاہدے سے متعلق کئی برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو جاری تھی، لیکن اسی اثنا میں تہران نے مزید ایک امریکی شہری کو یرغمال بنا کر واشنگٹن کا اعتماد بری طرح مجروح کیا۔
اس پیش رفت نے امریکہ کو متذبدب کر دیا کہ اسیران کی رہائی سے متعلق معاہدے کے ذریعے تہران کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ واشنگٹن کو خدشہ تھا کہ تہران منجمد اثاثوں کو واپس ملنے پر انہیں سپاہ پاسداران انقلاب کے لیے ہتھیار خریدنے میں استعمال کرے گا، جس سے خطے میں تہران کی پراکسیز کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔
دوسری جانب امریکہ کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو جوہری معاہدے سے متعلق گفتگو کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ دراصل علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی فضا کو کم کرنا تھا تاکہ مشرق وسطیٰ کسی بڑی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رہے۔
ایران کو اپنی معیشت بچانا تھی اور امریکہ کو جنگ سے گریز کی پالیسی میں عافیت دکھائی دیتی تھی۔ ایران نے چین کی ثالثی میں سعودی عرب سے مذاکرات کا ڈول ڈالا تو اس کے بعد تہران کے پاس امریکہ کے ساتھ مذکرات سے انکار کا کوئی جواز باقی نہیں تھا۔
یادش بخیر! تہران، امریکی اور برطانوی شہریوں کو یرغمال بنانے کی پالیسی پر عمل کرتا چلا آیا ہے تاکہ بعد میں ان غیر ملکی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اپنے مطالبات منظور کروا سکے۔
ایران میں فوجی بغاوت:
ماہ رواں کے دوسرے عشرے کے اختتام پر ایران میں محمد مصدق حکومت کا تختہ الٹنے کی امریکی سی آئی اے کی واردات کو 70 برس مکمل ہو جائیں گے۔ اس بدنام زمانہ بغاوت کو کامیاب بنانے میں ایرانی شہریوں نے امریکی سی آئی اے کو کاندھا فراہم کیا۔
سی آئی اے کی جاری کی گئی دستاویزات میں اس بات کا باضابطہ اعتراف ریکارڈ کا حصہ ہے کہ 1953 میں سی آئی اے نے مصدق حکومت کا تختہ الٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ان دستاویزات کے ایک اقتباس میں لکھا ہے کہ ’ایران میں فوجی بغاوت سی آئی اے کی ہدایت پر کی گئی تھی امریکی خارجہ پالیسی کے ایک عمل کے طور پر‘۔
امریکی جاسوس دنیا کے کئی ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ واشنگٹن کی ایران دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ایرانی ہوٹلوں میں نظر بند امریکی شہریوں میں کتنے جاسوس ہیں یا نہیں، اس بحث میں الجھے بغیر یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ امریکی سی آئی اے نے روس، ایران اور چین کو کئی برسوں سے اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنا رکھا ہے۔ ان ملکوں میں امریکی اسٹرٹیجک اثاثے اور جاسوس موجود ہیں۔
ماضی میں بھی رجیم چینج کی امریکی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے تہران مشتبہ غیر ملکیوں کو ’یرغمال‘ بنانے کی پالیسی پر عمل کرتا چلا آیا ہے۔ ایران کے پانچ شہری بھی امریکی جیلوں میں قید ہیں۔ سی آئی اے ان پر الزام عائد کرتا ہے کہ گرفتار ایرانی شہریوں نے امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔
اقتصادی پابندیاں کتنی کارگر:
جوہری معاہدے کو معطل کر کے امریکہ نے ایران پر جن پابندیوں کا دوبارہ احیا کروایا، آج تک ان کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا، تہران کا ورلڈ ویو اور پالیسیاں جوں کی توں برقرار ہیں۔ تہران حکومت کو تو نہیں، تاہم ان پابندیوں نے 85 ملین ایرانیوں کو گونا گوں مسائل سے دوچار کیا ہے۔
قیدیوں کی رہائی اور جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات کا آغاز حالیہ دنوں میں طے پانے ’معاہدہ اسیران‘ کا ایک انتہائی چھوٹا حصہ ہے جس پر بہت زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ امریکہ نے تہران پر اپنی اقتصادی پابندیوں کو برقرار رکھنے کا اعلان کر کے ایران کی خوش گمانی کو ایک مرتبہ پھر چرکہ لگایا ہے۔

a3w
a3w