مضامین

ایک راستے کے دو مسافر

سید سرفراز احمد

انتخابات کا جب موسم آتا ہے تو وعدوں اور دعوﺅں کی رسم ادائیگی بڑے ہی متبرک انداز میں کی جاتی ہے۔ ہر پارٹی دوسری پارٹی کو اپنے سے کمتر اور نیچا دکھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی۔ جس طرح سے گجرات میں اسمبلی انتخابات کے بادل منڈلارہے ہیں وہیں پر سیاست بھی تند وتیز آندھی کی طرح گردش کررہی ہے۔ یہ انتخابات اس لیے بھی اہم ہیں کہ ایک تو یہ آنے والے لوک سبھا انتخابات کی پیشین گوئی ثابت ہوسکتے ہیں، دوسرے مودی اور شاہ جیسی جوڑی اسی ریاست سے تعلق رکھتی ہے، اب ان کے لیے اپنے گھریلو سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کرنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ گجرات میں سہ رخی مقابلہ متوقع ہے، جس میں بی جے پی، کانگریس اور عام آدمی پارٹی شامل ہیں۔ مقابلہ چاہے سہ رخی ہو یا پنچ رخی اس سے کوئی سروکار نہیں مگر اصل مقابلہ تو وہ ہوتاہے جس میں ریاست کی ترقی ، بیروزگاری کا خاتمہ، مہنگائی کو دور کرنے کا منشور جاری کیاجائے اور اس کو تشکیل حکومت کے بعد عملی اقدامات تک پہنچایا جائے۔ اگر سیاست اس کے برعکس وعدوں اور دعوﺅں تک محدود ہوجاتی ہے تو عوام کو سیاسی جماعتوں پر توجہ دیتے ہوئے محتاط طریقے سے اپنے ووٹ کا استعمال کرناناگزیر ہوجاتا ہے۔
اگر ہم گجرات کے پچھلے نتائج پر نظر ثانی کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ سال2017 میں بی جے پی نے182میں سے 99 نشستوں پر قبضہ جمایا تھا جس کا اوسط رائے دہی کا کل تناسب %49.05 تھا حالانکہ اس کو پچھلے انتخابات سال 2012 کے بمقابلہ 16 نشستوں کا نقصان بھی پہنچا تھا جبکہ کانگریس نے 2017 میں 77 نشستوں پر جیت حاصل کی تھی جس کا کل رائے دہی کا تناسب %41.44 تھاجبکہ پچھلے انتخابات سال 2012 میں 61 نشستوں پر جیت درج کی تھی ۔سال 2012 اور 2017 کے گجرات انتخابات کا موازانہ کیا جائے تو ایک صاف تصویر سامنے آتی ہے کہ کس طرح گجرات میں بی جے پی اپنی ساکھ کھو رہی ہے اور اس بار لگتا ہے کہ کہیں اپوزیشن تک محدود نہ ہوجائے۔ بی جے پی اور گجرات کے عوام کا جو 27 سالہ رشتہ رہا ہے، اب وہ کمزور نظر آرہا ہے۔ دراصل انسانی رشتے ہوں یا سیاسی وہ اعتماد پر چلتے ہیں۔ اگر وہ بھی کھوٹے سکے کی مانند زنگ آلودہوجائے تو رشتہ چاہے کوئی بھی ہو دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایک تو بھاجپا کا یہی رشتہ عوام کو بدظن کر رکھا ہے کیوں کہ عوام نے بھاجپا پر اعتماد کرتے ہوئے برسہا برس حکمرانی سونپنے کے باوجود گجرات میں عوامی مفادات کی تکمیل نہیں ہوسکی۔ دوسرے کسی بھی سیاسی جماعت کی مسلسل حکمرانی سے عوام تبدیلی کے خواہاں رہتے ہیں۔ تیسرے ریاست میں عوام کی جو بنیادی ضرورتیں ہوتی ہیں اگر حکومت وہی فراہم کرنے سے قاصر ہوجائے تو ایسی حکمرانی کو بے دخل ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ عوام اگر اپنے مفادات کو بالائے طاقت رکھ کر مذہبی سیاست کے شکنجہ میں جکڑ جاتے ہیں تو خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا اور سیاسی چال باز اپنی روٹی سینکنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ گجرات میں بھاجپا سرکار ‘ 27 سال میں گجرات کو ایک مثالی ریاست نہیں بناسکی، بھلا اب اس سے آئندہ بھی کیا امید کی جاسکتی ہے، حالانکہ ملک کے وزیراعظم اور وزیر داخلہ اسی ریاست کے ہیں اور اوپر سے ڈبل انجن سرکار، لیکن نہ نوجوانوں کو روزگار ملا ،نہ غریب عوام کو مہنگائی سے چھٹکارا ملابلکہ اگر کسی کا پیٹ بھرا جارہا ہے تو نفرت سے عداوت سے ریاکاری سے، یہ نہ مسائل حل کرسکتی نہ محبت کوفروغ دے سکتی بلکہ صرف اور صرف مصائب و مسائل کے انبار لگاسکتی ہے۔
دہلی سے سفر کا آغاز کرنے والی اورپنجاب میں بڑے پیمانے پر جیت درج کروانے والی عآپ پورے جوش و خروش سے گجرات کی سیاست میں حصہ لے رہی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ گجرات میں اپنی حکومت بنائے گی۔ اب وہ کیسے بنائے گی، اس کا جواب تو شائد خود کجریوال بھی نہیں دے سکتے، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا کہ کجریوال دو رخی سیاسی چہرہ بنکر بھاجپا کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ایک طرف وہ دہلی ماڈل کی بات کرتے ہوئے ترقی کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ہندوتوا کارڈ کھیلنے کوئی کمی باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ جو بھاجپا رام کے نام پر کام کرتی ہے، ٹھیک اسی طرح کجریوال بھی ہنومان چالیسہ کے نام پر اپنی سیاست کے ذریعہ مذہبی شطرنج کے کھلاڑی ہونے کا وقفہ وقفہ سے ثبوت دینے کی کوشش کرتے آرہے ہیں۔ سیاست کے نام پر کبھی مندر کے درشن کرتے ہیں تو کبھی زعفرانی شال اوڑھ لیتے ہیں، مندر کے درشن کرنا یہ ان کا مذہبی شیوہ ہے لیکن اسی مذہب کو سیاست کے درمیان لانا یہ کونسی مذہبی تعلیمات ہیں؟ابھی گزشتہ جمعرات کے روز انھوں نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ اپنے آپ کو سب سے بڑاہندو تواکا چہرہ ثابت کرنے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ انھوں نے مرکزی حکومت سے عجیب و غریب مطالبہ کرتے ہوئے بھارتی کرنسی پر گاندھی جی کے علاوہ گنیش جی اور لکشمی دیوی کی تصاویر چھاپنے کا بیان دیکر بھاجپا کو بھی تذبذب میں مبتلاءکردیا۔یہ تو بالکل لوہا لوہے کو کاٹنے کے مترادف ہے۔ اگر کجریوال کی سوچ ایسی ہے تو وہ کبھی اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہندوتوا کو ہندوتوا کا ڈرامہ دکھاتے ہوئے شکست دینا یہ کسی بڑی حماقت سے کم نہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سیاسی منطق کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ کیا یہ سوال کجریوال سے نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں کسی ایک مذہب کے خداو¿ں کو ملک کی کرنسی پر کیوں چھاپا جائے؟کیا پھر اس طرح کے عملی نفاذ کے بعد ہمارا ملک سیکولر بھی کہلانے کے لائق ہوگا؟ کجریوال نے جن مقاصد کے لیے سیاست میں قدم رکھا تھا، وہ آج ماند پڑ چکے ہیں اور اب اپنے قدم ہندوتوا کی طرف بڑھا رہے ہیں۔ ہم نے کورونا وباء میں دیکھا کہ جب تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا گیا، جب دہلی کے فسادات رونما ہوئے تو یہی کجریوال نے اپنی نرم ہندوتوا پالیسی کا حق بڑے سلیقے سے ادا کیا۔ ایسی بے لگام زبان کا استعمال یوں ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک ہمارا ماننا ہے کہ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک یاتو وہ ہندوتوا کے کٹر حامی ہیں جو اندر ہی اندر ہندو راشٹر کے قیام کے خواب سجارہے ہیں یا وہ ایسی بیان بازی سے اپنی سیاست کے ذریعہ ہندوتوا کارڈ کھیل رہے ہیں جس کا فائدہ وہ گجرات اور شائد ہماچل پردیش میں بھی لینا چاہتے ہیں۔ گجرات انتخابات کو لے کر عآپ اور بھاجپا کافی سرگرم ہوچکی ہے۔ بھاجپا نے تو اب گجرات میں یکساں سول کوڈ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات تو عیاں ہے کہ بھاجپا انتخابات کے عین وقت ایسے سیاسی حربے استعمال کرتی ہے جس سے اکثریتی طبقہ پر حاوی ہونا ہی اہم مقصد ہوتا ہے تاکہ رائے دہندوں کو اپنی جانب راغب کیا جاسکے، لیکن کجریوال بھی بھاجپا کے سیاسی حربوں کا جواب اسی انداز سے دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بی جے پی یکساں سول کوڈ پورے ملک میں کیوں نافذ نہیں کرتی؟سوال یہ ہے کہ کیا کجریوال اور بی جے پی ایک راستے کے دو مسافر کی طرح نہیں ہیں؟ اب تو یہ دوٹوک کہا جاسکتا ہے کہ کجریوال کا اصل اور جعلی چہرے کا پردہ بھی بے نقاب ہوچکا ہے جو گجرات انتخابات کی ہی دین ہے۔ یہی کجریوال مستقبل میں کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ سیاسی لالچ نے کجریوال کو بھی ہندوتوا کی پوشاک پہنادیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہندوتوا کے نفاذ کے لیے سیاسی جماعتیں کس طرح ایک دوسرے کی حریف ہوکر بھی شانہ بہ شانہ چل کر ایک نظریہ پر اتحاد کا مظاہرہ کررہی ہیں۔
گجرات الیکشن کو لے کر مودی اور شاہ بھی بے چینی کا شکار ہیں۔ مودی اور شاہ کی جوڑی نے بھی چانکیہ بن کر گجرات پر اپنی حکمرانی کو مسلسل برقرار رکھنے کی ڈور اپنے ہاتھوں میں تھام لی ہے اس کا اندازہ تو بلقیس بانوکیس کے مجرمین کی رہائی سے ہی ہوچکا تھا جب سپریم کورٹ نے جواب طلب کیا تو گجرات حکومت نے مرکزی حکومت کے اشاروں پر رہائی کی دہائی دی جس سے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔ان دنوں بار بار مودی اور شاہ کو گھر کی یاد بھی ستانے لگی۔ دوڑ دوڑ کر گجرات پہنچ رہے ہیں۔ کبھی مندر میں درشن کے بہانے تو کبھی روڈ شو کرتے ہوئے عوام کو ورغلانے پہنچ رہے ہیں۔ یہ بات سن کر تو گجرات کے عوام کے بھی ہوش اڑ گئے ہوں گے کہ جو بھاجپا بڑھتی مہنگائی کی قیمتیں کم نہ کرسکی وہ گجرات میں دو رسوئی گیس مفت تقسیم کرنے جارہی ہے۔ اب مودی اور شاہ کو چانکیہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ اب یہ انتخابی جال نہیں تو اور کیا ہے؟ ایک طرف بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کرکے انصاف کا استحصال کیا گیا اور دوسری طرف یہی بھاجپا ناری سمان کا نعرہ لگاتی ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ بھاجپااور اس کے قائدین ناری کا کتناسمان کرتے ہیں۔ بہر حال آپ سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم فوٹو شوٹ کا بھی ذوق رکھتے ہیں۔ ہوا یوں کہ پردھان منتری 19/اکٹوبر کوگجرات میں مشن اسکول آف ایکسلینس کے افتتاح کے لیے جاتے ہیں، جہاں کی منظر کشی کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں تھی۔ تصاویر کی جھلکیاں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ طلباء اسکول میں نہیں بلکہ پی ایم کیبن میں تشریف فرما ہیں۔ بعد میں وہ اسکول اس جگہ سے غائب نظر آیا جس کے بعد سوشیل میڈیا پر بڑے ہی دلچسپ تبصرے کیے گئے، لیکن ہماری مہان قومی میڈیا کی زبان پر قفل لگ چکا تھا۔ بھاجپا کے اس لرزتے و ڈگمگاتے قدم سے یہ عیاں ہورہا ہے کہ اس پر کہیں نہ کہیں گجرات الیکشن کی شکست کاخوف طاری ہے۔ اسی خوف میں بھاجپا گجرات کی نگری نگری پہنچ کر روزگار کے حیلے بہانے کرتے ہوئے میلے لگاکر گجرات کے عوام سے عین انتخابات کے وقت وہ مضبوط رشتہ بنانا چاہتی ہے جس نے پچھلے 27 سالوں میں نہیں بنایا، لیکن بڑی بات یہ ہے کہ بھاجپا کا یہ خوف عآپ سے نہیں ہے بلکہ بھاجپاکا خوف راہول کی بھارت جوڑو یاترا سے ہے۔ ابھی تک جس برق رفتاری سے عآپ اور بھاجپا انتخابی مہم چلارہے ہیں، وہیں کانگریس ابھی ساکت نظر آرہی ہے۔ اگر چہ کہ کانگریس گجرات میں اپنی سیاسی پیش رفت میں سست روی دکھارہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیا جاسکتا کہ کانگریس نے اپنی ہمت پست کرلی ہے۔ اگر کانگریس کا پچھلا سیاسی ریکارڈ دیکھا جائے تو کانگریس مقابلے کی ہی نہیں بلکہ کامیابی حاصل کرنے کی بھی دوڑ میں شامل ہے اور اگر ساتھ ہی ساتھ گجرات میں بھارت جوڑو یاترا کا اثر پہنچتا ہے تو گجرات میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا نظارہ دیکھنے کو مل سکتا ہے اور شائد کہ کانگریس کے سنہری دور اور بھاجپا کے زوال کا آغاز گجرات سے ہوجائے تو اس سے بڑی سیاسی بیداری اور کیا ہو سکتی ہے پر اس کے لیے کانگریس کو کچھ زمینی محنت و مشقت بھی کرنے کی ضرورت ہے۔
بھاجپا نے گجرات انتخابات کی لڑائی کا جس دھواں دھار انداز سے آغاز کیا ہے، اسی طرح اگر ترقی کو انجام تک پہنچایا جاتا تو آج یہ پاپڑبیلنے نہیں پڑتے اور کجریوال نے جس طریقے کی سیاست کو اپنایا ہے، وہ سیاست جزوی طور پر خود ان کے لیے اور ان کی پارٹی کے لیے نفع بخش ثابت ہوسکتی ہے لیکن ملک اور سماج کے مفاد میں بالکل بھی نہیں۔ کرپشن کے خاتمہ کے لیے اٹھنے والی آواز آج فرقہ پرستی کا جال بچھارہی ہے۔ بہر کیف گجرات انتخابات کے پیش نظر جو سیاسی تناو¿ نظر آرہا ہے جس سے یہ بھر پور اندازہ بھی مل رہا ہے کہ بھاجپا کٹھن دور سے گزر رہی ہے اور عآپ حکمرانی کے خواب سجارہی ہے وہ بھی بھاجپا طرز کی سیاست کھیلتے ہوئے اپنے آپ کو بھاجپا سے بڑا ہندوتواوادی پیش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہی ہے۔ ایک طرف بھاجپا خود بوکھلاہٹ کا شکار ہوکرسیاسی طور پر غوطے پر غوطے لگارہی ہے اور کہیں نہ کہیں بھاجپا کو کجریوال کی نئی سیاسی منطق پریشان کررہی ہے تب ہی بھاجپا نے یکساں سول کوڈ کا پانسہ پھینک کر کجریوال کو خاموش کرنا چاہا پر کجریوال نے تو بھاجپا کو منہ توڑ جواب دے کر خاموش تو کروادیا،لیکن دونوں ہی اقتدار کی لالچ میں مذہبی سیاست کا جم کر ڈنکا بجا رہے ہیں۔ بہرحال گجرات انتخابات کے اختتام تک اور کتنے سیاسی پینتروں کا استعمال کیا جاتا ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
٭٭٭