بظاہر صحت اچھی ہے جو بیماری زیادہ ہے

حمید عادل
ایک وقت تھا جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے تو پوچھا کرتے ’’مزاج شریف کیسے ہیں؟‘‘ یہ وہ دور تھا جب مزاج واقعی شریف ہواکرتے تھے لیکن آج مزاج بڑے شریر ہوچلے ہیں،بطور خاص ہمارے مزاج… خدا جانے اُن پر سیاست دانوں کی سی عادت کہاں سے وارد ہوگئی ہے کہ پل میں رنگ بدلتے ہیں ، ابھی ہم فل چارج ہوتے ہیں اور ابھی ہماری بیاٹری اتر جاتی ہے …نقاہت ایسی ہوتی ہے کہ سانس لینا بھی بوجھ لگتا ہے۔
سنا تھا کہ بڑھاپے میں بچپن لوٹ آتا ہے ،بچپن تو نہیںالبتہ بچپن والے اعصاب اورہڈیوں سے متعلق شرارتی امراض ضرور لوٹ آئے ہیں ….جن کی بدولت شیئرس کی طرح ہماری صحت ڈوبتی ابھرتی ہے … یہ تو ہوا اُن امراض کا ذکر ، جو بچپن میںہمیں لاحق تھے اور آج دوبارہ نمودار ہورہے ہیں لیکن اس کو کیا کیجیے کہ ہم بھری جوانی میں بڑھاپے والے امراض کو بھی اپنی آنکھوں سے لگا چکے ہیں … جی ہاں! ہماری آنکھوں میںموتیا اتر آیا تھا، لہٰذاجب ہم ہندی فلم کا سریلا نغمہ ’’ چھوٹی سی عمر میں لگ گیا روگ ‘‘ گنگناتے ہوئے شہرکے نامی گرامی آنکھوں کے ڈاکٹر سے رجوع ہوئے تو قابل ڈاکٹر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ25 سال کی عمر میں ہمیں کیوں کر موتیا ہوگیا؟ وہ حیرت سے اپنی آنکھیں ایسے جھپکانے لگا ،جیسے اسے خود موتیا ہوگیا ہو… ہمیں اچھی طرح یاد ہے وہ کمرے سے دفعتاًیوں نکل کر بھاگا ،جیسے اس نے ہماری آنکھوں میں موتیا نہیںکوئی بری آتما دیکھ لی ہو۔ وہ کچھ دیر بعد تین چار ڈاکٹروں کے ہمراہ دوبارہ وادر ہوا، جو باری باری ہماری آنکھ کا، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کچھ اس طرح معائنہ کرنے لگے تھے جیسے ہماری آنکھ میں موتیا نہ ہو، کوئی موتی ہو اوروہ ڈاکٹرس نہیںجوہری ہوں یا پھر وہ یہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ آخر ہماری آنکھوں میں کون بسا ہوا ہے ، حالانکہ اُس وقت ہماری آنکھوں کی کیفیت ہرگز اس شعر کی عکاس نہ تھی:
اب تو شاید ہی مجھ سے محبت کرے کوئی
میری آنکھوں میں تم صاف نظر آتے ہو
بلا شبہ یہ آنکھیں ہی ہوتی ہیں جو عشق کے ابتدا کی وجہ بنتی ہیں،لیکن ہمارے عشق کی داستاں بھی بڑی عجب ہے ، وہ دل سے شروع ہوکر دل ہی پر ختم ہوگئی۔ جسے چاہا، اسے دیکھا تک نہیں، ہم تو بس یہ کہتے رہ گئے :
کیوں دل میں اترتا ہے ، آنکھوں میں اتر پہلے
دل بعد میں ملتے ہیں، ملتی ہے نظر پہلے
ویسے عشق کے لیے یہ شرط ہرگز لازم نہیں کہ معشوق کا دیدار ہی ہو۔ معشوق کا رنگ روپ دیکھ کر جوعشق کیا جائے،وہ عشق کہاں ہوا، سودے بازی ہوئی …
بہرحال! ڈاکٹرس ہماری آنکھوں میں اترے موتیا کو دیکھ کر حیران تھے کیوںکہ عام طور پر موتیا کی بہار ،ان پر آتی ہے جو خود عمر کی پچاس ساٹھ بہاریں دیکھ چکے ہوتے ہیں یا مختلف حسین نظاروں سے اپنی آنکھیں سینک چکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر نے ہمیں چھیڑتے ہوئے کہا ’’کہیں تم ایور گرین ہیرو دیو آنند کی طرح تو نہیں کہ جو ساٹھ برس کی عمر میں بھی پچیس کے نظر آتے تھے؟‘‘سوال سن کر ہم مسکرا کر چپ ہوگئے تو ایک اور ڈاکٹر نے ہم پر سوال داغا: بچپن میں سر پرتمہیںکوئی شدیدچوٹ تو نہیں لگی تھی ؟
ہم نے کہا: ڈاکٹر صاحب! سر پر لگی کسی چوٹ کا تو یاد نہیں ،البتہ ہمارے دل پر خوب چوٹیں لگی ہیں۔
ہمارا کہا سن کر ڈاکٹر نے خشک لہجے میں جواب دیا: دل پر لگی چوٹ سے آنکھ کا کوئی تعلق نہیں ہوتا مسٹرعادل!ہم دل ہی دل میں بڑبڑائے کہ یہ ڈاکٹر جھوٹ کہہ رہاہے یا پھر اس کے سینے میں دل ہی نہیں ہے کیوںکہ جب جب دل پر چوٹ لگتی ہے ، آنکھ سے آنسو جاری ہو ہی جاتے ہیں اور جب آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں تو دونوں آنکھوںسے ہوتے ہیں ، کبھی کوئی ایک آنکھ آنسو نہیں بہاتی ،لیکن یہاں ہم سے سر پر لگی چوٹ کے تعلق سے پوچھا جارہا تھا۔
بہر کیف ! ڈاکٹروں نے ہماری آنکھوں میں جھانک جھانک کر ہماری بائیں آنکھ میں موتیا کی خوشخبری سنا ڈالی …ہم نے اس بات کا ذکرچمن بیگ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ بائیں ہاتھ کے کھیل کی طرح جوانی میں ’’بائیں آنکھ کا کھیل‘‘ بھی خوب چلتا ہے یعنی اکثر منچلے نوجوان کسی بھی راہ چلتی لڑکی کو دیکھ کر اپنی فریفتگی کا اظہار کرنے کے لیے فوری اپنی بائیں آنکھ بند کرلیتے ہیں ( اب یہ الگ بات ہے کہ یہ مکروہ فعل اب کم ہوگیا ہے ) جسے حرف عام میں ’’آنکھ مارنا‘‘ کہا جاتا ہے۔چنانچہ جب ہماری بائیں آنکھ کے آپریشن کی خبر یار لوگوں میں مشہور ہوئی تو انہوں نے ہماری شرافت پر ہی انگلیاں اٹھانی شروع کردیں کہ ضرور ہم نے بائیں آنکھ کا غلط استعمال کیا ہے، جس کی بدولت ہمیں موتیا کی شکل میں اوپر والے نے سزا د ے دی۔ اس ریمارک کا ہم پر کچھ اس قدر خوف طاری ہوگیا کہ ہم اپنے ملنے جلنے والوں سے اپنی بائیں آنکھ کے آپریشن کا کم ہی ذکر کرنے لگے تھے۔ اگر بادِل نخواستہ ہم اظہار کر بھی بیٹھتے تو لوگ ہم سے ایسے ایسے سوالات کرتے جیسے ہمیں اپنی آنکھ میں موتیا کھلانے کی خواہش تھی یا موتیا کا مرض ہمارا سب سے پسندیدہ مرض ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ موتیا کے پھول ہمیں بے حد عزیز ہیں لیکن ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ موتیاسے ہماری محبت کا یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ ہماری آنکھوں کو موتیا ہوجائے گا…اکثر لوگ ہم سے سوال کرتے ’’ یہ عمر میں کئی کاموتیا میاں ؟‘‘ یہ وہ تیکھاریمارک تھا جسے سن سن کرآنکھ کے علاوہ ہمارے کان میں بھی موتیا ہوگیا تھا…
ہم ہردو ر میں اپنی عمرسے کم عمر نظر آتے رہے، جب ہم نے شادی کا صحیح فیصلہ صحیح وقت پر کیا تو ہمیں بڑے صبرآزما حالات سے گزرنا پڑا ، کیوں کہ نوجوان ہونے کے باوجود ہم بچے ہی دکھائی دیتے تھے… چنانچہ لڑکی والے ہمیں گھور گھور کر اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایسے دیکھتے جیسے ہمیں دیکھنے یا سمجھنے کی کوشش کررہے ہوں… بعض مقامات پر ہمارے ساتھ ایسا بھی ہوا کہ جیسے ہی انہیں یہ پتا چلا کہ ہم ہی وہ بانکے چھیل چھبیلے ہیں جو، ان کی بیٹی کا ہاتھ تھام کر ان کی عزت میں چار چاند لگانا چاہتے ہیں تو ان کے جسم پر جھرجھری سی آگئی اور انہو ںنے ہمیں بنا چائے بسکٹ کھلائے ہی اپنے گھر سے چلتا کردیا… چنانچہ کبھی کبھار ہمارے مرحوم و مغفور والد محترم جھلا کر فرماتے ’’ ارے وہ بدنصیب ! میرے لیے تیری شادی تو کسی لڑکی کی شادی کے مسئلے سے زیادہ سنگین بن چکی ہے!‘‘
یہ تو ہوئے شادی سے پہلے کے حالات، شادی کے برسوں بعد بھی ہم بچے ہی نظرآتے رہے… ہمارے محلے میں ایک صاحب بطور کرایہ دار نازل ہوئے تھے، جو اتفاق سے چھ عدد بچوں کے باپ تھے اور جس کا انہیں بڑا گھمنڈ بھی تھا۔ چنانچہ وہ ہر وقت گلی میں اپنے بچوں کو لے کر ایسے گھومتے پھرتے جیسے محلے میںصرف وہی ’’صاحب اولاد‘‘ ہیں!
ایک دن ہم سے کہنے لگے ’ ’بر خوردار! شادی کرلو ، آخر کب تک بیچلر رہو گے؟‘‘ ہم نے پوچھا ’’آپ سے کس نے کہا کہ ہماری شادی نہیں ہوئی ہے ؟‘‘ مسکرا کرکہنے لگے ’’کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ شکل سے ہی غیر شادی شدہ نظر آتے ہو۔‘‘ ہم نے غصے سے تقریباًکانپتے ہوئے کہا ’’ زبان سنبھال کر بات کیجیے جناب… ہماری شادی ہوچکی ہے اورخیر سے ہم سات عدد بچوں کے باپ ہیں ۔ ‘‘
اتنا سننا تھا کہ ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ،حتیٰ کہ ان کی گود سے بچہ بھی چھوٹ گیا اور انہیں خبرتک نہ ہوئی،بیچارے پتھرا جو چکے تھے۔
ایک صاحب کی تیس سال بعد ہم سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے ’’ عادل تم تو بالکل نہیں بدلے!‘‘ ہم نے مسکراکر ایک ادا سے کہا ’’ جو کھرا ہے وہ کبھی نہیں بدلتا!‘‘ اکثر دوست احباب، ہماری ناتواں صحت جسمانی پر کاری ضرب لگاتے ہیں‘ ایسے میں ہمارا ایک ہی جواب ہوتا ہے ’’ ارے دیوانو! پتلی تو تلوار بھی ہوتی ہے مگر جب میان سے باہرنکلتی ہے تو اچھے اچھوں کی دال پتلی کردیتی ہے !‘‘
یہ ہماری دبلی پتلی شخصیت کا جادو نہیں تو اور کیا ہے کہ بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں ہماری سواری ہجوم کے بہاؤ کی وجہ سے بنا حرکت کیے آگے ہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس طرح اپنی ناتوں صحت جسمانی کے صدقے جائیں کہ ہم جب INکی قطار میں ٹھہرتے ہیں تو بنا ہاتھ پیر ہلائے اندر داخل ہوجاتے ہیں اور ہم جب یہی نسخہ OUT کی قطار میں ٹھہر کر آزماتے ہیں تو خود بخود باہر آجاتے ہیں !
’’ کمر توڑ مہنگائی‘‘ کا صحیح مفہوم ہمیں اس وقت سمجھ میں آیا جب ہم حادثات کا شکار ہوکر دو بار اپنی پتلی کمر تڑوا بیٹھے۔ کمر کیا ٹوٹی گویا ہم اسکراپ میں بدل گئے۔ چلنا پھرنا تو درکنار بیٹھنا بھی محال ہوگیا اور ’’ حرکت میں برکت ہے ‘‘ کا محاورہ ہمارے لیے عذاب جان بن گیا ۔ جیسے ہی ہماری کمر کے ٹوٹنے کی اطلاع عام ہوئی ہمارے غریب خانے پر دوست احباب اور رشتے داروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ جو بھی آتا سب سے پہلے حادثہ کس طرح ہوا؟ کہاں ہوا؟ جیسے روایتی سوالات ہم سے ضرور کرتا اورہم کسی سعادت مند طالب علم کی طرح فر فر ساری تفصیلات یوں بیان کردیتے گویا آموختہ سنا رہے ہوں ۔ ساتھ میں ڈاکٹر رادھا کشن راؤ کا یہ حکم نامہ بھی ضرور سناتے کہ انہوں نے تین مہینے تک بستر سے نہ اٹھنے کی قسم کھلائی ہے ۔ یہاں اس بات کاتذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ بقول ڈاکٹر ہم دنیا کے چند خوش نصیب انسانوں میں شامل ہیں کیوں کہ کمر کے ٹوٹنے پر بھی ہمارے پیر حرکت کررہے ہیں ‘ ورنہ ہم زندگی بھر کے لیے معذور بلکہ ’’ معذور اعظم‘‘ ہوجاتے۔ اپنی کمر ٹوٹنے کے باوجود بھی کوئی آدمی کس قدر خوش نصیب کہلاتا ہے ‘ یہ ہمیںان ہی سے معلوم ہوا‘ پھر تو ہمارے ذہن میں اس طرح کے خیالات زور و شور سے گردش کرتے کہ کیا ہر انسان کو اپنی خوش نصیبی‘ جانچنے کے لیے زندگی میں کم سے کم ایک بار اپنی کمر کسی نہ کسی طرح تڑوالینی چاہیے؟!
دوستو! ہم دو بار کمر توڑ حادثات سے گزرے اور دونوں ہی بار حادثات نے ہم پر پیچھے سے وار کیا… ہم پرسامنے سے وار کرنے کی ان میں غالباً ہمت نہ تھی … دو بار ہماری کمر ٹوٹی لیکن الحمدللہ ہم نہیں ٹوٹے …
۰۰۰٭٭٭۰۰۰