ادبی

بچے سیکھنے کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ کمانے کے لیے

دراصل چائلڈ لیبروہ لعنت ہے جس سے بچے کو جسمانی، ذہنی اوراخلاقی طورنقصان پہنچتا ہے ،وہ اپنی خوشیوں، امنگوں،باوقاراور باعزت زندگی سے محروم ہوجاتا ہے۔ کسی نے درست کہا’’یہ جو ڈھابوں، دکانوں، ورکشاپوں اور بھٹوں پرکام کرنے والے ’’چھوٹے‘‘ ہوتے ہیں یہ دراصل اپنے گھروں کے بڑے ہوتے ہیں‘‘۔

راحیلہ مغل

بچے کسی پودے کی ٹہنی پرلگے ان پھولوں کی مانند ہوتے ہیں جوصبح کی ٹھنڈی ہوا کے چلنے سے جھومتے اورخوب مہکتے ہیں ۔ان کی یہ مہک سارے ماحول میں اک دلکشی سی پیدا کردیتی ہے۔ یہ پھول بہت ہی نازک ہوتے ہیں ذراسی سختی برداشت نہیں کرتے کہ مرجھاجاتے ہیں یہ سختی چاہے موسم کی ہویا معاشرے کی۔ موسم تو خیرقدرت کا معاملہ ہے مگرمعاشرے کا وجود تو ہم سب سے ہے۔ اس لیے ان پھولوں کی حفاظت کی ذمہ داری پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے ۔ اسی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے پوری دنیا ہر سال 12جون کو چائلڈلیبرکی ممانعت کے عالمی دن کے طورپر مناتی ہے۔

انسداد چائلڈ لیبر ڈے کا بنیادی مقصد14سال سے کم عمر کے بچوں کو کام کاج پرنہ لگا کر ان کی تعلیم کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔ کم عمری میں زیادہ مشقت کرنے سے نہ صرف بچوں کی صحت خراب ہوتی ہے اورساتھ ہی ساتھ ان کی ذہنی نشوونما بھی نہیں ہوتی۔ چائلڈلیبرجرم کے زمرے میں آتا ہے اوراس کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے لیے سخت ترین سزا کا بندوبست ہے۔ ملک اوردنیا میں چائلڈ لیبر کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

دراصل چائلڈ لیبروہ لعنت ہے جس سے بچے کو جسمانی، ذہنی اوراخلاقی طورنقصان پہنچتا ہے ،وہ اپنی خوشیوں، امنگوں،باوقاراور باعزت زندگی سے محروم ہوجاتا ہے۔ کسی نے درست کہا’’یہ جو ڈھابوں، دکانوں، ورکشاپوں اور بھٹوں پرکام کرنے والے ’’چھوٹے‘‘ ہوتے ہیں یہ دراصل اپنے گھروں کے بڑے ہوتے ہیں‘‘۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں بچے گھریلو حالات سے مجبور ہوکر مشقت کررہے ہیں۔

چائلڈ لیبرکا شکار ان بچوں اوربچیوں کی عمریں 5سے 15برس کے درمیان ہیں۔ ان میں بہت سے بچے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں انہیں تعلیم اور مناسب خوارک کی سہولتیں حاصل نہیں ہوتی ہیں۔ چائلڈ لیبرڈے پرسماجی تنظیموں کی جانب سے مختلف تقریبات کا اہتمام کیاجاتا ہے تاکہ محنت کش بچوں کے مسائل کوحکومت ودیگر ذمہ داران تک موثر طریقے سے پہنچایا جاسکے۔ بچے وہ پھول ہوتے ہیں جن کی خوشبو سے گھر کے آنگن کے ساتھ معاشرہ بھی مہکتا ہے، جن کے معصوم چہرے سے انسان کا رنجیدہ دل بہل جاتا ہے اورچہرے پرتبسم کی لہریں بکھرجاتی ہیں لیکن افسوس کہ متعدد معاشروں میں بچے تعلیم اورکھیل کود کے بجائے محنت مزدوری کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔

عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 160ملین سے زائد بچے چائلڈ لیبرکی لعنت کا شکار ہیں اورکورونا وائرس کے سبب تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ 12جون 2002ء سے ہرسال بچوں سے جبری مشقت کروانے کے خلاف عالمی سطح پر ’’چائلڈلیبرڈے‘‘ منایا جاتا ہے ۔ اس دن کو منانے کا مقصد بچوں کو محنت ومشقت سے بچاکر تعلیم کے زیورسے آراستہ کرنا ہے اوران افراد کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جوبچوں کومحنت مزدوری کرواتے ہیں۔ ہر سال اس عالمی دن پرسمینارز،آگاہی واک اوردیگر تقریبات کیساتھ بڑے بڑے بھاشن بھی سننے کو ملتے ہیں مگر عملی اقدام کوئی نہیں کرتا۔

کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں بچے حق تعلیم سے محروم کیوں ہیں؟ کیوں بچے کم عمری میں محنت ومشقت کرنے پر مجبور ہیں؟ اس ساری صورتحال کا ذمہ دارکون ہے؟ کب اورکیسے ہمیں اس لعنت سے چھٹکارا ملے گا؟ اکثر بچوں کے والدین مہنگائی اورغربت کارونا روتے ہوئے اپنے بچوں کو اس آگ میں دھکیل دیتے جس میں بچہ ساری عمرجلتا رہتا ہے ۔ ایک باشعور اورذمہ دار باپ کبھی بچے کوتعلیم سے دورکرکے محنت مزدوری پر نہیں لگاتا، اس کی پہلی ترجیح تعلیم ہوتی ہے نہ کہ بچے کے ہاتھ میں اوزاریاکاسہ تھمادے ۔

دوسری جانب صنعتوں،کارخارنوں ،ہوٹلوں ،کھیتوں،ورک شاپس اور گھروں میں کام کروانے والے افراد اس کے ذمہ دار ہیں جوبچوں سے کمر عمری میں پورا کام کرواتے اوربدلے میں انتہائی کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اگربچے سے کچھ غلطی ہوجائے تو اس کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے بچہ تنگ آ کر جرائم کی دلدل میں دھنس جاتا ہے یاپھردیگر برائیوں میںمبتلا ہوجاتا ہے۔

ہمارے ہاں تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنے بھی گھروں میں کام کے لیے چھوٹے بچے رکھے ہوتے ہیں جن سے ہر چھوٹا بڑا کام کروایا جاتا ہے۔ کیا فائدہ ایسی تعلیم کا جس میں شعورنہ ہو۔ حکومت بھی اس میں برابر کی شریک ہے جس کی ناقص پالیسیوں کے سبب بچے تعلیم کی بجائے محنت ومشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں قانون توسخت بنائے جاتے ہیں مگران پرعمل درآمد بہت کم دیکھنے کوملتا ہے ۔

مردم شماری 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان میں بچہ مزدوروں کی تعداد 10.1 ملین تھی جن میں 5.6 ملین لڑکے اور 4.5 ملین لڑکیاں تھیں۔ چائلڈ لیبرکو ختم کرنے کے لیے حکومت کوسخت اقدامات کرنے ہوں گے، جو بچے محنت ومشقت کررہے ان کو تعلیم دینا ہوگی اور تربیت بھی،یہ بات ہم سب کوسمجھنی ہوگی کہ بچے سیکھنے کے لیے ہوتے ہیں نہ کمانے کے لیے۔

محنت کے عالمی ادارے کے مطابق چائلڈ لیبرسے دنیا بھر میں 24کروڑ60لاکھ بچے متاثر ہیں جس میں سے تقریباً تین چوتھائی (تقریباً 17کروڑ10لاکھ)سخت مشقت والے کام کرتے ہیں جیسا کہ کانوں میں کام کرنا، کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا، کھیتی باڑی کرنا، خطرناک مشینری کے ساتھ کام کرنا۔ چائلڈلیبرکے معاملے میں ایک امتیاز کوسمجھنا ضروری ہے کہ آئی ایل اواور یونیسیف کے مطابق بچوں کے کیے گئے ہرکام کو چائلڈ لیبرنہیں قرار دیا جاسکتا۔

چائلڈ لیبریعنی بچوں کی مشقت اورچائلڈورک(بچوں کے کام)میں فرق ہے۔ اگر چائلڈورک بچے کو شخصی وجسمانی نشوونما اوراسکی تعلیم پربرا اثر نہیں ڈال رہاتو اس طرح کے کام کوچائلڈ لیبرنہیں قرار دیا جائے گا مثلاً اگرایک بچہ اسکول سے واپس آکر یا اسکول کی تعطیلات کے دوران اگرکام کرتا ہے یا فیملی بزنس میں وہ ہاتھ بٹاتا ہے تواسے چائلڈلیبر نہیں قراردیا جائے گا بلکہ اس طرح کی غیر نصابی سرگرمیوں کی عمومی طورپر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ یہ کام توبچوں کی شخصی نشوونما کیلئے بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف ان کو ہنرمند بناتا ہے بلکہ معاشرے کا قابل حصہ بننے میں بھی مددیتا ہے۔ آئی ایل او کے مطابق چائلڈ لیبروہ کام ہے جس سے بچے اپنے بچپن کی امنگوں ،باعزت وپروقار طرززندگی سے محروم ہوجائیں اورجوانکی جسمانی،ذہنی اوراخلاقی نشوونما کیلئے نقصان دہ ہواور جس سے ان کی تعلیم کا حرج ہو۔
٭٭٭

براعظم ایشیا بچہ مزدوری کا مرکز

براعظم ایشیا میں بچہ مزدوری کا شکار بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جہاں 12کروڑسے زائد بچے مزدوری کرتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ شرح براعظم افریقہ میں ہے جہاں اندازاًہرتیسرا بچہ مزدورہے ۔بچہ مزدوری کے شکاران بچوں میں سے 90لاکھ بچوں کو جرائم پیشہ سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ3لاکھ باقاعدہ عسکری کا رروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ دنیا بھر میں12لاکھ بچوں کو خرید کر مزدوربنایا گیا ہے جبکہ 50-40فیصد بچوں کوزبردستی کام کرنے پرمجبور کیاجاتا ہے۔عالمی سطح پر 70فیصد بچے زراعت 22فیصد سروسز جبکہ 9فیصد صنعتی شعبے کے ساتھ منسلک ہیں۔

ایک انداز ے کے مطابق کچھ ایشیائی ملکوں میں افرادی قوت کا10واں حصہ بچہ مزدوری پرمشتمل ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ساڑھے15سال سے کم عمرکے تقریباً 4.5کروڑ بچے بچہ مزدوری کا شکار ہیں۔ بنگلہ دیش اورنائجیریا میں بھی مزدور بچوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اس اہم مسئلے کی وجوہات کچھ بھی ہوں۔ دنیا کا ہر بچہ قابل تعظیم ہے اورجولوگ بچوں سے مشقت لینے جیسے دھندے میں ملوث ہیں ،ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے…
٭٭٭