مضامین

بھنورسے لڑو، تند لہروں سے الجھو

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

آج کل کی سب سے بڑی خبراوربریکنگ نیوز ”حماس-اسرائیل“ کی جنگ ہے، جو7 / اکتوبرسے جاری ہے، جس میں حماس نے دنیاکوحیرت میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ کئی اور حقیقتوں کوبھی دنیاکے سامنے واضح کردیا،ان میں سے ایک تویہ ہے کہ اسرائیل کے اس غرورکوخاک میں ملادیاکہ اس کے پاس جدیدترین ایسے آلات ہیں، جن کے ذریعہ سے حملہ کی اطلاع پیشگی ہوسکتی ہے، اس حقیقت کوبھی واضح کردیاکہ اسرائیل ناقابل تسخیرنہیں ہے؛ بل کہ اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ چندآلات کے ذریعہ سے بھی اسے ہلایا جاسکتا ہے،بہرحال! ”اقصی طوفان“ نے صرف اسرائیل میں ہی طوفان برپانہیں کیا؛ بل کہ اسرائیل کے حامی تمام ممالک میں بھی اس طوفان کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔
بہت سارے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ اچھی خاصی جنگ بندی چل رہی تھی، اچانک حماس کوکیاہوگیاکہ وہ ہاتھی سے ٹکراگیا؟ اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں ایک لمبی تاریخ کامطالعہ کرناہوگا، جس کی شروعات 1914سے ہوتی ہے، جس میں پہلی جنگ عظیم کی ابتداہوئی، جس میں ایک طرف الائنس(Alliance)طاقتیں (امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور اٹلی وغیرہ)شامل تھیں، جب کہ دوسری طرف سلطنت عثمانیہ، جرمنی اور عثمانی سلطنت تھے، ابتدا میں سلطنت عثمانیہ کاپلڑا بھاری تھا، پھراپنوں کی حرص اورغداری نے جیتی جنگ کوہارمیں بدل دیا، جس کے نتیجہ میں برطانیہ نے نومبر 1917 میں غزہ پر اور دسمبر1917میں یروشلم اوربیت المقدس پرقبضہ کرلیا، پھر1918میں شام کے دیگرعلاقے فلسطین، لبنان، حلب اورحمص بھی برطانیہ افواج کے زیرنگین آگئے۔
اس جنگ کے دوران برطانیہ نے اپنی خست اورکمینگی کے کئی نمونے پیش کئے، شریف مکہ سے کہاکہ ترکوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی صورت میں ہم تمہیں عرب کی بادشاہت سونپیں گے، جب کہ خفیہ طورپرفرانس سے یہ معاہدہ بھی کررہا تھا کہ جنگ جیتنے کے بعدعرب کے فلاں فلاں علاقے آپ کے ہوں گے اور فلاں فلاں ہمارے، تیسری طرف یہودیوں کواپنے ساتھ شامل رکھنے کے لیے یہ لالچ بھی دے رہاتھا کہ جنگ جیتنے کے بعدہم فلسطین میں یہودیوں کی ایک ریاست بنادیں گے؛ چنانچہ برطانیہ کے وزیرخارجہ جیمس بالفور نے 2 /نومبر1917کوصہیونی تنظیم کے نمائندہLord Rothschildکوایک خط لکھا، جس میں یہ بات واضح کی حکومت برطانیہ پوری ذمہ داری کے ساتھ فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کاارادہ رکھتی ہے، یہی وہ خط ہے، جس کی بنیاد پراسرائیل کی ریاست قائم ہوئی۔
اسی سازش کی تکمیل کے لیے برطانیہ نے فلسطین کواپنی ماتحتی میں رکھااوروہاں اپنا ہائی کمشنرقائم کردیا، جس کوتمام طرح کے اختیارات دئے گئے تھے، اس نے یہودیوں کی آبادکاری کے لیے کئی طریقے اختیار کیے:یہودیوں کواجازت دی کہ یہاں کے باشندوں سے زمین خرید کر آباد ہوسکتے ہیں، یہودیوں کوسرکاری زمینوں کے بڑے بڑے رقبے کہیں مفت اورکہیں معمولی قیمت پردیں، دوسری طرف عربوں پربھاری ٹیکس لاگوکیا اورعدم ادائیگی کی صورت میں زمینیں ضبط کرلی گئیں، بعض مقامات پرحیلے بہانے سے پورے پورے عربی گاؤں کاصفایاکرکے وہاں یہودیوں کوآبادکردیاگیا، اس طرح فلسطین میں یہودیوں کی آبادی دن بدن بڑھتی رہی، 1922 میں ان کی تعداد82 /ہزارسے کچھ زائدتھی؛ لیکن 1936 میں ساڑھے چارلاکھ تک پہنچ گئی۔
پہلی جنگ عظیم سے پہلے فلسطین میں جویہودی آباد تھے، ان کے پاس فلسطین کی 11%زمین تھی اورباقی 89%عرب فلسطینیوں کے پاس تھی؛ لیکن تیس سالوں کی کوشش اورمحنت سے یہودیوں کے پاس فلسطین کی 55%زمین چلی گئی، پھردوسری جنگ عظیم(1939-1945ء) کی وجہ سے فلسطین میں یہودیوں کی آبادی کابے حد اضافہ ہوگیا؛ کیوں کہ ہٹلرنے جرمنی سے ان کامکمل صفایاکرناشروع کردیاتھا، جس کی وجہ سے وہ لوگ بھاگ بھاگ کروہاں پناہ گزین ہوگئے، جس کی وجہ سے زمینی تبدیلی کے ساتھ ساتھ آبادی کاتناسب بھی مکمل طورپربدل گیااور یہودیوں کی رہائش کے لئے تہتر (73) نئی بستیاں بسائی گئیں، اس صورت حال کودیکھ کر فلسطینی پریشان ہوئے اوراس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً جھگڑے بھی ہونے لگے، آہستہ آہستہ یہ جھگڑے خوفناک ہوتے گئے۔
اسرائیلی اورفلسطینیوں کے درمیان رونماہونے والے فسادات کودیکھ کرامریکہ اوربرطانیہ نے ایک رائل کمیشن قائم کی، جس نے صورت حال کاجائزہ لے کربتایاکہ اسرائیلی ظلم کرتے ہوئے فلسطینیوں کودبانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں یہ فسادات رونماہوتے ہیں، یہ بات بھی کہی گئی کہ اس مسئلہ کاحل بس یہ ہے کہ دوریاستیں قائم کردی جائیں، ایک اسرائیلیوں کے لیے اور دوسری فلسطینیوں کے لیے، جس کو اسرائیلی اورفلسطینی دونوں نے رد کردیا، پھراسرائیلی اورفلسطینی دونوں کی طرف سے اپنے اپنے تحفظ کے لیے مزاحمتی جماعتیں قائم ہونے لگیں، جن کے درمیان ٹکراؤبھی کافی خوفناک ہوتا تھا، ان سب چیزوں سے برطانیہ کافی پریشان تھا؛ چنانچہ جیسے ہی تیس سالہ معاہدہ اس کاختم ہوا، اس نے وہاں سے اپنے جانے کافیصلہ کیا؛ لیکن خاموشی کے ساتھ چلے نہیں گئے؛ بل کہ فلسطین کے امن کوغارت کرنے کے لیے 14/مئی1948ء کو رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے وجود کااعلان کردیا، اس کوقبول بھی کرلیا، امریکہ نے بھی قبول کیا اوران کے جوحلیف ممالک تھے، ان میں بہتوں نے اس کوقبول کرلیا، پھریہ قراداداقوام متحدہ میں پیش کی گئی اوروہاں بھی اسے تسلیم کرلیاگیا؛ لیکن عربوں کویہ تسلیم نہیں تھا۔
اگربات یہیں پرختم ہوجاتی تو شایدعرب فلسطینی آنسو بہاکر کچھ سالوں کے بعد خاموش ہوبیٹھتے؛ لیکن اسرائیلیوں نے اس حدپراکتفانہیں، جتنی زمین پر ریاست اسرائیل کوقائم کرکے یہودیوں کے حوالہ کیاگیا، انھوں نے اپنی سرحدوں کووسیع کرناشروع کردیا، جس کا خطرہ اردن، مصراورشام نے محسوس کیا، لہٰذا ان لوگوں نے اپنی سرحدوں پرفوجیں تعینات کردیں، جس کے نتیجہ میں چھوٹی موٹی چھڑپیں اسرائیل کے ساتھ ہوتی رہتی تھیں،جو1963اور 1973میں بڑی جنگ کی شکل میں نمودار ہوئی، جس کے بعدآپسی مصالحت کے لیے ”کیمپ ڈیوڈ اگریمنٹ“ (Camp David Agreement)کے نام سے ہوا، اس اگریمنٹ کے بعدفلسطین کومزیدبے یارومددگار کرکے چھوڑ دیا گیا، اب فلسطینی یہ سمجھ گئے کہ اپنی زمین کی حفاظت کے لیے جوکچھ بھی کرناہے، خود ہی کرناہے، اس کے لئے کئی گروپ وجود میں آئے، جن میں سے ایک یاسرعرفات کی ”الفتح“ بھی تھی، ابتدامیں تواس نے کچھ کام کیا؛ لیکن بعد میں یہ جماعت بالکل ناکارہ ہوکررہ گئی اور13/ستمبر1993ء کو اسرائیل اور یاسرعرفات کے درمیان ”اوسلو“ معاہدہ کے ہونے کے بعدتووہ امریکہ کاہی پٹھوہوکررہ گیا تھا، جس کی وجہ سے دوسری تحریک شروع ہوئی، شیخ احمدیاسین نے فلسطینیوں کے سردپڑتے ہوئے جذبوں کوحوصلہ دیا،ان کو 1987ء میں اس وقت عالمی شہرت حاصل ہوئی، جب وہ انتفاضہ اول کے وقت سامنے آئے، اس وقت فلسطینی اسلامی تحریک نے ”حماس“کانام اختیارکیا، ان کانظریہ یہ تھا کہ اگرہمارے پاس ہتھیارنہیں ہیں توکیاہوا؟ ہمارے پاس پتھرہیں، ہم وہی ماریں گے، غلیل ہیں، ان سے حملہ کریں گے اورپھرزمانہ نے دیکھا کہ ایک طرف اسرائیل کی بکتربندگاڑیاں ہوتیں اوردوسری طرف لوگوں کے ہاتھ میں پتھرہوتے اوروہ ان سے بکتربندگاڑیوں پرحملہ کرتے، اس طریقہ سے ظاہرہے کہ جدیددورکے ہتھیارسے لیس اسرائیلیوں سے جنگ جیتی نہیں جاسکتی ہے؛ لیکن دراصل اس کے ذریعہ سے انھوں نے عالمی برادری کویہ جتلایااوران کی سوئی ہوئی ضمیرکوجگانے کی کوشش کی کہ ہم نہتے لوگ ہیں، ہمارے پاس کسی قسم کاہتھیارنہیں ہے، ہم ظالم نہیں ہے، ہم مظلوم ہیں، ہم تواپنادفاع بکتربندگاڑیوں کے مقابلہ میں پتھر سے کررہے ہیں۔
جس وقت اسرائیل کا وجود ہوا تھا، اس وقت (1948ء) اس کا رقبہ7,993مربع میل یعنی 12,863 کلومیٹرتھا، جب کہ آج اس کے پاس 13,760مربع میل یعنی 22,145کلومیٹرسے بھی زیادہ ہے، نقشہ کودیکھ کر اس کااندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وجود کے وقت اس کانقشہ کیساتھا اورآج کیساہے؟ یہ رقبہ اسے کہاں سے حاصل ہوا؟ نہتے فلسطینیوں کو در بدر اور بے گھرکرکے، اب خود ہی فیصلہ کیاجائے کہ فلسطینی اپنی زمین کے لیے مزاحمت کریں گے یا نہیں؟ اوراس مزاحمت میں وہ مظلوم ہیں یاظالم؟
اس وقت بھی جولڑائی چل رہی ہے، وہی زمین کی لڑائی ہے، اسرائیل نے تومسلسل پچاس سالوں سے فلسطینیوں پرظلم وستم کی انتہاکررکھی ہے، اس نے نہتے فلسطینیوں کے خون سے سرزمین فلسطین کولالہ زارکررکھا ہے، آج تک عالمی طاقتوں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوئی کہ اسرائیل کامقاطعہ کردیاجائے، اس کے ظلم کے خلاف دوبول بول کرمظلوم فلسطینیوں کوتسلی دی جائے، آج جب پچاس برس کے ظلم سہنے کے بعدحماس کوکچھ طاقت حاصل ہوئی ہے اوراس نے اسرائیل پرایساحملہ کیا، جس کی دنیاکوامیدنہیں تھی توسارے منافق ممالک کی آوازیں نکلنے لگیں، امریکی صدرجوبائیڈن یہ کہہ اٹھے کہ”حماس کے حملوں کاجواب دینااسرائیل کاحق اورفرض ہے“، سوال یہ ہے کہ یہ حق بچاس سالوں سے فلسطینیوں کوکیوں نہیں تھا؟
مذکورہ سطورسے یہ بات معلوم ہوگئی ہوگی کہ حماس نے اسرائیل پرحملہ کیوں کیا؟ اور حماس ہی کیا، اس کی جگہ کوئی دوسرابھی ہوتا تووہ یہی کرتا، جوحماس نے کیا ہے، کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پرحملے کرکرکے ایک قید خانے میں تبدیل کردیاہے، خود ہی اندازہ لگایئے کہ ریاست کے قیام کے وقت جس اسرائیل کا رقبہ 12,863کلومیٹرتھا، آج وہ بڑھ کر 22,145کلومیٹرسے بھی زیادہ کیسے ہوگیا ہے؟ جوبھی کھلے دل سے سوچے گا، وہ یہی کہے گاکہ اسرائیل کی بجائے فلسطین کوجواب دینے کا پورا پورا حق ہے اوراسی حق کا اس نے اس وقت بھی استعمال کیا ہے اوردنیا کویہ بتادیا ہے کہ اب زمانہ وہ نہیں ہے، جس میں دامن بچاکر، کنارے کنارے جاؤ، اس کولوگ بزدلی سمجھتے ہیں اوردباتے جاتے ہیں، جیسی حالت آج فلسطین کی ہوگئی ہے؛ اس لئے اب بھنورسے لڑناپڑے گا اور تندلہروں سے ٹکراناپڑے گا، خواہ وہ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو؟تب جاکرتمہیں اپنا حق ملے گا:
بھنورسے لڑو، تندلہروں سے الجھو
کہاں تک چلوگے کنارے کنارے
٭٭٭

a3w
a3w