بی جے پی‘ مسلم مُکت‘ اسمبلیاں چاہتی ہے: دانش علی
دانش علی نے کہا کہ بی جے پی نے کہاتھا کہ وہ کانگریس مکت بھارت چاہتی ہے لیکن اس کا اصل مقصد اپوزیشن مکت بھارت تھا۔ اس کا اصل مقصد ملک میں مسلم مکت اسمبلیاں اور پارلیمنٹ دیکھنا ہے۔ وہ اسی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔
نئی دہلی: بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) کے رکن پارلیمنٹ دانش علی نے اتوار کے دن بی جے پی کی پسماندہ مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش کو مذاق قراردیا۔ انہوں نے الزام عائد کیاکہ برسراقتدار جماعت سارے ملک میں ”مسلم مکت“ اسمبلیاں چاہتی ہے۔ انہوں نے بی جے پی پر ”اکثریتی فرقہ کی خوشامد“ اور اقلیتوں کو ”جھوٹے کیسس“ درج کرتے ہوئے اور بلڈوزروں سے مکانات ڈھاکرنشانہ بنانے کا الزام عائد کیا۔
اترپردیش کے حلقہ امروہہ کے رکن پارلیمنٹ نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر ان جماعتوں کی جنہیں اقلیتی فرقہ ووٹ دیتاآیا ہے‘ اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسلم مسائل اٹھائیں لیکن ”اکثریتی فرقہ کی سیاست“ کے اس دور میں مسلمانوں کے مسائل درکنارہوگئے ہیں۔
دانش علی نے پی ٹی آئی کو انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں قائل ہوگئی ہیں کہ اقلیتی مسائل کی یکسوئی یا انہیں پوری قوت سے اٹھانا نقصاندہ ثابت ہوگا۔ اکثریتی فرقہ کے ووٹ نہیں ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسیاسی جماعت مسلمانوں کے مسائل اٹھانے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔
دانش علی نے کہا کہ بی جے پی نے اتنی نفرت پھیلادی ہے کہ حقیقی مسائل سے توجہ ہٹ گئی ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نے الزام عائد کیاکہ اس حکومت کی پالیسی اکثریتی فرقہ کی خوشامدکرنا ہے۔ مودی حکومت کی پالیسیوں کا مقصد نفرت کی خوشامد ہے۔
یہ لوگ خوشامد کی باتیں کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی حکومت اکثریتی فرقہ کی خوشامدکررہی ہے۔ بی جے پی کی خوشامد بتاتی ہے کہ کس طرح حقائق کی جانچ کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالاجارہا ہے اور نفرت پھیلانے والوں کو سیکیوریٹی دی جارہی ہے۔ دانش علی بظاہر آلٹ نیوز کے محمد زبیر کے کیس کا حوالہ دے رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کہتی ہے کہ پچھلی حکومتوں میں مسلمانوں کی خوشامد ہوئی‘ حالانکہ اس کی تردید سچرکمیٹی رپورٹ سے ہوجاتی ہے۔ اگرمسلمانوں کی خوشامدہوئی ہوتی تو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ انہوں نے سوال کیاکہ آج سری لنکا میں کیا ہورہا ہے؟ وہاں بھی اکثریتی فرقہ کی خوشامدہورہی تھی۔ ہمارے ملک میں یہی ہورہا ہے۔
سری لنکا میں توجہ معاشی مسائل پر نہیں تھی۔ زرعی شعبہ پر بھی نہیں تھی۔ معاشی مسائل پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم ہرشعبہ میں پچھڑ رہے ہیں۔ حکومت‘ اکثریت کو خوش کرنے کی چکر میں ہے کیونکہ وہ سوچتی ہے کہ یہ اس کی بقا کا بہترین راستہ ہے۔
وزیراعظم نریندرمودی کے اس مشورہ کے بارے میں پوچھنے پر کہ بی جے پی ورکرس پسماندہ مسلمانوں تک پہنچیں اور ان کا دل جیتیں‘ دانش علی نے کہا کہ یہ ایک مذاق ہے۔ کیاکسی نے انہیں اترپردیش الیکشن میں مسلمانوں کو میدان میں اتارنے سے روکا تھا؟۔
دانش علی نے کہا کہ بی جے پی نے کہاتھا کہ وہ کانگریس مکت بھارت چاہتی ہے لیکن اس کا اصل مقصد اپوزیشن مکت بھارت تھا۔ اس کا اصل مقصد ملک میں مسلم مکت اسمبلیاں اور پارلیمنٹ دیکھنا ہے۔ وہ اسی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ مسلم مکت بی جے پی پارلیمانی پارٹی کے حصول میں کامیاب ہوچکی ہے۔
انہوں نے الزام عائدکیاکہ بی جے پی سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کو بے اختیارکرناچاہتی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہی ہے۔ بی جے پی‘ اقلیتی مورچہ نے پسماندہ مسلمانوں تک رسائی کا بلوپرنٹ تیارکیا ہے۔ دانش علی اسی پس منظر میں اپنی رائے ظاہرکررہے تھے۔
پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کا پہلا ہفتہ رائیگاں جانے کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو اپنی حکمت عملی پردوبارہ غورکرنا ہوگا۔ انہوں نے دعویٰ کیاکہ حکومت چاہتی ہے کہ اجلاس کا ابتدائی مرحلہ ضائع ہوجائے کیونکہ پہلے ہفتہ میں ہی حکومت سے اہم سوالات کئے جاتے ہیں۔ اپوزیشن کو اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی۔
دانش علی نے حکومت کی اس بات سے اتفاق نہیں کیاکہ مہنگائی پر بحث وزیرفینانس نرملاسیتارمن کے کووڈ سے صحتیاب ہونے کے بعد ہوگی۔ بی ایس پی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ بحث ابھی ہوسکتی ہے، جونیر وزیر نوٹس لے سکتا ہے۔ وزیرفینانس اپنے کمرہ سے اس کا مشاہدہ کرسکتی ہیں اور صحتیاب ہونے کے بعد ایوان میں بیان دے سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بحث سے بچناچاہتی ہے۔