مضامین

ترکیہ و شام: قیامت خیز زلزلے کے آثار موجود تھے

پروفیسر سیما ناز صدیقی

6 /فروری 2023 ء یوں تو ایک معمول کا دن تھا، لیکن اس روز صبح چار بج کرسترہ منٹ پر ترکیہ اور شام میں گویا قیامتِ صغریٰ برپا ہوگئی۔ صوبہ کہر مان، غازی انتب اور حاطے کے علاوہ دیگر دس سے زائد شہروں میں آنے والے زلزے نے ساری دنیا، بالخصوص مسلم دنیاکو ہلاکے رکھ دیا۔ ہر ایک اس تباہی پر انگشت بدنداں نظر آرہاہے۔
بظاہر تو یہ تمام علاقے محض ایک سے دومنٹ ہی زلزلائی جھٹکوں کی زَد میں رہے، مگر 7.8ریکٹر اسکیل پر شدّت کے حامل پہلے ہی جھٹکے نے، جس کا مرکز تقریباً23 کلو میٹر جنوب اور 17.9کلو میٹر کی گہرائی میں تھا، زمین اور اہلِ زمین کو لرزاکر رکھ دیا۔ شدید سرد موسم میں رات کی سیاہی ختم ہونے سے قبل جنم لینے والے پہلے زلزلے اور اس کے بعد آنے والے دوسرے زلزلے کے شدید جھٹکوں نے روئے زمین پر تباہی کی وہ داستان رقم کی، جوصدیوں تک نہ بھلائی جا سکے گی۔
نیز، ایک سو سے زائد کم شدت کے حامل آفٹر شاکس نے بھی کچھ کم تباہی نہیں پھیلائی۔ ترکیہ اور شام میں آنے والی اس قدرتی آفت سے متاثرہ شہر تباہی و بربادی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ملک ِ شام میں ہونے والی تباہی کی داستان تو اور بھی الم ناک ہے کہ وہاں توماضی میں ہو نے والی جنگ اور خانہ جنگی نے ویسے ہی عوام کو بے حال، فاقوں پہ مجبور اور شمالی شام کی عمارات کو حد درجہ کم زور اور مخدوش کر رکھا تھا اور اب رہی سہی کسر زلزلے نے پوری کر دی۔ زلزلے کے بعد دونوں ممالک کے 10 سے زائد شہروں میں ایمر جنسی نافذ کر دی گئی، جب کہ بے شمار ریسکیو ورکرز دن رات کام میں مصروف ہیں۔ نیز، بیرونی ممالک سے بھی مسلسل امداد کا سلسلہ اور دیگر اقدامات جاری ہیں۔ عوامی، فلاحی اداروں اور عوام الناس نے بھی عطیات جمع کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔
یہ تمام امور لزلے کی تباہ کاریاں، نقصانات، امدادی کارروائیاں وغیرہ تو اپنی جگہ، مگر ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہے، ہر کسی کے دل میں بارہا یہ خیال آرہا ہے کہ ”آخر ان دونوں ممالک میں اتنا شدید زلزلہ کیوں آیا؟“ ساتھ ہی ایک سوال اور بھی سر اْٹھا رہا ہے کہ محض چند دن قبل نیدر لینڈز کے معروف محقق، فرینک ہْوگر بیٹس (Frank Hooger Beats)نے اس زلزلے کی آمد کی اتنی درست پیش گوئی کیسے کر دی تھی، جب کہ ماہرین ِ ارضیات جانتے ہیں کہ عموماً زلزلوں کی آمد کے درست وقت کی پیش گو ئی کرنا قریباً ناممکن ہی ہے۔ اب جہاں تک زلزلے کا تعلق ہے، تو جولوگ ”پلیٹ ٹیکٹونکس“ کے نظریے سے واقف ہیں، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ زلزلے بھی ٹیکٹونکس پلیٹس ہی کی حرکات کا نتیجہ ہیں۔
ہماری زمین، اپنی ساخت کے اعتبار سے بظاہر گیند نما ہے، مگر اندرونی طور پر انڈے سے گہری مشابہت رکھتی ہے، توزمین کی جس تہہ پر ہم رہتے بستے ہیں، یوں سمجھ لیجیے کہ ہم انڈے کی بیرونی تہہ کے اوپر رہ رہے ہیں اور زمین کی یہ تہہ قشر (Crust) کہلاتی ہے۔ اس قشر کے نیچے انڈے کی سفیدی کی طرح زمین میں مینٹل (Mantal)موجود ہے، جو گاڑھے مائع کی حالت میں ہے، جب کہ زردی کی طرح زمین کے بالکل مرکز میں قلب (Core)ٹھوس حالت میں ہے۔ پلیٹ ٹیکٹونکس کے حوالے سے اگر دیکھیں، تو مکمل کرسٹ اور مینٹل کا بالائی حصّہ مل کر ٹھوس شکل اختیار کر لیتے ہیں۔یہ حصّہ استھینواسفیر (Asthenosphere) کہلاتا ہے۔
یہی استھینواسفیر اندونی مینٹل کے گرم مائع کے اوپر دباؤ اور درجہ حرارت کے بڑھنے پر ٹوٹ کر مختلف جسامت کے چھوٹے، بڑے بلاکس بناتا ہے اور یہی بلاکس ”ٹیکٹونکس پلیٹس“ کہلاتے ہیں،جو مستقل حرکت میں رہتے ہیں۔گو کہ یہ حرکت سال میں چند سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں ہوتی، مگر اس کے اثرات بڑے گمبھیر، خوف ناک اور شدید ہوتے ہیں۔ ترکیہ میں آنے والے حالیہ زلزلے میں بھی انہی پلیٹس کا نمایاں کردار ہے۔
ترکیہ ویسے بھی عربین، افریقن، اناطولین اور یوریشین پلیٹوں کے ایک پیچیدہ قسم کے دراڑی نظام(Faulting System) پر مشتمل ہے۔ پلیٹس جہاں ختم ہوتی ہیں، وہاں دراڑ(Fault)نمایاں ہوتی ہے۔ پھر یہ دراڑیں ہی دراصل زلزلے کا سبب بنتی ہیں۔ ترکیہ کے قریب جزیرہ نما عرب واقع ہے، جو خود عربین ٹیکٹونی پلیٹ کا حصّہ ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب، آہستہ آہستہ شمال کی جانب کھسک کر یوریشن پلیٹ کے قریب ہو رہا ہے اور اس کی یہ قربت کی چاہت ہی علاقے کے قرب و جوار میں زلزلوں کا باعث بنتی ہے۔
عربین پلیٹ اپنی حرکت کے باعث ترکیہ سے ٹکراتی ہے اور خود ترکیہ اپنے شمال مغرب کی جانب یوریشن پلیٹ کی جانب حرکت کرتا ہے، یہی حرکت ماضی میں بھی ترکی میں شمالی اناطولی فالٹ میں بہت بڑی بڑی شدّت کے زلزلوں کا باعث بنتی رہی ہے۔ حالیہ زلزلے میں اس فالٹ پر دباؤ اور سر گرمی اتنی بڑھی کہ یہ فالٹ مشرق کی جانب بڑھ گیا اور ترکیہ ہی کے مشرق میں ایک مشرقی اناطولی فالٹ تشکیل پایا۔
یہ بالکل کیلی فورنیا میں پائے جانے والے سین انڈریسز(San Andreas) فالٹ کی طرح متواز ی یا ٹرانسفارم قسم کا ہے۔ یاد رہے، حالیہ زلزلہ اسی فالٹ پر سب سے پہلے وقوع پذیر ہوا۔ عربین پلیٹ اور مشرقی اناطولی پلیٹ، جو ماہرین کے مطابق4 سینٹی میٹر سالانہ کے حساب سے یوریشین پلیٹ کی جانب کھسک رہی ہے، عربین پلیٹ کے متوازی کھسک گئی اور زلزلہ آگیا۔ اس سے قبل بھی اس فالٹ پر تقریباً80 سال پہلے بہت بڑا زلزلہ آیا تھا۔ ویسے تو اس فالٹ پر چھوٹے موٹے زلزلے معمول کا حصہ تھے۔ پھر شاید کچھ لوگ یہ بھی سمجھ رہے ہوں کہ 80 سال پہلے آنے والا زلزلہ دوبارہ نہیں آسکتا، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے، کیوں کہ فالٹ کی گہرائی میں وہ تمام قوتیں موجود ہی رہتی ہیں، جو توانائی بننے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ زیرِ زمین یہ توانائی جمع ہوتی رہتی ہے اور جب یہ بہت بڑھ جاتی ہے،تو اس کا اخراج زلزلے کی شکل میں ہوتا ہے۔ 80 سال قبل گر چہ توانائی تو خارج ہوگئی تھی، مگر زیرِ زمین نئی توانائی جمع ہوتی رہی،جو 6 فروری 2023 ء کو زلزلے کی صورت میں ایک بار پھر خارج ہوئی۔ یاد رہے، یہ تحقیق پہلے زلزلائی جھٹکے کی بابت ہے، جب کہ دوسرا جھٹکا،جو کئی گھنٹوں بعد آیا، وہ اس کے قریب ہی واقع ایک ایسے مقام سے شروع ہوا، جہاں عربین، اناطولین اور افریقن پلیٹس ایک دوسرے کی جانب حرکت کر تے ہوئے ایک پیچیدہ فالٹنگ کا نظام بناتی ہیں۔ پہلے جھٹکے سے یہ پلیٹس غیر متوازن ہوئیں اور اْن کی جمع شْدہ توانائی، کئی گھنٹوں بعدخارج ہوئی، جب کہ اس کے بعد بھی آفٹر شاکس توانائی کی تھوڑی تھوڑی مقدار مسلسل خارج کر رہے ہیں۔
اب جہاں تک نیدرلینڈز کے محقّق، فرینک ہوگر بیٹس کا تعلق ہے،تو اس نے اپنی تحقیق کے بعد بذریعہ ٹوئٹ پہلے ہی بتادیا تھا کہ ان علاقوں میں اس شدّت کا زلزلہ متوقع ہے، مگر غور کریں تو صحیح وقت وہ بھی نہیں بتا پایا تھا، کیوں کہ زلزلہ ایک ایسی قدرتی آفت ہے،جس کی قبل از وقت، حتمی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ ہو سکتا ہے، اس نے اپنے جیو میٹریکل علم سے زمین کی گردشی حرکت وغیرہ میں کوئی تبدیلی دیکھ کر کچھ کہا ہو، مگر کوئی بھی علم تاحال اس قدر ماہر نہیں ہوا کہ زلزلے کی آمد سے متعلق حتمی طور پر کچھ بتاسکے کہ کب آئے گا، کس نوعیت کا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ویسے بھی یہ تو اللہ کی قدرت ہے، وہ جہاں چاہے، جو چاہے کرے، کسی انسان کی کیا مجال کہ وہ پہلے سے ان باتوں سے متعلق جان سکے۔ ہاں، البتہ اس حوالے سے قیاس ضرور کیا جاسکتا ہے کہ عن قریب زلزلہ آئے گا، لیکن اس عن قریب کا مطلب ایک دن بعد بھی ہوسکتا ہے اور ایک سال بعد بھی۔ یہ ضرور ہے کہ زلزلہ آنے سے کچھ روز پہلے جانوروں میں ایک طرح کی بے چینی سی پھیل جاتی ہے، وہ شور مچانے لگتے ہیں، خصوصاً پرندے غیر معمولی طور پر اْڑنے یا پاؤں پٹخنے لگتے، رسّیاں تڑوانے لگتے ہیں۔
اس کے علاوہ چند گھنٹوں قبل زمین سے ریڈان گیس کا اخراج بھی شروع ہو جاتا ہے، جسے محسوس کرکے چند لمحات یا گھنٹوں قبل تو زلزلوں کا بتایا جاسکتا ہے، مگر حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ ویسے یاد رہے، ترکیہ اور شام میں زلزلہ آنے کی پیش گوئی صرف نیدرلینڈز کے محقّق ہی نے نہیں کی تھی بلکہ خود ترکیہ کے کئی قابل اور مستند ماہرِ ارضیات بھی تحقیق کی روشنی میں خبر دار کر چکے تھے کہ یہاں عن قریب شدید نوعیت کا زلزلہ متوقع ہے۔
بہرحال، زلزلہ تو آچکا، اس کی شدت، تباہی بھی سب ہی نے دیکھی اور بعد اَز اثرات بھی دیکھیں گے، مگر اسی کے ساتھ برصغیر ہند میں زلزلہ آنے کی قیاس آرائیوں، افواہوں اورتجزیات کا گویاایک سیلاب اْمڈ آیا ہے، یہاں تک کہا جارہا ہے کہ نیدرلینڈز کے محقق ہی نے پاکستان، افغانستان، ایران اور بھارت وغیرہ میں بھی آئندہ چند روز میں ایک بڑے زلزلے کی پیش گوئی کی ہے۔ لیکن، ارضیات کا تھوڑا بھی شعور رکھنے والا یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ فی الحال ایسا ہونا ممکن نہیں کہ ترکیہ اور شام کے زلزلے کے جھٹکے یہاں تک آکر تباہی پھیلائیں۔ مانا کہ فالٹ لائن اس خطہ سے منسلک ضرور ہے، مگر یہ طویل ترین فاصلے پر ہے، وہاں سے یہاں تک توانائی پہنچتے پہنچتے قریباً ختم ہی ہو جائے گی۔ نیز، یکے بعد دیگرے بڑی شدّت کے زلزلے اورایک سو سے زائد آفٹرشاکس بڑی حد تک جمع شدہ توانائی ختم کر چکے ہیں۔
عالمی ثقافتی ورثہ شدید متاثر…
ترکیہ اور شام میں شدید نوعیت کے دو زلزلوں اور آفٹر شاکس کے ایک طویل سلسلے سے اِس قدیم خطّے میں موجود کئی تاریخی یادگاریں، عمارات بھی یا تو مکمل یا جزوی طور پر تباہ و برباد ہوگئی ہیں اور اِن میں کچھ ایسی عمارات بھی شامل ہیں، جو صدیوں سے کئی جنگوں اور قدرتی آفات کے باوجود محفوظ تھیں۔
خصوصاً ملکِ شام کے فنِ تعمیر کے ایسے کئی نمونے، جنہیں انسانی تہذیب کے گہواروں میں شمار کیا جاتا تھااور جو 12 سال سے جاری خانہ جنگی کے باوجود بھی محفوظ تھے، حالیہ زلزلے کی زَد میں آکر نیست و نابود ہوگئے ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ خطّے کی ثقافتی میراث کو مزید نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ ہے۔ جب کہ ترکیہ حکومت کا بھی کہنا ہے کہ ”مْلک میں قریباً 6 ہزار عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔“ نیز، یونیسکو نے بھی خبردار کیا ہے کہ زلزلے سے ”عالمی ثقافتی وَرثے“ میں شامل متعدد سائٹس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔

a3w
a3w