سیاستمضامین

تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

انگریزوں کی سامراجیت سے آزاد ہوجانے والا ہندوستان آج پھر ایک بار ان ہی کی جانب سے بوئے ہوئے فرقہ پرستی کے بیج کا پھل کاٹنے لگا ہے۔ ذات پات‘ علاقہ واریت اور لسانی عصبیت کا ایک گندہ ناچ آج ملک کے کونے کونے میں ناچاجارہا ہے۔ انصاف‘ عدلیہ ‘انتظامیہ اور نام نہاد جمہوریت یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ کر ایسے آنکھیں بند رکھی ہیں جیسے بجلی کی کڑک کے دوران آنکھیں موند لی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

گوتم بدھ نے کہا تھا کہ ’’ نفرت کو محبت سے کم کرو کیوں کہ نفرت سے نفرت کبھی ختم نہیں ہوتی ‘‘ ۔ نفرت کی یہ سیاست لوگوں کی آنکھ میں آنسو لارہی ہے۔ گوتم بدھ نے شاید ایسی ہی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ اگر سات سمندروں کا پانی اکٹھا کرلیا جائے اور انسانوں کے آنکھوں کا پانی یکجا کیا جائے تو انسانوں کے آنسوؤں کا پانی سات سمندروں کے پانی سے زیادہ گہرا ہوگا‘‘۔ ادھر تلسی داس نے کہا تھا کہ ’’ غریب کی آہ خدا سے بھی سہن نہیں ہوتی۔ کیوں کہ وہ مردہ کھال کے پھونکنے سے لوہا بھی پگھل جاتا ہے‘‘۔
انگریزوں کی سامراجیت سے آزاد ہوجانے والا ہندوستان آج پھر ایک بار ان ہی کی جانب سے بوئے ہوئے فرقہ پرستی کے بیج کا پھل کاٹنے لگا ہے۔ ذات پات‘ علاقہ واریت اور لسانی عصبیت کا ایک گندہ ناچ آج ملک کے کونے کونے میں ناچاجارہا ہے۔ انصاف‘ عدلیہ ‘انتظامیہ اور نام نہاد جمہوریت یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ کر ایسے آنکھیں بند رکھی ہیں جیسے بجلی کی کڑک کے دوران آنکھیں موند لی جاتی ہیں۔
ایسے میں سپریم کورٹ کی جانب سے کئے گئے اس تبصرے سے نفرت سے بھرپور تقریروں پر قابو پایا جاسکتا ہے جس میں عدالت العالیہ کے جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس ای وی ناگارتنا نے یہ تاثر دیا ہے کہ عزت ووقات ایک بہت بڑا عمل ہے۔ انہوں نے ان بیانوں کا حوالہ دیا جس میں یہ کہا گیا کہ پاکستان چلے جاؤ… حالانکہ ان لوگوں نے مادرِ ہند کو پاکستان پر فوقیت دی ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کے مسلمانوں نے پاکستان کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے ہندوستان کو گلے لگالیا۔ کورٹ نے نفرت خیز تقریریں کرنے والوں کو خبردار کیا کہ یہ تمہارے بھائی بہن ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس تاثر کا بھی اظہار کیا کہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے۔ نفرت انگیز تقریریں ایک وحشیانہ عمل ہے جس پر فوراً روک لگانے کی ضرورت ہے۔ اشارتاً آج کے سیاست دانوں کی تنگ نظری کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جب پنڈت جواہر لال نہرو اور اٹل بہاری واجپائی کہیں تقریر کرتے تو دور دراز کے لوگ بھی انہیں انہماک سے سننے جلسہ گاہ پہنچ جاتے تھے۔ یہ تو رہی سپریم کورٹ کی بات لیکن سسچائی یہ ہے کہ سماج دشمن بلکہ قوم دشمن غنڈے جو منہ میں بکے جارہے ہیں۔ نفرت کی سیاست کے ذریعہ اقتدار تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن ملک کے اتحاد ‘ بھائی چارے اور یکجہتی کو بچایا نہیں جاسکتا۔ ایک لیڈر نے تو یہ کہہ کر حد ہی کردی کہ ’’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘‘ ۔ اگر حق پرستی کی بات کی گئی تو ایسے ہی عناصر کو بلا مبالغہ نہ صرف غدار کہا جانا چاہیے بلکہ ان کو فی الفور جیل کی اندھیری کوٹھریوں میں ڈھکیل دینا چاہیے۔ یقینا ان کے خلاف سخت سے سخت سزائیں تجویز کرنی ہوں گی۔ ہندوستان کا دستور یہ کہتا ہے کہ یہ ملک جمہوری ہے اور اس کے ہر باشندے کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور یہاں کسی ذات یا کسی فرقے کے آدمی کو کسی دوسرے فرقے یا ذات پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ نفرت کی سیاست کرنے والے قائدین ہر جماعت میں ہیں لیکن بھاجپا کی بنیاد ہی مذہبی منافرت پر ہے۔ اس نفرت کی تازہ مثال کرناٹک میں مسلمانوں کے چار فیصد تحفظات کو ختم کرنا ہے۔ بی جے پی سال کے 365 دن نفرت کی سیاست ہی میں جٹی رہتی ہے۔ حالانکہ قانون میں نفرت انگیز تقریروں یا تبصروں پر پابندی ہے لیکن ان کے خلاف قانونی کارروائی کی عدم موجودگی میں ان گندے عناصر کو بار بار سماج کو توڑنے کی طاقت دے رکھی ہے ۔ سپریم کورٹ میں نفرت کی سیاست کے خلاف چل رہے مقدمہ میں کوئی طاقتور فیصلہ اس طرح کی تقریروں کے خلاف آتا ہے تو یہ ملک کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی لارڈ رام کے نام پر نفرت کی سیاست چلارہی ہے جبکہ رام جی محبت‘ اخوت ‘ بھائی چارہ اور قربانی کی ایک عظیم مثال رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی ماتا کی خواہش اور پتا جی کے حکم کی تعمیل میں چودہ سال کا بن باس کرکے ساری دنیا کو بتادیا کہ قربانی کس کو کہتے ہیں۔ ایسی عظیم ہستی کے نام پر نفرت کاکاروبار چلانا دراصل لارڈ رام کی توہین ہے۔ پچھلے دنوں کچھ غنڈوں نے ایک امام کی داڑھی کو شہید کردیا تو دوسری طرف اسی طرح کے بدمعاشوں نے ایک گودام میں پڑھی جارہی نماز تراویح کو روکا۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ایسا اس لئے ہورہا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے ان کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ یہ عناصر کیمرے کے سامنے آکر بھی زہر اگلتے ہیں۔ ا ن کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے کیا یہ ثبوت کم ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ مبینہ طور پر انتظامیہ کا کچھ حصہ بھی متعصب ہے۔ کئی مسلمان جھوٹے مقدموں میں پھنسائے گئے اور انہیں کسی ثبوت کے بغیر سزائیں دے کر جیلوں میں قید کردیا گیا ہے۔ کئی مسلمان عدالت میں لمبی جنگ کے بعد باعزت بری ہورہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ راجستھان ہائیکورٹ میں پچھلے ہفتہ چار ایسے مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کیا گیا جن کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں2008ء کے بم دھماکوں میں ماخوذ کیا گیا تھا جن میں کوئی 71لوگ مارے گئے تھے۔ ہائیکورٹ نے تحقیقاتی ایجنسیوں پر سخت تنقید کی اور کہا کہ انہوں نے ٹھیک ڈھنگ سے کام نہیں کیا ہے۔ اسی کیس میں ماخوذ ایک اور نوجوان کو ٹرائل کورٹ میں پہلے ہی الزامات سے بری کردیا گیا تھا۔ یہ سارے واقعات نفرت خیز تقریروں کی وجہ سے ہی سامنے آتے ہیں۔ سیاست فرقہ پرستی اور ذات پات کا ذکر کئے بغیر بھی ہوسکتی ہے اس کے لئے کمزور اور مجہول الیکشن کمیشن کو مردانہ انداز میں کام کرنا ہوگا۔ اگر وہ اس معاملہ میں سخت ہوجاتا ہے تو کسی کی مجال نہیں کہ وہ نفرت پھیلا کر ووٹ حاصل کرسکے۔ سپریم کورٹ میں مختلف موضوعات پر مقدمات زیر دوراں ہیں۔ اگر عدالت عظمیٰ ان سب پر قطعی فیصلے کرتی ہے تو یقینا ملک معاشی طور پر ترقی کرسکتا ہے۔ عالمی سطح پر ملک کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ساری دنیا کی نگاہیں ہمارے ملک میں ہورہے ایک ایک واقعہ پر مرکوز ہیں۔ ا نسانی حقوق کی پامالی کو دنیا بڑی تشویش سے دیکھ رہی ہے۔
آسام میں بھی ہندو مسلم منافرت کی بنیاد پر ہی سرکار بنی ہے۔ پرندے ان ہی کھیتوں میں آتے ہیں جہاں پر دانا ملتا ہے اور یہ عمل دنیا کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ ہم ہندوستانی اچھی معیشت کی تلاش میں دنیا کے کونے کونے میں جاکر بس رہے ہیں۔ اسی طرح دوسرے ملکوں کے لوگ اپنی معاشی حالت کو سدھارنے کے لئے نقل مقام کررہے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہر زمین پر ان ہی لوگوں کا زیادہ حق ہوتا ہے جو وہیں پر پیدا ہوتے ہیں۔ جینے کی تلاش میں بھٹکنے والے لوگوں کو نفرت کے نشانے پر لے لینا انسانیت کے بنیادی حقوق کی پامالی ہے۔ اب جب کہ سپریم کورٹ نفرت کی سیاست کے خلاف متحرک ہوچکا ہے ایسے میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے رجحان سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ ایسے ہی موقعوں پر مرزا غالب کا یہ شعر ذہن میں آجاتا ہے کہ :
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰