سیاستمضامین

تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے

مولانا سید احمد ومیض ندوی
استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد

25اپریل 2024ء مطابق15شوال المکرم 1445ھ جمعیۃ علماء ضلع کریم نگرکے زیر اہتمام نوفارغ فضلاء مدارس کے تہنیتی اجلاس سے مہمان خصوصی ریاست کے ممتاز عالم دین ،درجنوں کتابوں کے عظیم مصنف ،مقبول استاذومقرراور ہردل عزیز شخصیت حضرت مولانا سید احمد ومیض صاحب ندوی نقشبندی ( استادحدیث دارالعلوم حیدرآباد،خلیفہ حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی ،مدیر ماہ نامہ ضیاء علم حیدرآباد) نے شرکت کی اور اپنے جامع وفکر انگیز خطاب سے علماء ،طلباء،اساتذہ اور ائمہ کو مستفید فرمایا۔اس قیمتی خطاب کا کچھ حصہ اپنے الفاظ میںافادہ عام کی غرض سے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ۔مدارس کے تعلیمی سال کا آغاز ہے اور بہت سے علماء مختلف علاقوں میں عالمیت کی تکمیل کرکے آئیںہیں،قدیم وجدید ہر عالم دین کے لئے یہ ہدایات اور رہنمایانہ ارشادات ان شاء اللہ مفید ہوں گے اور ان قیمتی تجرباتی اور فکری باتوں سے مسافران علم نئی روشنی حاصل کرسکیں گے۔
تہنیت الفضلاء مستحسن اقدام: معزز علماء کرام !میں آپ تمام کو بالخصوص نو فارغ فضلاء کرام کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جنہوں نے ملک کی مختلف جامعات سے سند ِ فراغت حاصل کی اور عالمیت کی تکمیل کی۔اور جمعیۃ علماء ضلع کریم نگر کے ذمہ دار کو بھی مبارک باد دیتا ہوں جنہوںنے ان کے اعزاز میں یہ تہنیتی اجلاس منعقد کیا۔یہ ایک مستحسن اقدام ہے،اس سے ان نوفارغ فضلاء کی حوصلہ افزائی ہوگی،یہ اپنے علاقے کے اکابر علماء کرام سے قربت حاصل کریں گے اور آپسی ربط وتعلق میں استواری پیدا ہوگی ۔ان فضلاء کو اس طرح کے اجلاس سے احساس ہوگا کہ ان کے سینئر اور اکابر ان سے متعلق کس قدر فکر مند ہیں ۔
تذکیر مقصود ہے: ایک ہے تذکیر اور ایک ہے تقریر،ہم سب ایک ہی میدان کے لوگ ہیں ،ہمارے منزلیں ایک ہیں،اور ہم سب ایک ہی منزل کے مسافر ہیں،کوئی جونئیرہے کوئی سینئر،جو لوگ برسوں سے اس میدان میں لگے ہیں ،ظاہر ہے کہ ان کو عملی تجربہ زیادہ ہوتا ہے ،اور جو نئے فارغین ہیں وہ اب عملی میدان میں قدم رکھنے جارہے ہیں،تو آج مذاکرہ کی نوعیت سے کچھ باتیں عرض کرنی ہیں ، جو علماء کرام عرصے سے عملی میدان میںلگے ہوئے ہوں ان کے کچھ مشاہدات ،تجربات اور کچھ اُن کی زندگی میں پیش آئی چیزیںآپ کے سامنے پیش کرنا مقصود ہیں،ناآپ کونصیحت کرنا مقصود ہے اور نہ کوئی بڑا بیان کرنا ۔اللہ تبارک وتعالی کہنے اور سننے حق نیت کی توفیق عطا فرمائے،اور ہمارے اس بیٹھنے کو قبول فرمائے۔
مجھ سے قبل آپ نے حضرت مولانا خواجہ کلیم الدین صاحب اسعدی دامت برکاتہم کے خطاب کو سنا ،جس میں حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی ؒ کا تذکرہ اور حالات کا والہانہ بیان تھا،اُس وقت میرے ذہن میں یہ شعر گردش کررہا تھا جو امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں کہاگیا،بڑا مشہور شعر ہے:
اَعِدْ ذِکْرَ نُعْمَان لَنَا اِنَّ ذِکْرَہُ ھُوَ الْمِسْک مَاکَرَّرْتَہُ یَتَضَوَّعُ۔
(کہ نعمان ابن ثابت ؒ کا ذکر ہمارے سامنے کرتے جاؤ،یہ تو مشک ہے کہ جتناکروگے،اتنی خوشبو پھوٹتی جائے گی)
حضرت قاری صاحب ؒ کے حوالے سے جوباتیں آئی ہیں ،اگر آپ ان باتوں کو ہی لیںتو ایک پیغام لے کر جائیںگے ، میں سمجھتا ہوں کہ اس سے آج کے اس اجلاس کی قیمت وصول ہوگئی۔
بافیض کیسے بنیں: میرے معزز علماء کرام !اپنے اسلاف کے نقش قدم پر جتناچلیں گے،اُتنا ہم ہماری عملی اور آنے والی زندگی میں کامیاب ہوں گے۔ہمارے ندوہ کے زمانہ طابع علمی میں ہمارے اساتذہ میں ایک شخصیت تھیں حضرت مولانا زکریا سنبھلی صاحب مدظلہ وہ مسلم شریف کے منتخب پڑھاتے تھے،ندوہ میں آنے سے پہلےایک عرصے تک وہ ہتھورا میںمدرس تھے،اوران کی خاص بات یہ ہوتی درس کے دوران وقتا فوقتاحضرت قاری صاحب ؒ کا ذکر کرتے تھے،اور سب کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں،طلبا سب متاثر ہوتے تھے۔ہمارے اکابر میں اہل اللہ اور مشائخ کی کمی نہیں ،ماشاءاللہ بہت مشائخ ہیں،لیکن حضرت قاری صدیق احمد صاحبؒباندوی کی جو شان ہےوہ بہت مختلف ہے۔
معزز علماءکرام !اگر آپ با فیض بننا چاہتے ہیں،آپ اگر یہ چاہتے ہیں کہ امت آپ سے خوب فائدہ اٹھائے،عوام اور خواص آپ پر پروانوں کی طرح نچھاور ہوںتو آپ ہمارے سب سے بڑے آئیڈیل توہمارے نبی ﷺ کی ذات مبارک ہے،ان کےبعدجواُن کے نقش قدم پر جتنا زیادہ چلے وہ ہمارے لئےآئیڈیل ہے۔اللہ تبارک وتعالی نے نبی ﷺ پر صحابہ کرام ؓ کو نچھاور فرمایا۔اس کی ایک وجہ قرآن کریم میں ذکر کی گئی ،فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ۔(ال عمران:۱۵۹)اگر آپ بافیض بننا چاہتے ہیں اس آیت کو اپنے سامنے رکھیں۔تواضع،سادگی یہ آدمی کی ترقی کا راز ہے۔آدمی کی قبولیت عنداللہ وعندالناس کے لئے ،تواضع،نرمی ،بے نفسی اور اپنے آپ کو بچھادیناہے،جنتا یہ صفت آپ کے اندر ہوگی،آپ علماء میں بھی مقبو ل ہوں گےاور عوام میں بھی مقبول ہوں گے،اور آپ کا فیض اللہ تعالی خوب پھیلائے گا،اتنا پھیلائیں گے آ پ تصور بھی نہیں کریں گے۔
اہل اللہ سے تعلق کی ضرورت: آج کے معاشرہ میںہم علماء کرام کے اندر اسی چیز کی کمی ہے۔کوئی سننے کے لئے تیار نہیں ہے،کوئی اپنے کو محتاج ِ اصلاح سمجھنےکے لئے تیار نہیں ہے،کوئی اپنے کو دوسرے کے تابع کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ہم اپنے بزرگوں سے دارالعلوم دیوبند کے بارے میں سنتے رہتے ہیں کہ وہاں کا طباخ بھی صاحب ِ نسبت ہوتا تھا،کوئی اپنے آپ کو اللہ والے سے جوڑے بغیر نہیں رہتا تھا۔ہماری صورت حال ایسی ہے کہ ہم کسی اللہ والے سے وابستہ ہونے کو ضروری نہیں سمجھتے ۔کوئی چیزآدمی کو مثلا تواضع ہے،نرمی ہے،بے نفسی ہے ظاہر ہے کہ یہ چیز آدمی کے اندرایسے ہی نہیں آتی ،اس کے لئےآدمی کو رگڑےکھانا پڑتا ہے،پہلے زمانے میں ہمارے مشائخ خانقاہوں میں رکھ کر ایک ایک رذیلے میں نکالتے تھے،اس کے لئے محنت کرتے تھے،اور لوگ کئی کئی سال اپنے آپ کو خانقاہ کے لئے وقف کرتے تھے۔آ ج صورت حال ایسی بالکل نہیں ہے۔
کامیاب عالم کب بنیں گے؟ : اگر آپ امامت کررہے ہوں تو نرم بن جائیے،قوم کے لئے بچھ جانے کا مزاج بنائیے،اپنے آپ کو قوم میں گھل مل کر کام کرنے کا مزاج پیداکیجیے،قوم آپ پر نچھاور ہوگی،لوگ آپ کے دیوانے ہوں گےاور لوگوں کو کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی،لوگ خود آپ سے قریب ہوتے چلے جائیں گے ،یہ اللہ کے نبی ﷺ کا او ر خود اللہ کا بتایا ہوا فارمولہ ہے۔
ایک مولوی کا بڑا کام عوام سے رابطے کا ہے،عوامی رابطے کے لئے بنیادی چیز ہمارے اندر تواضع کا ہونا،نرمی کا ہونااوربے لوث قریب ہونے کا مزاج ہوناہے۔ ہمارے ائمہ حضرات ناکامی کاسامنا کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ بس پانچ منٹ باقی ہیں تو آگئے،اور فرض نماز پڑھایااور فورا مسجد سے نکل گئے،اس کے بعد مصلیوں اور مقتدیوں سے کوئی تعلق نہیں ،ایسی امامت سے فائدہ نہیں ہوگا،امامت ایسی ہونی چاہئے کہ امام پورے محلے والوں سے رابطے میں ہوں۔کوئی بیمار ہے اس کی تیمار داری اورکوئی نظر نہیں آرہا ہے تو اس کی خبر گیری کرنا،محلے کے اطراف میں جو فتنے ابھر رہے ہوں اس کا علم ہونا چاہیے،محلے کے عصری تعلیم کے جونوجوان ہیں ان کی دینی تعلیم میں دلچسپی لینا۔عوام سے گھل مل کر رہیں گے تو آپ ایک کامیاب امام ہوں گے۔
امامت کی قدر کریں: اوریاد رکھیے امامت کوئی معمولی چیز نہیں ہے،بہت سے ہمارے علماءامامت کو معمولی سمجھتے ہیں،امامت بہت بڑی چیز ہے۔ہمارے استا محترم حضرت مفتی اشرف علی صاحب باقوی ؒعام طور پر فرماتے تھےکہ نبی ﷺ کی جتنی سنتیں ہیں ہرسنت میں کچھ نہ کچھ تبدیلی آچکی ہےیا نظر آتی ہے ،امامت کے ایک واحدسنت ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں۔آپﷺ نے جیسے کرکے بتایاہو بہو ایک امام ویسے ہی کرتا ہے،اور امامت کیا ہے ؟ہم انبیاء کے وارث کہتے ہیں،انبیاء کی جانشینی کیا ہے؟اللہ کے نبیﷺ جب تک باحیات رہےامامت کرتے رہے،اور آپ کے بعدمسلمانوں کے خلیفہ بننے والے ان کو امامت کے لئے کہا گیا۔خلافت راشدہ میں جو خلیفہ ہوتا تھا جامع مسجد میں وہی امام ہوتا تھا۔معمولی کام نہیں ہے امامت،بہت بڑی چیز ہے۔علماء کراہم کے لئےعوامی خدمت کے لئے جتنا بڑا فائدہ امامت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے کسی اورذریعے سے حاصل نہیں ہوتا۔
استقامت کے ساتھ خدمات میں لگے رہیں: ہمارے علماء کرام کو میں ایک بات کی طرف توجہ دلاؤں گاکہ آپ چاہے امامت کریں،یا آپ مدرسہ میں پڑھائیں،یا کوئی بھی خدمت سے وابستہ ہوں،یاد رکھیےآپ اگر کسی ایک خدمت سے جڑکرمستقل ر ہیں گےتو آپ کو ترقی کے مواقع نصیب ہوں گے۔تھوڑے دن کسی مدرسہ میں اور تھوڑے دن کسی اور مدرسہ میں،یہ جو چکر کاٹنے کی عادت ہےاس سے آدمی کو ترقی نہیں ملتی،ترقی استقامت سے حاصل ہوتی ہےہرعمل کے اندراستقامت اگر ہوگی توآدمی ترقی کرتا ہے۔ایک ادارہ اور ایک جگہ سے وابستہ ہونے میں برکت ہوتی ہے،اوراس میں آپ کے لئے ترقی کے مواقع ہیں۔ہمارے نوجوان علماء کرام ہر تھوڑے دن میں کوئی مسئلہ ہوگیا تو پریشان ہوجاتے ہیں۔مسائل کہاں نہیں ہیں؟دنیا ہی مسائل کا نام ہے،بس انیس بیس کا فرق ہے،ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسائل مدرسہ اور مسجد کی نوکری میں ہوتے ہیں،یہ غلط ہے ،آپ پرائیوٹ کوئی بھی نوکری کروکچھ نہ کچھ مسائل ہوتے ہیں۔پہلے انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیےکہ مجھے کون سے میدان کا انتخاب کرنا ہے؟تدریسی میدان کا کرنا ہے؟یا امامت کے میدان کا؟یا تنظیمی یا تحریکی میدان کا؟اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق سوچ سمجھ کر کریں،اور جب کسی ایک چیز کا انتخاب کرلیں تو یہ طے کرلیں کہ مجھے اسی میں رہنا ہےاوراستقامت کے ساتھ مجھے کام کرنا ہے۔
تحمل مزاجی اور قو تِ برداشت پیدا کریں: علماءکرام یاد رکھیں کہ جب تک ہمارے اندر تحمل کا مزاج نہیں ہوگا،دینی خدمات میں درک اور استقامت آپ کے اندر نہیں آئی گی۔تحمل انتہائی ضروری ہے۔دارالعلوم حیدرآباد کے شیخ الحدیث ہمارے استاد محترم حضرت مولانا حسیب الرحمن صاحبؒکے ملفوظات بہت زبردست ،مختصر اور معنی خیز ہواکرتے تھے۔وہ اساتذہ سے کہاکرتے تھے کہ ملازمت کے لئےآدمی کو ملازمت کا ذہن بنانا چاہیے،ملازمت کے اندر خود لزوم کامفہوم ہے۔‘‘جب ملازمت ہم کررہے ہوں گے ظاہر ہے اس میں لامحالہ مسائل آئیں گےاوران مسائل کے لئے ہمارے اندر تحمل کا مزاج ہونا ضروری ہے۔تحمل کے مزاج کے بغیر آپ نہ ایک کامیاب امام بن سکتے ہیں،نہ آپ ایک کامیاب مدرس بن سکتے ہیںنہ کسی تحریک اور تنظیم کے اندر ایک کامیاب کارکن بن سکتے ہیںبلکہ تحمل اور قوتِ برداشت کے بغیر آپ ایک کامیاب شوہر بھی نہیں بن سکتے ۔
کسی بھی خدمت کو حقیر نہ سمجھیں: کسی بھی دینی خدمت کو کم تر نہ سمجھیں،ہر ایک کی صلاحیتیں الگ الگ ہیں،کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی تدریس کا خواہش مند ہوتا ہےمگرمدرسوں میں کہیں جگہ نہیں ہے،لیکن امامت کی جگہ خالی ہےتوایسی صورت میں امامت کو ترجیح دی جائے،کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ہمارے علاقے کے علماء کرام کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے وہ یہ ہےکہ ہم لوگ دیہاتوں میں ،اپنے وطن کے اطراف کے منڈلوں میں جاکرکام کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے،اس مزا ج کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
کام کیجے ،بے کار مت رہیے: معززعلماءکرام!آپ سے ہماری گزارش ہے کہ اللہ کے لئےبے کار مت رہیے،کوئی نہ کوئی کام کیجئے،اگر آپ کچھ نہیں کرسکتے توکم ازکم ایک کام بہت آسان ہےوہ ہے کہ آپ اپنے محلے میں مکتب شروع کیجیے۔آج کے دور میںمکتب کی تعلیم بہت بڑا کام ہے،امت کی نئی نسل کے دین وایمان کو بچانے کا یہ کام ہے،دیکھنے میں معمولی ہے لیکن موجودہ تقاضوں میںبہت اہم تقاضاہے۔بہت سارے بڑے علماء کرام سے ہم نے یہ بات سنی کہ اب دارالاقامہ کے نئے مدرسوں کو قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے،البتہ گلی گلی مکاتب قائم کریں ۔ایک تو مکتب قائم کرنا آسان ہے ،دوسرے ہماری نوے فیصد سے زائدنئ نسل وہ مدرسوں میں نہیںپڑھ رہی ہیں ،اسکولوں میں پڑھ رہی ہیں،ان کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا بھی علماء کی ذمہ داری ہے۔
مکاتب کی اہمیت: میں بلامبالغہ عرض کررہاہوں کہ مولاناعلی میاں ندوی ؒمکاتب کی تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دلایاکرتے تھے۔یوپی کے اندردینی تعلیمی کونسل کے نام سے مولانا علی میاں صاحب ؒ کی صدارت میں ایک تحریک چلی ،اس کے تحت پورے یوپی کے اندر سیکڑوں مکاتب شروع ہوئے،چناں چہ اس کے اجلاس میں مولانا نے جو تقریریں کی ہیںان تقریروں کو ’’تکبیر مسلسل ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔تومکاتب کاکامعزز علماء کرام بہت اہم کام ہے اور ہمارے لئےآسان کام بھی ہے۔مکتب کو منظم بنائیں ،نصاب اور یونیفارم کے ساتھ۔مکتب شہر میں قائم کریں اور دیہاتوں میں بھی قائم کریں۔
دیہاتوں کا جائزہ لیتے رہیں: شہرمیں اگر آپ کو خطابت کا موقع نہیں مل رہا ہے توآپ ایک دیہات کا انتخاب کرلیجیے ،اور ہرجمعہ پہنچ جائیںاوروہاں خطاب فرمائیے،اس سے امت کو فائدہ ہوگا۔اور ایک بات میں اکثر کہتا ہوں کہ شہر کے علماء اپنے اوپر لازم کرلیں کہ ہفتہ میںایک دیہات کا دورہ کریں،اپنے طور پر،کسی نماز میں جائیں اور بات کرنے کا موقع ملا تو بات کریں اور دیہات کے حالات سے باخبر رہیں کہ کہیں کوئی فتنہ تو نہیں ہے ،اس سے اطراف کے دیہاتوں میں کوئی فتنہ نہیں اٹھے گا۔فتنے عام طور پر ایسے دیہاتوں داخل ہوتے ہیں جہاں ان کومعلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی مولوی نہیں آتا۔
آن لائن نظام سے فائدہ اٹھائیں: آج کل آن لائن کے مواقع پیدا ہورہے ہیں،یہ بھی ایک اچھی صورت حال ہے،آن لائن اداروں سے بھی رابطہ کرکے تدریسی خدمات کے مواقع حاصل ہورہے ہوں تو اس ے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
اختراعی کام کا ذہن بنائیں: ایک عالم دین کام کرنا چاہے تو بہت کچھ کرسکتا ہے،مگر یہ کہ کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے،جذبہ نہ ہوتو کچھ نہیں کرسکتا۔آدمی کا ذہن دینی خدمات میں اختراعی ہونا چاہیے،نئی نئی چیزیں ،نئے تقاضے کیاہیں؟آج کے حالات کے اعتبار سے،ذہن چلاتے رہنا چاہیےاورجس میدان میں کام کی ضرورت ہے اس میدان میں ہم کوفکر کرنا چاہیے،ایسا نہیں کہ سارے مدرسے کھولنا شروع کردیں،ہرمولوی آرہا ہے اور مدرسہ کھول رہا ہےتویہ کوئی بات نہیں ہے،نئے تقاضے مثال کے طور پر عصری تعلیم پڑھاہوا جو طبقہ ہے ،کالجوں میں پڑھنے والے جو بچے ہیں ،اسی طرح کالجوں کے پڑھے ہوئے بچے ہیںجو نوکری کررہے ہیں ان کی تعلیم کا نظم کریں،کیوں آج ان سے علماءکی دوری بہت ہوگئی ہے۔جو میدان خالی ہے اس کو پُرکرنے کی فکر کرنا چاہئے۔
اکابر علماء کی ذمہ داری: ہمارے اکابر علماء کرام کی بھی ذمہ دار ی ہے کہ وہ اپنے نوفارغ علماء کو خدمات کے مواقع فراہم کریں ،مدرسہ میں جگہ ہوتو اس میں موقع دیں یا کہیں امامت کی ضرورت ہو تو اس کا نظم کریں،تہنیت الفضلاء کا اچھا اقدام ہے،ساتھ میں ان کو استعمال کرنے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں ،اس سلسلہ میں ہر ضلع کے قدیم علماء کو توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے، (سلسلہ صفحہ ۷)
ورنہ اس کے نتیجے میں اچھی صلاحیت والے علماء دینی خدمات کے بجائے دوسرے میدانوں کا انتخاب کرکے اپنی صلاحیت اور دین داری کو بھی متاثر کررہے ہیں۔
استغنا اور قناعت: استغنا اور قناعت علماء کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی مچھلی کے لیے پانی ناگزیر ہے عالم دین کو عوام سے اور بالخصوص اہل ثروت طبقے سے مستغنی رہنا چاہیے ایک عالم میں جس درجے استغنی ہوگی اسی درجے عند اللہ و الناس اس کا مقام و مرتبہ ہوگا حرص اور لالچ اور لوگوں کے جیبوں پر نظر ادمی کو ذلیل و خوار کر دیتی ہے ایک عالم دین کی نظر اللہ کے خزانوں پر ہونی چاہیے نہ کہ لوگوں کے مال و دولت پر سلف صالحین صفت استغنا سے پوری طرح مالا مال ہوتے تھے وقت کے حکمرانوں سے بھی بے نیازی برتتے تھے ہمیں بھی اپنے اسلاف کے نش قدم پر چلتے ہوئے استغنا کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہیے استغنا کے لیے قناعت ضروری ہے جب کوئی انسان سادگی اور قناعت کے ساتھ تھوڑی روزی پر اکتفا کر لیتا ہے تو اس کی نظر کسی صاحب ثروت کی طرف نہیں جائے گی اج قناعت کی دولت ختم ہوتی جا رہی ہے اور صفت استغنا جنس نایاب بن چکی ہے جب بندہ استغنا اپناتا ہے اور اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے اپنی حاجت نہیں لے جاتا تو اللہ تعالی اس کے لیے کافی ہو جاتے ہیں؛علماء میں استغنا کی کمی کا اثر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ اچھے اچھے ذہین باصلاحیت علماء فراغت کے بعد دینی خدمات کو ترجیح دینے کے بجائے گوگل اور فیس بک کی کمپنیوں میں ملازمت کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ ہمارے اسلاف نے کم روزی پر اکتفا کر کے مرتے دم تک دینی خدمات سے خود کو وابستہ رکھا.
خدمت دین کے نئے شعبوں کی دریافت: اکثر و بیشتر یہ دیکھا جاتا ہے کہ فراغت کے بعد نوجوان علماء یا تو مدرسے میں تدریس کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر کسی مسجد میں امامت کو. امامت اور تدریس بے شک بہت بڑی خدمت ہے لیکن جدید دور نے خدمت دین کے نئے نئے نئے شعبے جنم دیے ہیں اس وقت عصری تعلیم کے نوجوانوں کو اسلام کے تعلق سے شکوک و شبہات سے بچانا اہم ترین کام ہے لیکن یہ شعبہ پوری طرح خالی ہے علماء کرام کی ایک جماعت ایسی ہو جو عصری تعلیم کے بچوں کے لیے ضروری دینی تعلیم کا ایک نصاب تیار کرے اور مختلف شہروں میں اس نصاب کو عام کریں اسی طرح کالجوں اور اسکولوں میں پہنچ کر ہفتے میں ایک مرتبہ حالات اور مہینوں کے اعتبار سے وہاں کے طلبہ کے درمیان اسلامی نقطہ نظر کو واضح کریں یہ ایک بہت بڑی خدمت ہے اس وقت علماء اور عصری تعلیم کے نوجوانوں کے درمیان بہت بڑا گیاپ پایا جاتا ہے عصری تعلیم کے نوجوان علماء سے بدکتے ہیں اور علماء بھی عصری تعلیم کے نوجوانوں سے رابطہ کرنے سے جھجکتے ہیں اس صورتحال کا حل یہ ہے کہ علماء عصری اسلوب میں دین کی تفہیم و تشریح کریں بالخصوص انگریزی اور علاقائی زبانوں کا بھرپور استعمال کریں یہ تمام خدمت دین کے نئے شعبے ہیں جن میں کام کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔
رد فرق ضالہ: موجودہ دور میں علماء کی ایک اہم ذمہ داری مسلمانوں کے دین و ایمان کا تحفظ ہے اس وقت ہندوستان میں قادیانیت عیسائیت شکیلیت اور گوہر شاہیت کے فتنے بڑی تیزی کے ساتھ مسلم نوجوانوں کا شکار کر رہے ہیں ہندوستان کی کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں قادیانیت کا فتنہ نہ پنپ رہا ہو یہی حال شکیلی فتنے کا بھی ہے ان سارے فتنوں کا تعاقب کرنا اور مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کرنا ہماری اہم ترین ذمہ داری ہے اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء ان فتنوں کا وسیع مطالعہ کریں۔
دور دراز دیہاتوں میں دینی خدمت: اس وقت ہندوستان کے دیہاتی علاقوں میں مسلمانوں کی صورتحال نہایت تشویش ناک ہے بہت سارے دیہات قادیانی اور عیسائی فتنوں کی لپیٹ میں ہیں اور اکثر دیہاتوں میں مساجد میں ائمہ کی کمی ہے جس کے سبب وہاں کے مسلمان اسانی کے ساتھ باطل فرقوں کا شکار ہو رہے ہیں نو فارغ فضلا کو چاہیے کہ مجاہدے کی راہ اختیار کرتے ہوئے اسباب و وسائل کی کمی کے باوجود خدمت دین کے جذبے کے ساتھ دیہاتوں میں کام کرنے کو ترجیح دیں وہاں مکاتب کا قیام عمل میں لائیں خواتین کے لیے ہفتہ واری اصلاحی خطاب کا اہتمام کریں شام کو تعلیم بالغان پر توجہ دیں.
امت میں جوڑ پیدا کریں: جن علماء نے عوامی دینی خدمت کا شعبہ اپنایا ہے انہیں چاہیے کہ وہ جہاں تک ہو سکے عامۃ المسلمین میں جوڑ اور اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ہر اس حرکت سے گریز کریں جس سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھرتا ہو اور ان کی صفوں میں خلفشار پیدا ہوتا ہو اس وقت امت کو جوڑنے کی ضرورت ہے اختلافی مسائل کو بنیاد بنا کر امت میں توڑ پیدا کرنا کوئی دینی خدمت نہیں ہو سکتی.
یہ چند باتیں آپ حضرات کی خدمت میں عرض کی گئیں ،اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

a3w
a3w