سیاستمضامین

کر رہے ہیں اہل نظر نئی بستیاں آباد

پروفیسر اختر الواسع

مدارس اسلامیہ نےشروع سےبڑے عرصے تک ایک شمولیت پسند نظام تعلیم کو اپنایا۔ لیکن انگریزوں کے نوآبادیاتی نظام کے قائم ہونے کے بعد انھوں نے ہم پر اپنا نظام تعلیم اور نظام علاج مسلط کر دیا۔ ایسے وقت میں ہمارے بزرگوں نے یہ طے کیا کہ ہم اگر ملک کو انگریزوں کے تسلط سے فوری طور پر آزاد نہیں کرا سکتے اور ان کے مسلط کردہ نظام تعلیم اور نظام علاج سے چھٹکارا نہیں پا سکتے تو ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو نوآبادیاتی نظام کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اور آنے والی نسلوں کے دینی معتقدات کو محفوظ رکھنے کے لیے نئے طرز سے مدرسے قائم کرنے چاہئیں۔ یہی وہ احساس تھا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے مختلف مکاتیب فکر نے دینی مدارس قائم کرنے شروع کیےاور ان میں سے اکثر مدارس کا مقصد نئی نسل کو اپنے مذہبی معتقدات سے منسلک رکھنا بھی تھا اور ساتھ میں انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا بھی۔
مدارس کے قیام کا فائدہ اگر چہ یہ ہوا کہ مسلمان بچوں میں خواندگی کسی حد تک باقی رہی تو وہیںدوسری طرف ہندوستان اسپین بننے سے بچ گیا۔ آزادی کے بعد کے ہندوستان میں اردو زبان کی ترسیل و اشاعت میں مدارس کا بہت اہم اور بنیادی رول رہا ہے۔ اردو صحافت کو اس کے بنیاد گذار اور قاری دونوں بڑی حد تک مدرسوں کی ہی دین ہیں۔ اس سب کے علاوہ مدرسوں نے مسلم معاشرے کی دینی ضرورتوں کی کفالت بھی کی۔ اسے امام، قاضی، مفتی اور مؤذن فراہم کیے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی بلاشبہ مسلمانوں کو ستاتا رہا ، اس پر آوازیں بھی اٹھتی رہیںکہ خالص دینی تعلیم مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتی۔ انھیں جدید تعلیم سے بہرہ مند بھی ہونا چاہیے اور اس کے مختلف میدانوں میں اختصاص حاصل کرنا چاہیے۔ مدرسوں کے نصاب میںاسی احساس نے سر سید ، شبلی، چراغ علی، علامہ اقبال اور ان جیسے درد مند لوگوں نے اس طرف بار بار توجہ دلائی۔آزادی کے بعد لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی دینی تعلیم کے لیے بھی بے شمار مدرسے قائم کیے گئے۔ لیکن حساس طبیعت والے لوگوں نےاس شدید ضرورت کی طرف بہت توجہ دلائی کہ دینی تعلیم کے ساتھ مسلمان بچے بچیوں کوجدید اور سیکولر تعلیم ضرور دلائی جائے۔ اس سلسلے میں مختلف مدارس کے ممتاز فارغین ، خانقاہوں کے سجادہ نشین اور امت مسلمہ کے اکثر بہی خواہوں نے اس سلسلے میں مثبت اور ضروری کوششیں کیں۔ مثال کے طور پر مالیگاؤں،ممبئی، حیدرآباد، بنگلور، بیدر ، کالی کٹ، جئے پور،ماہریرا،دیوبند،مبارکپوراور علی گڑھ وغیرہ میں ادارہ سازی خاص طور پر کی۔ ان میں خاص طور سے جامعہ ہدایت جئے پور، البرکات علی گڑھ ماہریرا، اورشاہین گروپ کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
شمالی ہندوستان میں دیوبند اسکول کے محترم نمائندے اور جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا سید محمود اسعد مدنی نے جمعیت اوپن اسکول کے ذریعے مدارس سے ملحق طلبہ فارغین یا ڈراپ آؤٹ طالب علموں کو عصری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ کیوں کہ بقول محمود مدنی صاحب کے’’ دور حاضر میں دینی تعلیم و اشاعت کے لیے علوم عصریہ سے واقف علما کی شدید ضرورت ہے اور یہی ہمارا ہدف ہے‘‘۔جمعیت اوپن اسکول کے ذریعے اس کار خیر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جمعیت نے این آئی او ایس سے اشتراک کیااور یہ فیصلہ کیا کہ جب مدرسے کے بچے اور بچیاں اپنے مدرسوں سے باہر آئیں تو ان کے ایک ہاتھ میں دستار فضیلت ہو تو دوسرے ہاتھ میں جدید تعلیم کے حصول کا سرکاری سرٹیفیکیٹ۔ جمعیت نے مولانا محمود مدنی کی سرپرستی اور مولانا نیاز احمد فاروقی جو کہ خود جدید اور قدیم تعلیم کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہیں اور جنھیں کھلے بازار کی معیشت کے دینی اور دنیوی منہج کا پورا تجربہ ہے، کی رہنمائی میںیہ طے کیا کہ پچاس ہزار بچوں کووہ نیشنل اوپن اسکول سے کامیاب کرائیں گے اور اب تک اس میں ۳۲۷۵ طلبہ و طالبات امتحان دے کر رسمی کلاس کا سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں جمعیت نے ان کورسیز میں حصہ لینے والے طلبہ و طالبا ت کے لیے دس ہزار روپیے سالانہ کا اسکالر شپ دینا بھی منظور کیا ہےاور جمعیت اس میں اب تک بہت کامیاب رہی ہے اور جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں:(جدول ملاحظہ فرمائیں)
ا ن تفصیلات کو بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ لوگوں کو عام طور پر پتہ ہونا چاہیے کہ کس طرح سے مسلمان اب حصول علم کے میدان میں نئے جہانوں کی دریافت کر رہے ہیں۔ جمعیت اوپن اسکول کے ساتھ ہم سب کو این آئی او ایس کی چیرپرسن اور دوسرے ذمہ داران کا بھی شکر گذار ہونا چاہیےجنھوں نے جمعیت کے ساتھ معاونت کر کےیہ بتا دیا کہ افکار تازہ ہی سے جہان تازہ کی نمود ممکن ہے۔
ایک طرف تو لوگوں کو مسلمانوں سے یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ جدید تعلیم سے گریزاں ہیںتو دوسری طرف جب وہ جدید تعلیم کے حصول کے لیے کوئی قدم اٹھاتے ہیں اور سرکاری ایجینسیوں کے ساتھ مربوط اور مستحکم تعلق قائم کرتے ہیں تو فرقہ پرستوں کے پیٹ میں بلا وجہ کا مروڑ ہونے لگتا ہے۔ اور وہ اس کو نہ صرف یہ کہ حقوق اطفال کے منافی مانتے ہیں تو دوسری طرف اس طرح کی کوششوں کے رشتے پاکستا ن سے جوڑ دیتے ہیںاور جمعیت اوپن اسکول کا یہ پروگرام بھی اسی طرح کھٹکنے لگا۔ وہ تو بھلا ہو این آئی او ایس والوں کا اور خود مولانا سید محمود اسعد مدنی اور ان کے رفقا کا جنھوں نے اس پروگرام کی مخالفت کرنے والوں اور اسے بدنام کرنے والوں کے خلاف سخت انتظامی اور قانونی اقدامات کیے۔
مسلمان بچوں کی حصول تعلیم کی ہر کوشش کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے، کہیں یہ حجاب کے نام پر ہوتا ہے تو کہیں مدرسوں کی تعلیم کے نام پراور کہیں اگر مدرسے والے یا مسلم جماعتیں اگر سرکار کی اسکیموں سے جڑنا چاہیں تو بھی مسلم مخالف قوتوں کو یہ گوارا نہیں ۔ ہمیں خوشی ہے کہ این آئی او ایس والوں نے ہی اس کا سخت نوٹس نہیں لیابلکہ مولانا محمود مدنی صاحب نے بھی محترمہ اندرا گرور ایڈوکیٹ کے ذریعے این سی پی سی آر کے چیرمین کو قانونی نوٹس بھیج کر یہ بتا دیا کہ مسلمان بچے ہوں یا ان کی سرپرست نتظیمیں، ان کی ہرناجائز مخالفت کا پوری جرأت اور ہمت سے جواب دیا جائےگا۔
ہم مولانا سید محمود اسعد مدنی اور ان کے رفقائے کار جس میں ملک کے ممتاز ماہرین تعلیم اور ملی رہنما شامل ہیں، وہ کام کر رہے ہیں جس کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے۔مولانا سید محمود اسعد مدنی ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے نہ صرف جمعیت اوپن اسکول کی کامیابی کے ساتھ داغ بیل ڈالی اور ساتھ ہی اس کے خلاف ہر کوشش کا منہ توڑ جواب بھی دیا۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ہیں)

a3w
a3w