مضامین

تو کیا سنگھ پریوار ایک نئے پونا معاہدہ کی تیاری کر رہا ہے؟

ارون کمار ترپاٹھی

اگر سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے سناتن دھرم کے بہانے 2000 سال ( کی ذات کی عدم مساوات) بمقابلہ 200 سال ( تک ریزرویشن) کا بیان محض شگوفہ میں نہیں دیا ہے، تو یہ مان لیجئے کہ ہندوستانی سماج (حکومت) اور خاص طور پر ہندو سماج، پونا معاہدے کی طرح تحفظات کے کسی نئے معاہدے یا فارمولے کے منصوبہ کو جنم دینے والا ہے۔ پونا معاہدہ کے نوے سال بعد ہونے والے اس واقعے میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سوچتے اور کہتے ہیں کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے کھانے اور دکھانے کے دانت الگ ہوتے ہیں اور ان کے قول و فعل میں بہت فرق ہوتا ہے۔
رواں ماہ پانچ دنوں کے لیے طلب کردہ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا ایجنڈا واضح نہیں ہے۔ ایک طرف راز ہے تو دوسری طرف قیاس آرائیوں کا سیلاب ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مرکزی حکومت نئی پارلیمنٹ کی خالی نشستوں کو پر کرنے کے لیے خواتین کے لیے ریزرویشن کا اعلان کرنے جا رہی ہے، وہیں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جسٹس جی روہنی کی صدارت میں تشکیل کردہ پسماندہ طبقات کمیشن کی رپورٹ کے مدنظر کچھ نیا اعلان ہونے والا ہے،جس میں دیگر پسماندہ طبقات کو چار زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر ان کے 27 فیصد ریزرویشن کو تقسیم کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس طرح وہ پسماندہ ذاتیں جنہوں نے ریزرویشن کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے، ان کو دور کر دیا جائے گا۔ تاہم، ذات کے اعداد و شمار کی کوئی سائنسی بنیاد کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ذات پات کی مردم شماری واضح طور پر نہیں ہو جاتی۔ اگرچہ بی جے پی ایسا کرنے یا نہ کرنے کے درمیان الجھی ہوئی ہے، اپوزیشن اس کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ روہنی کمیشن کی رپورٹ بہار میں نتیش کمار کی حکومت کی طرف سے کرائی جا رہی ذات پات کی مردم شماری کو ناکام بنا سکتی ہے۔ تو کچھ لوگوں کو دستور اور سرکاری مقامات سے انڈیا نام کو پوری طرح ہٹاکر بھارت نام دیے جانے کی بھی امید ہے۔
لیکن ایک بات یہ ہے کہ مہاراشٹر کے جالنہ میں مراٹھوں کی ریزرویشن ریلی پر پولیس کے طاقت کے استعمال کے جواب میں اگرسین ہاسٹل کے افتتاح کے موقع پر موہن بھاگوت نے جو بیان دیا ہے، اس میں ایک طرح سے سنگھ اپنی ہی باتوں اور اصولوں کے خلاف نظر آرہا ہے، کیوں کہ اب تک سنگھ کے مفکرین یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ اس ملک میں ذات پات کا نظام درحقیقت طویل عرصے سے موجود ہے۔ وہ اس کے لیے انگریزوں کی تاریخ نویسی اور سماجی بحث کو مورد الزام ٹھہراتے تھے اور اس کو پلٹنے کے لیے سنگھ کے تمام مفکرین نے ایک نئی تاریخ مرتب کرنے والی کمیٹی بنائی ہے اور کچھ لوگ ڈی کالونائزیشن کے تنگ ایجنڈے پر بھی کام کر رہے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ جب وزیر اعظم مودی نے ٹامل ناڈو کے ڈی ایم کے لیڈر اور وزیر ادھیانیدھی اسٹالن کے سناتن دھرم کو بیماری کہنے کے بیان پر پارٹی لیڈروں کو ابلنے اور کھولنے کا پیغام دیا تو بھاگوت جی نے ہندو سماج میں ذات پات کی عدم مساوات کو قبول کرکے اس پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا۔ یعنی بی جے پی نے شمالی ہندوستان میں سناتن دھرم کو نفرت کے غبارے سے بھر کر اڑا دینے کی جو کوشش کی تھی اسے کسی اور نے نہیں بلکہ خود سنگھ کے سربراہ بھاگوت جی نے خاک میں ملا دیا۔ تاہم اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اب بھی سناتن دھرم کے ناقدین کو راون، بابر اور اورنگ زیب کہنے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ پہلے ادھیانیدھی پھر پریانک کھرگے، اسٹالن اور اب اے راجہ کی جانب سے ذات پات کی عدم مساوات کے بہانے کی گئی سناتن دھرم پر تنقید پر نہ صرف بی جے پی نے بیانات کی تلواریں کھینچ لیں بلکہ ایودھیا کے ایک مبینہ سنت نے حقیقت میں اپنی تلوار کھینچ کر ادھیاندھی کی زبان یا سر کاٹنے والے کو انعام دینے کا اعلان کیا۔ یہی نہیں، آر ایل ڈی، آر جے ڈی سے لے کر سماج وادی پارٹی اور پھر کانگریس پارٹی تک، جو یا تو خود کو سماجی انصاف کی جماعتیں کہتی ہیں یا فی الحال اس ایجنڈے پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، وہ یا تو ادھیانیدھی پر تنقید کر رہی ہیں یا پھر وہ اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کررہی ہیں۔ یعنی جو جماعتیں سماجی انصاف کا دم بھرتی ہیں وہ ہندو سماج کے اندر سماجی ناانصافی پر بحث کرنے اور اس کی مخالفت کرنے سے کتراتی ہیں۔ ہم بی جے پی کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ ہندو سماج کے اندر باہر سے ظلم ہونے اور ہندو مذہب کے خطرے میں ہونے کا احساس پیدا کرکے ہندو سماج کو منظم کرتی رہتی ہے۔ایسے میں موہن بھاگوت کہتے ہیں، ”ذات کے امتیاز کی تاریخ 2000 سال پرانی ہے۔ اس دوران ہمیں کوئی فکر نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ جب ان کی زندگی جانوروں جیسی ہو گئی۔ ایسی صورت حال میں اتنی طویل اذیتیں برداشت کرنے والوں کے فائدے کے لیے لوگوں کو کم از کم دو سو سال تک اسے برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس لیے جب تک یہ امتیاز موجود ہے، اسے (ریزرویشن) جاری رہنا چاہیے۔ ہم سنگھ کے لوگ آئین کے مطابق ریزرویشن کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔“
اندازہ ہے کہ موہن بھاگوت زیادہ دیر تک اس بیان پر قائم نہیں رہیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ بیان سماجی انصاف کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور اس کے ساتھ انڈیا (انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس) کی وجہ سے بی جے پی کی ممکنہ انتخابی شکست کے پیش نظر دیا ہے۔ کیونکہ بی جے پی کی جیت میں دلت اور او بی سی ووٹوں کا بہت بڑا حصہ ہے اور اگر یہ کہیں کھسک گیا تو 2024 میں جیت کا خواب چکنا چور ہو جائے گا اور سنگھ کی شاندار صد سالہ تقریبات دھری کی دھری رہ جائیں گی۔
لیکن اس بیان پر انڈیا الائنس کی پارٹیوں کے اندر شمالی ہندوستان میں زمین کھونے کا خوف دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کانگریس سمیت زیادہ تر پارٹیاں یا تو دفاعی انداز میں ہیں یا پیچھے ہٹ رہی ہیں۔ یعنی یا تو ان کا ماننا ہے کہ اس ملک میں ذات پات کا نظام ختم ہو گیا ہے یا ذات پات پردے کے پیچھے ایک بیماری ہے جس کا عوامی سطح پر چرچا نہیں ہوتا ، صرف سرکاری اسپتال کی لائن میں لگ کر دوائی لے آنی ہوتی ہے۔۔ ان پارٹیوں کے اندر یہ خوف پیدا کرنے میں اعلیٰ ذات، سرمایہ دار اور ہندوتوا میڈیا کا بھی بڑا ہاتھ ہے، جو ہندو مذہب کی کسی کوتاہی یا برائی پر بحث کرنے والے کا منہ نوچ لینے کو دوڑتا ہے۔ انڈیا کی جماعتوں میں ایک گہرا خوف ہے کہ اگر وہ ہندو مذہب کی برائی پر بات کریں گی تو انہیں انتخابی شکست ہوگی۔
بار بار جن کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے ان لوگوں کے لیے ہی ڈاکٹر امبیڈکر نے دستوری اسمبلی میں کہا تھا کہ مذہبی آزادی کا حق دیا تو جارہا ہے لیکن یہ حق سماجی اصلاح کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس لیے آج پھر سماج کو سوچنا ہو گا کہ اگر نہ صرف اقلیت بلکہ اکثریتی سماج کے جذبات بھی بار بار مجروح ہوتے ہیں تو اس میں بہتری کیسے آئے گی، کوئی نئی بحث، کوئی فلسفیانہ بحث کیسے جنم لے گی۔ اور کوئی نیا فرقہ یا نیا مذہب کیسے پیدا ہوگا؟
اسی کے ساتھ دستور کی دہائی دینے والے موہن بھاگوت جی کو یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ وہ اس وقت کیوں خاموش رہتے ہیں جب ان کے خاندان کے لوگ دستور کے بنیادی ڈھانچے کے اصول کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں یا دستور میں ترمیم کی بجائے اسے پوری طرح بدل کر نیا دستور بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں یا ان کی سیاسی جماعت اور ان کی حکومت کسی نہ کسی سرمایہ دار کے گھپلے پر خاموش رہتی ہے۔ تب اس کا اخلاقی اصرار کہاں جاتا ہے؟
سوال صرف سماجی عزت دینے کا نہیں ہے، یہ جمہوریت کا ہے جس کا تصور انصاف اور مساوات پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے واضح طور پر کہا تھا کہ آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی ہم ایک نئے دور میں داخل ہونے جا رہے ہیں جہاں ہم سیاسی طور پر ایک ووٹ ایک شخص کے اصول کے تحت برابر ہوں گے۔ لیکن سماجی اور معاشی عدم مساوات معاشرے میں گہری ہے۔ اگر اس عدم مساوات کو ختم نہ کیا گیا تو ہماری جمہوریت ڈوب جائے گی۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اکثریت کی رائے کی بنیاد پر قانون بنائیں اور انہیں اقلیت پر مسلط کیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقلیتوں کی رضامندی سے قانون بنائیں۔ کیا موہن بھاگوت جی یا ان کی سیاسی تنظیم ان اصولوں سے واقف ہے؟
پچھلے دس سالوں میں سنگھ اور اس کی سیاسی تنظیم کے رویے نے سماج میں مایوسی اور شکوک کا ماحول پیدا کیا ہے۔ اس لیے ان کی کسی بات پر اندھا یقین نہیں کیا جا سکتا، لیکن پہلے ادھیانیدھی اور پھر بھاگوت جی کے بیان نے سناتن دھرم میں تبدیلی پر بحث کی گنجائش پیدا کر دی ہے، جس پر ان کی اپنی تنظیموں کے لوگ (دونوں طرف سے) اسے روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن یہ بحث اسی وقت ہو سکتی ہے جب شمالی ہند کی وہ جماعتیں اور تنظیمیں بھی اس محاذ کی ذمہ داری سنبھالیں جو سماجی اور اقتصادی مساوات قائم کرنا چاہتی ہیں، کیوں کہ ہندو مذہب کی اصلاح کی ذمہ داری صرف جنوبی ہندوستان کی نہیں ہے۔ اس میں شمالی ہند کے ان دانشوروں اور سیاست دانوں کا بھی حصہ ڈالنا چاہیے جو نشاة ثانیہ کی فرضی رٹ لگاتے ہیں۔
غور طلب ہے کہ آج بھی اقتصادی مساوات سنگھ کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو وہ کارپوریٹ سرمایہ داری کی لوٹ مار کے بارے میں کچھ نہ کچھ تو کہتا۔ وہ معاشی عدم مساوات کے بارے میں کچھ کہتا۔ قدرتی وسائل کی لوٹ مار پر بات کرتا۔ اس سے ہونے والے ماحولیاتی نقصان پر بات کرتا ۔ وہ اس سے پریشان نہیں ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جو پارٹیاں بی جے پی کے خلاف ہیں وہ بھی اس معاملے میں پوری طرح ایماندار نہیں ہیں۔
درحقیقت سناتن دھرم اور سرمایہ داری کی اصلاح اور اسے بدلنے کی خواہش کا اظہار اسی وقت ہوگا جب اس کے لیے دباو¿ بڑھے گا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب سوویت یونین موجود تھا، دنیا میں عدم مساوات کم ہو رہی تھی، لیکن جیسے ہی اس کا زوال ہوا ویسے ہی وہ تیزی سے بڑھنے لگی۔ اسی طرح اگر ہندو سماج میں بنیاد پرستی سے لڑنے والے اور اسے بدلنے والے منظم اور تیار نہیں ہیں تو پھر جوں کا توں موقف کی حمایت کرنے والے کیوں بدلاﺅ کرنے کو کہیں گے۔ مشہور مورخ آرنلڈ ٹوئنبی نے ایک جگہ کہا ہے کہ جب مستقل خوشحالی اور طاقتور حکمرانی ہو تو اچھے لوگ، اچھے خیالات، فن اور ادب پیدا نہیں ہوتے۔ یہ تب پیدا ہوتا ہے جب سیاسی عدم استحکام ہو یا کوئی بحران ہو۔ ہم اسے غلام ہندوستان پر لاگو کر سکتے ہیں جب ایک طرف پھولے، نارائن گرو، پیریار اور امبیڈکر پیدا ہوئے اور دوسری طرف رام کرشن پرم ہنسا، وویکانند، گاندھی اور لوہیا پیدا ہوئے۔
یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے دانشور بھی ہیں جو دراصل آر ایس ایس کو سناتن دھرم کا وکیل مانتے ہی نہیں۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ کرپاتری جی کی تحریروں کا بھی حوالہ دیتے ہیں جنہوں نے سنگھ کو چیلنج کیا اور کہا کہ وہ سناتنی نہیں ہیں۔ مورخ امریش مشرا کا کہنا ہے کہ سنگھ پریوار جس نے ایودھیا اور بنارس میں مندروں کو گرایا وہ سناتنی نہیں ہو سکتا۔
دراصل، اسلام، عیسائیت اور کمیونزم کی مخالفت کے علاوہ، سنگھ ہندو سماج کی کسی بھی اصلاحی مہم کی نہ تو کھل کر حمایت کرتا ہے اور نہ ہی مخالفت کرتا ہے۔ وہ آریہ سماج کو بھی آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور اپنے اندر کرپاتری جی کی رام راجیہ پریشد کی وراثت کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ان تمام سنتوں اور مصلحین جیسے کبیر، رائداس، نانک، دادو اور گورکھ ناتھ کی پیروی کرنا چاہتا ہے جنہوں نے ذات پات کے نظام سے اختلاف کا اظہار کیا لیکن وہ ذات پات کے نظام کو توڑنے کا کھلے عام مطالبہ بھی نہیں کرتے۔ کیونکہ اس کے مرکزی مفکر دین دیال اپادھیائے نے کہا ہے کہ ذات پات کے نظام کو توڑنے کی بات کرنا ہندو سماج کے بازو اور ٹانگیں توڑنے کے مترادف ہے۔
فی الحال موہن بھاگوت جنہوں نے 2015 میں ریزرویشن کی مخالفت کی تھی اور 2019 میں ریزرویشن کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان بحث کرانے کی بات کی تھی اور پھر انتخابات میں نقصان اٹھانا پڑا تھا، اپنے بیان سے اس میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے ایک اہم بحث اور پروگرام کا راستہ کھول دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شمالی ہند کے سوشلسٹ، کمیونسٹ اور گاندھیائی اس دم گھٹنے والے ماحول میں اس بحث، خیال اور پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ڈاکٹر لوہیا کے بارے میں بات کرنے والے ان کے ہندو بمقابلہ ہندو نظریات اور دروپدی بمقابلہ ساوتری کی بحث کو آگے بڑھانے کے لیے کمر بستہ ہوسکتے ہیں؟

a3w
a3w