یوروپ

صدر ترکیہ بننے کے لئے کسی بھی امیدوار کو فیصلہ کن برتری حاصل نہ ہوسکی

ترکیہ کے اہم ترین انتخابات کے تقریباً مکمل نتائج کے مطابق صدر رجب طیب اردوان جیتنے کے لیے درکار 50 فیصد کی حد سے بہت کم مارجن سے پیچھے رہ گئے۔

انقرہ: ترکیہ میں صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے دوران کوئی امیدوار فیصلہ کن برتری حاصل نہ کرسکا جس کے بعد اب فتح کا فیصلہ (28 مئی کو) دوسرے مرحلہ کے انتخابات میں ہونے کا امکان ہے۔

متعلقہ خبریں
غزہ نسل کشی پر جشن منانے والا اسرائیلی فٹبالر گرفتار
استنبول میں ایک اور زلزلہ کا امکان: ماہرین
ترکیہ اور شام زلزلے میں اموات کی تعداد 41 ہزار ہوگئی
ہندوستانی شہریوں نے ترکیہ کے لئے مدد روانہ کی

ترکیہ کے اہم ترین انتخابات کے تقریباً مکمل نتائج کے مطابق صدر رجب طیب اردوان جیتنے کے لیے درکار 50 فیصد کی حد سے بہت کم مارجن سے پیچھے رہ گئے۔

گزشتہ روز ہونے والی پولنگ کے نتائج کے مطابق صدر رجب طیب اردوان ڈالے گئے کُل ووٹوں کا 49.3 فیصد حاصل کر سکے جبکہ ان کے مدمقابل کمال قلیچ داراوغلو 45 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔ رپورٹ کے مطابق ان انتخابات کے لیے ووٹرز کا ٹرن آف تقریباً 90 فیصد رہا۔

ڈان نیوز کے مطابق سیکولر ترکیہ کی 100 سالہ تاریخ میں پہلی بار صدارتی انتخابات کا فیصلہ 28 مئی کو ہونے والے رن آف الیکشن میں ہو گا۔ قبل ازیں کمال قلیچ داراوغلو نے برتری حاصل ہونے کا دعویٰ کیا تھا تاہم آج صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بھی رن آف انتخابات کے ناگزیر ہونے کا اعتراف کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہماری قوم کہتی ہے دوسرا مرحلہ تو ہم یقینی طور پر دوسرا مرحلہ جیت جائیں گے، معاشرے میں تبدیلی کا عزم 50 فیصد سے زیادہ ہے۔

طیب اردوان نے ترکیہ کو ایک فوجی اور جیو پولیٹیکل ہیوی ویٹ بنا دیا ہے جو شام سے یوکرین تک پھیلے ہوئے تنازعات میں کردار ادا کر رہا ہے۔

قدامت پسند ترکوں کی اکثریت کے نزدیک طیب اردوان کو خاصی مقبولیت حاصل ہے جنہوں نے اُن کے دور حکومت تیزی سے ترقی کا مشاہدہ کیا، کئی مذہبی ووٹرز طیب اردوان کی جانب سے اسکارف پر سیکولر دور میں عائد پابندیوں کو ہٹانے اور مزید اسلامی اسکولوں کو متعارف کرانے کے فیصلے پر مشکور ہیں۔

گزشتہ روز ووٹ ڈالنے کے بعد ایک ووٹر رجب ترکتان نے کہا کہ سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ہم ترکیہ کو تقسیم نہ کریں، ہم اپنی ذمہ داری اور طیب اردوان کی حمایت جاری رکھیں گے۔