طنز و مزاحمضامین

جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں…

حمید عادل

ایک وقت تھا ’’ عوام کے بے حد اصرار پر‘‘کے عنوان کے تحت فلمی شائقین کی خواہشات کا ااحترام کرتے ہوئے فلمیں تک دوبارہ پیش کی جاتی تھیں ، لیکن آج سیاست دانوں کی مانگ کوتک نظر انداز کیا جارہا ہے ،اپوزیشن جماعتوں کا پرزور اصرار تھا کہ الکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ووٹ دینے کے بعد جو پرچی برآمد ہوتی ہے، اس کی بھی گنتی ہونی چاہیے تاکہ انتخابات میںشفافیت کو برقرار رکھا جاسکے لیکن سپریم کورٹ نے اپوزیشن جماعتوں کے اس مطالبے کو خارج کردیا،حالانکہ یہ کوئی ایسا کام نہیں تھا کہ جو ممکن ہی نہ ہو…
مشکوک حیدرآبادی کہتے ہیں کہ یہ کیسے انتخابات ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں اپنی ہار پر شکوک و شبہات کا شکار ہوجائے …ہم سے تو اچھا مغربی افریقہ کا گیمبیا نامی وہ ملک ہے جہاں آج کے جدید دور میں بھی ووٹنگ کے لیے کنچوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔اس ملک کے شہریوں کا خیال ہے کہ اس منفرد اور اچھوتے طریقے میں دھاندلی کا امکان کم ہوتا ہے، ویسے کاغذ کی نسبت دیکھا جائے تو شیشے سے بنے کنچوں کا استعمال بلاشبہ ماحول دوست بھی ہے، کیوں کہ کاغذ کی تیاری کے لیے درخت کاٹے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال عالمی کاغذی صنعت کے لیے 100 ملین ہیکٹر سے زائد رقبہ پر موجود جنگلات کاٹے جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ گیمبیا کی حکومت نے یہ دل چسپ اور آسان نظام اپنے ناخواندہ ووٹرز کی سہولت کے لیے وضع کیا تھا، اس میں ووٹرز مختلف رنگوں کے دھاتی ڈرمز میں شیشے کی بنی ہوئی گولیاں (کنچے) ڈال کر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں، ڈرمز پر امیدواروں کی تصویریں چسپاں ہوتی ہیں۔ ووٹرز جب اپنے پسندیدہ امیدوار کے ڈرم میں کنچا ڈالتے ہیں تو وہ ڈرم کے اندر رکھی ایک گھنٹی پر گرتا ہے، جس سے تیز آواز پیدا ہوتی ہے، اگر گھنٹی ایک سے زیادہ بار بجے تو انتخابی عملے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی دھاندلی کر رہا ہے۔اس طریقے کی رائے دہی سے ووٹوں کی گنتی میں کم وقت لگتا ہے۔ گیمبیائی ووٹوں کی گنتی کے لیے اپنی مرضی کے مطابق ٹرے استعمال کرتے ہیں بجائے اس کے کہ بیلٹ کو دستی طور پر گن کر غلطیوں کا خطرہ مول لیں، اس سے انتخابات کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی آتی ہے۔ یہ ووٹنگ ٹیکنالوجی سستی، مقامی طور پر بنائی گئی اور ماحول دوست ہے، کنچے اور ڈرم گیمبیا میں ہاتھ سے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ مزید برآں، ماربلز اور ڈرموں کو دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے، جو اس عمل کو ماحول دوست بناتے ہیں۔
انتخابات کے عجیب معاملات ہیں،جو ایک دوسرے ممالک سے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہیں ۔ہمارے ہاں انتخابات کے لیے کوئی مخصوص دن مقرر نہیں ہے مگر دنیا کے زیادہ تر خطوں میں الیکشن کے لیے اتوار کو ترجیح دی جاتی ہے۔البتہ امریکہ وہ ملک ہے جہاں منگل کے دن انتخابات کرائے جاتے ہیں، اسی طرح کینیڈا میں پیر، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہفتہ اور برطانیہ میں جمعرات کا دن انتخابات کے لیے مخصوص ہے۔فرانس اور سویڈن ایسے ممالک ہیں جہاں لوگوں کو انتخابات سے قبل خود کو رجسٹر کرانے کی فکر نہیں ہوتی۔ان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے خودکار طور پر اہل ووٹرز کو رجسٹر کر لیا جاتا ہے۔چند ممالک میں ووٹ نہ ڈالنے پر جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ سکتی ہے ،آسٹریلیا میں 18 سال سے زائد عمر کے ہر فرد پر قانون کے تحت وفاقی انتخابات میں ووٹ ڈالنا لازمی ہے۔اسی طرح برازیل، میکسیکو، پیرو، سنگاپور اور تھائی لینڈ سمیت کم از کم 22 ممالک میں لازمی ووٹنگ کا قانون نافذ ہے۔ان ممالک میں ان قوانین کا اطلاق ہمیشہ تو نہیں ہوتا مگر وہاں ووٹ نہ ڈالنے پر مختلف سزائیں ضرور دی جاسکتی ہیں۔
دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں آن لائن ووٹنگ ہوتی ہے، 2005 سے یورپی ملک ایسٹونیا میں لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں کی لمبی قطاروں میں لگنے کی بجائے آن لائن ووٹ دینے کی سہولت حاصل ہے۔ وہاں 2023 کے پارلیمانی انتخابات میں 50 فیصد سے زائد افراد نے آن لائن ووٹنگ سسٹم کا فائدہ اٹھایا تھا۔ہندوستان میں ووٹنگ کی شرح مثالی نہیں ہوا کرتی ہے ،مگر کچھ ممالک جیسے سویڈن (80.3 فیصد)، جنوبی کوریا (76.7 فیصد) اور آئس لینڈ (75.8 فیصد) میں ووٹنگ کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔
سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے مہمات چلاتے ہوئے رائے دہندوں کی حمایت کی حصول کی خاطر انہیں سبز باغ تو دکھاتی ہی ہیں مگر بعض اوقات انتخابی مہمات کے دوران امیدواروں کی طرف سے سامنے آنے والے نعرے اور دعوے رائے عامہ کی ہمدردی حاصل کرنے کے بجائے لطائف میں تبدیل ہوکر مذاق میں بدل جاتے ہیں۔ایک ایسی ہی انتخابی مہم سوشل میڈیا پر مذاق بن گئی تھی،العربیہ ڈاٹ نیٹ نے الجزائر میں بلدیاتی انتخابات کی مہم کے دوران امیدواروں کی طرف سے انوکھے نعروں پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ بعض امیدواروں کے نعرے سن کر بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔مثال کے طور پراسلامک پیس سوسائٹی موومنٹ کے امیدوار مسعادی السبتی کے پوسٹر پر لکھا تھا ’’’ووٹ مسعادی السبتی کو دیں کیوںکہ السبتی پکے نمازی ہیں اور ان کا مسجد سے رشتہ بہت مضبوط ہے۔‘‘ان ہی بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت سوشل ڈیموکریٹک الائنس کے ایک امیدوار نے پوسٹر پر اپنی جوڈ کراٹے کی تصویر شائع کرڈالی…اس تصویر میں انہیں کراٹوں کے کرتب دکھاتے ظاہر کیا گیا ہے، مستقبل پارٹی نے شاہین کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا اورپارٹی کے امیدواروں کو شاہین کے پروں پر بیٹھے دکھایا گیا تھا۔ ایک امیدوار کے ہاتھ میں دہی کا ایک ڈبہ تھا اور اس کے ساتھ لکھا گیا تھا کہ ’’انہیں ووٹ دے کر دہی کا یہ ڈبہ حاصل کریں۔‘‘الجزائر کی الشلف ریاست میں ہونے والے بلدیاتی کونسل کے انتخابات کے ایک امیدوار نے تو اعلان کر ڈالا تھا کہ اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہوگئے تو لوگوں کو روزانہ ایک مرغی کھلائیں گے۔یہ صاحب گھر میں مرغیاں پالتے ہیں اور انہوں نے مرغی ہی کو اپنی انتخابی مہم میں نعرہ بنایا ہے، بعض امیداروں نے انتخابات میں کامیابی کے بعد آلو سستا کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی…اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا آلو سستا کرنے سے سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟
دراصل سیاست داں نہایت چالاک اور چرب زبان ہوا کرتے ہیں…وزیراعظم مودی ہی کو دیکھ لیں…انہوں نے دس سال کے دوران عوام کے لیے کیا کیا اور آئندہ پانچ سال کے لیے وہ کیا کرنے والے ہیں؟اس موضوع پر بات کرنے کی بجائے جھوٹ پر جھوٹ کہہ کر عوام کو ڈرائے جارہے ہیں …سنا ہے کہ کسی نے کسی سے پوچھا : مودی اور مووی میں کیا فرق ہوتا ہے ؟جواب ملا :دونوںہی اداکاری کا شاہکار ہوا کرتے ہیں…وزیراعظم کے جھوٹ کو سن سن کر یوں محسوس ہوتاہے جیسے وہ سچ کو اپنے آس پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتے…وزیراعظم عمر کی 73بہاریں دیکھ چکنے کے باوجود غالباًآج تک سچ اور جھوٹ کا فرق نہیں سمجھ سکے ہیں بلکہ وہ سمجھنا بھی نہیں چاہتے،شاید یہ سوچ کر کہ اب سچ اور جھوٹ کے فرق کو کیا سمجھنا…
پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ، ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خاں صاحب کو تقریر کے لئے بلایا ،تقریر کی ریکارڈنگ کے بعد مولانا، پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔ بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا: ’’ پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے؟‘‘ پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولے: ’’مولانا آپ کی عمر کیا ہو گی؟‘‘ اس پر مولانا گڑ بڑا گئے اور بولے: ’’بھئی ،یہی کوئی 75سال ہو گی۔‘‘ پطرس کہنے لگے: ’’ مولانا جب آپ نے 75 سال یہ فرق جانے بغیر گزار دئیے، تو دو چار سال اور گزار لیجئے ‘‘۔
سیاست داں کس قدرابن الوقت ہوا کرتے ہیں ، ان لطائف سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے :
ایک سیاست دان اپنی انتخابی مہم چلا رہا تھاتو کسی صحافی نے اُس سے شراب سے متعلق پالیسی کے بارے میں پوچھا، سیاست دان نے جواب دیا کہ ’’اگر آپ کی مراد اُس شیطانی مشروب سے ہے جو جسم میں زہربھر دیتا ہے، دماغ کو برباد کرتا ہے، خاندان کو تباہ کرتا ہے اور جرائم کا سبب بنتا ہے، تو میں اس کے سخت خلاف ہوں! لیکن اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ وہ مشروب شادی کے موقع پر جشن منانے کے لیے پیا جاتا ہے، ویک اینڈ پر دوستوں کی محفل میں اُس سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے اور اُس کی فروخت سے حاصل ہونے والا ٹیکس ضرورت مند یتیموں پر خرچ کیا جاتا ہے، تو میں اس مشروب کے حق میں ہوں اور میں اپنی رائے نہیں بدلوں گا، چاہے آپ کچھ بھی کہیں۔‘‘
ایک ڈاکو کسی متمول شخص کی کوٹھی میں لوٹ مار کی غرض سے داخل ہوا اور صاحب خانہ کو پستول کے زور پر یرغمال بنا کر چیخا:’’اپنی ساری رقم مجھے دے دو!‘‘ وہ آدمی پْرسکون لہجے بولا: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں؟ میں رکن پارلیمنٹ ہوں!‘‘ ڈاکو نے جواب دیا:’’تو پھر اِس صورت میں، میری رقم مجھے واپس کرو!‘‘
بی جے پی الکٹرول بانڈس کے نام پر دنیا کا سب سے بڑا گھٹالہ کرنے کے باوجود شفافیت کا ڈھنڈورہ پیٹتی نظر آتی ہے …ہندوستانی عوام کے لیے انتخابات کوئی نئی چیز نہیں،لیکن جھوٹ پر مبنی ایسے انتخابات شایدہی کبھی ہوئے ہوں…راہول گاندھی بی جے پی کے جھوٹ کونہ صرف مسلسل طشت از بام کررہے ہیں بلکہ طنز کے تیر بھی خوب چلا رہے ہیں … ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ ایک اعلیٰ عہدہ دار نے ان سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاہے کہ وزیراعظم مودی کو صرف آپ (راہول )ہی ہرا سکتے ہیں …یہ چھوٹا سا جملہ وزیراعظم کے حوصلے پست کرنے کے لیے کافی ہے …راہول نے چند دن قبل کہا : مودی اپنی شکست کے خوف سے کانپ رہے ہیں … اور پھر دو دن بعد کہنے لگے :مودی عنقریب خوب روئیں گے… راہول گاندھی کے بدلے تیور دیکھ کر نامور صحافی رویش کمار بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’یہ راہول ،وہ راہول نہیں ہیں ‘‘کیوں کہ وہ عوام سے راست مخاطب ہیں،جب کہ وزیراعظم مودی عوامی مسائل پر بات کرنے کی بجائے جھوٹ پر جھوٹ کہے جا رہے ہیں …
جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا
بیخود دہلوی
۰۰۰٭٭٭۰۰۰