سیاستمضامین

وراثتی ٹیکس لاگو کرنے سے متعلق میڈیا میں زبردست مباحثزعفرانی پارٹی کا انڈیا اتحاد پرالزام۔ہندوستان کی نصف دولت پر صرف چند افراد کا قبضہ : کانگریس

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ کانگریس ہندوؤں کی جائیدادوں کو مسلمانوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ امیت شاہ
٭ زیادہ تر دولت جائیدادوں کی شکل میں ہے۔
٭ وراثتی ٹیکس کی حد60فیصد تک ہوسکتی ہے۔
٭ کانگریس نے اقتدار پر آنے کے بعد قانون سازی سے انکار نہیں کیا۔
٭ یہ سمجھ کر چلنا چاہیے کہ وراثتی ٹیکس لاگو ہوگا۔
ایک ٹیکنو کراٹ مسٹر سام پٹروڈا جو کہ کانگریس پارٹی کے مشیر خاص ہیں‘ نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ۔ ایک ٹیلی ویژن چیانل پر انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دولت اور جائیداد کی مساویانہ تقسیم کا واحد حل یہ ہے کہ ملک میں وراثتی ٹیکس لاگو کردیا جائے۔ کانگریس کے اڈوائزر کے اس بیان نے زعفرانی پارٹی کو آگ بگولہ کردیا اور الزام لگارہی ہے کہ کانگریس اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں وراثتی ٹیکس لاگو کردے گی اور ہندوؤں کی جائیدادوں اور دولت کو مسلمانوں میں تقسیم کردے گی۔ یہ بھی ایک طرفہ تماشہ ہے کہ آنجہانی فینانس منسٹر ارون جیٹلی نے2017ء میں وراثتی ٹیکس کا ڈرافٹ تیار کیا تھا اور کسی وجہ سے قانون سازی نہ ہوسکی۔ اب جبکہ اس ٹیکس کو لاگو کرنے کی بات کانگریس کے اڈوائزر کی جانب سے کہی گئی ہے‘وزیر داخلہ امیت شاہ ملک کے ہندوؤں اور مسلم عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ زعفرانی پارٹی رواں الیکشن ہاررہی ہے اور انتخابات کو Polarize کرنے کے سوا کوئی دوسری صورت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے۔ تو یہ بات لاوثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کانگریس کے برسراقتدار آنے کے بعد جو پہلی قانون سازی ہوگی وہ وراثتی ٹیکس کے بارے ہی میں ہوسکتی ہے۔
یہ بات غور کرنے کے لائق ہے کہ کانگریس پارٹی نے قانون سازی کرنے سے انکار نہیں کیا تو اس بات کو باور کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں وراثتی ٹیکس قانون لاگو ہوگا۔
درحقیقت زعفرانی پرٹی اس قانون کو نافذ کرنا چاہتی تھی اور یہ عمل2017ء میں ہی پورا ہوجاتا لیکن کسی وجہ سے قانون سازی نہ ہوسکی۔
قارئین کرام اچھی طرح سے واقف ہیں کہ روزنامہ منصف رواں کالم کے ذریعہ اس ضمن میں مکمل معلومات فراہم کرچکا ہے تاکہ ایک سے زیادہ جائیدادوں کے مسلم مالکین کچھ ایسے اقدامات قبل از وقت کرلیں کہ اس قانون کا ان کی جائیدادوں پر منفی اثر نہ پڑسکے۔ مسٹر سام پٹروڈا اڈوائزر کانگریس پارٹی نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں اگر کوئی دولت مندصاحبِ جائیداد فوت ہوجائے تو55فیصد کے اثاثہ جات پر حکومت قبضہ کرلے گی تاکہ اس رقم کو ملک کی ترقی کے پراجکٹس میں مصروف کیا جاسکے اور مابقی 45فیصد دولت و جائیداد متوفی مالکِ جائیداد میں تقسیم کردی جائے۔
امریکہ کے بالمقابل ہندوستان کی کثیردولت جائیدادوں اور رئیل اسٹیٹ میں لگائی گئی ہے اور رئیل اسٹیٹ ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری بن گئی ہے۔ ملک کی80فیصد دولت محض چند ہاتھوں میں ہے ۔ کسی کے پاس سینکڑوں مکانات اور وسیع اراضیات ہیں تو کسی کے پاس سر چھپانے کے لئے ایک جھونپڑی بھی نہیں۔ ملک کی قابلِ لحاظ آمدنی سڑکوں پر اپنی زندگی گزاررہی ہے حتی کہ غریب عورتوں کی زچگیاں تک سڑکوں پر ہی ہورہی ہیں۔ (Global Hunger Index) کے مطابق ہندوستان میں فاقہ کشوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور ہندوستان سب سے نیچے مقام پر ہے پھر بھی زعفرانی پارٹی کا یہ دعویٰ ہے کہ ملک بہت جلد تیسری معیشت بن جائے گا جبکہ دوسری جانب 85کروڑ بھوکے عوام کو صرف پانچ کلو اناج پر گزارہ کرنا پڑرہا ہے۔
1976ء کے بعد شہرِ حیدرآباد میں اربن لینڈ سیلنگ لاگو ہوا جس کی وجہ سے کوئی بھی فرد اپنے قبضہ میں ایک ہزار مربع میٹر سے زیادہ اراضی نہیں رکھ سکتا۔ قانون سے عدم واقفیت کی وجہ سے حیدرآباد کے مالکینِ اراضی سینکڑوں ایکر اراضی سے محروم ہوگئے۔ اگر لوگوں میں قانونی شعور ہوتا تو وہ اپنی فاضل اراضیات کو اپنے عزیزو اقارب میں تقسیم کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
لیکن ہم امید کرسکتے ہیں کہ کم از کم اس وقت جبکہ قانون لاگو ہونے والا ہے کچھ دفاعی اقدامات کرلیں اور اپنی جائیداد کو ٹیکس کے لزوم سے محفوظ رکھیں۔
رئیل اسٹیٹ میں بے سود سرمایہ کاری
سوال:- میرے ایک قریبی رفیق جو (UAE) میں تجارت کرتے تھے اور کافی مالدار تھے وہ وطن واپس آگئے اور اپنے سرمایہ کو کسی منفعت بخش کاروبار میں مصروف کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے ۔ کچھ عرصہ بعدایک رئیل اسٹیٹ تاجر سے ان کی ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی۔ انہوں نے ایک بہت بڑی رقم جس کا تذکرہ مناسب نہیں‘ اپنے دوست کی تجارت میں مصروف کردی اور ایک معاہدہ پر دستخظ کئے جس کی وجہ سے اراضیات(پٹہ) کی خریدی اور اس پر وینچر اور پلاٹس کی فروخت پر ان کا فائدہ(25) فیصد تھا۔ ایک انوسٹمنٹ اگریمنٹ تیار کیا گیا اور ساری رقم نقد ادا کردی گئی۔ معاہدہ کے بعد رئیل اسٹیٹ تاجر نے ایک بڑی پٹہ اراضی خریدی۔ زمین کو غیر زرعی اراضی میں تبدیل کردیا گیا ۔ پلاٹنگ کی گئی ۔ اشتہارات دیئے گئے ۔ چونکہ اراضی بہت اچھی تھی تمام پلاٹس فروخت ہوگئے اور ساری رقم رئیل اسٹیٹ تاجر نے حاصل کرلی۔ تاجر نے میرے دوست کو وقتاً فوقتاً بطورِ منافع رقومات نقد میں ادا کرتے گئے۔ آخرِ کار جب انہوں نے اپنی رقم معہ منافع کا مطالبہ کیا تو ایک ہفتہ کا وعدہ کرکے غائب ہوگئے اور آج تک پتہ چل نہیں چل سکا کہ رئیل اسٹیٹ تاجر کہاں غائب ہوگئے۔ میرے دوست کے کل سرمایہ کا25فیصد بھی بطورِ منافع حاصل نہ ہوسکا اور وہ شدید نقصان کے حامل ہوئے۔
انہوں نے اب تک کوئی قانونی مشورہ حاصل نہیں کیا۔ اس ضمن میں آپ سے رائے طلب کی جارہی ہے کہ کیا :
(1) کریمنل کارروائی کی جاسکتی ہے۔
(2) سیول کورٹ سے رجوع کیاجاسکتا ہے۔
جواب کی اشاعت کا منتظر رہوں گا۔ فقط
X-Y-Z حیدرآباد
جواب:- آپ کے بیان کی صحت کے بارے میں ہمیں شبہ ہے۔ کوئی بھی ایسا شخص جس نے عرب ملک میں تجارت کی ہے اس قدر غافل نہیں ہوسکتا کہ اتنی بھاری رقم اور وہ بھی نقد کی شکل میں کسی تجارت میں مصروف نہیں کرسکتا۔ یا پھر وہ انتہائی سادہ لوح ہوسکتے ہیں اور ہر کسی کی بات پر یقین کرسکتے ہیں۔ خیر جو بھی ہوا ۔ شائد رقم بہت زیادہ تھی اور وہ بھی نقد کی شکل میں ادا کی گئی۔ اتنی بھاری رقم کے دھوکہ میں اور وہ بھی نقد میں ‘ اگر شکایت کی گئی تو سب سے پہلے پوچھا جائے گا کہ اتنی بھاری رقم آپ نے نقد میں کیسے ادا کی اوراگر اس لین دین کی بات پولیس نے انکم ٹیکس کو دیدی تو دوسرے ہی دن انکم ٹیکس حکام گھر پر آجائیں گے اور بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
خود کردہ را علاجے نیست! اگر صاحبِ موصوف نے قانونی رائے طلب کی ہوتی تو انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ بہتر یہ ہوگا کہ مفرور شخص کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے کسی جاسوسی ادارہ سے ربط قائم کیا جاسکتا ہے۔ وہ لوگ مفرور شخص کا پتہ چلالیں گے ۔ آپ کو یہ رائے نہیں دی جاسکتی کہ آپ کے دوست پولیس سے رجوع ہوں کیوں کہ اس میں خطرات لاحق ہوں گے۔
یہ واقعہ (اگرسچ ہو) تو ان حضرات کو ہوشیار ہوجانا چاہیے جو انوسٹمنٹ اگریمنٹ کرکے بھاری رقومات تاجروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ ایسے تاجر اکثر اسکراپ‘ رئیل اسٹیٹ‘ سیکٹر میں تجارت کرتے ہیں۔ دوسروں کی رقومات سے اپنا کام نکالتے ہیںاور بعد میں دھوکہ دے دیتے ہیں۔ کسی بھی ایسے اگریمنٹ سے قبل قانونی مشورہ ضرور حاصل کرلینا چاہیے۔
کرایہ دار غائب ۔ آفس پر تالہ لگا ہوا ہے
سوال:- حیدرآباد کے ایک ترقی یافتہ علاقہ میں میرا مکانG+4 واقع ہے۔ ایک کمپنی کے لوگ مجھ سے ربط قائم کئے اور فرسٹ فلور کرایہ پر لینے کا معاہدہ کیا۔ چونکہ کمپنی تھی اور کرایہ بہت ہی اچھا تھامیں نے کرایہ نامہ کا معاہدہ کروایا۔ کرایہ نامہ کی رجسٹری نہیں ہوئی‘ اڈوانس میں تین مہینے کا کرایہ مقرر ہوا۔ کرایہ پرلینے کے بعد کمپنی نے اپنا آفس قائم کیا اور اپنے اخراجات سے A.C لگوائے۔ چار مہینے تک کاروبار چلتا رہا اور کرایہ ہر ماہ نقد میں ملتا رہا۔ پھر اچانک وہ لوگ کمپنی کو Lock کرکے غائب ہوگئے۔ ان کا آفس دہلی میں ہے۔ دریافت پر پتہ چلا کہ یہ لوگ بڑے دھوکہ باز ہیں اور گروگرام(ہریانہ) میں رہتے ہیں۔ آفس بند ہوکر آٹھ مہینوں کا عرصہ گزرگیا۔ نہ کرایہ ہی آتا ہے اور نہ ہی کوئی ربط ہے۔
ایسی صورت میں ایک پورے فلور کا قبضہ کس طرح حاصل ہوسکتا ہے۔ کیا لالک توڑا جاسکتا ہے؟ جواب روزنامہ منصف میں شائع فرمائیے۔
X-Y-Z حیدرآباد
جواب:- ہم اس گروپ سے واقف ہیں۔ان کاکاروبار ہریانہ کے شہر گروگرام (گڑگاؤں) میں ہے ۔ یہ لوگ کرایہ پر بڑی جائیدادیں حاصل کرتے ہیں۔ ان کے ٹھاٹ باٹ اور باتوں میں حیدرآباد کے نادان لوگ آجاتے ہیں۔ دوچار مہینوں کا کرایہ ادا کرکے یہ لوگ غائب ہوجاتے ہیں اور بلڈنگ میں اپنا فرنیچر چھوڑجاتے ہیں۔ بعدمیں بلیک میل کرتے ہیں اور بھاری رقومات حاصل کرکے چلے جاتے ہیں۔ آپ اگر چاہیں تو ان لوگوں کے خلاف سیول کورٹ میں تخلیہ کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس عمل میں کافی عرصہ لگ جائے گا۔ آپ کو لاک کو توڑنے کی بھی رائے نہیں دی جاسکتی۔
حیدرآباکی بڑی جائیدادوں کے مالکین اپنی جائیداد کرایہ پر دینے سے قبل مکمل معلومات حاصل کرلیں۔ بڑے کرایہ ناموں کی رجسٹری لازمی طور پر کروائیں۔
ہریانہ ‘ دہلی کے لوگ باتوں کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان پر کبھی بھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ حیدرآباد کے لوگ ان لوگوں کی شکل و صورت‘ گوری رنگت اور باتوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور ان کے پیچھ چھپے ہوئے مجرمین کو نہیں پہچانتے۔
دوسری بات یہ کہ اجنبیوں پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ زیادہ کرایہ کی لالچ اکثر جان لیوا بن جاتی ہے۔
سوال:- میں نے ایک پلاٹ موازی267 مربع گز واقع شاہین نگر بذریعہ رجسٹری خریدا ‘ خرید کے بعد پلاٹ کی حصار بندی ہوئی اور وہاں میرے نام کا بورڈ لگایا گیا۔ پلاٹ صرف اس مقصد سے خریدا تھا کہ دوچار سال بعد کچھ فائدہ کے ساتھ فروخت کردوں گا۔ لیکن جب ایک ماہ کے بعد میں پلاٹ پر گیا تو دیکھا کہ میرے نام کا بورڈ نکال دیا گیا ہے اور اس پر کچھ لوگوں کا قبضہ ہے۔ جب دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ان لوگوںنے یہی پلاٹ بذریعہ نوٹری خریدا تھا اور فروخت کرنے والا وہی شخص تھا جس نے میرے نام رجسٹری کی تھی۔ مقامی پولیس سے رجوع ہوا۔ انسپکٹر آف پولیس نے دونوں ڈاکومنٹس دیکھے اور کہا کہ یہ پلاٹ آپ سے دو سال پہلے ان لوگوں کو فروخت کیا گیا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اس شخص کے خلاف دھوکہ دہی کا مقدمہ دائر کرسکتے ہیں۔ نوٹری دستاویز پر ہی اسی شخص کے دستخط ہیں۔ آپ سے رائے مطلوب ہے۔
جواب:- انسپکٹر کا کہنا بالکل درست ہے۔ آپ اس شخص کو تلاش کیجئے جس نے آپ کو دھوکہ دیا ۔ اس کے خلاف دھوکہ دہی کی شکایت کیجئے۔ پلاٹ تو آپ کو نہیں مل سکتا۔

a3w
a3w