جس کی ابتداءیہ ہو، پھراس کی انتہاءنہ پوچھ

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
ملک کی اُس نئی پارلیمنٹ عمارت میں خصوصی اجلاس کی کارروائی اختتام پذیر ہوچکی ہے، جس کی تعمیرمیں آٹھ ارب باسٹھ کروڑ ہندوستانی روپے خرچ کئے گئے ہیں، اس اجلاس کے آغاز میں ہی دوامور ایسے سامنے آئے، جوہراس ہندوستانی کے لیے باعث تشویش ہیں، جوواقعی ”ہندوستانی“ ہو اور جو ملک کی ترقی، اس کی سالمیت کے ساتھ دیکھناچاہتا ہو، پہلا امریہ ہے کہ دستور ہند کے دیباچہ میں جہاں SOVEREIGN SOCIALIST SECULAR DEMOCRATIC REPUBLICَلکھا ہواتھا، نئی پارلیمنٹ میں جب ”بھارت کے آئین“ کی کاپی تقسیم کی گئی تو اس میں سے دو لفظ SOCIALIST اور SECULAR غائب کردیے گئے تھے۔
یہ واقعی تشویشناک بات ہے؛ اس لیے جب اس پراعتراض کیاگیا توحکمراں جماعت کی طرف سے جواب یہ دیاگیاکہ اس کاپی میں وہی بنیادی تمہیدہے، جو1949 کے آئین کی کاپی میں تھی، دراصل یہ دونوں الفاظ 1976میں 42ویں ترمیم کے ذریعہ آئین کی تمہید میں شامل کیے گئے تھے، یہ بات توبالکل درست ہے کہ آئین کی ابتدائی کاپیوں میں یہ الفاظ نہیں تھے اورانیس سوچھہتر میں ان الفاظ کوشامل کیاگیا، اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ کیاآئین ہندمیں جتنی بھی ترامیم ہوئی ہیں، سب کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا؟ کیوں کہ ویکی پیڈیاکے مطابق جولائی2018تک آئین میں 124ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کی جاچکی ہیں، جن میں سے 103ترمیمی قانون بنے ہیں اورخواتین ریزرویشن بل 128 واں ترمیمی بل ہے، جواکثریت کے ووٹ سے 20/ستمبر 2023کو پاس ہوچکاہے، توکیاحکومت ان تمام ترامیم کویہ کہہ کرردکرے گی اورآئین ہندسے نکال باہرکرے گی کہ یہ 1949کی آئین ہندکی کاپی میں نہیں تھے؟
اصل بات یہ ہے کہ لفظ ”سیکولر“ سے آرایس ایس کو چڑہے؛ کیوں کہ وہ ہمیشہ سے اس ملک کے سیکولرزم کوختم کردینے کی کوشش کرتی رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ جنوری 2020 میں آرایس ایس کے کنوینرنندکمارنے آئی این ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہاتھا: ”سیکولرزم ایک مغربی تصورہے، یہ مغرب سے آیا ہے، جوکہ حقیقت میں پوپ کی بالادستی کے خلاف ہے“، انھوں نے کہاکہ: ”معاشرہ کوکسی بھی سیاسی طبقے سے قطع نظراس بات پرتوجہ دینی چاہیے کہ ہندوستانی آئین کی تمہید میں ”سیکولر“لفظ کو رکھنا چاہیے یا نہیں؟“، پھر نندکمار نے خودہی فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ: آئین ہند کی تمہید میں سیکولرلفظ کاوجود ضروری نہیں ہے اور آئین کے بانی بھی اس کے خلاف تھے۔“
گویا لفظ ”سیکولر“ پرجوکچھ اعتراض ہوتے تھے، برسراقتدار پارٹی نے اب اس اعتراض کوہی ختم کردیا ہے اور اس لفظ کو”آئین دروہ“ کردیاہے، آئین ہندکی اِس تمہید کو ہٹانے کی جوتمہیدبرسوں پہلے قائم کی گئی تھی اوروقتاً فوقتاً جس پربات کرہی دی جاتی تھی، جیساکہ نندکمارنے دوہزاربیس ہی میں اس تعلق سے بیان دیا، اب باقاعدہ وہ کتاب پرچھپ چکی ہے، اوریہ اس بات کی تمہیدہے کہ اب ملک کاسیکولرزم آئینی طورپربھی ختم ہونے کے قریب ہے؛ کیوں کہ عملی طورپرتوبرسوں پہلے اسے ختم کرہی دیاگیاہے۔
سیکولرزم کے ختم ہونے سے ”ہندوراشٹر“ کادروازہ کھل چکاہے، جوآج نہیں توکل ہوکررہے گا؛ الا یہ کہ چوبیس کے الیکشن میں ہارہوجائے؛ لیکن زمینی سطح سے اوپر اٹھ کر آپ اگرمیکینکل سطح پردیکھیں توساری شہادتیں اس بات پرہیں کہ چوبیس انھیں کے پالے میں گرے گا، جوملک اوراس کی سالمیت کے حق میں کسی طورپرمفید نہیں ہوگا، جس کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، بے روزگاری کافی زیادہ ہے، ٹیکس کابوجھ عوام پرکافی ہے؛ حتی کہ بنیادی ضروریات: کھانے پینے کی اشیاء میں بھی ٹیکس لاگوکردیاگیاہے، ظاہرہے کہ ان چیزوں میں کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوگی، ہاں! فسادات ہوں گے، لنچنگ ہوگی، ہندومسلم کے نام پرمارکاٹ کی جائے گی، نچلے طبقات کو اورزیادہ کچلاجائے گا؛ کیوں کہ ہندوراشٹرکامطلب ہی طبقاتی نظام کاقیام ہے، جس میں بڑے، بڑے ہی رہیں گے اور چھوٹوں کوچھوٹے رہنے پرمجبورکیاجائے گا، اسی لیے اپوزیشن نے اس پراعتراض جتایاہے اوراسے تشویشناک بات قرار دیاہے، یہ بھی کہاہے کہ ان کے ارادے مشکوک ہیں۔
یہاں رک کردوباتیں سمجھنے کی ضرورت ہے: (۱) کیاآئین میں ترمیم کی جاسکتی ہے؟ اگرہاں توکس قسم کی ترمیم؟ اوراس کاطریقہئ کارکیاہے؟اس سلسلہ میں خود آئین میں گنجائش دی گئی ہے اورطریقہئ کاربھی بتایاگیا ہے، جواس طرح ہے: ”آئین کی ترمیم کی تحریک اس غرض سے پارلیمنٹ کے کسی ایوان میں صرف بل پیش کرکے ہوسکے گی اورجب وہ بل ہرایک ایوان سے اس ایوان کے جملہ رکنیت کی اکثریت سے اوراس ایوان کے ایسے ارکان کی کم سے کم دوتہائی اکثریت سے منظورہوجائے، جوموجودہوں اورووٹ دیں، اس کو صدرکے پاس پیش کیا جائے گااوروہ بل کومنظورکرے گا اورتب آئین اس بل کی توضیعات کے مطابق ترمیم شدہ قراردیاجائے گا؛ بشرطیکہ اگرایسی ترمیم سے کوئی تبدیلی: (الف) دفعہ:54(صدرکے انتخاب سے متعلق)، دفعہ: 55، (صدرکے انتخاب کے طریقہئ کارسے متعلق)، دفعہ:73 (یونین کے عاملانہ اختیارکی وسعت سے متعلق)، دفعہ:162 (ریاست کے عاملانہ اختیار کی وسعت سے متعلق) یا دفعہ: 241 (یونین علاقوں کے لئے عدالت ہائے عالیہ قائم کرنے سے متعلق)یا(ب) حصہ 5کے باب:4 (یونین کی عدلیہ سے متعلق)، حصہ6کے باب:5(ریاستوں میں عدالت ہائے عالیہ سے متعلق)یاحصہ 11کے باب: 1(قانون سازی کے اختیارات کی تقسیم سے متعلق)میں، یا(ج) ساتویں فہرست بندکی فہرستوں میں سے کسی فہرست میں، یا(د) پارلیمنٹ میں ریاستوں کی نمائندگی میں، یا(ہ)اس دفعہ کی توضیعات میں، کرنامقصودہوتواس ترمیم کے لیے اس بل کو، جس میں ایسی ترمیم کے لئے توضیع کی گئی ہو، صدرکے پاس منظوری کے لئے پیش کرنے سے قبل کم سے کم نصف ریاستوں کی مجالس قانون ساز کی توثیق بھی ان مجالس قانون ساز کی اس غرض سے منظورہ قراردادوں کے ذریعہ لازمی ہوگی“(بھارت کاآئین (مترجم)، دفعہ نمبر: 368،ص:۳۱۷-۳۱۸)
مذکورہ تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ:(۱) آئین میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔(۲) ترمیم کے لئے ایوان بالا اورایوان زیریں کے اکثراراکین کی منظوری ہونی چاہیے۔ (۳) آخرمیں صدرسے بھی منظوری ضروری ہے۔(۴) پھراس بات کاخیال رکھنابھی ضروری ہے کہ دفعہ:368میں جن دفعات کاتذکرہ ہے، ان کی رعایت ضروری ہے، اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ آئین ہندکی تمہیدسے دولفظوں: سوشلسٹ اورسیکولر کوہٹانے کے لیے ایساکوئی عمل کیاگیا؟ اگرنہیں تویہ کہناکہ 1949کی تمہیدکے مطابق یہ تمہید ہے، بہت مضحکہ خیز؛ بل کہ آمرانہ اورنادرشاہی ہے، جس کے لیے ہرہندوستانی کونہ صرف تشویش میں مبتلاہوناچاہئے؛ بل کہ قانونی لڑائی بھی لڑنی چاہئے، ورنہ پھرایک طبقاتی نظام کے تحت اپنے آپ کو چلانے کے لیے تیار کرلینا چاہیے، جہاں کسی چیزکاحق نہیں ہوگا؛ بل کہ یوں کہاجائے توبے جانہ ہوگاکہ: سانس بھی صاحب کی اجازت سے لینی ہوگی۔
(۲)جہاں تک دوسری بات کاتعلق ہے تویہ ہے کہ کیااپوزیشن کااس لفظ کے ہٹائے جانے پراعتراض کرنا، اسے تشویشناک قراردینااوراردوں کومشکوک قراردینا کافی ہے؟ یا اسے کچھ اورکرنے کی ضرورت ہے؟اس کاسیدھاجواب یہ ہے کہ یہ کافی نہیں ہے؛ بل کہ اس کے لیے سڑکوں پراترکااحتجاج درج کراناضروری ہے؛ بل کہ اس کے لیے اپوزیشن کوپد یاترا نکالنا چاہئے؛ کیوں کہ یہ آئین کے لیے خطرہ ہے، پھرتوکبھی بھی کسی قانون کوحذف کردیاجائے گااورکہہ دیاجائے گا کہ 1949کے آئین میں یہ نہیں ہے؟
دوسراامر، جواس نئی عمارت کے ابتدائی اجلاس میں پیش آیا، وہ ”ناری شکتی وندن“ ایکٹ کی پیشکشی تھی، جس کوبدھ (20ستمبر2023)کے روزپیش کیاگیا، یہ 128ویں ترمیمی بل ہے، جسے 454ممبران پارلیمنٹ کے ووٹ سے پاس کیاگیا، اس قانون کی وجہ سے قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کو33فیصد حصہ داری ملے گی؛ لیکن اس بل کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں OBCاور مسلم خواتین کومستثنیٰ رکھاگیاہے، یہی وجہ ہے کہ ممبرپارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالا؛ لیکن بے چارہ کاووٹ ”طوطی کی صدا“ بن کررہ گیا۔
اگران دونوں امورکاجائزہ لیں توحکومت کے منشا کاصاف مطالعہ کیاجاسکتا ہے کہ وہ برہمنیت کوبڑھاوا؛ بل کہ مکمل طورپرلاگوکرناچاہتی ہے، جس کے لئے تختہئ مشق اوبی سی اورمسلمان ہیں، کہیں نہ کہیں ان کوضرورگھسیٹاجاتاہے، کوئی نہ کوئی بل ایساضرورلایاجاتاہے، جہاں ان کونشانہ بنایاجائے، بہرحال! یہ توٹریلرہے2024کا، فلم 2024میں ریلیز ہوگی، عقلمندی یہ ہے کہ اس تعلق سے ہمیں کچھ فکرضرور کرنی چاہیے اور ضرور سوچنا چاہیے کہ جس نئی عمارت کی ابتداء یہ ہے تواس کی انتہاء کیاہوگی؟
٭٭٭