طنز و مزاحمضامین

جواب نہیں….

نصرت فاطمہ

آپ مانیں یا نہ مانیں، ہم تو یہ مانتے بھی ہیں اور بخوبی جانتے بھی ہیں کہ ہم تو اس صنف سے تعلق رکھتے ہیں جس کا واقعی کوئی ”جواب“ نہیں…. ویسے بھی کہنے والے کہہ گئے کہ
ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا
ہر جواب لاجواب نہیں ہوتا
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ہمیں اچانک بیٹھے بٹھائے اس (حقیقت کا) ادراک کیونکر ہوا.. ہم معصوموں سے زمانے کو شکایتیں ہی بڑی ہیں.. ویسے آپ کو بتاتے چلیں (ہماری ایک اور خوبی) کہ ہم شکایتوں کی پرواہ کم ہی کرتے ہیں.،لیکن موضوع برائے بحث سمجھ لیں۔ ہمیں ایک موضوع ہاتھ لگ گیا،آپ قارئین سے مخاطب ہونے کا۔ آج تک آپ نے( موضوع کے نام پر) ساس بہو کی شکایات ہی سنی ہیںتوہم نے سوچا کہ خاتون ہونے کے ناطے ہمارا حق بنتا ہے کہ ان شکایتوں کا دفاع کیا جائے۔گمان کیاجاتا ہے کہ ساس بہو میں لڑائیاں ہونا عام سی بات ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ ہمیشہ اور ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ ساس کو بہو سے بے شمار گِلے، اور بہو ہیں تو ان کو ساس کی پسند ناپسند ہی سمجھ نہیں آتی، لیکن یہ شروع شروع کی بات ہوتی ہے۔ پھر تو آپ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ہاں ایک میان میں دو تلواریں ضرور رہ سکتی ہیں بشرطیکہ میان میں گنجائش ہو۔(گنجائش بننے تک کا وقت آپ صبر کریں) دونوں سمجھدار ہوں تو یہ ہوتا ہے کہ ہر دن کے گزرتے وہ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش نہیں چھوڑتیں۔ تبھی تو ہزاروں اختلافات کے اور بے شمار غلط فہمیوں کے باوجود مشترکہ خاندانی نظام کو کامیاب بنانے کا سہرا انہی دو خواتین کے کے سر جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مسئلہ (جو کہ اصل میں فائدے کی بات ہے) کی بات کریں تو ہوتا کچھ یوں ہے کہ بہو کی کچھ بے اعتنائیاں اور کچھ لاپرواہییاں ساس صاحبہ کو یوں دلگرفتہ کردیتی ہیں کہ انھیں اپنا وہ زمانہ یاد آجاتا ہے جب وہ خود لاابالی سی ہوا کرتی تھیں اور اکثر وبیشتر اپنی ساس صاحبہ کو سیخ پا کردیا کرتی تھیں… ماضی کی وہ یادیں بھلے وہ کسی سے شئیر نہ کریں، مگر ان کا ضمیر ضرور انہیں یہ سب یاد دلاتا رہتا ہے اور اس طرح انہیں اپنے سارے کردہ وناکردہ قصور یاد آجاتے ہیں، جو کسی زمانے میں ان سے سرذد ہوچکے تھے۔اس طرح مرنے سے پہلے وہ (غائبانہ ہی سہی) اپنی ساس سے ڈھیروں معافیاں مانگ لیتی ہیں۔ معافی مانگنے پر اللہ ضرور اپنے بندوں کی خطائیں معاف کردیتا ہے۔ آپ بتائیں، فائدے کی بات ہے کہ نہیں..
اور بہو صاحبہ کی بات کریں تو ساس کے ڈر سے ہر کام کرنے سے پہلے اسے خدا یاد آتا ہے۔ دیکھا جائے تو دونوں ہی ایک طرح سے ثواب سمیٹ رہی ہیں(ہائے ہماری یہ خواتین)ہمارے نقطہ نظر سے دیکھیں تو آپ بھی ہمارے قائل ہوجائیں گے۔ ویسے ایک بات اور یاد رہے کہ جو بہو اور جو بیوی اپنی ساس اور شوہر کی ساری غلطیاں معاف کردے وہ صرف ڈرامے کی آخری قسط میں پائی جاتی ہے۔ ساس بہو کے بارے میں آپ کو ایک بڑا ہی اچھا واقعہ سناتے ہیں۔
شادی کے تین سال کے بعد ساس نے بہو سے پوچھا۔ ”بہو مجھے ایک بات تو بتا۔ میں تجھے اتنی خراب اور کھری کھری باتیں سناتی ہوں اور تو پلٹ کر جواب بھی نہیں دیتی اور غصہ بھی نہیں کرتی اور بس ہنستی رہتی ہے۔“
بہو کو تو جیسے سنانے کو کہانی مل گئی۔۔۔
کہنے لگی۔ ”اماں جی آپ کو ایک بات سناتی ہوں۔ میں جب چھوٹی تھی تو مجھے ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ میری ماں میری سگی ماں نہیں، کیوں کہ وہ مجھ سے گھر کے سارے کام کرواتی تھیں اور کوئی کام غلط ہو جاتا تو مجھے ڈانٹ بھی پڑتی اور کبھی کبھی مار بھی دیتی تھیں، لیکن ماں تھیں وہ میری۔ مجھے ان سے ڈر بھی لگتا تھا اور میں نے ان سے کبھی غصہ نہیں کیا۔۔ یہاں تک کہ میں کالج سے تھکی ہوئی واپس آتی تو آتے ہی کچھ دیر آرام کے بعد مجھے کام کرنے ہوتے تھے۔“
”پھر جب میری بھابیاں آئیں تب تو جیسے میرے کام زیادہ ہی بڑھ گئے۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ بہو آئی تو ساری ذمہ داریاں اس پر ڈال جاتی، لیکن میری امی نے پھر بھی مجھ سے سارا کام کروایا اور کبھی بھی بھابھیوں کو نہیں ڈانٹا بلکہ ان کے کام بھی مجھے کہتی تھیں کہ کر دو خیر ہے۔ ان کا یہ ایک جملہ ہمیشہ مجھے یاد رہتا ہے۔
وہ کہتی تھیں ” خیر ہے بیٹی اگلے گھر جاکر تجھے مشکل نہیں ہوگی“ اور میں اس جملے سے چڑگئی تھی۔جب میری شادی تھی تو دو دن پہلے مجھے امی نے پیار سے اپنے پاس بٹھایا اور بولیں۔
”بیٹا آج تک سمجھ میں تیری ساس تھی۔ میں نے تجھے پریکٹس کروا دی ہے اور تجھے بتا دیا ہے کہ ساس کیسی ہوتی ہے۔ اب آج سے میں تیری ماں ہوں۔ اب تیری شادی ہو رہی ہے تو بیٹا جب تمہاری ساس تمہیں کچھ کہے تو سمجھنا کہ جیسے میں کہتی تھی ویسے ہی تیری ماں تجھے ڈانٹ رہی ہے۔“ بس یہی بات تھی کہ مجھے آپ کی باتیں بری نہیں لگتیں۔ کیوں کہ میری امی نے مجھے پریکٹس کروا کے بھیجا ہے اور اماں جی آپ نے تو کبھی اتنا ڈانٹا ہی نہیں جتنا امی ڈانٹتی تھیں۔۔ توبہ توبہ۔۔
بہو ہنستی ہوئی کچن میں چلی گئی۔۔۔
اور ساس سوچتی رہی کہ کیا واقعی بیٹیوں کی تربیت ایسی کرنی چاہیے۔۔۔؟
رب تعالی تمام بہن بیٹیوں کے نصیب اچھے فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭