سیاستمضامین

جوتے، کپڑے ، گاڑی اور پکوانسب ہیں حلال کام

محمد مصطفی علی سروری

یہ سال 1992ء کی بات ہے جب شمال مشرقی ہندوستان کی ریاست منی پور کی دارالحکومت امپھال سے تقریباً 45 کیلومیٹر دور واقع کاک چنگ ضلع میں ایک اسکول کی طالبہ اپنی ماں سے شکایت کرتی ہے کہ ماں میرا اسکول کا جوتا پھٹ گیا ہے، دوسرا دلوادونا۔ یہ دراصل مکتامونی نامی منی پور کی ایک خاتون کی کہانی ہے جو ہمارے ملک کی ایسی ہزاروں دیگر خواتین کی طرح غربت کا شکار تھی۔ جی ہاں وہی غربت جس میں ماں غربت کے باعث اپنے بچوں کو سال میں ایک ہی مرتبہ ڈریس اور شوز دلواسکتی ہے۔ اور اگر ایک سال سے پہلے ڈریس یا شوز خراب بھی ہوجائے تو ان کے محدود وسائل انہیں بالکل بھی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ نیا ڈریس یا شوز خرید سکیں۔ مکتا مونی کی لڑکی جب شکایت کرتی ہے کہ ماں میرا شوز پھٹ گیا ہے تو ماں اپنی بچی کا شوز گھر پر ہی سی دیتی ہے۔ مکتا مونی کسی موچی کے گھر سے تعلق نہیں رکھتی تھی کہ جوتے پھٹ جائے تو اس کو سی دینے کا کام آتا بلکہ مکتا مونی غربت کا شکار ایسی خاتون کا نام تھا جو محنت کرنا تو جانتی تھی اور گھر کے کام کاج کے علاوہ سویٹرس اور ساکس اون سے بناکرتی تھی۔ جوتے ایک مرتبہ سی دینے سے تو کام چل جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد مکتا مونی کی لڑکی کا شوز دوبارہ پھٹ جاتا ہے۔ وہ پھر سے اپنی بیٹی کا جوتا خود ہی سی کر دے دیتی ہے۔ لیکن گھر پر سلا جانے والا جوتا دوبارہ پھٹ جاتا ہے۔ پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے کہ جب مکتا مونی کو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ پھٹے ہوئے جوتے کو اب دوبارہ سیا نہیں جاسکتا ہے۔ مکتا مونی ہمت نہیں ہارتی اور غور سے اپنی بچی کے پھٹے جوتے کو دیکھتی رہتی ہے تب اس کو پتہ چلتا ہے کہ بچی کے جوتے میں اب اس کا تلا ہی صحیح سالم تھا۔ باقی تو کچھ بھی ایسا نہیں تھا جس کو سیا جاسکے۔
منی پور کی 32 سالہ خاتون مکتا مونی نے اپنی غربت کی زندگی میں ہمیشہ ایک ہی سبق کو یاد رکھا تھا کہ کبھی ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ 16 سال کی عمر میں اس کی شادی ہوگئی تھی۔ محنت سے اس نے کبھی جی نہیں چرایا تھا۔ اب کیسے ہار مانتی مکتا مونی نے اپنی بچی کے جوتے کے تلے کو لے کر اس پر اون کی مدد سے باقی کا حصہ بنادیا۔ سویٹر بنانا اور ساکس بنانا تو اس کو آتا تھا۔ اب اس نے اسی طرح جوتے کے تلے کو لے کر باقی کا حصہ اون سے بن دیا اور یوں بچی کو اسکول پہننے کے لیے جوتا گھر بیٹھے تیار ہوگیا تھا۔ مگر مکتا مونی کو دل کے کونے میں کہیں خدشہ تھا کہ شائد اسکول والے اس طرح جوتے کو نہیں مانیں گے لیکن مکتا مونی کی لڑکی جب اون سے بنے اس جوتے کو پہن کر اسکول گئی تو واپسی میں اس نے خوشی خوشی بتلایا کہ ماں میرے جوتے میری ٹیچر کو بھی بہت پسند آئے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے یہ نیا شوز کہاں سے خریدا ہے۔ مکتا مونی نے ٹیچر کے لیے بھی پرانے جوتے کے تلے کی مدد سے جب ایک شوز اون سے بن کر بھیجا تو اسکول کے سبھی ٹیچرس نے اسے پسند کیا اور پیسے دے کر دوسروں نے بھی ایسے شوز بنانے کی فرمائش شروع کردی۔
قارئین کرام 30 برس پہلے منی پور کی مکتا مونی نامی ایک غریب خاتون نے اپنی بچی کے لیے اسکول شوز خریدنے کی سکت نہیں ہونے کے سبب پرانے جوتے کے تلے پر اون کی مدد سے بن کر جوتا تیارکیا تو 1992ء کے اس واقعہ کا سال 2022ء میں ذکر کرنا کیا معنی رکھتا ہے اور اس میں کونسا ایسا سبق ہے کہ سیکھا جاسکتا ہے؟
قارئین کرام منی پور کی مکتا مونی کا سال 2022 میں اس لیے ذکر آیا کہ حکومت ہند نے اس برس 25؍ جنوری 2022 کو جن 107 افراد کو اعلیٰ ترین پدم شری ایوارڈ دینے کا اعلان کیا اس فہرست میں مکتا مونی کا نام بھی شامل ہے۔ جی ہاں یہ وہی مکتا مونی ہیں جنہوں نے 30 برس قبل اپنی غربت کی وجہ سے اپنی بچی کو نیا شوز دلانے کے بجائے پرانے شوز کے تلے پر اون سے نیا شوز بن دیا تھا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک غریب اپنی لڑکی کے لیے پھٹا جوتا اپنے ہاتھوں سے سی کر دیتی ہے تو کیا اس خاتون کوپدم شری ایوارڈ دیا جانا چاہیے۔ تفصیلات کے مطابق حکومت ہند نے مکتا مونی کو صنعت اور تجارت کے زمرے میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے لیے پدم شری کا ایوارڈ دیا ہے۔
جی ہاں قارئین اخبار ٹائمز آف انڈیا کی 31؍ اکتوبر 2022ء کی رپورٹ کے مطابق 30 برس قبل مکتامونی کی لڑکی کے اسکول ٹیچروں نے اس کے جوتے خرید کر اس کی ہمت افزائی کی۔ بعد میں منی پور میں تعینات ہندوستانی فوجیوں کو ان جوتوں کے متعلق معلوم ہوا تو ان لوگو ںنے بھی ان جوتوں کو پسند کیا اور ان کی خریداری کی۔ یوں مکتا مونی کے جوتوں کی مقبولیت بڑھنے لگی۔ منی پور کے دارالحکومت امپھال کی نمائش میں مکتا مونی کے جوتوں کا اسٹال لگایا گیا۔ آگے چل کر ہاتھ سے بنے جانے والے جوتوں کا اسٹال پرگتی میدان، نئی دہلی میں بھی لگا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق دہلی کی نمائش میں منی پور کے اس خاتون نے 1500 جوتوں کے ساتھ شرکت کی جس میں بچوں کا جوتا 500 روپئے اور بڑوں کا جوتا 2 ہزار روپیوں میں فروخت ہوا۔ اور سارے کے سارے جوتے فروخت ہوگئے۔ اپنی غربت سے باہر نکلنے کے لیے اس خاتون نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ محنت کے راستے پر سفر شروع کیا اور جلد ہی کامیابی اس خاتون کے قدم چومنا شروع کردیا۔ مکتا مونی نے جلد ہی ہاتھ سے بنائے جانے والے جوتوں کی باضابطہ طور پر ایک کمپنی شروع کردی۔ اون تو مقامی بازار سے خریدا جانے لگا جبکہ سوت (Yarn) لدھیانہ پنجاب سے منگوایا جاتا تھا۔
خبر رسا ں ادارے پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق منی پور کے ان جوتوں کی مقبولیت ملک کے علاوہ بیرون ملک میں بھی ہونے لگی۔ دوبئی، روس، سنگاپور، جاپان کے بھی آرڈرس دہلی کے ایجنٹ حضرات کے توسط سے ملنے لگے۔ آج مکتا مونی کے جوتوں کی فیکٹری میں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد 20 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ خاتون ایک ٹریننگ سنٹر کھولنے کی خواہشمند ہے جہاں پر خواتین کو اس طرح ہاتھ سے جوتے بنانے کی تربیت دی جاسکے۔ (بحوالہ اخبار نیو انڈین ایکسپریس ۔ 31؍ اکتوبر 2022)
مکتا مونی کو صنعت و تجارت کے شعبہ میں ان کے اسی کارنامہ کی بدولت اس برس پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
قارئین کرام منی پور کی مکتامونی کی اس کہانی سے ہمیں کئی ایک چیزیں سیکھنے اور سمجھنے کو ملتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں غربت کے مارے صرف مسلمان ہی نہیں بہت سارے اور لوگ بھی ہیں۔ جن میں سے بہت سارے لوگوں کی مثالیں ہمیں تحریک دلاتی ہیں کہ ہم حالات کا رونا چھوڑ کر مسائل کا حل ڈھونڈیں اور سب سے اہم بات مثالوں کی ہے جو چیزوں کو سمجھانے کے لیے دی جاتی ہیں نہ کہ برابری کو ثابت کرنے کے لیے۔
45 برس کی سیمادیوی کا تعلق جموں سے ہے۔ اس خاتون کی دولڑکیاں اور ایک لڑکا ہے جو کہ ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سیما کا مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں شوہر ایک کمانے والا ہے جس کی کمائی سے گھر چل تو جاتا ہے۔ مگر بہت ساری ضرورتیں باقی رہتی ہیں۔ سیماء محنت کر کے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا۔
اخبار نیو انڈین ایکسپریس کی 3؍ نومبر 2022 کی رپورٹ کے مطابق سیما نے اپنے شوہر سے آٹو چلانا سیکھا اور 30 ہزار کا قرضہ لے کر ایک ای رکشہ خرید کر چلانا شروع کردیا۔ اخبار کے نمائندے فیاض وانی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ خواتین جب پلین اور ٹرین چلاسکتی ہیں تو آٹو چلانے میں کیا حرج ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے رکشہ چلا رہی ہوں۔ اسکول جانے والی لڑکیاں ہوں یا دیگر خواتین میرے رکشے میں سفر کرنے کو محفوظ سمجھتی ہیں۔
کیا محنت کرنا صرف غریبوں کی ہی ضرورت ہے۔ کیا دنیا جن کو امیر مانتی ہے وہ لوگ محنت نہیں کرتے؟ آیئے اب ایک مثال ہندوستانی بالی ووڈ انڈسٹری کے شہنشاہ امیتابھ بچن کی بیٹی کی پڑھ لیجئے۔
شویتا بچن امیتابھ اور جیہ بچن کی اکلوتی لڑکی ہیں۔ 48 سالہ شویتا بچن کے حوالے سے اخبار انڈین ایکسپریس نے 6؍ نومبر 2022 کی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے کہ شادی کے بعد شویتا بچن اپنے سسرالی شہر دہلی چلی گئیں۔ قارئین رپورٹ میں آگے لکھا ہے کہ فلم اسٹار امیتابھ بچن کی اکلوتی لڑکی کی شادی دہلی کے ایک صنعت کار گھرانے میں ہوئی تھی اور شادی کے بعد شویتا بچن دہلی کے ہی ایک کنڈرگاڈن میں بطور اسسٹنٹ ٹیچر کام کرنا شروع کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق سب سے دلچسپ نکتہ بھی ملاحظہ کریں کہ اس نوکری سے امیتابھ بچن کی بیٹی ماہانہ 3 ہزار روپئے کما رہی تھیں۔ (بحوالہ اخبار انڈین ایکسپریس ۔ 2022)
قارئین کرام ایسا نہیں تھا کہ شویتا بچن کی شادی کسی غریب گھرانہ میں ہوئی تھی بلکہ بالی ووڈ میں کارگذار صحافیوں کے مطابق امیتابھ بچن نے 1997ء میں اپنی بیٹی کی شادی نئی دہلی کے ایک مشہور بزنس مین سے کی تھی جو کہ Escort کمپنی کے مالک تھے۔ ایک ایسی کمپنی جس میں 10ہزار سے زائد لوگ کام کرتے ہیں۔ جس کی سالانہ آمدنی 870 کروڑ سے زائد ہے۔ اتنے مالدار گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود امیتابھ بچن کی بیٹی ایک اسسٹنٹ ٹیچر کے طور پر کام کر کے ماہانہ 3 ہزار روپئے کما رہی تھی۔
آیئے ذرا ہم اپنا بھی احتساب کرتے ہیں کہ ہم ہندوستانی مسلمان کہاں کھڑے ہیں۔ ہم مسلمانوں نے جتنا بھی کمانا سیکھا ہے اس سے کہیں زیادہ ہم نے خرچے کرنا شروع کردیا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی آمدنی اگر 20 ہزار سے بڑھ جائے تو وہ لوگ ایک لاکھ بیس ہزار کی گاڑی لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ بچت سے نہیں بلکہ EMI اور قرضوں میں۔ تنخواہ 50 ہزار ہوئی تو سوا لاکھ کا آئی فون خریدنا چاہتے ہیں۔ رہنے کو ذاتی گھر نہیں ہوتا مگر اقساط پر کار کے مالک بننا اپنے (Status) کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
ہمارے نوجوان اپنے زمانہ طالب علمی سے جبکہ ان کی آمدنی صفر ہوتی ہے صرف بالوں کی اسٹائل سے کٹوائی کے لیے 200 سے 400 روپئے خرچ کرنا شان سمجھتے ہیں۔
نوجوان تو نوجوان ہیں ہماری خواتین بھی خرچ کرنے اور غیر ضروری اخراجات میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ اگر پڑھائی کرلی تو گھریلو کام کاج اور پکوان میں پیچھے اور پکوان سیکھ گئی تو اس میں ہر ہفتہ ایک دن کی چھٹی ضرور طلب کرتی ہیں۔ کپڑوں کی خریداری کے حوالے سے بھی طرح طرح کی باتیں کہی جاتی ہیں کہ ہماری خواتین اگر کپڑوں کی خریداری سے ہاتھ روک لیں تو مرد حضرات قرضوں کی مصیبت سے بڑی حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔ مگر یہ نصیحتیں نہ تو پڑھنے میں اچھی لگتی ہیں اور نہ سننے میں بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ اس لیے میں مثالوں کے ذریعہ اپنا بات رکھنا پسند کرتا ہوں۔
مندیرا بیدی، ممبئی ٹیلی ویژن اور فلم انڈسٹری میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ مندیرا بیدی کے حوالے سے اخبار ہندوستان ٹائمز نے 2؍ نومبر 2022 کی ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ رپورٹ کے مطابق فلم اور ٹی وی کی اس اداکارہ نے اس مرتبہ ایک ایسی ساڑی زیب تن کی ہے جو کئی برس پرانی ہے۔ ہمارے ہاں پرانے کپڑوں کو پہننا معیوب سمجھا جاتا ہے اور مندیرا بیدی اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر اعلان کرتی ہیں کہ میں نے 2؍ نومبر 2022 کی تصویر میں وہی ساڑی پہنی ہے جو 19 برس پہلے سال 2003 کے ورلڈ کے دوران پہنی تھی۔ ایک یہ ایکٹریس ہے جو پرانے کپڑے پہنتی بھی ہے اور اعلان بھی کر رہی ہے۔ دوسری طرف ہماری خواتین پرانے کپڑے پہننے سے کتراتے ہوئے اس عمل کو معیوب سمجھنے لگتی ہیں۔
خواتین کے حوالے سے یہاں پر ایک اور مثال موزوں ہوتی۔ مسلم خواتین جب کسی شعبہ میں سرگرم ہوجاتی ہیں تو گھر کے کام کاج میں ان کا مظاہرہ منفی ہوجاتا ہے۔ فلم انڈسٹری کی ایک ایکٹریس میناکشی شیشادری کے حوالے سے اخبار ہندوستان ٹائمز نے 5؍ نومبر 2022 کو لکھا کہ شادی کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ چلی گئیں۔ وہاں جاکر وہ ماں بنیں، بیوی بنیں اور اپنے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرنے والی باورچی بنیں۔ انڈین آئیڈل 13 کے شو میں حصہ لیتے ہوئے میناکشی شیشادری نے کہا کہ وہ امریکہ جاکر اپنے گھر والوں کے لیے کھانا بناتے بناتے پکوان میں ماہر بن چکی ہیں۔
دوسری طرف ہمارے یہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں تو ان کا پکوان سے بالکل ناطہ ٹوٹ گیا ہے اور لڑکیوں کی پکوان سے عدم واقفیت ان کے گھریلو سکون کو برباد کرنے کا سامان پیدا کر رہی ہے۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ء ہے کہ وہ مجھے اور آپ کو بلکہ ہم سبھی کو محنت اور ایمانداری کے راستے پر چل کر اپنی دنیا و آخرت سنوارنے اور اپنے نبی کے پیغام محبت کو سارے عالم کے لوگوں تک پہنچانے والا بنادے۔ (آمین یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں) ۔sarwari829@yahoo.com
f۰۰۰٭٭٭۰۰۰