طنز و مزاحمضامین

جودے اس کا بھلا جونہ دے اس کا بھی بھلا

ایم اے حفیظ کوڑنگلی

یہ نعرہ ہم اپنے بچپن میں بھکاریوں سے سنتے تھے، لیکن اب یہ نعرہ بالکل الٹا ہوچکا ہے۔جودے اس کا بھلا ہونا ضروری نہیں لیکن جونہ دے اس کا برا ضرور ہوگا۔ آج ہم جہاں جائیں، بازاروں، راستوں،مسجدوں،درگاہوں، گلیوں، تفریحی مقامات جو چیز ہرجگہ دیکھنے کوملتی ہے وہ ہے ”گداگری۔“ راستوں میں شرفاء کو گھیرکر ذلیل رسواء کیا جاتا ہے۔ کاروں پرڈھول کی طرح بجایاجاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسی دیدہ دلیری سے بھیک مانگتے ہیں جیسے دیا ہواقرض واپس مانگ رہے ہوں، نہ چہرے پر عاجزی وانکساری نہ بے بسی کے آثار مگر ڈھٹائی چالبازی اوربے شرمی۔
ایک نوجوان لڑکے کو ایک بھکارن نے گھیرلیا۔ وہ یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ وہ خود بے روزگار ہے کچھ مدد نہیں کرسکتا، بس اب کیا تھا۔ اب تک جو ہونٹ پھول نچھاور کررہے تھے شعلہ اگلنے لگے۔ ”اللہ کرے تو زندگی بھربے روزگار ہی رہے، توکمائے بھی تو تیری کمائی دواخانہ پر لگ جائے۔“دی گئی خیرات کے مطابق دعائیں دی جاتیں ہیں۔ بھیک مانگنا مجبوری نہیں پیشہ ہے اورانتہائی منافع بخش پیشہ۔یہ پیشہ انکم ٹیکس کی گرفت سے مستثنیٰ ہے۔ پٹنہ میں ایک بھکاری دیڑھ کروڑ کا مالک تھا اور وہ سود پر تاجروں کو قرض دیا کرتا تھا۔ لبنانی بھکارن خاتون کی جب سٹرک پر دل کا دورہ پڑنے سے موت ہوئی تو اس کے اکاؤنٹ میں تقریباً10کروڑ روپئے تھے اور50سال پرانی کرنسی کے تھیلے ملے۔ بھکاری کے مرنے تک اس کی مال ودولت کااندازہ نہEDنہCBIنہ IT ڈپارٹمنٹ لگا سکتا ہے بھکاری ٹھکانے کو خریدوفروخت یا کرایہ پر دیا کرتے ہیں۔ ایک بھکارن کئی روز اپنے ٹھکانے سے غائب تھی اس جگہ کوئی نوجوان ڈیرہ ڈالے ہوئے تھا۔ کسی نے اس سے اس کی وجہ پوچھی۔ بھکارن نے کہا کہ ”میں نے وہ ٹھکانہ میری بیٹی کے جہیز میں دے دیا ہے، وہاں میرا داماد بیٹھتا ہے……
آج کل بھیک مانگنا انسان کے بنیادی حقوق میں شامل ہوگیا ہے۔ جب لیڈر کو اقتدار کے لیے ووٹ مانگنے کا حق ہے اور عوام کو ووٹ دینا بھی فرض ہے توپیٹ بھرنے کے لیے بھیک مانگنا کیوں کر منع ہوسکتا ہے؟
ایک مکان پر گداگر نے گھنٹی بجائی۔ اندرسے خاتون خانہ نے جواب دیا۔ ”بابا کل آنا۔“ گداگرنے اپنی ڈائری نکالی اور نوٹ کرلیا اور کہنے لگا۔ ”اس کالونی میں ”کل کل“ کرتے ہوئے میرے لاکھوں روپئے پھنسے ہوئے ہیں، پتا نہیں کب وصول ہوں گے۔“
ظاہر ہے ایک اجنبی کی جیب سے پیسہ نکال کراپنی جیب میں منتقل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس میں بلاکی اداکاری، مہارت حاضرجوابی چاہیے اوراس کے ساتھ ساتھ بے شرمی وصبرکی بساطِ برداشت وسیع کرنا پڑتا ہے……
ایک خاتون (فقیر کو جھڑکتے ہوئے)”تم تندرست ہو، نوجوان ہو،محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے۔ بھیک مانگنا معیوب بات ہے۔“
فقیر نے برجستہ جواب دیا۔ ”میڈم! آپ بھی کتنی حسین ہیں،جوان ہیں، آپ فلموں میں ہیروئن بن سکتی ہیں، پردے پرآنے کی بجائے اس گھر میں کیا کام کررہی ہیں ……“
”ذرا ٹھہرو میں تمہارے لیے کچھ لاتی ہوں۔“ خاتون نے خوش ہوکر جواب دیا۔
ملک میں دو چیزیں ترقی کررہی ہیں۔ ایک آبادی دوسری گداگری…… کوئی صوبہ کوئی ملک IMF، WBوترقی یافتہ ممالک سے بھیک مانگنا ہے۔ الیکشن کے موسم میں سیاسی بھکاری گھرگھر پہنچ کر ہاتھ جوڑ جوڑ کر ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مردہ سیاست داں زندہ بھکاری سے زیادہ بہتر ہوتا ہے، وہ مرکربھی اپنے نام پر ووٹ حاصل کرتا ہے۔ ہم نے عاشقوں کو بھی معشوقوں سے محبت کی بھیک مانگتے اورنہ ملنے پر جان دیتے دیکھا ہے۔ کچھ نوشہ وقت بیاہ دلہن والوں سے جہیز کی شکل میں بھیک مانگتے ہیں۔
ویسے مالک حقیقی کے سامنے ہرشخص بھکاری ہے۔ کوئی مسجد کے اندرمانگتا ہے، کوئی مسجد کے باہر، مقصد وہی ہے مقام بدلے ہوئے ہیں۔ کسی فقیر کی جھولی میں ہم نے ایک سکہ ڈالا تب جانا کہ مہنگائی کے اس دور میں دعائیں کتنی سستی ہیں۔
ایک مولانا نماز کے بعد دعا مانگ رہے تھے۔ ”اے اللہ!مجھے ایمان دے،ہدایت دے، قناعت دے“ اوران کے بازو ایک بندہ دعامانگ رہا تھا۔“ اے اللہ!مجھے دولت دے، پیسہ دے، جائیداد دے“۔مولانا نے ڈانٹ کر کہا۔“ ”تو یہ کیا مانگ رہا ہے۔ ایمان وہدایت مانگ روپیہ پیسہ مانگتا ہے“۔ اس بندے نے کہا۔ ”مولانا بندہ وہی مانگتا ہے، جو اس کے پاس نہیں ہوتا ……“
کچھ بھی ہو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا خودداری اورعزتِ نفس کے خلاف ہے، مگر اس ہوش ربا گرانی کے دورمیں سفید پوش طبقہ بھی بھکاری بنتا جارہا ہے۔ جوبھکاری بننے کا متحل نہیں ہوتا وہ خاموشی سے خود کشی کرلیتا ہے۔
کچھ لوگ مجبوراً ایسی مشکلات میں پھنس جاتے ہیں، لیکن ان کی دلی خواہش یہی ہوتی ہے اس مردودپیشہ سے چھٹکارا نصیب ہو۔
بھیک توسب ہی بھکاری کو دیا کرتے ہیں
تو سخی ہے تو میرے ہاتھ سے کشکولی ہٹا

a3w
a3w