سیاستمضامین

حجاب، تعلیم اور مسلمان لڑکیاں

پروفیسر اختر الواسع

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے گذشتہ دنوں ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے بڑی حق پسند باتیں کہیں۔ جب انھوں نے یہ کہا کہ آپ کیا پہنیں، کیا کھائیں، یہ آپ کی پسند کا معاملہ ہے اور میں کیا کھاؤں ، کیا پہنوں، یہ میری پسند کا معاملہ ہے۔ انھوںنے یہ بھی کہا کہ کالجوں میں حجاب پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن اس پر جس طرح دائیں بازو کی قوتوں بالخصوص بی جے پی اور وی ایچ پی نے طوفان اٹھایا، اس کے بعد اگلے دن وزیر اعلیٰ کی یہ توضیح کہ حجاب کے بارے میں ابھی کوئی واضح فیصلہ نہیں ہواہے اور اس کا فیصلہ وزارتی مشورے کے بعد کیا جائےگا، بہت افسوس ناک ہے۔ بی جے پی اور وی ایچ پی کی مخالفت تو بڑی حد تک قابل فہم ہے لیکن وزیر اعلیٰ کا یہ بیان ناقابل تفہیم ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کل تک جو موقف اختیار کیا تھاوہ بہت متوازن، معروضی اور قابل فہم تھالیکن اس موقف کو اپنانے کے بعد اس پر اغل بغل جھانکنا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو بیٹی بچاؤ او ر بیٹی پڑھاؤ کی بات کرتے ہیں وہ بیٹیوں کو اپنی پسند کے لباس پہننے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ یہ کہاں کی تانیثی آزادی ہے؟ کرناٹک کی گذشتہ سرکار نے حجاب پر پابندی اس لیے نہیں لگائی تھی کہ وہ حجاب کے خلاف تھی، اصل میں حجاب کی آڑ لے کر مسلمان بچیوں کی تعلیم کے لیے بڑھتی رغبت سے وہ ڈرگئے تھے، وہ مسکان جیسی بچیوں کے اندر جو خود اعتمادی پیدا ہوئی تھی، جو جواں حوصلگی دیکھنے کو مل رہی تھی، اس سے اضطراب کا شکار تھے۔ اپنے دینی شعار اور شعور کے لیے ان کی رغبت سے وہ پریشان ہو گئے تھے۔
اس میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمان معاشرے پر یہ الزام لگاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ یہ اپنی لڑکیوں کو گھروں میں چھپا کر اور دبا کر رکھتے ہیں جب کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ ہم دنیاجہان کی بات نہیں کرتے، اگر صرف ہندوستان کی تقریباً ایک ہزار سال کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ اس ملک کی پہلی خاتون مطلق العنان حکمراں رضیہ سلطان ایک مسلمان ہی تھی۔ اکبر اعظم اور مہارانا پرتاپ کی معرکہ آرائیوں کا چرچا تو خوب ہوتا ہے لیکن احمد نگر کی اس جواں ہمت اور الوالعزم خاتون چاند بی بی کو فراموش کر دیا جاتا ہےجس نے اکبر اعظم کے دانٹ کھٹے کر دیےتھےاور جو مسلمان ہی تھی۔
صرف یہی نہیں ریاست بھوپال میں ایک سوایک سال تک ایک دو نہیں چار خواتین نے لگاتار حکومت کی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ برقعے میں ملبوس رہ کر انھوں نے ترقی پسند حکمرانی کی نظیر قائم کی۔ پہلی مرکزی یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی۱۹۲۰ میں پہلی منتخب خاتون چانسلر بیگم سلطان جہاں حکمران ریاست بھوپال بنیںاور یہ اعزاز ان کے حصے میں باعتبار عہدہ نہیں آیا تھابلکہ وہ باقاعدہ اس کے لیے منتخب کی گئیں۔ یاد رہے کہ یہی بیگم سلطان جہاں بیگم تھیں جنھوں نے اپنی ریاست بھوپال میںلڑکیوں کی تعلیم کے لیے نہ صرف پہلا اسکول کھولا بلکہ یہ سرکاری حکم نامہ بھی جاری کیا کہ ان کے دربار اور سرکار سے وابستہ جو افراد اپنی بچیوں کو تعلیم کے لیے اسکول میں نہیں بھیجیں گے ان کو معزول کر دیا جائے گا اور ایسے جاگیرداروں کی جاگیریں بھی ضبط کر لی جائیں گی۔
ہندوستان کی تحریک آزادی میں جن خواتین نے غیر معمولی اہمیت کا رول انجام دیا ان میں بیگم حضرت محل ، بی اماں، بیگم حسرت موہانی کے رول کو جہاں نہیں بھلایا جا سکتا وہیں ایسی اَن گنت خواتین بشمول زلیخا بیگم جو مولانا ابوالکلام آزاد کی رفیقہ حیات تھیں، کی ایثار پیشگی اور خاموش قربانیوں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جنھوں نے ملک کی آزادی کے لیے اپنے شوہروں کی قید و بند کو برداشت کیااور زبان پر اُف تک نہ لائیں۔
آزاد ہندوستان میں بیگم اعزاز رسول، بیگم حامدہ حبیب اللہ، میمونہ سلطان، مادر مہربان بیگم شیخ محمد عبد اللہ، محسنہ قدوائی،انورہ تیمور اور نجمہ ہیبت اللہ کے اس ملک کی تعمیر اورسیکولر جمہوریت کی تزئین میںکردار کو فراموش نہیں کیاجا سکتا۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیےکہ اس ملک کی سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج جسٹس فاطمہ بی وی ایک مسلمان ہی تھیں جو بعد میں گورنر بھی رہیں۔ ان تمام تفصیلات کو دہرانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب بھی مسلمان عورتوں کو آزادی کے ساتھ موقعے ملے ہیں انھوں نے زندگی کے ہر میدان میںاپنے جوہر دکھائے ہیں،وہ چاہیے ثانیہ مرزا ہو یا نکہت زریں یا کوئی اور ،آپ موقع تو دیجیے وہ اپنی جوہری اور کرشماتی شخصیت کے وہ مظاہرے کریں گی کہ نہ صرف ملت بلکہ ملک ان پر فخر کرے گا۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ہندوستان میں مسلمان لڑکے ہوں یا لڑکیاں، انھیں کرکٹ کا بارہواں کھلاڑی بنانے کی کوشش مت کیجیے۔ چوں کہ بارہویں کھلاڑی ہمیشہ ایک زخمی نفسیات کا حامل ہوتا ہےجو کسی طرح بھی صحت مند نہیں کہی جا سکتی۔ کرکٹ میں گیارہ کھلاڑی ہی کھیلتے ہیں لیکن ہمیشہ گیارہ سے زیادہ کھلاڑی منتخب کیے جاتے ہیں۔ جب فیلڈ میں گیارہ کھلاڑی کھیل رہے ہوتے ہیں تو ڈریسنگ روم میں بیٹھا ہوا بارہواں کھلاڑی یہی سوچتا رہتا ہے کہ فیلڈ میں کھیل رہے گیارہ کھلاڑیوں میں سے کوئی ایک زخمی ہو جائےاور اسے اس کی جگہ کھیلنے کا موقع ملے اوروہ اپنے جوہر دکھائے، اپنی ٹیم کو فتح دلا کر ملک کا اور اپنا نام روشن کرے۔ یہ جذبہ کتنا ہی مناسب نہ ہو لیکن بہر حال ایک زخمی نفسیات کی دکھ بھری داستان لیے ہوتا ہے۔
کرناٹک میں حجاب پر پابندی کچھ اسی قسم کی تکلیف دہ اور افسوس ناک سوچ کا نتیجہ لگتی ہے کیوں کہ دائیں بازو کی سیاست کرنے والےفرقہ پرستوں کو مسلمان مرد ہوں یا عورتیں، مسجد ہویا مزار ، حیدر علی ہو یا ٹیپو سلطان ،سب میں اپنے لیے خطرہ نظرآتا ہے۔ مسلمان عورتوں نے رہی سہی کسر شاہین باغ میں اپنے عالم گیر شہرت کے حامل احتجاج کے ذریعے جگ ظاہرکر دی۔ اس لیے اور بھی فرقہ پرستوں نے جو بظاہر مسلمان عورتوں کی فلاح وبہبود اور آزادی کی بات کرتے ہیں،ان کے خلاف کرناٹک میں محاذ آرائی کے لیے سینہ سپر ہو گئے۔ انھیں شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ مسلمان لڑکیاں اپنی ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیں گی۔ وہ تعلیم حاصل ضرور کرنا چاہیں گی لیکن اپنی مذہبی روایات سے دست برداری کے لیے تیار نہیں ہو ں گی۔ کرناٹک میں بی جے پی کی انتخابی ہزیمت میں اس کی اپنی اسلام، مسلمان دشمنی کافی ذمہ دار رہی ہےاور کانگریس کی کامیابی میں اس کی مسلمانوں کے ذریعے ناقابل تسخیر حمایت حصے دار رہی ہے کیوں کہ کانگریس نے کرناٹک میں سافٹ ہندوتو کے مقابلے ایک جارحانہ رخ اپنایا اور سیکولر جمہوری اقدار کی بحالی کا وعدہ کیا۔ لیکن شری سدھا رمیہ کے بیان سے بہت مایوسی ہوئی۔ اگر انھوں نے یہ بیان صرف اس لیے دیا کہ اس سے بی جے پی اور ایکسپوز ہو جائےتو بھی وہ اس مقصد کواب جب کہ پوری طرح حاصل کر چکے ہیں اور انھیں حجاب پر پابندی کو اب پوری طرح ختم کر دینا چاہیے تاکہ مسکان جیسی بچیاں جنھوں نے حجاب کے مقابلے تعلیم کو ترک کرنے کا فیصلہ کیاتھا، دوبارہ تعلیم کی طرف جا سکیں۔ یاد رکھیے جس قوم میں مائیں تعلیم یافتہ ہوتی ہیں اس کے لڑکےبھی کبھی جاہل نہیں رہتےاور ہندوستان کو اگر وشو گرو بننا ہے تو اس کے لڑکے اور لڑکیوں کایکساں طور پر تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس اسلامک اسٹڈیز ہیں )
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w