مذہب

حضرت مولاناشاہ محمدکمال الرحمن قاسمی وندویؒ۔ مختصر سوانحی خاکہ

زندگی کی تقریباً 75 بہاریں پوری کرکے 13شوال 1444ھ م 3مئی 2023بروزچہارشنبہ اپنےمکان واقع نواب صاحب کنٹہ تاڑبن حیدرآبادبوقت دوپہر اس دارفانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کرکے اپنی اولاد وشاگردوں اور ہزاروں مریدین و معتقدین کو رنج و الم اورداغ مفا رقت دےگئے ۔ انااللہ واناالیہ راجعون۔

محمدموسیٰ خان ندوی

زندگی کی تقریباً 75 بہاریں پوری کرکے 13شوال 1444ھ م 3مئی 2023بروزچہارشنبہ اپنےمکان واقع نواب صاحب کنٹہ تاڑبن حیدرآبادبوقت دوپہر اس دارفانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کرکے اپنی اولاد وشاگردوں اور ہزاروں مریدین و معتقدین کو رنج و الم اورداغ مفا رقت دےگئے ۔ انااللہ واناالیہ راجعون۔

زندگی کےحالات : سلطان العارفین حضرت شاہ صوفی غلام محمدصاحبؒ کے بڑے فرزند،خلف اکبروجانشین سلسلہ اورچشم وچراغ سلسلۂ قادریہ وکمالیہ کی پیدائش محبوب نگر کے گاؤں مغل گدہ شاد نگر میں ہوئی، ابتدائی عصری تعلیم و ناظرۂ قرآن مجید اپنے عہد کی رابعہ بصریہ والدہ ما جدہؒ کے پاس کوڑنگل ضلع وقار آبادمیں ہوئی، باضابطہ دینی تعلیم کے لیے لاتور مہاراشرا کی عظیم ہستی قطب دکن حضرت مولانا شاہ محمد عبدالغفورقریشی صاحبؒ خلیفہ شیخ الا سلام حضر ت مدنیؒ کے پاس تشریف لے گئے، اعلی تعلیم کے لیے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند، اس کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لےگئے، وہاں کے مو جو دہ نا ئب مہتمم حضرت مولا نا عبد العزیز ندوی بھٹکلی مر حوم کےہمعصروہم جماعت ہیں۔

اوصاف وکمالات: دین کی فکر حضرت شاہ کمالؒ کے اندر خدمت دین کی ایک دھن اور فکرسوارتھی،جہاں اورجیساموقعہ ہوا غنیمت جانا، اس سلسلہ میں چشم پوشی سےکام نہیں لیا اپنے آرام و راحت کاخیال کیے بغیربےدریغ خدمت دین میں لگے رہے، حتی کہ اپنےجسم کوکمزورکیااورہڈیوں کوتک گلاکربو سیدہ کردیا ۔ ؂

جاگنا ہو جاگ لے افلاک کے سایہ تلے
حشرتک سوتا رہے گا خاک کے سایہ تلے

بےلوثی: خدمت دین میں خلوص وبےلوثی حضرت کی خصوصیت تھی، وہ اس سلسلہ میں کسی دنیوی مفادکےخواہش مند بالکل نہ تھے، دور درازعلاقوں میں بھی خطاب کے لیے تشریف لے جاتے،نہ آرام و راحت کامطالبہ اورنہ کھانے پینے میں کچھ شرائط،جومل گیااورجیسامل گیا شکر ادا کرتے اور صبر کرکے اس کو برداشت کرلیتے، کوئی ناگواری کا اظہار اور نہ ناراضی،حضرت والدماجدؒسےسلسلہ کی تعلیمات کےساتھ عملیات بھی حاصل کیے تھے، مگر کسب معاش و دنیوی مفاد کے حاصل کرنے کےلیےان کا استعمال نہیں کیا،بلکہ دعا و تعویذ کے ذریعہ لوگوں کو مانوس کرکے ان کو قریب کرتے اور دین کی فکر ان کو دلاتے، راقم کے گھر کا ایک مسئلہ درپیش تھا، ہمارے گھر میں کسی زما نہ میں نرسوکی پوجاہوتی تھی،لیکن اللہ کی توفیق و تبلیغ کی محنت کی برکت سے والدصاحب کو حقیقت سمجھ میں آگئی توتوبہ کرکےاس کوترک کردیا، مگر اکثر رمضان شریف میں گھر میں لڑا ئی جھگڑا ہوتا، میں نے اپنے شیخ کی مدد سے یہ مسئلہ حضرت شاہ کمال صاحبؒ کے سامنے رکھا،تو سن کرفرمایاکہ نرسوکا ہی مسئلہ ہے، انشاء اللہ علاج کےبعد یہ کیفیت ختم ہو جائےگی،ادھرتعلیم کے مقصد سے ندوۃ العلماء لکھنؤ مجھے سفردرپیش تھا تو فرمایا کہ آپ اپنی تعلیم میں لگے رہئے، آپ کو کچھ کرنا نہیں ہوگا، حضرتؒ نے پوری توجہ سے علاج کیا، الحمدللہ گھر کے حالات ٹھیک ہوگئے، اللہ ہماری جانب سےاورہم جیسےبہت سارےاحسان مندوں کی جانب سےاپنی شایان شان اجر نصیب فرمائے۔ آمین۔

آج کل لوگ عملیات میں مختلف اندازوعنوان سےپیسے وصول کرتے ہیں،پورا علاج حضرت نے کردیالیکن ایک پیسہ کا مطالبہ نہیں،اور نہ ہم اپنی غربت کی وجہ سے اس مو قف میں تھے، میں جب چھٹیوں میں آیااور حضرت سے ملاقات کیا اور معذرت وشرمندگی کااظہار کیا تو مجھے تسلی دیتےہوئےفرمایاکہ بیٹا! کیوں ایساکہہ رہےہیں آپ ،ہم نےتوآپ سےکچھ کہا اور نہ مطالبہ کیا ہمارا منشا یہ ہے کہ آپ کی پریشانی دور ہوجائے اور آپ یکسوئی کےساتھ تعلیم میں لگیں ،آ ج بھی جب یہ بات یاد آتی ہے تو دل احساس شکر و عقیدتمندی سے سرشار ہوجاتا ہے، ایسےہی ہما رے محلہ کے ایک اور صاحب کےمسئلہ میں حضرت سےرجوع کیا،ان کابھی مکمل علاج کیا،پیسوں کاکوئی مطالبہ نہیں فرمایا،بلکہ انھوں نےاپنی جا نب سے دینے کی خواہش کی توبھی ردکردیاالبتہ ان کویہ مشورہ دیا کہ آپ اپنے ایک بچہ کو دینی مدرسہ میں ڈالیے،انھوں نےاشرف العلوم میں داخل کیا، وہ بچہ ایک اچھا حافظ قرآن بنااورآج ایک انگریزی اسکول میں لڑ کوں کوحفظ کرواتاہے ۔

استغناء: اللہ تعالی نےحضرت کواستغناءکی دولت سے مالا مال فرمایا تھا،عملیات کی وجہ سےمال داروں سے اکثرسابقہ رہتا ہے، اس خدمت کےذریعہ ان کودین پر لگاتے مگران کی دنیا سے فائدہ نہ اٹھاتے،کثیرالعیال ہونے کے باوجود بڑی خود داری سے زندگی گزاری،مسجد عالم گیر میں جہاں آپ جمعہ کا خطاب فرمایا کرتےتھے،کافی مقبول ہوااور بہت اس کی شہرت ہوئی جس کی وجہ سےعمائدین و اہل ثر وت کی بھی اچھی خا صی تعداد آتی تھی،نہ ان کےسامنےاپنےمسائل رکھےاورنہ ان سےدنیوی مفادات کا تعلق کبھی رکھاحضرت کی بڑی چاہت تھی اوراکثربڑی کڑھن سے فرماتے کہ لوگ اللہ والوں کےپاس بس دنیابنا نےکےلیےآتےہیں،حالاں کہ ان کا دنیا سے کیا تعلق ہے؟ کبھی تو لگتا تھا کہ اس کی وجہ سے طبیعت زچ ہوگئی اوراکتا گئی ہے،اپنی نجی مجلسوں میں اس پر بہت افسوس کا اظہار فرماتےتھے۔

تواضع : سلسلۂ قادریہ کمالیہ میں فنائیت کی بڑی تعلیم ہے، فناء ارادہ،و فناءخواہشات سےفناءہستی تک کاسفراس میں کروایا جاتا ہے، جس سےاکڑاورکبرکونکالا جاتاہے اور کبرتمام اہل سلاسل وعلماءباطن کےنزدیک اصلاح و تر بیت کی دنیامیں متفق علیہ ایساہی بڑامانع ہے جیساکہ علماء ظاہر کے نزدیک شرک و کفر مانع دخول جنت ہے، اس کےبغیر اللہ تعالی کاقرب ممکن ہی نہیں ہے،چنانچہ حضرت قبلہ شاہ صوفی غلام محمدصاحبؒ فرماتے ہیںکہ ؂

ہو جس کو قرب خدا کی تلاش اے طالب
ہے اس پہ فرض کہ اپنے سے دور ہوجائے
(کلام غلام ص158)
ایک اورمقام پرحضرت صوفی صاحبؒ نےاللہ تعالی سے
استدعاءکرتےہوئےفرمایا کہ ؂
خودی میری دشمن بنی ہے خدایا
خودی کو مٹاکر مجھے شاد کردے
(کلام غلام ص88)

اکابر سلسلہ سے ہم اکثرسلسلہ قادریہ کےبانی پیران پیر شیخ عبدالقادرجیلانیؒ کایہ قول سنتے ہیں کہ جنت دو قدم کےفاصلہ پرہے،بایاں قدم اپنی خواہشات پررکھوتو توسیدھاقدم جنت میں ہوگاتکبرکاایک بڑاذریعہ نفسانی خوا ہشات بھی ہیں، سلسلہ کی تعلیمات میں ایک استر دادامانات کی تعلیم ہے،جس میں اللہ کی امہات صفات میں حیات،علم،ارادہ،قدرت سما عت، بصارت وکلام ہیں جو اصلا کمالا ذاتا اور ابدا اللہ ہی کےاندر ہیں، ان کے مقابلہ میں عدم(موت)جہل،اضطرار(ارادہ سےخالی ہونا)عجز، بہرہ،اندھااورگونگاپن بندہ کی اصل صفات ناقصہ ہیں، سالکین ووابستگان سلسلہ کواس کامراقبہ کروایا جاتا ہے، جس سے آدمی پر اس کی اپنی حقیقت اچھی طرح وا ضح ہوجاتی ہے کہ وہ تواصلانقائص کامجموعہ ہے،کوئی خوبی ذاتی طورپراس کو لگ ہی نہیں سکتی توبڑائی کا خیال دل میں کیسا آتا؟ اس طرح ان تعلیمات کے ذریعہ تکبرکوگویاکچل دیاجاتاہے،اوراس کی جڑیں کمزور کردی جاتی ہیں، زندگی بھر حضرت شاہ کمال صاحبؒ والد ماجدؒ سے حاصل کردہ اس تعلیم کامذاکرہ اپنی مجالس و خطابات میں کرتے رہے اسی کااثرتھاکہ طبیعت میں بے نفسی وغیرمعمولی عاجزی تھی،اسی کی کمی کانتیجہ ہےکہ آج کل تنظیموں وتحریکوں میں عہدوں کوحاصل کرنےمیں سا زشیں و مکا ریاں چلتی رہتی ہیں،جس کی وجہ سے ان تحریکوں، تنظیموں اور جماعتوں کا کوئی زیا دہ اثر باقی نہیں رہا،اور ان کی افادیت بھی بہت کم ہو گئی ہے۔

توازن واعتدال: مزاج میں شدت پسندی نہ تھی بلکہ افراط وتفریط سے بہت دور تھے،اسی کی تعلیم بھی دوسروں کو دیتے رہے، انداز گفتگو میں اس کو پیش نظر رکھتے تھے اسی لیے بہت احتیاط کرتے تھے، بعض حضرات نےتوحیدفعلی کے بیان میں یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ جس نے یہ کہا کہ میں نے نماز پڑھی،میں نےروزہ رکھا اور میں نے حج کیا۔ تواس نے شرک کیا، اس لیے کہ یہ کام اس نے کہاں کیا؟ یہ تو اللہ نے اس سے کروایا ہے، حضرتؒ نےاس کا سخت نوٹ لیا اور فرمایاکہ دین کی بات کرنےمیں بہت احتیاط کرنا چا ہئے، حضرت وا لد صاحبؒ بھی اس بارے میں بہت احتیاط کرتےتھے،انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو کافر یا مشرک نہیں کہا ہے، اور فرمایاکرتےکہ ان جملوں کی تاویل کی گنجائش ہے، کہ ان کاموں کی نسبت اپنی جانب مجازاکی جاسکتی ہے،جیساکہ کوئی آدمی کرایہ کےگھرمیں رہتاہے،اورکہتاہےکہ یہ میرا گھر ہے، لیکن مالک مکان کے سامنے کہتا ہےکہ یہ ان کا مکان ہے، پہلے جو میرا مکان کہا تو اس میں مجازی نسبت کا اعتبار تھا اور دوسری مرتبہ جو کہا تو اس میں حقیقت ہے اسی احتیاط کا نتیجہ تھاکہ الفاظ کےاستعمال میں بھی محتاط تھے، مثلاً فرما تےکہ اللہ کے کرم، اس کی توفیق ومددسے۔۔۔ ایسا ہوا، کوئی بلند بانگ دعوے نہیں کہ میرے کہنے یا کرنےکی وجہ سے ایسا ہوا ورنہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا، یا ہماری نہیں سنے اس لیے ایسا نقصان ہواوغیرہ۔

بڑوں کاادب: کسی بھی قسم کےعلم میں فائدہ اٹھانے کے لیے ادب نہایت ضروری ہے،بقدر ادب ہی آدمی پر فیضان ہوتا ہے، بزرگوں نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ادب کی وجہ سے آدمی میں تفویض کا مزاج پیدا ہوتا ہے، اس لیے بڑوں کی باتوں کو بلاچوں و چرا بخوشی قبول کرتا ہے، مزاج، خواہشات اور مرضی و غیرہ بالکل ما نع نہیں بنتے،حضرت شاہ کمالؒ اپنے بڑوں کا بالخصوص والدماجدؒکابڑاادب کرتے تھے، دین کی خدمت کے لیے جہاں بھیج دیافوری چلے گئے،حضرتؒ کی شادی کاقصہ تو بہت مشہورہے،حضرت شا ہ صو فی غلام محمد صاحبؒ نے اپنی کتاب اسرار خطبۂ نکاح میں اس کا ذکر فرمایا ہے،اور اس میں ایک نظم بھی لکھی گئی ہے۔ کمال کی شادی عنوان سے، تمام خرافات سے محفوظ سنت اورسادگی پرمشتمل تھی، گویا اس کو سادگی کا معیار کہا جاسکتا ہے اس کے عینی شاہد آج بھی موجود ہیں، حضرت مولانا شاہ کمال الرحمن صاحبؒ جس وقت محبوبنگر کی جامع مسجدمیں خطابت ودرس قرآن دیتےتھے،ان دنوں ایک دفعہ درس قرآن کی مجلس کے اختتام پر اعلان ہواکہ خطیب صاحبؒ کاابھی نکاح ہوگا،سنتےہی تعجب ہوامگرچوں کہ والدصاحبؒ کا فیصلہ تھا اس لیے خاموش اور مطمئن تھےکہ بڑوں کا فیصلہ ہےخیرہی ہوسکتا ہے نوجوانوں کےلیےاس میں بڑا سبق ہے کہ وا لدین کی پسند پر مطئن نہیں رہتے ، اپنی پسند کی شادی کرتے ہیں پھر بعد میں پچھتاتےہیں اور پریشان ہوتےہیں ۔

خطابت وتدریسی خدمات: فراغت کے بعدجامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد میں چند برس واعظ دکن امیر ملت اسلامیہ آندھرا پردیش و مہتمم جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد حضرت مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامی رحمۃاللہ علیہ کی سر پرستی میں تدریسی خدمات انجام دئیے، اس کے بعد والد صاحبؒ کی ایماء پر شہر محبوب نگر کے قدیم مدرسہ مدینۃ العلوم میں چند برس خد مات انجام دے کر وہیں کےایک مسلم آبادی والےعلاقہ شاہ صاحب گٹہ میں مدرسہ الکو ثر کی بنیاد رکھی گئی، اور شہرکی جامع مسجد میں جمعہ کے خطبات و درس قرآن شروع کیا جو بہت جلد اہل علم و عوام میں بے حدمقبول ہوا،اس کےساتھ ساتھ والدماجد علیہ الرحمۃ والرضوان کے پاس علوم با طنہ حا صل کرتے رہے بلکہ اس میں کمال حاصل کرلیا، اسی وجہ سےآپؒ کو والدماجدعلیہ الرحمہ کی وفات کےبعدسلسلہ کاجانشین منتخب کرلیا گیا جس ذمہ داری کو تاحیات بحسن وخوبی انجام دیا ۔

بعض ناگفتہ بہ اورناگزیرحالات کی وجہ سے حیدرآباد تشریف لائے، اور دارالعلوم حیدرآباد سے دوبارہ وابستہ ہوگئے اور مسجد عالم گیرشانتی نگروجئےنگرکالونی میں جمعہ کے خطبات کا سلسلہ شروع فرمایا، انداز تخاطب عام فہم وپراثر ہونے کی وجہ سےکم عرصہ میں دوردور تک اس کی صدا گونجنے لگی، لوگ جوق درجوق آنےلگے، یہاں تک صورت حال ہوگئی کہ جمعہ کی اذان اول کے سا تھ ہی مسجد پر ہو جا تی ،تقریبا تیس بر س تک یہ سلسلہ چلتا رہا، اسی طرح (1) فتح منزل فرسٹ لانسرز میں ہفتہ واری درس قرآن(2)اپنے مکان وا قع نواب صا حب کنٹہ تاڑبن میں بروزہفتہ بعدمغرب(3)محبوب نگر میں مدر سہ الکوثرشاہ صاحب گٹہ میں ہرماہ کادوسرا ہفتہ (4) اور بروز پیر مدرسہ تجویدالقرآن عنبرپیٹ میں اصلاحی مجالس کاسلسلہ شروع فرمایا جن سےبےشمار تشنگان علم نےکسب فیض کیاہےاس کے علاوہ اضلاع و شہر میں سلسلہ کی تعلیمات کے اجتماعات میں حضرت کےاہم خطابات ہوتے، والد ماجدؒ کے اور خود کے مریدین کی اصلاح و تر بیت کی مسلسل فکر وکوشش فرماتے تھے، حضرت نے ساؤتھ آفریقہ کا چار ماہ کادعوتی سفر بھی فرمایاہے ۔

تالیفات : اللہ تعالی نےزبان کےساتھ قلم بھی بڑا پرزور عطا فرمایا تھا، چنانچہ آپ نےاپنےقلم گہربارسےچھوٹی بڑی تقریباً 50 کتابیں تحریرفرمائی ہیں،جوسلسلہ کی روحانی وعرفانی تعلیمات کی افہام و تفہیم اور تسہیل وتشریح پر مبنی ہیں،ان میں بالخصوص سورۂ فاتحہ کی تفسیربڑی معرکۃالآراءکتاب ہے،اسی طرح والد ماجد علیہ الرحمۃ کے ملفوظات ومکتوبات کوبڑےسلیقہ کےساتھ جمع فرمایا ہے۔

ادھرچندبرسوں سےجب مختلف عوارض وامراض کاسلسلہ شروع ہوا، جس کی وجہ سےضعف ونقاہت کافی بڑھ گئی تھی، مگر ذہن اخیرتک صحیح سالم رہااور سلسلہ کی تعلیمات کا بڑا استحضار رہتا، چنانچہ زائرین و ملاقاتیوں سےسلسلہ کی تعلیمات کامذاکرہ و یاددہا نی اورتلقین فرماتےاسی طرح ایک اوربات بڑی عبرت انگیز وسبق آموزہےوہ یہ کہ جب تک ہوش وحواس رہے ہر آنے والے سے موت کاتذکرہ ضرورفرماتے،مثلاقرآن مجید کی ایسی آیات واحادیث سنانے کے لیے فرماتے جن میں موت کا ذکر ہو،اس میں دوبڑے فائدے ہیں ایک یہ کہ خودکو بھی موت یاد رہے،اور ترک دنیا کے خیال سے لقاءرب کا شوق بڑھے، یہی پیار نبی ﷺ اور اولیاءکرام وبزر گان دین کا عمل بوقت مرگ رہا ہے، جیسا کہ حدیث میں آ تاہےکہ آپ ﷺ کی زبان مبارک پر وفات کےوقت یہ الفاظ تھے، اللہم بل الرفیق الاعلی۔ اورمرحوم اپنےوالدبزرگوارکایہ ملفوظ سناتے تھے کہ زندگی ایسےگزاروکہ اگرکسی بھی وقت ملک الموت آجائے تو ساتھ جانےکےلیےتیاررہو اور حضرت قبلہ صو فی صاحبؒ اپنے بارے میں فرماتے کہ میں تو رومال جھٹک کر کہوں گاکہ چلیےمیں تیارہوں، اور یہ بھی فرماتے کہ اسلام میں خود کشی کی اجازت نہیں ہےورنہ تمہاری اس دنیامیں اللہ کے بغیر کون جیتا، غفلت و خواہشات کی اتباع اورگناہوں سے بچنے کے لیے موت اکسیر اعظم ہے، آپ ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے کفی بالموت واعظاکہ نصیحت حا صل کرنے کے لیے موت کافی ہے ؂

رہ کے دنیا میں بشر کو نہیں زیبا غفلت
موت کا دھیان بھی لازم ہے کہ ہر آن رہے

ملفوظات : وسوسوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ آنےکی چیز ہے لانے کی نہیں،جتناہم وسوسوں کی جانب متوجہ ہوں گے وہ اتناہی ستا ئیں گے،اس کاعلاج یہی ہےکہ اس کی جانب توجہ نہ کی جائے،اس کومثال سےسمجھایاکہ جیسےکوئی محبوب نگرکی جانب ٹرین یابس میں سفرکررہاہو( چوں کہ حضرت کی زیادہ تر محنتوں کا میدان محبوب نگر اور اطراف کے علاقے رہے ہیں، اس لیے مثال بھی وہی ارشاد فرمائی) تو راستہ میں درخت، گھاس پھوس، پھل و پھول آتے ہیں،مگر ان میں سےکسی کی بھی جانب ایسا متو جہ نہیں ہوتا کہ گاڑی روک کر اترجائے کیوں کہ یہ اس کی منزل نہیں ہے،اس کی منزل تو محبوب نگر ہے، ایک اورمثال سے سمجھایا کہ ڈرائیورگاڑی چلاتاہےتواس میں دو آئینے ہوتے ہیں، ایک بڑا ساآئینہ جوسامنےکی جانب ہوتا ہے، اور دوسرا چھوٹا آئینہ دائیں جانب ہوتا ہے جس میں پیچھے کی چیزیں نظرآتی ہیں، ڈرائیور سامنےوالےآئینہ پر اپنی نظر مستقل جمایا ہوا ہوتا ہے، مگر سرسری نظرچھوٹے آئینہ پربھی ڈالتا رہتا ہے، اگروہ سامنے والے آئینہ کےبجائے پیچھے والے آئینہ پر مستقل نظر جمائے گا تو سامنے والی ٹریفک نظرنہ آنے کی وجہ سےحادثات ہوسکتے ہیں، اسی طرح ہماری مستقل نظر اپنے عمل پرہوناچاہئیے،جوہمارا مقصد ہے، وساوس کی جانب توجہ کریں گے تووہ ہم کو عمل سے ہٹادیں گے جو ہمارا مقصد ہے۔

حضرت مولاناشاہ محمدجمال الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے ایک واقعہ سنایا کہ میں کوڑنگل کی مسجد میں رمضان میں تراویح میں قرآن مجید سنارہاتھا،نماز میں باربارخیال آیات قرآن کی جانب جاتابالخصوص آ یات متشا بہات میں کہ کہیں قرآن مجید کاکوئی حصہ چھوٹ نہ جا ئے،مجھےیہ خیال ستا رہاتھاکہ نمازمیں یہ خیال کہیں اللہ کی جانب سے دھیان کو نہ ہٹا دے، بڑے بھائی حضرت مولاناصاحبؒ کےسامنےمیں نے اپنا یہ حال رکھاتوحضرت نےبڑی تسلی دی اورفرمایاکہ قرآن مجید اللہ کاکلام ہے،اورکلام اللہ کی صفت ہے،لہذانمازمیں یہ خیال بھی اللہ ہی کی جانب خیال ہے اس لیےپریشان ہونے کی ضرو رت نہیں ہے ۔

فرمایاکہ قرآن مجیدمیں بعض سورتوں کےشروع میں حروف مقطعات (الگ الگ اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے پڑھے جانےوالے حروف)ہیں،اور پہلی ہی سورت سورۂ بقرہ کے آغاز میں حروف مقطعات ہیں،جس کےبارےمیں تمام ہی اہل تفسیرنے لکھاہےکہ اس کی مراداللہ کےسوی کوئی نہیں جانتا، اس میں ایک سبق یہ ہے کہ پہلےبندہ اپنےجہل کا اعتراف کرے کہ یا اللہ ! میں کچھ نہیں جانتا،پھرذالک الکتاب ۔ کے ذریعہ اللہ تعالی بندہ کواپناعلم عطافرماتے ہیں،اس طرح جو جتنا اپنےعلم کی نفی وجہل کااعتراف کرےگااتناہی اللہ کی جانب سےعلم کافیضان ہوگا ۔

فرمایاکہ دل میں اصل لانےکی چیزاللہ کی محبت اور اس کا خوف ہے،جب یہ چیز دل میں آتی ہے تو دل میں سکون آتا ہے، اس کےبجائےلوگ دنیااورمال کےاندرسکون تلاش کرتے ہیں، حالانکہ یہ چیزدل کواورزیادہ بےچین وبے قرار کرنے والی ہے،اس کومثال سےسمجھایاکہ کچھ لوگ بیٹھےباتیں کر رہے ہوں، اتنےمیں مزیدلوگ آجا ئیں تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی،لیکن اچانک سانپ یا بچھو آجائے تو ہلچل مچ جاتی ہے، کیوں کہ سانپ اوربچھوانسانوں کے بیچ میں رہنےوالی چیز نہیں ہے۔

اللہ تعالی اپنےکرم سےحضرت مولاناشاہ محمدکمال الرحمن صاحب قاسمی وندوی رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے، بلکہ درجات کو بلند فرمائے دینی خدمات کو قبول کرتے ہوئے ان کے چھوڑے ہوئے دینی کاموں کو جاری وباقی رکھنے اور ان کو آ گے بڑھانے کی فرزندان و تلا مذہ اور خلفاء و اہل سلسلہ کو توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭